قال مالك: وكل ما اختلف من الطعام والادم فبان اختلافه، فلا باس ان يشترى بعضه ببعض جزافا يدا بيد، فإن دخله الاجل فلا خير فيه، وإنما اشتراء ذلك جزافا كاشتراء بعض ذلك بالذهب والورق جزافا. قَالَ مَالِكٌ: وَكُلُّ مَا اخْتَلَفَ مِنَ الطَّعَامِ وَالْأُدْمِ فَبَانَ اخْتِلَافُهُ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يُشْتَرَى بَعْضُهُ بِبَعْضٍ جِزَافًا يَدًا بِيَدٍ، فَإِنْ دَخَلَهُ الْأَجَلُ فَلَا خَيْرَ فِيهِ، وَإِنَّمَا اشْتِرَاءُ ذَلِكَ جِزَافًا كَاشْتِرَاءِ بَعْضِ ذَلِكَ بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ جِزَافًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص نے گیہوں تول کر ایک ڈھیر بنایا، اور وزن چھپا کر کسی کے ہاتھ یبچا تو یہ درست نہیں۔ اگر مشتری یہ چاہے کہ وہ گیہوں بائع کو واپس کر دے اس وجہ سے کہ بائع نے دیدہ و دانستہ وزن کو اس سے چھپایا اور دھوکا دیا، تو ہو سکتا ہے اسی طرح جو چیز بائع وزن چھپا کر بیچے تو مشتری کو اس کے پھیر دینے کا اختیار ہے، اور ہمیشہ اہلِ علم اس بیع کو منع کرتے رہے۔
. قال مالك: وذلك انك تشتري الحنطة بالورق جزافا، والتمر بالذهب جزافا فهذا حلال لا باس به. . قَالَ مَالِكٌ: وَذَلِكَ أَنَّكَ تَشْتَرِي الْحِنْطَةَ بِالْوَرِقِ جِزَافًا، وَالتَّمْرَ بِالذَّهَبِ جِزَافًا فَهَذَا حَلَالٌ لَا بَأْسَ بِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ایک روٹی کو دو روٹیوں سے بدلنا، یا بڑی روٹی کو چھوٹی روٹی سے بدلنا اچھا نہیں، البتہ اگر روٹی کو دوسری روٹی کے برابر سمجھے تو بدلنا درست ہے اگرچہ وزن نہ کرے۔
قال مالك: ومن صبر صبرة طعام، وقد علم كيلها، ثم باعها جزافا وكتم على المشتري كيلها، فإن ذلك لا يصلح، فإن احب المشتري ان يرد ذلك الطعام على البائع رده بما كتمه كيله وغره، وكذلك كل ما علم البائع كيله، وعدده من الطعام، وغيره، ثم باعه جزافا، ولم يعلم المشتري ذلك، فإن المشتري إن احب ان يرد ذلك على البائع رده، ولم يزل اهل العلم ينهون عن ذلك. _x000D_ قَالَ مَالِكٌ: وَمَنْ صَبَّرَ صُبْرَةَ طَعَامٍ، وَقَدْ عَلِمَ كَيْلَهَا، ثُمَّ بَاعَهَا جِزَافًا وَكَتَمَ عَلَى الْمُشْتَرِيَ كَيْلَهَا، فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ، فَإِنْ أَحَبَّ الْمُشْتَرِي أَنْ يَرُدَّ ذَلِكَ الطَّعَامَ عَلَى الْبَائِعِ رَدَّهُ بِمَا كَتَمَهُ كَيْلَهُ وَغَرَّهُ، وَكَذَلِكَ كُلُّ مَا عَلِمَ الْبَائِعُ كَيْلَهُ، وَعَدَدَهُ مِنَ الطَّعَامِ، وَغَيْرِهِ، ثُمَّ بَاعَهُ جِزَافًا، وَلَمْ يَعْلَمِ الْمُشْتَرِي ذَلِكَ، فَإِنَّ الْمُشْتَرِيَ إِنْ أَحَبَّ أَنْ يَرُدَّ ذَلِكَ عَلَى الْبَائِعِ رَدَّهُ، وَلَمْ يَزَلْ أَهْلُ الْعِلْمِ يَنْهَوْنَ عَنْ ذَلِكَ. _x000D_
