موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: حج کے بیان میں
حدیث نمبر: 870B3
Save to word اعراب
قال مالك: والذي يحكم عليه بالهدي في قتل الصيد، او يجب عليه هدي في غير ذلك، فإن هديه لا يكون إلا بمكة كما قال الله تبارك وتعالى: «هديا بالغ الكعبة» ‏‏‏‏ (سورة المائدة آية 95) واما ما عدل به الهدي من الصيام او الصدقة، فإن ذلك يكون بغير مكة حيث احب صاحبه، ان يفعله فعلهقَالَ مَالِك: وَالَّذِي يُحْكَمُ عَلَيْهِ بِالْهَدْيِ فِي قَتْلِ الصَّيْدِ، أَوْ يَجِبُ عَلَيْهِ هَدْيٌ فِي غَيْرِ ذَلِكَ، فَإِنَّ هَدْيَهُ لَا يَكُونُ إِلَّا بِمَكَّةَ كَمَا قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: «هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ» ‏‏‏‏ (سورة المائدة آية 95) وَأَمَّا مَا عُدِلَ بِهِ الْهَدْيُ مِنَ الصِّيَامِ أَوِ الصَّدَقَةِ، فَإِنَّ ذَلِكَ يَكُونُ بِغَيْرِ مَكَّةَ حَيْثُ أَحَبَّ صَاحِبُهُ، أَنْ يَفْعَلَهُ فَعَلَهُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جس شخص پر ہدی کا حکم ہوا شکار کے عوض، یا اور کسی وجہ سے ہدی اس پر واجب ہوئی، تو اس کو چاہیے کہ ہدی مکہ میں لے کر آئے جیسا کہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے: «﴿هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ﴾» (5-المائدة:95) یعنی ہدی پہنچنے والی ہو کعبہ میں۔ اور جو شکار کے بدلے میں یا ہدی کے عوض میں روزے رکھنا پڑیں، یا صدقہ دینا لازم آئے، تو اختیار ہے کہ جہاں چاہے روزے رکھے، یا صدقہ دے حرم میں یا غیر حرم میں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 163»
حدیث نمبر: 871
Save to word اعراب
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن يعقوب بن خالد المخزومي ، عن ابي اسماء مولى عبد الله بن جعفر انه اخبره، انه كان مع عبد الله بن جعفر، فخرج معه من المدينة، فمروا على حسين بن علي وهو مريض بالسقيا، فاقام عليه عبد الله بن جعفر حتى إذا خاف الفوات، خرج، وبعث إلى علي بن ابي طالب، واسماء بنت عميس، وهما بالمدينة، فقدما عليه، ثم إن حسينا اشار إلى راسه، فامر علي براسه، فحلق، ثم نسك عنه بالسقيا، فنحر عنه بعيرا، قال يحيى بن سعيد: وكان حسين خرج مع عثمان بن عفان في سفره ذلك إلى مكة وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ خَالِدٍ الْمَخْزُومِيِّ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، فَخَرَجَ مَعَهُ مِنْ الْمَدِينَةِ، فَمَرُّوا عَلَى حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ وَهُوَ مَرِيضٌ بِالسُّقْيَا، فَأَقَامَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ حَتَّى إِذَا خَافَ الْفَوَاتَ، خَرَجَ، وَبَعَثَ إِلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ، وَهُمَا بِالْمَدِينَةِ، فَقَدِمَا عَلَيْهِ، ثُمَّ إِنَّ حُسَيْنًا أَشَارَ إِلَى رَأْسِهِ، فَأَمَرَ عَلِيٌّ بِرَأْسِهِ، فَحُلِّقَ، ثُمَّ نَسَكَ عَنْهُ بِالسُّقْيَا، فَنَحَرَ عَنْهُ بَعِيرًا، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: وَكَانَ حُسَيْنٌ خَرَجَ مَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ فِي سَفَرِهِ ذَلِكَ إِلَى مَكَّةَ
حضرت ابواسماء سے جو مولیٰ ہیں حضرت عبداللہ بن جعفر کے، روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن جعفر کے ساتھ مدینہ سے نکلے (واسطے حج کے)، تو گزرے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما پر اور وہ بیمار تھے سقیا میں۔ پس ٹھہرے رہے وہاں حضرت عبداللہ بن جعفر یہاں تک کہ جب خوف ہوا حج کے فوت ہو جانے کا، تو نکل کھڑے ہوئے حضرت عبداللہ بن جعفر اور ایک آدمی بھیج دیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس اور ان کی بی بی سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے پاس، وہ دونوں مدینہ میں تھے۔ تو آئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا مدینہ سے سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس۔ انہوں نے اشارہ کیا اپنے سر کی طرف۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم کیا، ان کا سر مونڈا گیا سقیا میں، پھر قربانی کی ان کی طرف سے ایک اونٹ کی وہیں سقیا میں۔ کہا حضرت یحییٰ بن سعید نے کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے تھے حج کرنے کو۔

