قال مالك الامر المجتمع عليه عندنا الذي لا اختلاف فيه ان المكاتب بمنزلة عبد اعتقه سيده بعد خدمة عشر سنين. فإذا هلك سيده الذي اعتقه قبل عشر سنين. فإن ما بقي عليه من خدمته لورثته وكان ولاؤه للذي عقد عتقه ولولده من الرجال او العصبة. قَالَ مَالِكٌ الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ أَنَّ الْمُكَاتَبَ بِمَنْزِلَةِ عَبْدٍ أَعْتَقَهُ سَيِّدُهُ بَعْدَ خِدْمَةِ عَشْرِ سِنِينَ. فَإِذَا هَلَكَ سَيِّدُهُ الَّذِي أَعْتَقَهُ قَبْلَ عَشْرِ سِنِينَ. فَإِنَّ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ خِدْمَتِهِ لِوَرَثَتِهِ وَكَانَ وَلَاؤُهُ لِلَّذِي عَقَدَ عِتْقَهُ وَلِوَلَدِهِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الْعَصَبَةِ.
_x000D_ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مکاتب مثل اس غلام کے ہے جس کو مولیٰ آزاد کر دے دس برس تک خدمت کرنے کے بعد، اگر مولیٰ مر جائے اور دس برس نہ گزرے ہوں تو ورثاء کی خدمت میں دس برس پورے کرے گا، اور ولاء اس کی اسی کو ملے گی جس نے اس کی آزادی ثابت کی، یا اس کی اولاد کو مردوں میں سے یا عصبہ کو۔
قال مالك في الرجل يشترط على مكاتبه انك لا تسافر ولا تنكح ولا تخرج من ارضي إلا بإذني: فإن فعلت شيئا من ذلك بغير إذني فمحو كتابتك بيدي. قال مالك: ليس محو كتابته بيده إن فعل المكاتب شيئا من ذلك. وليرفع سيده ذلك إلى السلطان وليس للمكاتب ان ينكح ولا يسافر ولا يخرج من ارض سيده. إلا بإذنه اشترط ذلك او لم يشترطه. وذلك ان الرجل يكاتب عبده بمائة دينار وله الف دينار او اكثر من ذلك فينطلق فينكح المراة فيصدقها الصداق الذي يجحف بماله ويكون فيه عجزه فيرجع إلى سيده عبدا لا مال له. او يسافر فتحل نجومه وهو غائب فليس ذلك له ولا على ذلك كاتبه. وذلك بيد سيده إن شاء اذن له في ذلك وإن شاء منعه. قَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِطُ عَلَى مُكَاتَبِهِ أَنَّكَ لَا تُسَافِرُ وَلَا تَنْكِحُ وَلَا تَخْرُجُ مِنْ أَرْضِي إِلَّا بِإِذْنِي: فَإِنْ فَعَلْتَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ بِغَيْرِ إِذْنِي فَمَحْوُ كِتَابَتِكَ بِيَدِي. قَالَ مَالِكٌ: لَيْسَ مَحْوُ كِتَابَتِهِ بِيَدِهِ إِنْ فَعَلَ الْمُكَاتَبُ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ. وَلْيَرْفَعْ سَيِّدُهُ ذَلِكَ إِلَى السُّلْطَانِ وَلَيْسَ لِلْمُكَاتَبِ أَنْ يَنْكِحَ وَلَا يُسَافِرَ وَلَا يَخْرُجَ مِنْ أَرْضِ سَيِّدِهِ. إِلَّا بِإِذْنِهِ اشْتَرَطَ ذَلِكَ أَوْ لَمْ يَشْتَرِطْهُ. وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ يُكَاتِبُ عَبْدَهُ بِمِائَةِ دِينَارٍ وَلَهُ أَلْفُ دِينَارٍ أَوْ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ فَيَنْطَلِقُ فَيَنْكِحُ الْمَرْأَةَ فَيُصْدِقُهَا الصَّدَاقَ الَّذِي يُجْحِفُ بِمَالِهِ وَيَكُونُ فِيهِ عَجْزُهُ فَيَرْجِعُ إِلَى سَيِّدِهِ عَبْدًا لَا مَالَ لَهُ. أَوْ يُسَافِرُ فَتَحِلُّ نُجُومُهُ وَهُوَ غَائِبٌ فَلَيْسَ ذَلِكَ لَهُ وَلَا عَلَى ذَلِكَ كَاتَبَهُ. وَذَلِكَ بِيَدِ سَيِّدِهِ إِنْ شَاءَ أَذِنَ لَهُ فِي ذَلِكَ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مکاتب سے شرط لگائے کہ سفر نہ کرنا یا نکاح نہ کرنا یا میرے ملک میں سے باہر نہ جانا بغیر میرے پوچھے ہوئے، اگر تو ایسا کرے گا تو تیری کتابت باطل کر دینا میرے اختیار میں ہوگا۔ اس صورت میں کتابت کا باطل کرنا اس کے اختیار میں نہ ہوگا، اگرچہ مکاتب ان کاموں میں سے کوئی کام کرے، اگر مکاتب کی کتابت کو مولیٰ باطل کرے تو مکاتب کو چاہیے کہ حاکم کے سامنے فریاد کرے، وہ حکم کر دے کہ کتابت باطل نہیں ہو سکتی، مگر اتنی بات ہے کہ مکاتب کو نکاح کرنا یا سفر کرنا یا ملک سے باہر جانا بغیر مولیٰ کے پوچھے ہوئے درست نہیں ہے، خواہ اس کی شرط ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی اپنے غلام کو سو دینار کے بدلے میں مکاتب کرتا ہے اور غلام کے پاس ہزار دینار موجود ہوتے ہیں تو وہ نکاح کر کے اُن دیناروں کو مہر کے بدلے میں تباہ ہو کر، پھر عاجز ہو کر مولیٰ کے پاس آتا ہے، نہ اس کے پاس مال ہوتا ہے نہ اور کچھ، اس میں سراسر مولیٰ کا نقصان ہے، یا مکاتب سفر کرتا ہے اور قسطوں کے دن آ جاتے ہیں لیکن وہ حاضر نہیں ہوتا، تو اس میں مولیٰ کا حرج ہوتا ہے، اسی نظر سے مکاتب کو درست نہیں کہ بغیر مولیٰ کے پوچھے ہوئے نکاح کرے یا سفر کرے، بلکہ ان امورات کا اختیار کرنا مولیٰ کو ہے، چاہے اجازت دے چاہے منع کرے۔
قال مالك: إن المكاتب إذا اعتق عبده إن ذلك غير جائز له. إلا بإذن سيده فإن اجاز ذلك سيده له ثم عتق المكاتب كان ولاؤه للمكاتب. وإن مات المكاتب قبل ان يعتق كان ولاء المعتق لسيد المكاتب وإن مات المعتق قبل ان يعتق المكاتب ورثه سيد المكاتب قَالَ مَالِكٌ: إِنَّ الْمُكَاتَبَ إِذَا أَعْتَقَ عَبْدَهُ إِنَّ ذَلِكَ غَيْرُ جَائِزٍ لَهُ. إِلَّا بِإِذْنِ سَيِّدِهِ فَإِنْ أَجَازَ ذَلِكَ سَيِّدُهُ لَهُ ثُمَّ عَتَقَ الْمُكَاتَبُ كَانَ وَلَاؤُهُ لِلْمُكَاتَبِ. وَإِنْ مَاتَ الْمُكَاتَبُ قَبْلَ أَنْ يُعْتَقَ كَانَ وَلَاءُ الْمُعْتَقِ لِسَيِّدِ الْمُكَاتَبِ وَإِنْ مَاتَ الْمُعْتَقُ قَبْلَ أَنْ يُعْتَقَ الْمُكَاتَبُ وَرِثَهُ سَيِّدُ الْمُكَاتَبِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مکاتب نے بھی اپنے غلام کو مکاتب کیا، پھر مکاتب کا مکاتب، مکاتب سے پہلے آزاد ہو گیا، تو اس کی ولاء مکاتب کے مولیٰ کو ملے گی جب تک مکاتب آزاد نہ ہو، جب مکاتب آزاد ہو جائے گا اس کے مکاتب کی ولاء اس کی طرف لوٹ آئے گی۔ اگر مکاتب بدل کتابت ادا کرنے سے پہلے مر گیا یا عاجز ہو گیا تو اس کی آزاد اولاد اپنے باپ کے مکاتب کی ولاء نہ پائیں گے، کیونکہ ان کے باپ کو ولاء کا استحقاق نہیں ہوا تھا، اس واسطے کہ وہ آزاد نہیں ہوا تھا۔