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک مُد زبد اور ایک مُد لبن کو دو مُد زبد کے بدلے میں لینا درست نہیں، کیونکہ اس نے اپنے زبد کی عمدگی لبن کو شریک کر کے برابر کر لی، اگر علیحدہ لبن کو بیچتا تو کبھی ایک صاع لبن کے بدلے میں ایک صاع زبد نہ آتی۔ اس قسم کا مسئلہ اوپر بیان ہوچکا۔
قال مالك: ولا خير في الخبز قرص بقرصين، ولا عظيم بصغير، إذا كان بعض ذلك اكبر من بعض، فاما إذا كان يتحرى ان يكون مثلا بمثل فلا باس به وإن لم يوزن. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا خَيْرَ فِي الْخُبْزِ قُرْصٍ بِقُرْصَيْنِ، وَلَا عَظِيمٍ بِصَغِيرٍ، إِذَا كَانَ بَعْضُ ذَلِكَ أَكْبَرَ مِنْ بَعْضٍ، فَأَمَّا إِذَا كَانَ يُتَحَرَّى أَنْ يَكُونَ مِثْلًا بِمِثْلٍ فَلَا بَأْسَ بِهِ وَإِنْ لَمْ يُوزَنْ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگرآٹے کو گیہوں کے بدلے میں برابر بیچے تو کچھ قباحت نہیں۔ اگر آدھا مُد گیہوں اور آدھا مُد آٹا ہو اس کو ایک مُد گیہوں بدلے میں بیچے تو درست نہیں، کیونکہ اس نے اپنے گیہوں کی عمدگی آٹا شریک کر کے برابر کرلی۔
قال مالك: والدقيق بالحنطة مثلا بمثل لا باس به، وذلك لانه اخلص الدقيق فباعه بالحنطة مثلا بمثل، ولو جعل نصف المد من دقيق، ونصفه من حنطة فباع ذلك بمد من حنطة، كان ذلك مثل الذي وصفنا لا يصلح، لانه إنما اراد ان ياخذ فضل حنطته الجيدة حتى جعل معها الدقيق فهذا لا يصلح.قَالَ مَالِكٌ: وَالدَّقِيقُ بِالْحِنْطَةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ لَا بَأْسَ بِهِ، وَذَلِكَ لِأَنَّهُ أَخْلَصَ الدَّقِيقَ فَبَاعَهُ بِالْحِنْطَةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، وَلَوْ جَعَلَ نِصْفَ الْمُدِّ مِنْ دَقِيقٍ، وَنِصْفَهُ مِنْ حِنْطَةٍ فَبَاعَ ذَلِكَ بِمُدٍّ مِنْ حِنْطَةٍ، كَانَ ذَلِكَ مِثْلَ الَّذِي وَصَفْنَا لَا يَصْلُحُ، لِأَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ أَنْ يَأْخُذَ فَضْلَ حِنْطَتِهِ الْجَيِّدَةِ حَتَّى جَعَلَ مَعَهَا الدَّقِيقَ فَهَذَا لَا يَصْلُحُ.