تخریج الحدیث: «موقوف حسن، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1088، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3259، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4089، 4090، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 165»
53. بَابُ الْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ وَالْمُزْدَلِفَةِ
53. عرفات اور مزدلفہ میں ٹھہرنے کا بیان
حدیث نمبر: 872
Save to word اعراب
حدثني يحيى، عن مالك، انه بلغه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " عرفة كلها موقف، وارتفعوا عن بطن عرنة، والمزدلفة كلها موقف، وارتفعوا عن بطن محسر" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " عَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَارْتَفِعُوا عَنْ بَطْنِ عُرَنَةَ، وَالْمُزْدَلِفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَارْتَفِعُوا عَنْ بَطْنِ مُحَسِّرٍ"
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عرفات تمام ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطنِ عرنہ میں نہ ٹھہرو، اور مزدلفہ تمام ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطنِ محسر میں نہ ٹھہرو۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم 1218، و ابن ماجه: 3012، 3048، و أبو داود: 1907، و النسائي: 3018، 3048، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 166»
حدیث نمبر: 873
Save to word اعراب
وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن عبد الله بن الزبير ، انه كان يقول: " اعلموا ان عرفة كلها موقف إلا بطن عرنة، وان المزدلفة كلها موقف، إلا بطن محسر" . وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: " اعْلَمُوا أَنَّ عَرَفَةَ كُلَّهَا مَوْقِفٌ إِلَّا بَطْنَ عُرَنَةَ، وَأَنَّ الْمُزْدَلِفَةَ كُلَّهَا مَوْقِفٌ، إِلَّا بَطْنَ مُحَسِّرٍ" .
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے تھے: جانو تم کہ عرفات سارا ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطنِ عرنہ، اور مزدلفہ سارا ٹھہرنے کی جگہ ہے مگر بطنِ محسر۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 14066، 14071، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 167»
حدیث نمبر: 873B1
Save to word اعراب
قال مالك: قال الله تبارك وتعالى:«‏‏‏‏فلا رفث ولا فسوق ولا جدال في الحج» ‏‏‏‏ (سورة البقرة آية 197)، قال: فالرفث إصابة النساء والله اعلم، قال الله تبارك وتعالى: «احل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم» (سورة البقرة آية 187)، قال: والفسوق الذبح للانصاب والله اعلم، قال الله تبارك وتعالى:«‏‏‏‏او فسقا اهل لغير الله به» ‏‏‏‏ (سورة الانعام آية 145)، قال: والجدال في الحج ان قريشا كانت تقف عند المشعر الحرام، بالمزدلفة، بقزح وكانت العرب وغيرهم يقفون بعرفة، فكانوا يتجادلون، يقول هؤلاء: نحن اصوب، ويقول هؤلاء: نحن اصوب، فقال الله تعالى: «لكل امة جعلنا منسكا هم ناسكوه فلا ينازعنك في الامر وادع إلى ربك إنك لعلى هدى مستقيم» ‏‏‏‏ (سورة الحج آية 67)، فهذا الجدال فيما نرى والله اعلم، وقد سمعت ذلك من اهل العلمقَالَ مَالِك: قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:«‏‏‏‏فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ وَلا جِدَالَ فِي الْحَجِّ» ‏‏‏‏ (سورة البقرة آية 197)، قَالَ: فَالرَّفَثُ إِصَابَةُ النِّسَاءِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ، قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: «أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ» (سورة البقرة آية 187)، قَالَ: وَالْفُسُوقُ الذَّبْحُ لِلْأَنْصَابِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ، قَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى:«‏‏‏‏أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ» ‏‏‏‏ (سورة الأنعام آية 145)، قَالَ: وَالْجِدَالُ فِي الْحَجِّ أَنَّ قُرَيْشًا كَانَتْ تَقِفُ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ، بِالْمُزْدَلِفَةِ، بِقُزَحَ وَكَانَتْ الْعَرَبُ وَغَيْرُهُمْ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ، فَكَانُوا يَتَجَادَلُونَ، يَقُولُ هَؤُلَاءِ: نَحْنُ أَصْوَبُ، وَيَقُولُ هَؤُلَاءِ: نَحْنُ أَصْوَبُ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: «لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ فَلا يُنَازِعُنَّكَ فِي الأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ» ‏‏‏‏ (سورة الحج آية 67)، فَهَذَا الْجِدَالُ فِيمَا نُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ، وَقَدْ سَمِعْتُ ذَلِكَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے کہ فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے: «﴿فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ﴾ [البقرة: 197] » نہ رفث ہے، نہ فسق ہے، نہ جھگڑا ہے حج میں۔ تو «رفث» کے معنی جماع کے ہیں، اور اللہ خوب جانتا ہے۔ فرمایا اللہ تبارک وتعالیٰ نے: «﴿أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ﴾ [البقرة: 187] » حلال ہے تمہارے لئے روزوں کی رات میں جماع اپنی عورتوں سے۔ یہاں پر رفث سے جماع مراد ہے۔
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اور فسق سے مراد ذبح کرنا ہے جانوروں کا واسطے بتوں کے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے: «﴿أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهِ﴾ [الأنعام: 145] » یا فسق یہ ہے کہ پکارا جانور پر سوا اللہ کے اور کسی کا نام۔ اور جھگڑا یہ ہے کہ قریش مزدلفہ میں قزح کے پاس ٹھہر تے تھے، اور باقی سب عرفات میں اترتے تھے، تو دونوں فرقے آپس میں لڑتے تھے، جھگڑتے تھے، یہ کہتے تھے: ہم سیدھی راہ اور ٹھیک راستے پر ہیں۔ وہ کہتے تھے: ہم صحیح طریقے پر ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «﴿لِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُ، فَلَا يُنَازِعُنَّكَ فِي الْأَمْرِ وَادْعُ إِلَى رَبِّكَ إِنَّكَ لَعَلَى هُدًى مُسْتَقِيمٍ﴾ [الحج: 67] » یعنی ہم نے ہر گروہ کے لیے ایک طریقہ کر دیا وہ اس پر چلتے ہیں، تو نہ جھگڑیں تجھ سے دین میں، اور بلا تو اپنے پروردگار کی طرف، بے شک تو سیدھی راہ پر ہے۔ تو حج میں جھگڑنے کے یہی معنی ہیں۔ (واللہ اعلم)، اور میں نے سنا ہے یہ اہلِ علم سے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 167»
54. بَابُ وُقُوفِ الرَّجُلِ وَهُوَ غَيْرُ طَاهِرٍ، وَوُقُوفِهِ عَلَى دَابَّتِهِ
54. بےوضو عرفات یا مزدلفہ میں ٹھہرنے کا اور سوار ہو کر ٹھہرنے کا بیان
حدیث نمبر: 874Q1
Save to word اعراب
