حدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عروة ، عن عائشة : ان رفاعة القرظي طلق امراته، فتزوجها عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن رفاعة طلقها آخر ثلاث تطليقات، بمثل حديث يونس.حدثنا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ : أَنَّ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيَّ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، فَتَزَوَّجَهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الزَّبِيرِ، فَجَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ رِفَاعَةَ طَلَّقَهَا آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ، بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ.
معمر نے ہمیں زہری سے خبر دی، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو عبدالرحمٰن بن زبیر نے اس عورت سے نکاح کر لیا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی: اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )! رفاعہ نے اسے تین طلاقوں میں سے آخری طلاق بھی دے دی ہے۔۔ جس طرح یونس کی حدیث ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو (آخری) طلاق دے دی تو اس سے عبدالرحمٰن بن زبیر نے شادی کر لی، وہ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! رفاعہ نے تین طلاقوں کی آخری طلاق دے دی ہے۔ آ گے مذکورہ بالا روایت ہے۔
ابواسامہ نے ہمیں ہشام سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد (عروہ بن زبیر) سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے بارے میں سوال کیا گیا جس سے کوئی آدمی نکاح کرے، پھر وہ اسے طلاق دے دے، اس کے بعد وہ کسی اور آدمی سے نکاح کر لے اور وہ اس کے ساتھ مباشرت کرنے سے پہلے اسے طلاق دے دے تو کیا وہ عورت اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال (ہو جاتی) ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، حتیٰ کہ وہ (دوسرا خاوند) اس کی لذت چکھ لے
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی عورت کے بارے میں دریافت کیا گیا، جس سے ایک آدمی شادی کرتا ہے۔ پھر اسے طلاق دے دیتا ہے اور وہ دوسرے مرد سے شادی کر لیتی ہے اور وہ اسے اس سے تعلقات قائم کرنے سے پہلے ہی طلاق دے دیتا ہے۔ کیا وہ اپنے پہلے خاوند کے لیے حلال ہے؟ (وہ اس سے نکاح کر سکتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ جب تک وہ اس سے (لطف اندوز نہ ہو لے۔)“
علی بن مسہر نے عبیداللہ بن عمر (بن حفص عمری) سے حدیث بیان کی، انہوں نے قاسم بن محمد سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، اس کے بعد ایک اور آدمی نے اس سے نکاح کیا، پھر اس نے اس کے ساتھ مباشرت کرنے سے پہلے اس عورت کو طلاق دے دی تو اس کے پہلے شوہر نے چاہا کہ اس سے نکاح کر لے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "نہیں، حتیٰ کہ دوسرا (خاوند) اس کی (وہی) لذت چکھ لے جو پہلے نے چکھی
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، تو اس عورت نے ایک اور آدمی نے نکاح کر لیا، پھر اسے تعلقات قائم کرنے سے پہلے ہی طلاق دے دی، تو اس کے پہلے خاوند نے اس سے نکاح کرنا چاہا، اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“ جب تک دوسرا بھی، اس سے پہلے کی طرح لذت حاصل نہ کر لے۔
عبداللہ بن نمیر اور یحییٰ بن سعید نے عبیداللہ سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی، اور عبیداللہ سے روایت کردہ یحییٰ کی حدیث میں ہے: ہمیں قاسم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی
امام صاحب دو اور اساتذہ سے عبیداللہ کی سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
حدثنا يحيى بن يحيى ، وإسحاق بن إبراهيم ، واللفظ ليحيى، قالا: اخبرنا جرير ، عن منصور ، عن سالم ، عن كريب ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو ان احدهم إذا اراد ان ياتي اهله، قال: باسم الله، اللهم جنبنا الشيطان، وجنب الشيطان ما رزقتنا، فإنه إن يقدر بينهما ولد في ذلك لم يضره شيطان ابدا "،حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَإِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى، قَالَا: أَخْبَرَنا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَ أَهْلَهُ، قَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَإِنَّهُ إِنْ يُقَدَّرْ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ لَمْ يَضُرَّهُ شَيْطَانٌ أَبَدًا "،
