قال يحيى: حدثنا مالك، عن ابن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يغلق الرهن". قَالَ يَحْيَى: حَدَّثَنَا مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَغْلَقُ الرَّهْنُ".
حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ روکی جائے گی رہن۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 2441، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11219، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5934، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2328، 2329، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2919، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 15033، 15034، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 23250، وأبو داود في «المراسيل» برقم: 186، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 13»
قال مالك: وتفسير ذلك فيما نرى والله اعلم: ان يرهن الرجل الرهن عند الرجل بالشيء وفي الرهن فضل عما رهن به، فيقول الراهن للمرتهن: إن جئتك بحقك إلى اجل يسميه له، وإلا فالرهن لك بما رهن فيه، قال: فهذا لا يصلح ولا يحل، وهذا الذي نهي عنه، وإن جاء صاحبه بالذي رهن به بعد الاجل، فهو له، وارى هذا الشرط منفسخاقَالَ مَالِك: وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ فِيمَا نُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ: أَنْ يَرْهَنَ الرَّجُلُ الرَّهْنَ عِنْدَ الرَّجُلِ بِالشَّيْءِ وَفِي الرَّهْنِ فَضْلٌ عَمَّا رُهِنَ بِهِ، فَيَقُولُ الرَّاهِنُ لِلْمُرْتَهِنِ: إِنْ جِئْتُكَ بِحَقِّكَ إِلَى أَجَلٍ يُسَمِّيهِ لَهُ، وَإِلَّا فَالرَّهْنُ لَكَ بِمَا رُهِنَ فِيهِ، قَالَ: فَهَذَا لَا يَصْلُحُ وَلَا يَحِلُّ، وَهَذَا الَّذِي نُهِيَ عَنْهُ، وَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهُ بِالَّذِي رَهَنَ بِهِ بَعْدَ الْأَجَلِ، فَهُوَ لَهُ، وَأُرَى هَذَا الشَّرْطَ مُنْفَسِخًا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی تفسیر یہ ہے کہ ایک شخص سو روپے کا مال پچھتّر روپے میں گروی رکھے، اور یہ کہہ دے کہ اگر اتنی مدت تک میں نہ چھڑاؤں تو یہ مال تیرا ہو جائے گا، یہ درست نہیں ہے، اگر ایسا ہے بھی تو جب راہن زرِ رہن ادا کرے مرتہن کو وہ مال دینا پڑے گا اور شرط لغو ہو جائے گی۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص باغ رہن کرے ایک میعاد معین پر، تو جو پھل اس باغ میں رہن سے پہلے نکل چکے تھے وہ رہن نہ ہوں گے، مگر جس صورت میں مرتہن نے شرط کر لی ہو تو وہ پھل بھی رہن رہیں گے، اور جو کوئی شخص حاملہ لونڈی کو رہن رکھے، یا بعد رہن کے وہ حاملہ ہو جائے تو اس کا بچہ بھی اس کے ساتھ رہن رہے گا، یہی فرق ہے پھل اور بچے میں، اس واسطے کہ پھل بیع میں بھی داخل نہیں ہوتے۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”جس شخص نے کھجور کے درخت بیچے تو پھل بائع کو ملیں گے، مگر جب مشتری شرط کر لے۔“ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے، اگر کوئی لونڈی یا جانور بیچے اور اس کے پیٹ میں بچہ ہو تو وہ بچہ مشتری کا ہوگا، خواہ مشتری اس کی شرط لگائے یا نہ لگائے، تو کھجور کا درخت جانور کی مانند نہیں نہ پھل کھجور کے بچے کے مانند ہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ آدمی درخت کے پھلوں کو رہن کر سکتا ہے بغیر درختوں کے، اور یہ نہیں ہو سکتا کہ پیٹ کے بچے کو رہن کرے بغیر اس کی ماں کے، آدمی ہو یا جانور۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ شئے مرہون اگر ایسی ہو جس کا تلف ہونا معلوم ہوجائے، جیسے زمین اور گھر اور جانور، تو اس صورت میں شئے مرہوں کے تلف ہونے سے مرتہن کا کچھ حق کم نہ ہوگا، بلکہ راہن کا نقصان ہوگا، اور جو شئے مرہون ایسی ہو جس کا تلف ہونا صرف مرتہن کے کہنے سے معلوم ہو (جیسے سونا چاندی وغیرہ)، تو مرتہن اس کی قیمت کا ضامن ہوگا (جس صورت میں گواہ نہ رکھتا ہو اس کے تلف ہونے کا)، اب اگر راہن اور مرتہن زرِ رہن میں اختلاف کریں تو مرتہن سے کہا جائے گا: تو حلفاً شئے مرہون کے اوصاف اور زرِ رہن کو بیان کر، جب وہ بیان کرے گا تو نگاہ والے لوگ اس شئے کی قیمت مرتہن