حدثني يحيى، عن مالك، عن محمد بن عبد الله بن ابي مريم، انه سال سعيد بن المسيب، فقال: إني رجل ابتاع الطعام يكون من الصكوك بالجار، فربما ابتعت منه بدينار ونصف درهم، فاعطى بالنصف طعاما؟ فقال سعيد: " لا، ولكن اعط انت درهما وخذ بقيته طعاما" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، أَنَّهُ سَأَلَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، فَقَالَ: إِنِّي رَجُلٌ أَبْتَاعُ الطَّعَامَ يَكُونُ مِنَ الصُّكُوكِ بِالْجَارِ، فَرُبَّمَا ابْتَعْتُ مِنْهُ بِدِينَارٍ وَنِصْفِ دِرْهَمٍ، فَأُعْطَى بِالنِّصْفِ طَعَامًا؟ فَقَالَ سَعِيدٌ: " لَا، وَلَكِنْ أَعْطِ أَنْتَ دِرْهَمًا وَخُذْ بَقِيَّتَهُ طَعَامًا"
سعید بن مسیّب سے محمد بن عبداللہ بن مریم نے پوچھا: میں غلہ خرید کرتا ہوں جار کا، تو کبھی میں ایک دینار اور آدھے درہم کو خرید کرتا ہوں، کیا آدھے درہم کے بدلے میں اناج دے دوں؟ سعید نے کہا: نہیں، بلکہ ایک درہم دے دے اور جس قدر باقی رہے اس کے بدلے میں بھی اناج لے لے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 53»
وحدثني، عن مالك، انه بلغه، ان محمد بن سيرين، كان يقول: " لا تبيعوا الحب في سنبله حتى يبيض" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ، كَانَ يَقُولُ: " لَا تَبِيعُوا الْحَبَّ فِي سُنْبُلِهِ حَتَّى يَبْيَضَّ" .
حضرت محمد بن سیرین کہتے تھے: مت بیچو دانوں کو بالی کے اندر جب تک پک نہ جائے۔
قال مالك: من اشترى طعاما بسعر معلوم إلى اجل مسمى، فلما حل الاجل، قال الذي عليه الطعام لصاحبه: ليس عندي طعام، فبعني الطعام الذي لك علي إلى اجل، فيقول صاحب الطعام: هذا لا يصلح لانه قد نهى رسول اللٰه صلى الله عليه وسلم عن بيع الطعام حتى يستوفى، فيقول الذي عليه الطعام لغريمه: فبعني طعاما إلى اجل حتى اقضيكه، فهذا لا يصلح لانه إنما يعطيه طعاما ثم يرده إليه فيصير الذهب الذي اعطاه ثمن الطعام الذي كان له عليه، ويصير الطعام الذي اعطاه محللا فيما بينهما، ويكون ذلك إذا فعلاه بيع الطعام قبل ان يستوفى. _x000D_قَالَ مَالِكٌ: مَنِ اشْتَرَى طَعَامًا بِسِعْرٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَلَمَّا حَلَّ الْأَجَلُ، قَالَ الَّذِي عَلَيْهِ الطَّعَامُ لِصَاحِبِهِ: لَيْسَ عِنْدِي طَعَامٌ، فَبِعْنِي الطَّعَامَ الَّذِي لَكَ عَلَيَّ إِلَى أَجَلٍ، فَيَقُولُ صَاحِبُ الطَّعَامِ: هَذَا لَا يَصْلُحُ لِأَنَّهُ قَدْ نَهَى رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الطَّعَامِ حَتَّى يُسْتَوْفَى، فَيَقُولُ الَّذِي عَلَيْهِ الطَّعَامُ لِغَرِيمِهِ: فَبِعْنِي طَعَامًا إِلَى أَجَلٍ حَتَّى أَقْضِيَكَهُ، فَهَذَا لَا يَصْلُحُ لِأَنَّهُ إِنَّمَا يُعْطِيهِ طَعَامًا ثُمَّ يَرُدُّهُ إِلَيْهِ فَيَصِيرُ الذَّهَبُ الَّذِي أَعْطَاهُ ثَمَنَ الطَّعَامِ الَّذِي كَانَ لَهُ عَلَيْهِ، وَيَصِيرُ الطَّعَامُ الَّذِي أَعْطَاهُ مُحَلِّلًا فِيمَا بَيْنَهُمَا، وَيَكُونُ ذَلِكَ إِذَا فَعَلَاهُ بَيْعَ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى. _x000D_
