وقد امر عمر بن الخطاب، ابا ايوب الانصاري، وهبار بن الاسود حين فاتهما الحج واتيا يوم النحر، ان يحلا بعمرة ثم يرجعا حلالا، ثم يحجان عاما قابلا ويهديان، فمن لم يجد فصيام ثلاثة ايام في الحج، وسبعة إذا رجع إلى اهله وَقَدْ أَمَرَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، أَبَا أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيَّ، وَهَبَّارَ بْنَ الْأَسْوَدِ حِينَ فَاتَهُمَا الْحَجُّ وَأَتَيَا يَوْمَ النَّحْرِ، أَنْ يَحِلَّا بِعُمْرَةٍ ثُمَّ يَرْجِعَا حَلَالًا، ثُمَّ يَحُجَّانِ عَامًا قَابِلًا وَيُهْدِيَانِ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ، وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حکم کیا سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ہبار بن اسود رضی اللہ عنہ کو جب اُن کا حج فوت ہو گیا، اور وہ دسویں تاریخ کو آئے کہ عمرہ کر کے احرام کھول ڈالیں، اور چلے آئیں پھر سال آئندہ حج کریں اور ہدی بھیجیں، اگر ہدی میسر نہ ہو تو تین روزے حج میں اور سات روزے بعد اس کے رکھیں جب اپنے گھر میں آئے۔
قال مالك: وكل من حبس عن الحج بعد ما يحرم إما بمرض او بغيره او بخطإ من العدد او خفي عليه الهلال، فهو محصر عليه ما على المحصر قَالَ مَالِك: وَكُلُّ مَنْ حُبِسَ عَنِ الْحَجِّ بَعْدَ مَا يُحْرِمُ إِمَّا بِمَرَضٍ أَوْ بِغَيْرِهِ أَوْ بِخَطَإٍ مِنَ الْعَدَدِ أَوْ خَفِيَ عَلَيْهِ الْهِلَالُ، فَهُوَ مُحْصَرٌ عَلَيْهِ مَا عَلَى الْمُحْصَرِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جو شخص حج سے رُک جائے بعد احرام کے مرض کی وجہ سے، یا اور کسی باعث سے، مثلاً تاریخ کے شمار میں غلطی ہو جائے یا چاند معلوم نہ ہو تو اس کا حکم مثل محصر کے ہے۔
قال يحيى: سئل مالك، عمن اهل من اهل مكة بالحج، ثم اصابه كسر او بطن متحرق او امراة تطلق؟ قال: من اصابه هذا منهم فهو محصر يكون عليه مثل ما على اهل الآفاق إذا هم احصروا قَالَ يَحْيَى: سُئِلَ مَالِك، عَمَّنْ أَهَلَّ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ بِالْحَجِّ، ثُمَّ أَصَابَهُ كَسْرٌ أَوْ بَطْنٌ مُتَحَرِّقٌ أَوِ امْرَأَةٌ تُطْلَقُ؟ قَالَ: مَنْ أَصَابَهُ هَذَا مِنْهُمْ فَهُوَ مُحْصَرٌ يَكُونُ عَلَيْهِ مِثْلُ مَا عَلَى أَهْلِ الْآفَاقِ إِذَا هُمْ أُحْصِرُوا
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص مکہ کا رہنے والا، اس نے احرام باندھا حج کا، پھر اس کا پاؤں ٹوٹ گیا یا پیٹ چلنے لگا یا عورت کو دردِ زہ شروع ہوا؟ تو جواب دیا کہ ان کا حکم محصر کا سا ہے، جیسے باہر والوں کو حکم ہے جب ان کو احصار ہو۔
قال مالك في رجل قدم معتمرا في اشهر الحج، حتى إذا قضى عمرته اهل بالحج من مكة، ثم كسر او اصابه امر لا يقدر على ان يحضر مع الناس الموقف، قال مالك: ارى ان يقيم حتى إذا برا خرج إلى الحل، ثم يرجع إلى مكة فيطوف بالبيت ويسعى بين الصفا، والمروة ثم يحل ثم عليه حج قابل والهديقَالَ مَالِك فِي رَجُلٍ قَدِمَ مُعْتَمِرًا فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، حَتَّى إِذَا قَضَى عُمْرَتَهُ أَهَلَّ بِالْحَجِّ مِنْ مَكَّةَ، ثُمَّ كُسِرَ أَوْ أَصَابَهُ أَمْرٌ لَا يَقْدِرُ عَلَى أَنْ يَحْضُرَ مَعَ النَّاسِ الْمَوْقِفَ، قَالَ مَالِك: أَرَى أَنْ يُقِيمَ حَتَّى إِذَا بَرَأَ خَرَجَ إِلَى الْحِلِّ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى مَكَّةَ فَيَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَيَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ يَحِلُّ ثُمَّ عَلَيْهِ حَجُّ قَابِلٍ وَالْهَدْيُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ایک شخص مکہ کو آیا عمرہ کا احرام باندھ کر حج کے مہینوں میں، اور عمرہ ادا کر کے پھر حج کا احرام باندھا مکہ سے بعد اس کے اس کا پاؤں ٹوٹ گیا یا کوئی اور صدمہ ایسا پہنچا جس کی وجہ سے وہ عرفات میں نہ جا سکا، تو وہ ٹھہرا رہے، جب تندرست ہو اس وقت حرم کے باہر جا کر لوٹ آئے مکہ کو اور طواف اور سعی کر کے احرام کھول ڈالے، پھر سال آئندہ حج کرے اور ہدی دے۔