نے جو اوصاف بیان کیے ہیں ان کے لحاظ سے لگائیں گے، اگر قیمت زرِ رہن سے زیادہ ہو تو رہن جس قدر زیادہ ہے مرتہن سے وصول کر لے گا، اگر قیمت زرِ رہن سے کم ہو تو راہن سے حلف لیں گے، اگر وہ حلف کر لے گا تو جس قدر مرتہن نے زرِ رہن قیمت سے زیادہ بیان کیا ہے وہ اس کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گا، اور جو حلف سے انکار کرے تو اس قدر مرتہن کو ادا کرے گا، اگر مرتہن نے کہا: میں شئے مرہون کی قیمت نہیں جانتا تو راہن سے شئے مرہون کے اوصاف پر حلف لے کر اس کے بیان پر فیصلہ کریں گے، جب کہ وہ کوئی امر خلاف واقعہ بیان نہ کرے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ جب ہے کہ شئے مرہون مرتہن کے پاس ہو اور اس نے دوسرے کے پاس نہ رکھوائی ہو (ورنہ مرتہن پر ضمان نہ ہوگا، اگرچہ وہ گواہ نہ لا سکے)۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شئے دو آدمیوں کے پاس رہن ہو تو ایک مرتہن اپنے دَین کا تقاضا کرے اور شئے مرہون کو بیچنا چاہے اور ایک مرتہن راہن کو مہلت دے، اگر شئے مرہون ایسی ہے کہ اس کا آدھا بیچ ڈالنے سے دوسرے مرتہن کا نقصان نہیں ہوتا تو آدھی بیچ کر ایک مرتہن کا دین ادا کردیں گے، اور جو نقصان ہوتا ہے تو کُل شئے مرہون کو بیچ کر جو مرتہن تقاضا کرتا ہے اس کو آدھا دے دیں گے، اور جس مرتہن نے مہلت دی ہے وہ اگر خوشی سے چاہے تو آدھے ثمن کو راہن کے حوالہ کر دے، نہیں تو حلف کرے: میں نے اس واسطے مہلت دی تھی کہ شئے مرہون اپنے حال پر میرے پاس رہے، پھر اس کا حق اسی وقت ادا کردیا جائے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر غلام کو رہن رکھے تو غلام کا مال راہن لے لے گا، مگر جب مرتہن شرط کر لے کہ اس کا مال بھی اس کے ساتھ رہن رہے۔
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص نے اسباب رہن رکھا، وہ مرتہن کے پاس تلف ہوگیا، لیکن راہن اور مرتہن کو زرِ رہن کی مقدار میں اختلاف نہیں ہے، البتہ شئے مرہون کی قیمت میں اختلاف ہے، راہن کہتا ہے: اس کی قیمت بیس دینار ہے۔ اور مرتہن کہتا ہے: اس کی قیمت دس دینار تھی اور رہن بیس دینار ہے، اور مرتہن سے کہا جائے گا کہ شئے مرہون کے اوصاف بیان کر، جب وہ بیان کرے تو اس سے حلف لے کر نگاہ والوں سے ایسی شئے کی قیمت دریافت کریں، اگر وہ قیمت زرِ رہن سے زیادہ ہو تو مرتہن سے کہا جائے گا: جس قدر زیادہ ہے وہ راہن کو دے، اگر قیمت کم ہے تو مرتہن جس قدر کم ہے راہن سے لے لے، اگر برابر ہے تو خیر قصّہ چکا، نہ یہ کچھ دے نہ وہ کچھ دے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر شئے مرہون موجود ہو، لیکن راہن زرِ رہن دس دینار بیان کرے اور مرتہن بیس دینار، تو مرتہن حلف اٹھائے، اگر شئے مرہون کی بیس دینار قیمت ہو تو اسی شئے مرہون کو اپنے دین کے بدلے میں لے لے، البتہ اگر راہن بیس دینار ادا کر کے اپنی شئے لینا چاہے تو لے سکتا ہے، اگر اس شئے مرہون کی قیمت بیس دینار سے کم ہو تو مرتہن سے حلف لے، پھر راہن کو اختیار ہے یا بیس دینار دے کر اپنی شئے لے لے یا خود بھی حلف اٹھائے کہ میں نے اتنے پر رہن کی تھی، اگر حلف اٹھائے تو جس قدر شئے مرہون کی قیمت سے مرتہن نے دین زیادہ بیان کیا ہے وہ اس کے ذمے سے ساقط ہو جائے گا، ورنہ دینا پڑے گا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر وہ شئے مرہون سے تلف ہوگئی، اب اختلاف ہوا زرِ رہن کی مقدار اور شئے مرہون کی قیمت میں، مرتہن نے کہا: زرِ رہن بیس دینار تھا اور شئے مرہون کی قیمت دس دینار تھی، اور راہن نے کہا: زرِ رہن دس دینار تھا اور شئے مرہون کی قیمت بیس دینار تھی، تو مرتہن سے کہیں گے شئے مرہون کے اوصاف بیان کر، جب وہ بیان کرے تو اس سے حلف لے کر نگاہ والوں سے قیمت کا اندازہ کرائیں، اگر قیمت بیس دینار سے زیادہ (مثلاً تیس دینار ہو) تو مرتہن سے حلف لے کر جس قدر قیمت زیادہ (مثلاً دس دینار) راہن کو دلا دیں گے، اگر قیمت بیس سے کم ہو (مثلاً پندرہ دینار) تو مرتہن سے زرِ رہن پر حلف لے کر جس قدر قیمت ہے وہ گویا مرتہن کو وصول ہوچکی، باقی کے واسطے راہن سے حلف لیں گے، اگر وہ حلف اٹھائے گا تو مرتہن راہن سے کچھ نہ لے سکے گا، اگر حلف نہ اٹھائے تو بیس دینار میں جتنا کم ہے وہ راہن سے مرتہن کو دلا دیں گے۔