شعبہ نے ہمیں حدیث بیان کی، نیز ابن نمیر اور عبدالرزاق نے ثوری سے (اور ثوری اور شعبہ) دونوں نے منصور سے جریر کی حدیث کے ہم معنی روایت کی، لیکن شعبہ کی حدیث میں "اللہ کے نام سے" کا ذکر نہیں، اور ثوری سے روایت کردہ عبدالرزاق کی روایت میں "اللہ کے نام سے" (کا جملہ) ہے۔ اور ابن نمیر کی روایت میں ہے: منصور نے کہا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے نام سے
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم میں سے کوئی بیوی سے تعلقات قائم کرتے وقت یہ دعا پڑھ لے، (اللہ کے نام سے، اے اللہ! ہمیں شیطان کے (شر سے) بچا اور ہم کو جو اولاد دے، اس سے بھی شیطان کو دور رکھ، تو اگر اس مباشرت کے نتیجہ میں ان کے لیے بچہ مقدر ہو گا، تو شیطان کبھی اس کا کچھ بگاڑ نہ سکے گا (وہ ہمیشہ شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا۔)“
3534. شعبہ نے ہمیں حدیث بیان کی، نیز ابن نمیر اور عبدالرزاق نے ثوری سے (اور ثوری اور شعبہ) دونوں نے منصور سے جریر کی حدیث کے ہم معنی روایت کی، لیکن شعبہ کی حدیث میں ”اللہ کے نام سے“ کا ذکر نہیں، اور ثوری سے روایت کردہ عبدالرزاق کی روایت میں ”اللہ کے نام سے“(کا جملہ) ہے۔ اور ابن نمیر کی روایت میں ہے: منصور نے کہا: میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا: ”اللہ کے نام سے۔“
امام صاحب اپنے چار اور اساتذہ سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، لیکن شعبہ کی روایت میں بِاسمِ اللہ
سفیان نے ہمیں ابن منکدر سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے، یہود کہا کرتے تھے: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پیچھے کی طرف سے اس کی شرم گاہ میں مجامعت کرے تو بچہ بھینگا (پیدا) ہو گا۔ اس پر (یہ آیت) نازل ہوئی: "تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں، سو اپنی کھیتی میں آؤ جس طرف سے چاہو
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہودی کہتے تھے، اگر مرد اپنی بیوی کے اگلے حصہ، پیچھے سے (آ گے) مباشرت کرے گا تو بچہ بھینگا پیدا ہو گا۔ اس سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی: (تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، تو تم اپنی کھیتی میں جس طرف سے چاہو آؤ۔)(البقرۃ: 223)
ابوحازم نے محمد بن منکدر سے، انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ یہود کہا کرتے تھے: جب عورت کے پیچھے کی طرف سے اس کی شرمگاہ میں مباشرت کی جائے، پھر وہ حاملہ ہو تو اس کا بچہ بھینگا ہو گا۔ کہا: اس پر (یہ آیت) نازل کی گئی: "تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں، سو جس طرف سے چاہو اپنی کھیتی میں آؤ
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ یہودی کہتے تھے کہ جب عورت کی اندام نہانی میں پچھلی جہت (دبر) سے مباشرت کی جائے اور حمل ٹھہر جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہو گا۔ اس پر یہ آیت اتری: (تمہاری بیویاں تمہاری کھیتی ہیں، تم اپنی کھیتی میں جیسے چاہو آؤ۔)
قتیبہ بن سعید نے کہا: ہمیں ابوعوانہ نے حدیث بیان کی۔ عبدالوارث بن عبدالصمد نے کہا: مجھے میرے والد نے میرے داداسے حدیث بیان کی، انہوں نے ایوب سے روایت کی۔ محمد بن مثنیٰ نے کہا: ہمیں عبدالرحمٰن نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں سفیان نے حدیث سنائی۔ عبیداللہ بن سعد، ہارون بن عبداللہ اور ابومعن رقاشی نے کہا: ہمیں وہب بن جریر نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: میں نے نعمان بن راشد سے سنا، وہ زہری سے روایت کر رہے تھے۔ سلیمان بن سعید نے کہا: ہمیں معلیٰ بن اسد نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: ہمیں عبدالعزیز بن مختار نے سہل بن ابی صالح سے حدیث سنائی، ان سب (ابوعوانہ، ایوب، شعبہ، سفیان، زہری اور سہیل بن ابی صالح) نے محمد بن منکدر سے، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث بیان کی، زہری سے روایت کردہ نعمان (بن راشد کی حدیث میں ان کے شاگرد جریر نے) اضافہ کیا: اگر چاہے تو منہ کے بل اور اگر چاہے تو اس کے بغیر (کسی اور ہئیت میں)، لیکن یہ ایک ہی ڈھکنے (کی جگہ، یعنی قُبل) میں ہو
امام صاحب اپنے چھ اساتذہ سے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں نعمان اپنی حدیث میں زہری سے یہ اضافہ بیان کرتے ہیں، اگر چاہے تو بیوی کو الٹا لٹائے، اور چاہے تو کسی اور جہت سے مباشرت کرے (سیدھا الٹا کر، پہلو پر لٹا کر، اکڑوں کر کے) لیکن مباشرت ایک ہی سوراخ (جو کھیتی کا محل ہے) میں ہو گی۔