3753. ابواسامہ اور عبداللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں عبیداللہ نے نافع سے حدیث بیان کی اور انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے ایک آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا اور ان دونوں کے درمیان علیحدگی کروا دی-
امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری مرد اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کروایا اور ان میں جدائی ڈال دی۔
حدثنا زهير بن حرب ، وعثمان بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم ، واللفظ لزهير، قال إسحاق: اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: إنا ليلة الجمعة في المسجد، إذ جاء رجل من الانصار، فقال: لو ان رجلا وجد مع امراته رجلا، فتكلم جلدتموه، او قتل قتلتموه، وإن سكت سكت على غيظ، والله لاسالن عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما كان من الغد اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فساله، فقال: لو ان رجلا وجد مع امراته رجلا، فتكلم جلدتموه، او قتل قتلتموه، او سكت سكت على غيظ، فقال: " اللهم افتح، وجعل يدعو "، فنزلت آية اللعان: والذين يرمون ازواجهم ولم يكن لهم شهداء إلا انفسهم سورة النور آية 6 هذه الآيات، فابتلي به ذلك الرجل من بين الناس، فجاء هو وامراته إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتلاعنا، فشهد الرجل اربع شهادات بالله إنه لمن الصادقين، ثم لعن الخامسة ان لعنة الله عليه إن كان من الكاذبين، فذهبت لتلعن، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: مه، فابت، فلعنت، فلما ادبرا، قال: " لعلها ان تجيء به اسود جعدا "، فجاءت به اسود جعدا.حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وإسحاق بن إبراهيم ، واللفظ لزهير، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: إِنَّا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ فِي الْمَسْجِدِ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَتَكَلَّمَ جَلَدْتُمُوهُ، أَوْ قَتَلَ قَتَلْتُمُوهُ، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، وَاللَّهِ لَأَسْأَلَنَّ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَتَكَلَّمَ جَلَدْتُمُوهُ، أَوْ قَتَلَ قَتَلْتُمُوهُ، أَوْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ افْتَحْ، وَجَعَلَ يَدْعُو "، فَنَزَلَتْ آيَةُ اللِّعَانِ: وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ سورة النور آية 6 هَذِهِ الْآيَاتُ، فَابْتُلِيَ بِهِ ذَلِكَ الرَّجُلُ مِنْ بَيْنِ النَّاسِ، فَجَاءَ هُوَ وَامْرَأَتُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَلَاعَنَا، فَشَهِدَ الرَّجُلُ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ، ثُمَّ لَعَنَ الْخَامِسَةَ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ، فَذَهَبَتْ لِتَلْعَنَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَهْ، فَأَبَتْ، فَلَعَنَتْ، فَلَمَّا أَدْبَرَا، قَالَ: " لَعَلَّهَا أَنْ تَجِيءَ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا "، فَجَاءَتْ بِهِ أَسْوَدَ جَعْدًا.
3755. جریر نے اعمش سے، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم جمعے کی رات مسجد میں تھے کہ انصار میں سے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی (غیر) مرد کو پائے اور بات کرے تو آپ لوگ اسے (قذف کے) کوڑے لگاؤ گے، یا اسے قتل کر دے تو آپ لوگ اسے (قصاصاً) قتل کر دو گے۔ اور اگر وہ خاموش رہے تو غیظ و غضب (کی کیفیت) پر خاموش رہے گا (جو ناقابلِ برداشت ہے۔) اللہ کی قسم! میں ہر صورت اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کروں گا، جب دوسرا دن ہوا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے اور بولے تو آپ اسے (قذف کے) کوڑے لگائیں گے، یا اسے قتل کر دے تو آپ اسے (قصاص میں) قتل کر دیں گے، اگر وہ خاموش رہے تو غیظ و غضب (کے بھڑکتے الاؤ) پر خاموش رہے گا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”اے اللہ! (اس عقدے کو) کھول دے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل دعا فرماتے رہے (پھر حضرت ہلال بن امیہ کا واقعہ پیش آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور زیادہ الحاح سے دعا فرمائی) تو لعان کی آیت نازل ہوئی: ”وہ لوگ جو اپنی بیویوں پر تہمت لگائیں اور ان کے اپنے علاوہ ان کا کوئی گواہ نہ ہو۔۔