حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، ومحمد بن احمد بن ابي خلف، كلاهما، عن زكرياء، قال ابن خلف ، حدثنا زكرياء بن عدي ، اخبرنا عبيد الله ، عن زيد بن ابي انيسة ، حدثنا ابو الوليد المكي ، وهو جالس عند عطاء بن ابي رباح، عن جابر بن عبد الله : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نهى عن المحاقلة، والمزابنة، والمخابرة، وان تشترى النخل حتى تشقه "، والإشقاه: ان يحمر، او يصفر، او يؤكل منه شيء، والمحاقلة: ان يباع الحقل بكيل من الطعام معلوم، والمزابنة: ان يباع النخل باوساق من التمر، والمخابرة: الثلث والربع واشباه ذلك، قال زيد: قلت لعطاء بن ابي رباح : اسمعت جابر بن عبد الله ، يذكر هذا، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ، كِلَاهُمَا، عَنْ زَكَرِيَّاءَ، قَالَ ابْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الْمَكِّيُّ ، وَهُوَ جَالِسٌ عِنْدَ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ، وَالْمُزَابَنَةِ، وَالْمُخَابَرَةِ، وَأَنْ تُشْتَرَى النَّخْلُ حَتَّى تُشْقِهَ "، وَالْإِشْقَاهُ: أَنْ يَحْمَرَّ، أَوْ يَصْفَرَّ، أَوْ يُؤْكَلَ مِنْهُ شَيْءٌ، وَالْمُحَاقَلَةُ: أَنْ يُبَاعَ الْحَقْلُ بِكَيْلٍ مِنَ الطَّعَامِ مَعْلُومٍ، وَالْمُزَابَنَةُ: أَنْ يُبَاعَ النَّخْلُ بِأَوْسَاقٍ مِنَ التَّمْرِ، وَالْمُخَابَرَةُ: الثُّلُثُ وَالرُّبُعُ وَأَشْبَاهُ ذَلِكَ، قَالَ زَيْدٌ: قُلْتُ لِعَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ : أَسَمِعْتَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَذْكُرُ هَذَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ.
مخلد بن یزید جزری نے ہمیں خبر دی، کہا: ہمیں ابن جریج نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: مجھے عطاء نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرہ، محاقلہ، مزابنہ اور کھانے کے قابل ہونے سے پہلے پھلوں کی فروخت کرنے سے منع فرمایا اور (حکم دیا کہ پھلوں اور اجناس کی) صرف درہم و دینار ہی سے بیع کی جائے، سوائے عرایا کے۔ عطاء نے کہا: حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: مخابرہ سے مراد وہ چٹیل زمین ہے جو ایک آدمی دوسرے کے حوالے کرے تو وہ اس میں خرچ کرے، پھر وہ (زمین دینے والا) اس کی پیداوار میں سے حصہ لے۔ اور ان کا خیال ہے کہ مزابنہ سے مراد کھجور پر لگی ہوئی تازہ کھجور کی خشک کھجور (کی معینہ مقدار) کے عوض بیع ہے اور محاقلہ یہ ہے کہ آدمی کھڑی فصل کو ماپے ہوئے غلے کے عوض بیچ دے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ اور مخابرہ سے منع فرمایا اور اس بات سے بھی کہ کھجوریں، رنگت میں تبدیلی سے پہلے فروخت کی جائیں، اور اشقاہ کا معنی ہے وہ سرخ یا زرد ہو جائیں یا ان میں سے کوئی کھانے کے قابل ہو جائے، اور محاقلہ یہ ہے کہ کھیتی، غلہ کے متعین ناپ کے عوض بیچی جائے، اور مزابنہ یہ ہے کہ درخت پر کھجوریں، کھجوروں کے متعین ناپ (اوساق) کے عوض بیچی جائیں۔ اور مخابرہ یہ ہے کہ زمین، تہائی یا چوتھائی وغیرہ پر دی جائے، عطاء کے شاگرد، زید کہتے ہیں، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہما سے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے سنا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، ہاں۔
زید بن ابی انیسہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم سے ابوولید مکی نے حدیث بیان کی جبکہ وہ عطاء بن ابی رباح کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، انہوں (زید) نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ، مخابرہ اور اس بات سے منع فرمایا ہے کہ اِشقاہ سے پہلے (درخت پر لگا ہوا) کھجور (کا پھل) خریدا جائے۔ اِشقاہ یہ ہے کہ اس میں سرخی یا زردی پیدا ہو جائے یا اس میں سے کچھ کھایا جا سکے 0سارا پھل بیک وقت نہیں بکتا، کچھ کھانے کے قابل ہو جائے تو بیع جائز ہے۔) اور محاقلہ یہ ہے کہ کھیتی کی بیع غلے کی متعین مقدار (صاع، وسق وغیرہ یا وزن) کے ساتھ کی جائے اور مزابنہ یہ ہے کہ درخت پر لگی کھجور کی بیع خشک کھجور کی (ماپ یا تول کے ذریعے سے) متعین مقدار کے ساتھ کی جائے اور مخابرہ یہ ہے کہ زمین کو (جواز کی شروط پوری کیے بغیر) تہائی، چوتھائی یا اس طرح کے (کسی متعین) حصے کے عوض (بٹائی پر) دیا جائے۔ زید نے کہا: میں نے (ساتھ بیٹھے) عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا: کیا آپ نے (بھی) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ، محاقلہ اور مخابرہ سے منع فرمایا ہے، اور اس سے بھی کہ پھل رنگت کے تبدیل ہونے سے پہلے بیچے جائیں۔ سعید بن میناء کے شاگرد نے ان سے پوچھا اشقاح کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا، سرخ اور زرد ہو جائیں اور ان کو کھایا جا سکے۔