سئل مالك: هل يقف الرجل بعرفة، او بالمزدلفة، او يرمي الجمار، او يسعى بين الصفا والمروة، وهو غير طاهر؟ فقال: كل امر تصنعه الحائض من امر الحج، فالرجل يصنعه وهو غير طاهر، ثم لا يكون عليه شيء في ذلك. والفضل ان يكون الرجل في ذلك كله طاهرا. ولا ينبغي له ان يتعمد ذلك. سُئِلَ مَالِكٌ: هَلْ يَقِفُ الرَّجُلُ بِعَرَفَةَ، أَوْ بِالْمُزْدَلِفَةِ، أَوْ يَرْمِي الْجِمَارَ، أَوْ يَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَهُوَ غَيْرُ طَاهِرٍ؟ فَقَالَ: كُلُّ أَمْرٍ تَصْنَعُهُ الْحَائِضُ مِنْ أَمْرِ الْحَجِّ، فَالرَّجُلُ يَصْنَعُهُ وَهُوَ غَيْرُ طَاهِرٍ، ثُمَّ لَا يَكُونُ عَلَيْهِ شَيْءٌ فِي ذَلِكَ. وَالْفَضْلُ أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ طَاهِرًا. وَلَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَتَعَمَّدَ ذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ عرفات میں یا مزدلفہ میں کوئی آدمی بے وضو ٹھہر سکتا ہے، یا بے وضو کنکریاں مار سکتا ہے، یا بے وضو صفا اور مروہ کے درمیان میں دوڑ سکتا ہے؟ تو جواب دیا کہ: جتنے ارکان حائضہ عورت کر سکتی ہے وہ سب کام مرد بے وضو کر سکتا ہے، اور اس پر کچھ لازم نہیں آتا مگر افضل یہ ہے کہ ان سب کاموں میں با وضو رہے، اور قصداً بے وضو ہونا اچھا نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 167»
حدیث نمبر: 874Q2
Save to word اعراب
وسئل مالك: عن الوقوف بعرفة للراكب. اينزل ام يقف راكبا؟ فقال: بل يقف راكبا. إلا ان يكون به او بدابته، علة. فاللٰه اعذر بالعذروَسُئِلَ مَالِكٌ: عَنِ الْوُقُوفِ بِعَرَفَةَ لِلرَّاكِبِ. أَيَنْزِلُ أَمْ يَقِفُ رَاكِبًا؟ فَقَالَ: بَلْ يَقِفُ رَاكِبًا. إِلَّا أَنْ يَكُونَ بِهِ أَوْ بِدَابَّتِهِ، عِلَّةٌ. فَاللّٰهُ أَعْذَرُ بِالْعُذْرِ
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ عرفات میں سوار ہو کر ٹھہرے یا اتر کر؟ بولے: سوار ہو کر، مگر جب کوئی عذر ہو اس کو یا اس کے جانور کو، تو اللہ جل جلالہُ قبول کرنے والا ہے عذر کو۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 167»
55. بَابُ وُقُوفِ مَنْ فَاتَهُ الْحَجُّ بِعَرَفَةَ
55. وقوف عرفات کی انتہا کا بیان
حدیث نمبر: 874
Save to word اعراب
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ، كان يقول: " من لم يقف بعرفة من ليلة المزدلفة قبل ان يطلع الفجر، فقد فاته الحج، ومن وقف بعرفة من ليلة المزدلفة من قبل ان يطلع الفجر، فقد ادرك الحج" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ يَقُولُ: " مَنْ لَمْ يَقِفْ بِعَرَفَةَ مِنْ لَيْلَةِ الْمُزْدَلِفَةِ قَبْلَ أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ، فَقَدْ فَاتَهُ الْحَجُّ، وَمَنْ وَقَفَ بِعَرَفَةَ مِنْ لَيْلَةِ الْمُزْدَلِفَةِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ، فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ"
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: جو شخص عرفہ میں نہ ٹھہرا یوم النحر کے طلوعِ فجر تک تو فوت ہو گیا حج اس کا، اور جو یوم النحر کے طلوعِ فجر سے پہلے عرفہ میں ٹھہرا تو اس نے پا لیا حج کو۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9925، 9926، 9927، 9928، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2518، و ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13852، 13866، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 169»
حدیث نمبر: 875
Save to word اعراب
وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، انه قال: " من ادركه الفجر من ليلة المزدلفة، ولم يقف بعرفة، فقد فاته الحج، ومن وقف بعرفة من ليلة المزدلفة قبل ان يطلع الفجر فقد ادرك الحج" .وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ أَدْرَكَهُ الْفَجْرُ مِنْ لَيْلَةِ الْمُزْدَلِفَةِ، وَلَمْ يَقِفْ بِعَرَفَةَ، فَقَدْ فَاتَهُ الْحَجُّ، وَمَنْ وَقَفَ بِعَرَفَةَ مِنْ لَيْلَةِ الْمُزْدَلِفَةِ قَبْلَ أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ" .