“(پہلے ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی نے لعان کیا، پھر) لوگوں میں سے وہی آدمی (جس نے آ کر اس حوالے سے سوال کیا تھا) اس میں مبتلا ہوا، تو وہ اور اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان دونوں نے باہم لعان کیا، مرد نے اللہ (کے نام) کی چار شہادتیں دیں (قسمیں کھائیں) کہ وہ سچوں میں سے ہے، پھر پانچویں مرتبہ اس نے لعنت بھیجی کہ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہو، پھر اس کے بعد وہ لعان کرنے لگی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”رکو“(جھوٹی قسم نہ کھاؤ، لعنت کی سزاوار نہ بنو) تو اس نے انکار کر دیا اور لعان کیا، جب وہ دونوں پیٹھ پھیر کر مڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہو سکتا ہے وہ سیاہ فام رنگ گھنگھریالے بالوں والے بچے کو جنم دے“ تو (واقعی) اس نے سیاہ فام گھنگھریالے بالوں والے بچے کو جنم دیا-
امام صاحب اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، الفاظ زہیر کے ہیں، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم جمعہ کی رات مسجد میں حاضر تھے کہ ایک انصاری آدمی آیا اور اس نے پوچھا، اگر کوئی مرد اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو دیکھے اور اس کے بارے میں زبان کھولے تو تم اسے کوڑے لگاؤ گے اور اگر قتل کر دے تو تم اسے قتل کر دو گے اور اگر کوئی چپ رہے، تو غیظ و غضب کے ساتھ چپ رہے گا۔ اللہ کی قسم! میں یہ مسئلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر رہوں گا، تو جب اگلا دن ہوا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا اور کہا، اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے اور اس کے بارے میں گفتگو کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کوڑے لگائیں گے اور اگر قتل کر دے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قتل کر دیں گے یا غیظ و غضب کے ساتھ چپ رہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ”اے اللہ، اس مسئلہ کا حکم واضح فرما۔“ اور دعا فرمانے لگے، تو آیت لعان اتری اور جو خاوند اپنی بیوی پر تہمت لگاتے ہیں اور ان کے پاس، اپنے سوا کوئی گواہ نہیں ہے۔ یہ ساری آیات اتریں۔ اور لوگوں میں وہی انسان اس مسئلہ سے دوچار ہوا، تو وہ اور اس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لعان کیا، مرد نے اللہ کے نام کی چار شہادتیں دیں کہ وہ سچا ہے (سچوں میں سے ہے) پانچویں دفعہ لعنت بھیجی کہ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو (جھوٹا ہو) تو اس پر اللہ کی پھٹکار، وہ عورت بھی لعان کرنے لگی تو آپ نے فرمایا: ”رک جا، باز رہ۔“ اس نے انکار کر دیا اور لعان کیا، تو جب میاں بیوی پشت پھیر کر چل دئیے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید، بچہ سیاہ فام، گھٹے جسم کا پیدا ہو گا“ تو وہ سیاہ، گھٹے جسم والا پیدا ہوا۔
وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الاعلى ، حدثنا هشام ، عن محمد ، قال: سالت انس بن مالك ، وانا ارى ان عنده منه علما، فقال: إن هلال بن امية قذف امراته بشريك ابن سحماء، وكان اخا البراء بن مالك لامه، وكان اول رجل لاعن في الإسلام، قال: فلاعنها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ابصروها، فإن جاءت به ابيض سبطا قضيء العينين، فه ولهلال بن امية، وإن جاءت به اكحل جعدا حمش الساقين، فه ولشريك ابن سحماء "، قال: فانبئت انها جاءت به اكحل جعدا حمش الساقين.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، وَأَنَا أُرَى أَنَّ عِنْدَهُ مِنْهُ عِلْمًا، فَقَالَ: إِنَّ هِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ قَذَفَ امْرَأَتَهُ بِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ، وَكَانَ أَخَا الْبَرَاءِ بْنِ مَالِكٍ لِأُمِّهِ، وَكَانَ أَوَّلَ رَجُلٍ لَاعَنَ فِي الْإِسْلَامِ، قَالَ: فَلَاعَنَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبْصِرُوهَا، فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَبْيَضَ سَبِطًا قَضِيءَ الْعَيْنَيْنِ، فَهُ وَلِهِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ جَعْدًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ، فَهُ وَلِشَرِيكِ ابْنِ سَحْمَاءَ "، قَالَ: فَأُنْبِئْتُ أَنَّهَا جَاءَتْ بِهِ أَكْحَلَ جَعْدًا حَمْشَ السَّاقَيْنِ.
