حدثنا يحيى، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن زينب بنت ابي سلمة ، عن ام سلمة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إنما انا بشر، وإنكم تختصمون إلي، فلعل بعضكم ان يكون الحن بحجته من بعض، فاقضي له على نحو ما اسمع منه، فمن قضيت له بشيء من حق اخيه، فلا ياخذن منه شيئا، فإنما اقطع له قطعة من النار" حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، فَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوِ مَا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِشَيْءٍ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ، فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْهُ شَيْئًا، فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ"
اُم المؤمنین سیّدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی بشر ہوں، اور تم میرے پاس لڑتے جھگڑتے آتے ہو، شاید تم میں سے کوئی باتیں بنا کر اپنے دعوے کو ثابت کر لے، پھر میں اس کے موافق فیصلہ کروں اس کے کہنے پر، تو جس شخص کو میں اس کے بھائی کا حق دلا دوں، وہ نہ لے، کیونکہ میں ایک انگارہ آگ کا اس کو دلاتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2458، 2680، 6967، 7169، 7181، 7185، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1713، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5070، 5072، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7125، 7126، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5403، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5910، 5917، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3583، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1339، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2317، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11478، وأحمد فى «مسنده» برقم: 26189، والحميدي فى «مسنده» برقم: 298،، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4580، 4581، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 1»
وحدثني وحدثني مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن سعيد بن المسيب ، ان عمر بن الخطاب " اختصم إليه مسلم ويهودي، فراى عمر ان الحق لليهودي، فقضى له. فقال له اليهودي: والله لقد قضيت بالحق. فضربه عمر بن الخطاب بالدرة، ثم قال:" وما يدريك؟" فقال له اليهودي: إنا نجد انه ليس قاض يقضي بالحق، إلا كان عن يمينه ملك، وعن شماله ملك، يسددانه ويوفقانه للحق ما دام مع الحق، فإذا ترك الحق عرجا وتركاه وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ " اخْتَصَمَ إِلَيْهِ مُسْلِمٌ وَيَهُودِيٌّ، فَرَأَى عُمَرُ أَنَّ الْحَقَّ لِلْيَهُودِيِّ، فَقَضَى لَهُ. فَقَالَ لَهُ الْيَهُودِيُّ: وَاللَّهِ لَقَدْ قَضَيْتَ بِالْحَقِّ. فَضَرَبَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِالدِّرَّةِ، ثُمَّ قَالَ:" وَمَا يُدْرِيكَ؟" فَقَالَ لَهُ الْيَهُودِيُّ: إِنَّا نَجِدُ أَنَّهُ لَيْسَ قَاضٍ يَقْضِي بِالْحَقِّ، إِلَّا كَانَ عَنْ يَمِينِهِ مَلَكٌ، وَعَنْ شِمَالِهِ مَلَكٌ، يُسَدِّدَانِهِ وَيُوَفِّقَانِهِ لِلْحَقِّ مَا دَامَ مَعَ الْحَقِّ، فَإِذَا تَرَكَ الْحَقَّ عَرَجَا وَتَرَكَاهُ
سعید بن مسیّب بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک یہودی اور ایک مسلمان لڑتے ہوئے آئے، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو یہودی کی طرف حق معلوم ہوا، انہوں نے اس کے موافق فیصلہ کیا، پھر یہودی بولا: قسم اللہ کی! تم نے سچا فیصلہ کیا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اس کو درے سے مارا اور کہا: تجھے کیونکرمعلوم ہوا؟ یہودی نے کہا: ہماری کتابوں میں لکھا ہے، جو حاکم سچا فیصلہ کرتا ہے اس کے داہنے ایک فرشتہ ہوتا ہے اور بائیں ایک فرشتہ، دونوں اس کو مضبوط کرتے ہیں اور سیدھی راہ بتلاتے ہیں، جب تک کہ وہ حاکم حق پر جما رہتا ہے، جب حق چھوڑ دیتا ہے وہ فرشتے بھی اس کو چھوڑ کر آسمان پر چڑھ جاتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 2»
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”کیا نہ خبر دوں میں تم کو سب سے بہتر گواہ کی جو گواہی دیتا ہے قبل اس کے کہ پوچھا جائے اس سے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1719، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5079، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 5985، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3596، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2295، 2296، 2297، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2364، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20660، 20661، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17166، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 15557، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 6133، والطبراني فى «الكبير» برقم: 5182، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 3»