حضرت عروہ بن زبیر نے کہا: جب مزدلفہ کی رات کی صبح ہوگئی (یعنی رات پا لی) اور وہ عرفہ میں نہ ٹھہرا تو حج اس کا فوت ہو گیا، اور جو مزدلفہ کی رات کو عرفہ میں ٹھہرا طلوعِ فجر سے پہلے تو پا لیا اس نے حج کو۔

تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 170»
حدیث نمبر: 875B
Save to word اعراب
قال مالك، في العبد يعتق في الموقف بعرفة: فإن ذلك لا يجزي عنه من حجة الإسلام، إلا ان يكون لم يحرم، فيحرم بعد ان يعتق، ثم يقف بعرفة من تلك الليلة قبل ان يطلع الفجر، فإن فعل ذلك اجزا عنه، وإن لم يحرم حتى طلع الفجر كان بمنزلة من فاته الحج، إذا لم يدرك الوقوف بعرفة قبل طلوع الفجر من ليلة المزدلفة، ويكون على العبد حجة الإسلام يقضيها قَالَ مَالِك، فِي الْعَبْدِ يُعْتَقُ فِي الْمَوْقِفِ بِعَرَفَةَ: فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يُجْزِي عَنْهُ مِنْ حَجَّةِ الْإِسْلَامِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ لَمْ يُحْرِمْ، فَيُحْرِمُ بَعْدَ أَنْ يُعْتَقَ، ثُمَّ يَقِفُ بِعَرَفَةَ مِنْ تِلْكَ اللَّيْلَةِ قَبْلَ أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ، فَإِنْ فَعَلَ ذَلِكَ أَجْزَأَ عَنْهُ، وَإِنْ لَمْ يُحْرِمْ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ كَانَ بِمَنْزِلَةِ مَنْ فَاتَهُ الْحَجُّ، إِذَا لَمْ يُدْرِكِ الْوُقُوفَ بِعَرَفَةَ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ مِنْ لَيْلَةِ الْمُزْدَلِفَةِ، وَيَكُونُ عَلَى الْعَبْدِ حَجَّةُ الْإِسْلَامِ يَقْضِيهَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر غلام آزاد ہوا عرفات میں تو یہ اس کا فرض حج نہ ہو گا مگر جب اس نے احرام نہ باندھا ہو، اور بعد آزادی کے احرام باندھ کر یوم النحر کے فجر سے پیشتر عرفات میں ٹھہر جائے تو فرض حج اس کا ادا ہو جائے گا، اگر اس نے طلوعِ فجر تک احرام نہ باندھا تو اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کسی کا حج فوت ہو گیا اور اس نے وقوفِ عرفہ مزدلفہ کی شب کے طلوع فجر تک نہ پایا، تو اس غلام پر فرض حج کا ادا کرنا لازم رہے گا۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 170»

Previous    22    23    24    25    26    27    28    29    30    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.