3757. محمد (بن سیرین) سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا اور میرا خیال تھا کہ ان کو اس کے بارے میں علم ہے، انہوں نے کہا: ہلال بن اُمیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ (ملوث ہونے کا) الزام لگایا۔ وہ (شریک) ماں کی طرف سے براء بن مالک رضی اللہ عنہ کا بھائی تھا اور وہ (ہلال رضی اللہ عنہ) پہلا آدمی تھا جس نے اسلام میں لعان کیا، کہا: اس نے عورت سے لعان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اس (عورت) پر نگاہ رکھنا، اگر تو اس نے سفید رنگ کے، سیدھے بالوں اور بیمار آنکھوں والے بچے کو جنم دیا تو وہ ہلال بن امیہ کا ہو گا اور اگر اس نے سرمئی آنکھوں، گھنگھریالے بالوں اور باریک پنڈلیوں والے بچے کو جنم دیا تو وہ شریک بن سحماء کا ہو گا۔“(حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: مجھے خبر دی گئی کہ اس عورت نے سرمئی آنکھوں، گھنگھریالے بالوں اور باریک پنڈلیوں والے بچے کو جنم دیا-
محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، کیونکہ میں سمجھتا تھا انہیں اس کا علم ہے، انہوں نے بتایا، ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سحماء کے ساتھ غلط کاری کی تہمت لگائی۔ جو براء بن مالک کا اخیافی (ماں کی طرف سے) بھائی تھا۔ یہ پہلے شخص تھے، جنہوں نے اسلام کے دور میں لعان کیا، اس نے بیوی سے لعان کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس عورت پر نظر رکھنا، اگر اس نے بچہ، سفید اور کھلے بالوں والا اور خراب آنکھوں والا جنا تو وہ ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کا ہے، اور اگر بچہ سرمئی آنکھوں والا، گھنگھریالے بالوں والا، باریک پنڈلیوں والا جنا تو وہ شریک بن سحماء کا ہو گا۔“ تو مجھے بتایا گیا کہ اس نے سرمئی آنکھوں والا، گھنگھریالے بالوں والا اور پتلی پنڈلیوں والا بچہ جنا تھا۔
وحدثنا محمد بن رمح بن المهاجر ، وعيسى بن حماد المصريان، واللفظ لابن رمح، قالا: اخبرنا الليث ، عن يحيي بن سعيد ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن القاسم بن محمد ، عن ابن عباس ، انه قال: ذكر التلاعن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: عاصم بن عدي في ذلك قولا ثم انصرف، فاتاه رجل من قومه يشكو إليه انه وجد مع اهله رجلا، فقال عاصم: ما ابتليت بهذا إلا لقولي، فذهب به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبره بالذي وجد عليه امراته، وكان ذلك الرجل مصفرا قليل اللحم سبط الشعر، وكان الذي ادعى عليه انه وجد عند اهله خدلا آدم كثير اللحم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم بين، فوضعت شبيها بالرجل الذي ذكر زوجها انه وجده عندها، فلاعن رسول الله صلى الله عليه وسلم بينهما "، فقال رجل لابن عباس في المجلس: اهي التي قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لو رجمت احدا بغير بينة رجمت هذه؟ فقال ابن عباس: لا تلك امراة كانت تظهر في الإسلام السوء.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، وَعِيسَى بْنُ حَمَّادٍ الْمِصْرِيَّانِ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ رُمْحٍ، قَالَا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: ذُكِرَ التَّلَاعُنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَاصِمُ بْنُ عَدِيٍّ فِي ذَلِكَ قَوْلًا ثُمَّ انْصَرَفَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ يَشْكُو إِلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَ مَعَ أَهْلِهِ رَجُلًا، فَقَالَ عَاصِمٌ: مَا ابْتُلِيتُ بِهَذَا إِلَّا لِقَوْلِي، فَذَهَبَ بِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ بِالَّذِي وَجَدَ عَلَيْهِ امْرَأَتَهُ، وَكَانَ ذَلِكَ الرَّجُلُ مُصْفَرًّا قَلِيلَ اللَّحْمِ سَبِطَ الشَّعَرِ، وَكَانَ الَّذِي ادَّعَى عَلَيْهِ أَنَّهُ وَجَدَ عِنْدَ أَهْلِهِ خَدْلًا آدَمَ كَثِيرَ اللَّحْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ بَيِّنْ، فَوَضَعَتْ شَبِيهًا بِالرَّجُلِ الَّذِي ذَكَرَ زَوْجُهَا أَنَّهُ وَجَدَهُ عِنْدَهَا، فَلَاعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمَا "، فَقَالَ رَجُلٌ لِابْنِ عَبَّاسٍ فِي الْمَجْلِسِ: أَهِيَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ رَجَمْتُ هَذِهِ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا تِلْكَ امْرَأَةٌ كَانَتْ تُظْهِرُ فِي الْإِسْلَامِ السُّوءَ.