قال مالك فيمن اهل بالحج من مكة، ثم طاف بالبيت وسعى بين الصفا، والمروة ثم مرض فلم يستطع ان يحضر مع الناس الموقف، قال مالك: إذا فاته الحج فإن استطاع خرج إلى الحل، فدخل بعمرة فطاف بالبيت وسعى بين الصفا، والمروة لان الطواف الاول لم يكن نواه للعمرة، فلذلك يعمل بهذا وعليه حج قابل والهدي قَالَ مَالِك فِيمَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ مِنْ مَكَّةَ، ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ مَرِضَ فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَحْضُرَ مَعَ النَّاسِ الْمَوْقِفَ، قَالَ مَالِك: إِذَا فَاتَهُ الْحَجُّ فَإِنِ اسْتَطَاعَ خَرَجَ إِلَى الْحِلِّ، فَدَخَلَ بِعُمْرَةٍ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ لِأَنَّ الطَّوَافَ الْأَوَّلَ لَمْ يَكُنْ نَوَاهُ لِلْعُمْرَةِ، فَلِذَلِكَ يَعْمَلُ بِهَذَا وَعَلَيْهِ حَجُّ قَابِلٍ وَالْهَدْيُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جو شخص احرام باندھے حج کا مکہ سے، پھر طواف کرے خانۂ کعبہ کا اور سعی کرے صفا اور مروہ کے بیچ میں، بعد اس کے بیمار ہو جائے اور لوگوں کے ساتھ عرفات نہ جا سکے تو جب فوت ہو جائے حج اس کا، حرم کے باہر اگر ہو سکے نکل کر عمرہ کا احرام باندھ کر مکہ آئے اور طواف و سعی کر کے احرام کھول ڈالے، کیونکہ پہلا طواف اور سعی عمرہ کا نہ تھا، پھر سال آئندہ حج کرے اور ہدی دے۔
فإن كان من غير اهل مكة فاصابه مرض حال بينه وبين الحج، فطاف بالبيت وسعى بين الصفا، والمروة حل بعمرة وطاف بالبيت طوافا آخر وسعى بين الصفا، والمروة لان طوافه الاول وسعيه إنما كان نواه للحج وعليه حج قابل والهديفَإِنْ كَانَ مِنْ غَيْرِ أَهْلِ مَكَّةَ فَأَصَابَهُ مَرَضٌ حَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْحَجِّ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ حَلَّ بِعُمْرَةٍ وَطَافَ بِالْبَيْتِ طَوَافًا آخَرَ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ لِأَنَّ طَوَافَهُ الْأَوَّلَ وَسَعْيَهُ إِنَّمَا كَانَ نَوَاهُ لِلْحَجِّ وَعَلَيْهِ حَجُّ قَابِلٍ وَالْهَدْيُ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر وہ شخص مکہ کا رہنے والا نہ ہو اور کسی مرض کی وجہ سے حج نہ کر سکے، اور طواف اور سعی کر چکا ہو تو عمرہ کر کے احرام کھول ڈالے، لیکن عمرہ کے لیے دوبارہ طواف اور سعی کرے، اس واسطے کہ پہلا طواف اور سعی عمرہ سے متعلق نہ تھا، بلکہ حج کی نیت سے تھا، اب سالِ آئندہ حج کرے اور ہدی کرے۔
حدثني يحيى، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله ، ان عبد الله بن محمد بن ابي بكر الصديق ، اخبر عبد الله بن عمر، عن عائشة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الم تري ان قومك حين بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم" قالت: فقلت: يا رسول الله، افلا تردها على قواعد إبراهيم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لولا حدثان قومك بالكفر لفعلت" . قال: فقال عبد الله بن عمر : لئن كانت عائشة سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ما ارى رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك استلام الركنين اللذين يليان الحجر إلا ان البيت لم يتمم على قواعد إبراهيمحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ ، أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ حِينَ بَنَوْا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ" قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَفَعَلْتُ" . قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ : لَئِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أُرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ اسْتِلَامَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحِجْرَ إِلَّا أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يُتَمَّمْ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”تیری قوم نے جب بنایا کعبہ کو تو ابراہیم علیہ السلام نے جیسے بنایا تھا اس میں کمی کی۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابراہیم علیہ السلام نے جیسا بنایا تھا ویسا کیوں نہیں بنا دیتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تیری قوم کا کفر قریب نہ ہوتا تو میں بنا دیتا۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اسی وجہ سے شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکنِ شامی اور عراقی کا جو حطیم کے متصل ہیں استلام نہ کیا، کیونکہ خانۂ کعبہ ابراہیم علیہ السلام کے بنا پر نہ تھا۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 126، 1583، 1584، 1585، 1586، 3368، 4484، 7243، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1333، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3815، 3816، 3817، 3818، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1770، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2902، 2903، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3869، 3870، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1875، 2028، والترمذي فى «جامعه» برقم: 875، 876، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1910، 1911، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2955، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9335، 9406، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24935، 25338، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 104»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، ان عائشة ام المؤمنين، قالت: " ما ابالي اصليت في الحجر ام في البيت" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: " مَا أُبَالِي أَصَلَّيْتُ فِي الْحِجْرِ أَمْ فِي الْبَيْتِ"
حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: مجھے کچھ فرق نہیں معلوم ہوتا اس میں کے نماز پڑھوں کعبہ کے اندر یا حطیم میں۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه أبو يعلى فى «مسنده» برقم: 4364، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9155، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 8616، 8617، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 105»
وحدثني، عن مالك، انه سمع ابن شهاب ، يقول: سمعت بعض علمائنا، يقول: " ما حجر الحجر فطاف الناس من ورائه، إلا إرادة ان يستوعب الناس الطواف بالبيت كله" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ شِهَابٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ بَعْضَ عُلَمَائِنَا، يَقُولُ: " مَا حُجِرَ الْحِجْرُ فَطَافَ النَّاسُ مِنْ وَرَائِهِ، إِلَّا إِرَادَةَ أَنْ يَسْتَوْعِبَ النَّاسُ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ كُلِّهِ"
ابن شہاب نے بعض علماء سے سنا، کہتے تھے: حطیم کے گرد دیوار اٹھائی اور طواف میں اس کو شریک کیا، اس واسطے کہ پورے خانۂ کعبہ کا طواف ہو جائے۔