سلیم بن حیان نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سعید بن میناء نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ، محاقلہ، مخابرہ اور رنگ تبدیل ہونے (اشقاح) سے پہلے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا۔ (سلیم بن حیان نے) کہا: میں نے سعید سے پوچھا: اشقاح سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: ان میں سرخی اور زردی پیدا ہو جائے اور اس میں سے کھایا جا سکے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ، معاومۃ اور مخابرہ سے منع فرمایا۔ حضرت جابر کے دو شاگردوں میں سے ایک نے کہا، معاومہ کا مطلب ہے کئی سال کے لیے باغ بیچ دینا، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے استثناء سے منع فرمایا اور عرایا کی فروخت کی اجازت دی۔
حماد بن زید نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ایوب نے ابوزبیر اور سعید بن میناء سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ، معاومہ، مخابرہ۔۔ ان دونوں (ابوزبیر اور سعید) میں سے ایک نے کہا: کئی سالوں کے لیے بیع کرنا ہی معاومہ ہے۔ اور استثاء والی بیر سے منع فرمایا اور عرایا (کو خشک پھل کے عوض بیچنے) کی اجازت دی
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے یہی روایت حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہما کے شاگرد ابو زبیر سے بیان کرتے ہیں۔ اور اس میں معاومہ کی تشریح بیان نہیں کی گئی۔
اسماعیل بن علیہ نے ہمیں ایوب سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزبیر سے، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔۔ اسی کے مانند، البتہ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ کئی سالوں کے لیے بیع کرنا ہی معاومہ ہے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے اور اس کو چند سال کے لیے بیچنے سے بھی، اور پھل کو پختہ (شیریں) ہونے سے پہلے بیچنے سے۔
رباح بن ابی معروف نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے عطاء سے سنا، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو (اس کی اپنی پیداوار کے بدلے کرائے پر دینے، اس (کے پھل) کو کئی سالوں کے لیے بیچنے اور پکنے سے پہلے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرایہ پر دینے سے منع فرمایا ہے۔
حماد بن زید نے ہمیں مطروراق سے حدیث بیان کی، انہوں نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہے وہ خود کاشت کرے یا (فالتو ہونے کی صورت میں) گر وہ خود کاشت نہ کر سکے (تو اپنے بھائی کو مسخ کے طور پر دے دے) تاکہ اس کا بھائی کاشت کر لے۔“
مہدی بن میمون نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں مطروراق نے عطاء سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کی زمین ہو تو (بہتر ہے) وہ اسے خود کاشت کرے۔ اگر وہ خود کاشت نہ کرے تو اپنے بھائی کو کاشت کاری کے لیے دے دے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھیوں کے پاس ضرورت سے زائد، فالتو زمینیں تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس ضرورت سے زائد فالتو زمین ہو وہ اسے خود کاشت کرے، یا اپنے مسلمان بھائی کو عطیہ و بخشش کے طور پر دے دے، اگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہے تو پھر اپنے پاس ہی رکھے۔“
اوزاعی نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ کے پاس ضرورت سے زائد زمینیں تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے پاس ضرورت سے زائد زمین ہو وہ یا تو اسے خود کاشت کرے یا اپنے بھائی کو عاریتا دے دے۔ اگر وہ نہیں مانتا تو وہ اپنی زمین اپنے پاس رکھ لے۔" (کسی غیر شرعی طریقے سے کرائے پر نہ دے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کا کرایہ اور متعین حصہ لینے سے منع فرمایا۔
حدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا عبد الملك ، عن عطاء ، عن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كانت له ارض، فليزرعها، فإن لم يستطع ان يزرعها وعجز عنها، فليمنحها اخاه المسلم، ولا يؤاجرها إياه ".حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ، فَلْيَزْرَعْهَا، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَزْرَعَهَا وَعَجَزَ عَنْهَا، فَلْيَمْنَحْهَا أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، وَلَا يُؤَاجِرْهَا إِيَّاهُ ".
بکیر بن اخنس نے عطاء سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ زمین کی اجرت (کرایہ) یا (اس کی ہونے والی پیداوار کا) متعین (مقدار میں) حصہ لیا جائے
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس زمین ہو وہ اسے خود کاشت کرے، (اگر زائد ہونے کی وجہ سے) کاشت نہ کر سکتا ہو اور اس کی کاشت سے بے بس ہو تو کسی مسلمان بھائی کو عطیہ کر دے، اور اس سے اجرت و مزدوری نہ لے۔“