3758. لیث نے ہمیں یحییٰ بن سعید سے خبر دی، انہوں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں لعان کا تذکرہ کیا گیا تو عاصم بن عدی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے بارے میں کوئی بات کہی، پھر وہ چلے گئے، تو ان کے پاس ان کی قوم کا ایک آدمی شکایت لے کر آیا کہ اس نے اپنی بیوی کے پاس کسی مرد کو پایا ہے۔ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں اس مسئلے میں محض اپنی بات کی وجہ سے مبتلا ہوا ہوں، چنانچہ وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور اس نے آپ کو اس آدمی کے بارے میں بتایا جسے اس نے اپنی بیوی کے ساتھ پایا تھا اور وہ (تہمت لگانے والا) آدمی زرد رنگت، کم گوشت اور سیدھے بالوں والا تھا، اور جس کے متعلق اس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے اسے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے وہ بھری پنڈلیوں، گندمی رنگ اور زیادہ گوشت والا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! (معاملہ) واضح فرما۔“ تو اس عورت نے (بعد ازاں جب بچے کو جنم دیا تو) اس آدمی کے مشابہ بچے کو جنم دیا جس کا اس کے خاوند نے ذکر کیا تھا کہ اسے اس نے اپنی بیوی کے پاس پایا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے درمیان لعان کروایا تھا۔ مجلس میں ایک آدمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہسے پوچھا: کیا یہ وہی عورت تھی جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”اگر میں کسی کو بغیر دلیل کے رجم کرتا تو اس عورت کو رجم کرتا“؟ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے جواب دیا: نہیں، وہ عورت اسلام میں (داخل ہو جانے کے باوجود) علانیہ برائی (زنا) کرتی تھی۔ (لیکن مکمل گواہیاں دستیاب نہ ہوتی تھیں-)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لعان کا ذکر چھڑا تو عاصم نے اس کے بارے میں گفتگو کی، پھر مجلس سے چلے گئے۔ تو ان کے پاس ان کی قوم کا ایک آدمی یہ شکایت لے کر آیا کہ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک مرد کو پایا ہے۔ تو عاصم نے کہا، میں اس معاملے سے اپنی بات کی بنا پر دو چار ہوا ہوں۔ تو وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اور آپ کو اس کی بیوی کی صورت حال کی خبر دی، اور وہ آدمی (عویمر) زرد اور دبلا پتلا اور کھلے بالوں والا تھا۔ اور جس آدمی کے بارے میں دعویٰ کیا کہ اسے اپنی بیوی کے ساتھ پایا ہے، وہ بھری پنڈلیوں والا، گندمی رنگ والا اور بہت موٹا تازہ تھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ”اے اللہ! واضح فرما۔“ تو اس نے اس مرد کے مشابہہ بچہ جنا، جس کے بارے میں اس کے خاوند نے بتایا تھا کہ وہ اس عورت کے پاس تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں میں لعان کروایا تو مجلس میں سے ایک آدمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا، کیا اس عورت کے بارے میں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”اگر میں کسی کو گواہوں کے بغیر رجم کرتا، تو اس کو رجم کر دیتا؟“ ابن عباس نے جواب دیا۔ نہیں، وہ ایسی عورت تھی جو مسلمان ہو کر بے حیائی کے کام کرتی تھی۔ یعنی اس کی چال ڈھال اور ہیئیت سے اس کے فاحشہ ہونے کا پتہ چلتا تھا۔ لیکن اس کے بارے میں گواہ موجود نہیں تھے۔
3759. سلیمان بن بلال نے مجھے یحییٰ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے عبدالرحمٰن بن قاسم نے قاسم بن محمد سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو لعان کرنے والوں کا تذکرہ کیا گیا۔۔۔ آگے لیث کی حدیث کے مانند ہے اور انہوں نے ”زیادہ گوشت والا“ کے الفاظ کے بعد یہ اضافہ کیا، کہا: ”بہت زیادہ اور گھنگھریالے بالوں والا-“
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لعان کرنے والوں کا تذکرہ کیا گیا، جیسا کہ اوپر کی حدیث میں گزرا ہے۔ اس حدیث میں کثیر اللحم