قال مالك: وكذلك ايضا لو كاتب المكاتب عبدا فعتق المكاتب الآخر قبل سيده الذي كاتبه فإن ولاءه لسيد المكاتب ما لم يعتق المكاتب الاول الذي كاتبه. فإن عتق الذي كاتبه رجع إليه ولاء مكاتبه الذي كان عتق قبله. وإن مات المكاتب الاول قبل ان يؤدي او عجز عن كتابته وله ولد احرار لم يرثوا ولاء مكاتب ابيهم لانه لم يثبت لابيهم الولاء. ولا يكون له الولاء حتى يعتق. قَالَ مَالِكٌ: وَكَذَلِكَ أَيْضًا لَوْ كَاتَبَ الْمُكَاتَبُ عَبْدًا فَعَتَقَ الْمُكَاتَبُ الْآخَرُ قَبْلَ سَيِّدِهِ الَّذِي كَاتَبَهُ فَإِنَّ وَلَاءَهُ لِسَيِّدِ الْمُكَاتَبِ مَا لَمْ يَعْتِقِ الْمُكَاتَبُ الْأَوَّلُ الَّذِي كَاتَبَهُ. فَإِنْ عَتَقَ الَّذِي كَاتَبَهُ رَجَعَ إِلَيْهِ وَلَاءُ مُكَاتَبِهِ الَّذِي كَانَ عَتَقَ قَبْلَهُ. وَإِنْ مَاتَ الْمُكَاتَبُ الْأَوَّلُ قَبْلَ أَنْ يُؤَدِّيَ أَوْ عَجَزَ عَنْ كِتَابَتِهِ وَلَهُ وَلَدٌ أَحْرَارٌ لَمْ يَرِثُوا وَلَاءَ مُكَاتَبِ أَبِيهِمْ لِأَنَّهُ لَمْ يَثْبُتْ لِأَبِيهِمُ الْوَلَاءُ. وَلَا يَكُونُ لَهُ الْوَلَاءُ حَتَّى يَعْتِقَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو، پھر ایک شخص اپنا حق معاف کر دے اور دوسرا نہ کرے، پھر مکاتب مر جائے اور مال چھوڑ جائے، تو جس شخص نے معاف نہیں کیا وہ اپنا حق وصول کر کے جس قدر مال بچے گا وہ دونوں تقسیم کر لیں گے جیسے وہ غلامی کی حالت میں مرتا، کیونکہ جس شخص نے اپنا حق چھوڑ دیا اس نے آزاد نہیں کیا، بلکہ اپنا حق معاف کر دیا۔
قال مالك في المكاتب يكون بين الرجلين فيترك احدهما للمكاتب الذي له عليه ويشح الآخر ثم يموت المكاتب ويترك مالا. قال مالك: يقضي الذي لم يترك له شيئا ما بقي له عليه. ثم يقتسمان المال كهيئته لو مات عبدا لان الذي صنع ليس بعتاقة. وإنما ترك ما كان له عليه. قَالَ مَالِكٌ فِي الْمُكَاتَبِ يَكُونُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَيَتْرُكُ أَحَدُهُمَا لِلْمُكَاتَبِ الَّذِي لَهُ عَلَيْهِ وَيَشِحُّ الْآخَرُ ثُمَّ يَمُوتُ الْمُكَاتَبُ وَيَتْرُكُ مَالًا. قَالَ مَالِكٌ: يَقْضِي الَّذِي لَمْ يَتْرُكْ لَهُ شَيْئًا مَا بَقِيَ لَهُ عَلَيْهِ. ثُمَّ يَقْتَسِمَانِ الْمَالَ كَهَيْئَتِهِ لَوْ مَاتَ عَبْدًا لِأَنَّ الَّذِي صَنَعَ لَيْسَ بِعَتَاقَةٍ. وَإِنَّمَا تَرَكَ مَا كَانَ لَهُ عَلَيْهِ.
