حماد بن زید، سفیان بن عیینہ، دراوردی اور زائدہ سب نے ابوحازم سے، انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث بیان کی، ان میں سے کچھ راوی دوسروں پر اضافہ کرتے ہیں۔ مگر زائدہ کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ، میں نے اس سے تمہاری شادی کر دی ہے، اس لیے (اب) تم اسے قرآن کی تعلیم دو
مصنف یہی روایت چند اور اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، جو ایک دوسرے سے کم و بیش بیان کرتے ہیں، زائدہ کی روایت میں یہ ہے، ”جاؤ، میں نے اس کی تیرے ساتھ شادی کر دی ہے، اسے قرآن مجید کی تعلیم دو۔“
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ، (ام المومنین) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی بیویوں) کا مہر کتنا (ہوتا) تھا؟ انہوں نے جواب دیا: اپنی بیویوں کے لیے آپ کا مہر بارہ اوقیہ اور ایک نَش تھا۔ (پھر) انہوں نے پوچھا: جانتے ہو نش کیا ہے؟ میں نے عرض کی: نہیں، انہوں نے کہا: آدھا اوقیہ، یہ کل 500 درہم بنتے ہیں اور یہی اپنی بیویوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہر تھا
حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی بیویوں کو) کتنا مہر دیا تھا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر، بارہ اوقیہ اور ایک نش تھا، اور پوچھا، تمہیں نش کے بارے میں علم ہے؟ میں نے عرض کیا، نہیں، انہوں نے بتایا، آدھا اوقیہ کو کہتے ہیں، اس طرح پانچ سو درہم ہو گئے، اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا مہر ہے۔
ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ (کے لباس) پر زرد (زعفران کی خوشبو کا) نشان دیکھا تو فرمایا: "یہ کیا ہے؟" انہوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میں نے سونے کی ایک گٹھلی کے وزن پر ایک عورت سےشادی کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تمہیں برکت دے۔ ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری سے کرو
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے (کپڑوں) پر زرد رنگ کے آثار دیکھے، تو فرمایا: ”یہ کیا ہے؟“ انہوں نے جواب دیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ایک عورت سے کھجور کی گٹھلی کے برابر سونا، کے عوض شادی کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے، ولیمہ کرو، خواہ ایک بکری ہی ہو۔“
وحدثنا محمد بن عبيد الغبري ، حدثنا ابو عوانة ، عن قتادة ، عن انس بن مالك ، ان عبد الرحمن بن عوف تزوج على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم: على وزن نواة من ذهب، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اولم ولو بشاة ".وَحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ ، حدثنا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ تَزَوَّجَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ ".
ابو عوانہ نے ہمیں قتادہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سونے کی گھٹلی کے وزن کے برابر سونے کے عوض نکاح کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: " ولیمہ کرو خواہ ایک بکری سے کرو۔"
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سونے کی گٹھلی کے عوض نکاح کیا تھا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”ولیمہ کرو، خواہ بکری ہی ہو۔“
وکیع نے ہمیں خبر دی، کہا: ہمیں شعبہ نے قتادہ اور حُمید سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سونے کی ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونے کے عوض نکاح کیا اور یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "ولیمہ کرو خواہ ایک بکری سے کرو
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عورت سے سونے کی گٹھلی کے عوض نکاح کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”ولیمہ کرو، خواہ بکری ہی ہو۔“
ابوداود، وہب بن جریر اور شبابہ سب نے شعبہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے حمید سے اسی سند کے ساتھ روایت کی، البتہ وہب کی حدیث میں یوں ہے: " انہوں نے کہا: حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے
امام صاحب یہی روایت مختلف اساتذہ سے نقل کرتے ہیں، لیکن ابن وہب کی روایت میں ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، میں نے ایک عورت سے شادی کی۔
اسحاق بن ابراہیم اور محمد بن قدامہ نے کہا: ہمیں نضر بن شُمَیل نے خبر دی، کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبدالعزیز بن صُہَیب نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے: حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا جبکہ مجھ پر شادی کی بشاشت (خوشی) نمایاں تھی، میں نے عرض کی: میں نے انصار کی ایک عورت سے شادی کی ہے، آپ نے پوچھا: "تم نے اسے کتنا مہر دیا ہے؟" میں نے عرض کی: ایک گٹھلی۔ اور اسحاق کی حدیث میں ہے: سونے کی
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس حال میں دیکھا کہ مجھ پر شادی کی مسرت و شادمانی کے آثار تھے، میں نے عرض کیا، میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”تم نے کتنا مہر مقرر کیا ہے؟“ تو میں نے کہا، ایک گٹھلی، اسحاق کی روایت میں ہے، سونے کی گٹھلی۔
ابوداود نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں شعبہ نے ابوحمزہ سے حدیث بیان کی۔ شعبہ نے کہا: ان کا نام عبدالرحمٰن بن ابی عبداللہ (کیسان) ہے۔ انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے سونے کی گٹھلی کے وزن کے برابر (سونے) کے عوض ایک عورت سے شادی کی
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک عورت سے گٹھلی کے برابر سونے کے عوض شادی کی۔
وحدثنيه محمد بن رافع ، حدثنا وهب ، اخبرنا شعبة ، بهذا الإسناد، غير انه قال: فقال رجل من ولد عبد الرحمن بن عوف: من ذهب.وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا وَهْبٌ ، أَخْبَرَنا شُعْبَةُ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فقَالَ رَجُلٌ مِنْ وَلَدِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ: مِنْ ذَهَبٍ.