وحدثني وحدثني مالك، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن ، انه قال: قدم على عمر بن الخطاب رجل من اهل العراق، فقال: لقد جئتك لامر ما له راس ولا ذنب. فقال عمر:" ما هو؟" قال: شهادات الزور ظهرت بارضنا. فقال عمر:" او قد كان ذلك؟" قال: نعم. فقال عمر :" والله لا يؤسر رجل في الإسلام بغير العدول" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ قَالَ: قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، فَقَالَ: لَقَدْ جِئْتُكَ لِأَمْرٍ مَا لَهُ رَأْسٌ وَلَا ذَنَبٌ. فَقَالَ عُمَرُ:" مَا هُوَ؟" قَالَ: شَهَادَاتُ الزُّورِ ظَهَرَتْ بِأَرْضِنَا. فَقَالَ عُمَرُ:" أَوَ قَدْ كَانَ ذَلِكَ؟" قَالَ: نَعَمْ. فَقَالَ عُمَرُ :" وَاللَّهِ لَا يُؤْسَرُ رَجُلٌ فِي الْإِسْلَامِ بِغَيْرِ الْعُدُولِ"
حضرت ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک شخص عراق کا رہنے والا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور بولا: میں تمہارے پاس اس کام کو آیا ہوں جس کا سر پیر کچھ نہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا ہے؟ اس نے کہا: جھوٹی گواہیاں ہمارے ملک میں بہت پھیل گئی ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: سچ؟ اس نے کہا: ہاں۔ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اب کوئی شخص مسلمان قید نہ کیا جائے گا بغیر معتبر گواہوں کے۔
وحدثني وحدثني مالك انه بلغه، ان عمر بن الخطاب، قال: " لا تجوز شهادة خصم ولا ظنين" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالَ: " لَا تَجُوزُ شَهَادَةُ خَصْمٍ وَلَا ظَنِينٍ"
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں درست ہے گواہی دشمن کی اور متہم کی۔
قال يحيى: عن مالك انه بلغه، عن سليمان بن يسار ، وغيره، انهم سئلوا عن رجل جلد الحد، اتجوز شهادته؟ فقالوا:" نعم، إذا ظهرت منه التوبة" قَالَ يَحْيَى: عَنْ مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، وَغَيْرِهِ، أَنَّهُمْ سُئِلُوا عَنْ رَجُلٍ جُلِدَ الْحَدَّ، أَتَجُوزُ شَهَادَتُهُ؟ فَقَالُوا:" نَعَمْ، إِذَا ظَهَرَتْ مِنْهُ التَّوْبَةُ"
حضرت سلیمان بن یسار وغیرہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص کو حدِ قذف پڑی، پھر اس کی گواہی درست ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، جب وہ توبہ کر لے، اور اس کی توبہ کی سچائی اس کے اعمال سے معلوم ہو جائے۔
يسال عن ذلك، فقال مثل ما قال سليمان بن يسار. قال مالك: وذلك الامر عندنا، وذلك لقول الله تبارك وتعالى: والذين يرمون المحصنات ثم لم ياتوا باربعة شهداء فاجلدوهم ثمانين جلدة ولا تقبلوا لهم شهادة ابدا واولئك هم الفاسقون {4} إلا الذين تابوا من بعد ذلك واصلحوا فإن الله غفور رحيم سورة النور آية 4-5. قال مالك: فالامر الذي لا اختلاف فيه عندنا، ان الذي يجلد الحد ثم تاب واصلح تجوز شهادته، وهو احب ما سمعت إلي في ذلك. يُسْأَلُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ مِثْلَ مَا قَالَ سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ. قَالَ مَالِك: وَذَلِكَ الْأَمْرُ عِنْدَنَا، وَذَلِكَ لِقَوْلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ {4} إِلا الَّذِينَ تَابُوا مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ وَأَصْلَحُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 4-5. قَالَ مَالِك: فَالْأَمْرُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا، أَنَّ الَّذِي يُجْلَدُ الْحَدَّ ثُمَّ تَابَ وَأَصْلَحَ تَجُوزُ شَهَادَتُهُ، وَهُوَ أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ فِي ذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہی حکم ہے، کیونکہ اللہ جل جلالہُ نے فرمایا: ”جو لوگ تہمت لگاتے ہیں نیک بخت بیبیوں کو، پھر چار گواہ نہیں لاتے، ان کو اسّی (80) کوڑے مارو، پھر کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو، وہی گنہگار ہیں، مگر جو لوگ توبہ کریں بعد اس کے، اور نیک ہو جائیں، تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔“ کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: پس جو شخص حدِ قذف لگایا جائے، پھر توبہ کرے اور نیک ہو جائے، اس کی گواہی درست ہے۔
قال يحيى: قال مالك: عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " قضى باليمين مع الشاهد" قَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك: عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَضَى بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ"
حضرت محمد باقر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا ایک قسم اور ایک گواہ پر۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 1344، 1345، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2369، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20711، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4485، 4487، 4495، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14329، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 5»
وعن مالك، عن ابي الزناد، ان عمر بن عبد العزيز كتب إلى عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب وهو عامل على الكوفة: ان " اقض باليمين مع الشاهد" وَعَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ كَتَبَ إِلَى عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ وَهُوَ عَامِلٌ عَلَى الْكُوفَةِ: أَنْ " اقْضِ بِالْيَمِينِ مَعَ الشَّاهِدِ"
اعرج بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے لکھا عبدالحمید بن عبدالرحمٰن کو، اور وہ عامل تھے کوفہ کے کہ ایک قسم اور ایک گواہ پر فیصلہ کیا کر۔