قال مالك ومما يبين ذلك: ان الرجل إذا مات وترك مكاتبا وترك بنين رجالا ونساء. ثم اعتق احد البنين نصيبه من المكاتب إن ذلك لا يثبت له من الولاء شيئا ولو كانت عتاقة لثبت الولاء لمن اعتق منهم من رجالهم ونسائهم. قَالَ مَالِكٌ وَمِمَّا يُبَيِّنُ ذَلِكَ: أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَاتَ وَتَرَكَ مُكَاتَبًا وَتَرَكَ بَنِينَ رِجَالًا وَنِسَاءً. ثُمَّ أَعْتَقَ أَحَدُ الْبَنِينَ نَصِيبَهُ مِنَ الْمُكَاتَبِ إِنَّ ذَلِكَ لَا يُثْبِتُ لَهُ مِنَ الْوَلَاءِ شَيْئًا وَلَوْ كَانَتْ عَتَاقَةً لَثَبَتَ الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ مِنْهُمْ مِنْ رِجَالِهِمْ وَنِسَائِهِمْ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی دلیل یہ ہے: ایک شخص مر گیا اور ایک مکاتب چھوڑ گیا اور بیٹے اور بیٹیاں بھی چھوڑ گیا، پھر ایک بیٹی نے اپنا حصّہ آزاد کر دیا تو ولاء اس کے واسطے ثابت نہ ہوگی، اگر یہ آزادی ہوتی تو ولاء اس کے لیے ضروری ثابت ہوتی۔
قال مالك: ومما يبين ذلك ايضا انهم إذا اعتق احدهم نصيبه ثم عجز المكاتب لم يقوم على الذي اعتق نصيبه ما بقي من المكاتب ولو كانت عتاقة قوم عليه حتى يعتق في ماله كما قال رسول اللٰه صلى الله عليه وسلم: ”من اعتق شركا له في عبد قوم عليه قيمة العدل. فإن لم يكن له مال عتق منه ما عتق.“ قَالَ مَالِكٌ: وَمِمَّا يُبَيِّنُ ذَلِكَ أَيْضًا أَنَّهُمْ إِذَا أَعْتَقَ أَحَدُهُمْ نَصِيبَهُ ثُمَّ عَجَزَ الْمُكَاتَبُ لَمْ يُقَوَّمْ عَلَى الَّذِي أَعْتَقَ نَصِيبَهُ مَا بَقِيَ مِنَ الْمُكَاتَبِ وَلَوْ كَانَتْ عَتَاقَةً قُوِّمَ عَلَيْهِ حَتَّى يَعْتِقَ فِي مَالِهِ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ قُوِّمَ عَلَيْهِ قِيمَةَ الْعَدْلِ. فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ.“
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ اگر ایک شخص نے اپنا حصّہ آزاد کر دیا پھر مکاتب آزاد ہو گیا، تو جس شخص نے آزاد کیا ہے اس کو باقی حصّوں کی قیمت نہ دینا ہوگی، اگر یہ آزادی ہوتی تو اس کو اوروں کے حصّے کی قیمت بموجب حدیث سے دینا پڑتی۔
قال مالك: ومما يبين ذلك ايضا ان من سنة المسلمين التي لا اختلاف فيها. ان من اعتق شركا له في مكاتب لم يعتق عليه في ماله ولو عتق عليه. كان الولاء له دون شركائه. قَالَ مَالِكٌ: وَمِمَّا يُبَيِّنُ ذَلِكَ أَيْضًا أَنَّ مِنْ سُنَّةِ الْمُسْلِمِينَ الَّتِي لَا اخْتِلَافَ فِيهَا. أَنَّ مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي مُكَاتَبٍ لَمْ يُعْتَقْ عَلَيْهِ فِي مَالِهِ وَلَوْ عَتَقَ عَلَيْهِ. كَانَ الْوَلَاءُ لَهُ دُونَ شُرَكَائِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا طریقہ جس میں کچھ اختلاف نہیں یہ ہے کہ جو شخص ایک حصّہ مکاتب میں سے آزاد کر دے تو وہ اس کے مال سے آزاد نہ ہوگا، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ولاء اس کو ملتی، اس کے شریکوں کو نہ ملتی۔