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اناج خریدے نرخ مقرر کر کے میعاد معین پر، جب میعاد پوری ہو تو جس کے ذمہ اناج واجب ہے وہ کہے: میرے پاس اناج نہیں ہے، جو اناج میرے ذمہ ہے وہ میرے ہی ہاتھ بیچ ڈال اتنی میعاد پر۔ وہ شخص کہے: یہ جائز نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے اناج بیچنے کو جب تک قبضے میں نہ آئے، جس کے ذمہ پر اناج ہے وہ کہے: اچھا تو کوئی اور اناج میرے ہاتھ بیچ ڈال میعاد پر، تاکہ میں اسی اناج کو تیرے حوالے کردوں، تو یہ درست نہیں، کیونکہ وہ شخص اناج دے کر پھیر لے گا، اور بائع مشتری کو جو قیمت دے گا وہ گویا مشتری کی ہوگی جو اس نے بائع کو دی، اور یہ اناج درمیان میں حلال کرنے والا ہوگا، تو گویا اناج کی بیع ہوگی قبل قبضے کے۔
قال مالك: في رجل له على رجل طعام ابتاعه منه، ولغريمه على رجل طعام مثل ذلك الطعام، فقال الذي عليه الطعام لغريمه: احيلك على غريم لي، عليه مثل الطعام الذي لك علي بطعامك الذي لك علي، قال مالك: إن كان الذي عليه الطعام إنما هو طعام ابتاعه، فاراد ان يحيل غريمه بطعام ابتاعه، فإن ذلك لا يصلح، وذلك بيع الطعام قبل ان يستوفى، فإن كان الطعام سلفا حالا، فلا باس ان يحيل به غريمه، لان ذلك ليس ببيع. قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ لَهُ عَلَى رَجُلٍ طَعَامٌ ابْتَاعَهُ مِنْهُ، وَلِغَرِيمِهِ عَلَى رَجُلٍ طَعَامٌ مِثْلُ ذَلِكَ الطَّعَامِ، فَقَالَ الَّذِي عَلَيْهِ الطَّعَامُ لِغَرِيمِهِ: أُحِيلُكَ عَلَى غَرِيمٍ لِي، عَلَيْهِ مِثْلُ الطَّعَامِ الَّذِي لَكَ عَلَيَّ بِطَعَامِكَ الَّذِي لَكَ عَلَيَّ، قَالَ مَالِكٌ: إِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الطَّعَامُ إِنَّمَا هُوَ طَعَامٌ ابْتَاعَهُ، فَأَرَادَ أَنْ يُحِيلَ غَرِيمَهُ بِطَعَامٍ ابْتَاعَهُ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ، وَذَلِكَ بَيْعُ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى، فَإِنْ كَانَ الطَّعَامُ سَلَفًا حَالًّا، فَلَا بَأْسَ أَنْ يُحِيلَ بِهِ غَرِيمَهُ، لِأَنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِبَيْعٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ زید نے عمرو سے غلہ خریدا، عمرو کا غلہ بکر کے اوپر آتا تھا، تو عمرو نے زید سے کہا: جس قدر غلہ تو نے مجھ سے خریدا ہے اسی قدر غلہ میرے بکر پر آتا ہے، میں تیرا سامنا بکر سے کرا دیتا ہوں تو اس سے لے لے، تو اگر عمرو نے زید کے ہاتھ غلہ کو یونہی بیچا تھا تو یہ حوالہ درست نہیں، کیونکہ اناج کی بیع قبل قبضے کے لازم آتی ہے۔ اگر عمرو نے زید سے سلم کی تھی اور میعاد گزرنے پر اس اناج کا حوالہ بکر پر کر دیا تو درست ہے، کیونکہ یہ بیع نہیں ہے۔