3760. عمرو ناقد اور ابن ابی عمر نے ہمیں حدیث بیان کی۔۔ الفاظ عمرو کے ہیں۔۔ دونوں نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے ابوزناد سے، انہوں نے قاسم بن محمد سے روایت کی، انہوں نے کہا: عبداللہ بن شداد نے کہا: ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس دو لعان کرنے والوں کا تذکرہ ہوا تو ابن شداد نے پوچھا: کیا یہی دونوں تھے جن کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”اگر میں کسی کو بغیر دلیل کے رجم کرتا تو اس عورت کو رجم کرتا۔“ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے جواب دیا: نہیں، وہ عورت علانیہ (برائی) کرتی تھی، ابن ابی عمر نے قاسم بن محمد سے بیان کردہ اپنی روایت میں کہا کہ انہوں (قاسم) نے کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے سنا۔
عبداللہ بن شداد بیان کرتے ہیں، ابن عباس ؓ کے سامنے لعان کرنے والوں کا تذکرہ کیا گیا تو ابن شداد نے پوچھا، کیا یہ وہی دو ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”اگر میں کسی کو بغیر گواہوں کے سنگسار کرتا، تو اس عورت کو رجم کرتا۔“ تو ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا، نہیں۔ وہ عورت کھلم کھلا فحش حرکات کرتی تھی۔ ابن ابی عمرو کی روایت میں قاسم بن محمد، براہ راست ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے سماع کی تصریح کرتے ہیں۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني الدراوردي ، عن سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة : ان سعد بن عبادة الانصاري، قال: " يا رسول الله، ارايت الرجل يجد مع امراته رجلا ايقتله؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا، قال سعد: بلى، والذي اكرمك بالحق، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اسمعوا إلى ما يقول سيدكم ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ الْأَنْصَارِيَّ، قَالَ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ الرَّجُلَ يَجِدُ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، قَالَ سَعْدٌ: بَلَى، وَالَّذِي أَكْرَمَكَ بِالْحَقِّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْمَعُوا إِلَى مَا يَقُولُ سَيِّدُكُمْ ".
3761. عبدالعزیز نے ہمیں سہیل سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (صالح) سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اس آدمی کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی (غیر) مرد کو پائے، کیا وہ اسے قتل کر دے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ عزت بخشی، کیوں نہیں! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(لوگو!) جو بات تمہارا سردار کہہ رہا ہو، اس کو سنو۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے اللہ کے رسول! بتائیے ایک آدمی، دوسرے آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ پاتا ہے۔ کیا اس کو قتل کر دے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کیوں نہیں؟ اس ذات کی قسم، جس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر بھیجا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے سردار کی بات سنو، وہ کیا کہتا ہے۔“
3762. امام مالک نے سہیل سے، انہوں نے اپنے والد (صالح) سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں تو کیا چار گواہ لانے تک اسے مہلت دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“(یہ آیتِ لعان اترنے سے پہلے کا فرمان ہے۔)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اے اللہ کے رسول! اگر میں کسی مرد کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھوں تو کیا اسے چار گواہوں کے لانے تک، مہلت دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“