قال مالك: ومما يبين ذلك ايضا ان من سنة المسلمين ان الولاء لمن عقد الكتابة. وانه ليس لمن ورث سيد المكاتب من النساء من ولاء المكاتب. وإن اعتقن نصيبهن شيء إنما ولاؤه لولد سيد المكاتب الذكور او عصبته من الرجال.قَالَ مَالِكٌ: وَمِمَّا يُبَيِّنُ ذَلِكَ أَيْضًا أَنَّ مِنْ سُنَّةِ الْمُسْلِمِينَ أَنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ عَقَدَ الْكِتَابَةَ. وَأَنَّهُ لَيْسَ لِمَنْ وَرِثَ سَيِّدَ الْمُكَاتَبِ مِنَ النِّسَاءِ مِنْ وَلَاءِ الْمُكَاتَبِ. وَإِنْ أَعْتَقْنَ نَصِيبَهُنَّ شَيْءٌ إِنَّمَا وَلَاؤُهُ لِوَلَدِ سَيِّدِ الْمُكَاتَبِ الذُّكُورِ أَوْ عَصَبَتِهِ مِنَ الرِّجَالِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا طریقہ یہ بھی ہے کہ جو شخص عقد کتابت کرے ولاء اسی کو ملے گی، اور مکاتب کے مولیٰ کے وارثوں میں سے عورتوں کو ولاء نہ ملے گی، اگرچہ وہ اپنا حصّہ کچھ آزاد کردیں، بلکہ ولاء مکاتب کے مولیٰ کے لڑکوں کو یا اور عصبوں کو ملے گی۔
قال مالك: إذا كان القوم جميعا في كتابة واحدة. لم يعتق سيدهم احدا منهم دون مؤامرة اصحابه الذين معه في الكتابة ورضا منهم. وإن كانوا صغارا فليس مؤامرتهم بشيء. ولا يجوز ذلك عليهم..قَالَ مَالِكٌ: إِذَا كَانَ الْقَوْمُ جَمِيعًا فِي كِتَابَةٍ وَاحِدَةٍ. لَمْ يُعْتِقْ سَيِّدُهُمْ أَحَدًا مِنْهُمْ دُونَ مُؤَامَرَةِ أَصْحَابِهِ الَّذِينَ مَعَهُ فِي الْكِتَابَةِ وَرِضًا مِنْهُمْ. وَإِنْ كَانُوا صِغَارًا فَلَيْسَ مُؤَامَرَتُهُمْ بِشَيْءٍ. وَلَا يَجُوزُ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ..
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر چند غلام ایک ہی عقد میں مکاتب کیے جائیں، تو مولیٰ ان میں سے ایک غلام کو آزاد نہیں کر سکتا جب تک باقی مکاتب راضی نہ ہوں، اگر وہ کم سن ہوں تو ان کی رضامندی کا اعتبار نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ چند غلاموں میں ایک غلام نہایت ہوشیار اور محنتی ہوتا ہے، اس کے سبب سے توقع یہ ہوتی ہے کہ محنت مزدوری کر کے اوروں کو بھی آزاد کرا دے، مولیٰ کیا کرتا کہ اسی شخص کو آزاد کر دیتا ہے تاکہ باقی غلام محنت سے عاجز ہو کر غلام ہو جائیں، تو یہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں باقی غلاموں کا ضرر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں ضرر نہیں ہے۔“