وہب نے کہا: ہمیں شعبہ نے اسی سند کے ساتھ یہ حدیث بیان کی، مگر انہوں نے کہا: حضرت عبدالرحم ن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بیٹوں میں سے ایک نے کہا: سونے کی (ایک گٹھلی
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں، لیکن اس میں یہ ہے، سونے سے کا ذکر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بیٹوں میں سے کسی نے کیا۔
حدثني زهير بن حرب ، حدثنا إسماعيل يعني ابن علية ، عن عبد العزيز ، عن انس : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم غزا خيبر، قال: فصلينا عندها صلاة الغداة بغلس، فركب نبي الله صلى الله عليه وسلم، وركب ابو طلحة، وانا رديف ابي طلحة، فاجرى نبي الله صلى الله عليه وسلم في زقاق خيبر وإن ركبتي لتمس فخذ نبي الله صلى الله عليه وسلم، وانحسر الإزار عن فخذ نبي الله صلى الله عليه وسلم، فإني لارى بياض فخذ نبي الله صلى الله عليه وسلم، فلما دخل القرية، قال: " الله اكبر خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين "، قالها ثلاث مرات، قال: وقد خرج القوم إلى اعمالهم، فقالوا: محمد والله، قال عبد العزيز: وقال بعض اصحابنا: محمد والخميس، قال: واصبناها عنوة وجمع السبي فجاءه دحية، فقال: يا رسول الله، اعطني جارية من السبي، فقال: " اذهب فخذ جارية "، فاخذ صفية بنت حيي، فجاء رجل إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا نبي الله، اعطيت دحية صفية بنت حيي سيد قريظة، والنضير، ما تصلح إلا لك، قال: " ادعوه بها "، قال: فجاء بها، فلما نظر إليها النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " خذ جارية من السبي غيرها "، قال: واعتقها وتزوجها، فقال له ثابت: يا ابا حمزة ما اصدقها؟ قال: " نفسها، اعتقها وتزوجها "، حتى إذا كان بالطريق جهزتها له ام سليم، فاهدتها له من الليل، فاصبح النبي صلى الله عليه وسلم عروسا، فقال: " من كان عنده شيء، فليجئ به "، قال: وبسط نطعا، قال: فجعل الرجل يجيء بالاقط، وجعل الرجل يجيء بالتمر، وجعل الرجل يجيء بالسمن، فحاسوا حيسا، فكانت وليمة رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ، قَالَ: فَصَلَّيْنَا عَنْدَهَا صَلَاةَ الْغَدَاةِ بِغَلَسٍ، فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ، وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ، فَأَجْرَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَانْحَسَرَ الْإِزَارُ عَنْ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّي لَأَرَى بَيَاضَ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ، قَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ "، قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، قَالَ: وَقَدْ خَرَجَ الْقَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ، فقَالُوا: مُحَمَّدٌ وَاللَّهِ، قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ: وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسُ، قَالَ: وَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً وَجُمِعَ السَّبْيُ فَجَاءَهُ دِحْيَةُ، فقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ، فقَالَ: " اذْهَبْ فَخُذْ جَارِيَةً "، فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدِ قُرَيْظَةَ، وَالنَّضِيرِ، مَا تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ، قَالَ: " ادْعُوهُ بِهَا "، قَالَ: فَجَاءَ بِهَا، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ غَيْرَهَا "، قَالَ: وَأَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا، فقَالَ لَهُ ثَابِتٌ: يَا أَبَا حَمْزَةَ مَا أَصْدَقَهَا؟ قَالَ: " نَفْسَهَا، أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا "، حَتَّى إِذَا كَانَ بِالطَّرِيقِ جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ، فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَأَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا، فقَالَ: " مَنْ كَانَ عَنْدَهُ شَيْءٌ، فَلْيَجِئْ بِهِ "، قَالَ: وَبَسَطَ نِطَعًا، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالْأَقِطِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالتَّمْرِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالسَّمْنِ، فَحَاسُوا حَيْسًا، فَكَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
3497. اسماعیل بن علیہ نے ہمیں عبدالعزیز سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی جنگ لڑی۔ کہا: ہم نے اس کے قریب ہی صبح کی نماز ادا کی، اس کے بعد اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے او ابوطلحہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوار ہوئے، میں ابوطلحہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پچھلی طرف سوار تھا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے (اس کی طرف جانے والے) تنگ راستوں میں سواری کو تیز چلایا، میرا گھٹنا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کو چھو رہا تھا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے تہبند ہٹ گیا اور میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی کو دیکھ رہا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستی میں داخل ہوئے تو فرمایا: ”اللہ سب سے بڑا ہے۔ خیبر اُجڑ گیا۔ بےشک ہم کسی قوم کے میدان میں اُترتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جن کو ڈرایا گیا تھا۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات تین مرتبہ ارشاد فرمائے۔ کہا: لوگ اپنے کاموں کے لیے نکل چکے تھے۔ انہوں نے (یہ منظر دیکھا تو) کہا: اللہ کی قسم یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ عبدالعزیز نے کہا: (حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بھی بتایا کہ) ہمارے بعض ساتھیوں نے بتایا: (ان میں سے بعض نے یہ بھی کہا:) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور لشکر ہے۔ (انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: ہم نے خیبر کو بزور قوت حاصل کیا۔ قیدیوں کو اکٹھا کر لیا گیا تو حضرت دِحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے صلی اللہ علیہ وسلم پاس آئے اور عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے قیدیوں میں سے ایک لونڈی عطا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا کر ایک لونڈی لے لو“ تو انہوں نے صفیہ بنت حُیی کو لے لیا۔ اس پر ایک آدمی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کو صفیہ بنت حُیی عنایت کر دی ہے جو بنو قریظہ اور بنو نضیر کی شہزادی ہے؟ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کسی کے شایانِ شان نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں اس (لڑکی) سمیت بلا لاؤ۔“ وہ اسے لے کر حاضر ہوئے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو دیکھا تو فرمایا: ”قیدیوں میں سے اس کے سوا کوئی اور لونڈی لے لو۔“(آگے آئے گا کہ اپنی مرضی کی اور لونڈی کے علاوہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے اسے مزید کنیزیں بھی عطا فرمائیں، حدیث 3500) کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کیا اور ان سے شادی کر لی۔ (حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک اور شاگرد) ثابت نے ان سے کہا: ابوحمزہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کیا مہر دیا تھا؟ انہوں نے کہا: خود ان کو (انہیں دیا تھا،) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کیا (انہیں اپنی جان کا مالک بنایا) اور (اس کے عوض) ان سے نکاح کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (واپسی پر ابھی) راستے میں تھے تو ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کیا اور رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دلہے کی حیثیت سے صبح کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے ساتھیوں سے) فرمایا: ”جس کے پاس (کھانے کی) کوئی چیز ہو تو وہ اسے لے آئے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کا دسترخوان بچھوا دیا۔ کہا: تو کوئی آدمی پنیر لے کر آنے لگا، کوئی کھجور لے کر آنے لگا اور کوئی گھی لے کر آنے لگا۔ پھر لوگوں نے (کھجور، پنیر اور گھی کو) اچھی طرح ملا کر حلوہ تیار کیا۔ اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کا قصد کیا اور ہم نے اس کے قریب صبح کی نماز اندھیرے میں پڑھی، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابو طلحہ بھی سوار ہوئے اور میں ابو طلحہ کے پیچھے سوار تھا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی سواری) خیبر کی گلیوں میں دوڑا دی (اور ہم نے بھی اپنی سواریاں دوڑائیں) اور میرا گھٹنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھو رہا تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے تہبند کھسک گئی یا سرک گئی تو مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی نظر آنے لگی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستی میں داخل ہو گئے تو آپ نے فرمایا: "اللہ اکبر! خیبر تباہ و برباد ہو یا خیبر ویران ہو گیا ہم جب کسی قوم کے آنگن یا چوک میں اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے۔” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات تین دفعہ فرمائے، اور لوگ اپنے کام کاج کے لیے نکل چکے تھے۔ اس لیے انہوں نے کہا: محمد، اللہ کی قسم! عبدالعزیز کی روایت میں ہے، ہمارے بعض ساتھیوں نے یہ الفاظ بیان کیے۔ محمد لشکر کے ساتھ آ گیا، اور ہم نے خیبر کو طاقت اور زورِ بازو سے فتح کیا، اور قیدیوں کو یکجا اکٹھا کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت دحیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے اور عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے قیدیوں میں سے ایک لونڈی عنایت فرمائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور ایک باندی لے لو۔“ تو انہوں نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو لے لیا۔ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آ کر کہنے لگا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دحیہ کو قریظہ اور بنو نضیر کی آقا صفیہ بنت حیی عنایت کر دی ہے؟ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایان شان تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے اس سمیت بلاؤ۔“ تو وہ اس کو لے کر حاضر ہوا تو جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نظر ڈالی فرمایا: ”قیدیوں میں سے اس کے سوا کوئی اور لونڈی لے لو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد کر کے اس سے شادی کر لی، حضرت ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، اے ابو حمزہ! (حضرت انس کی کنیت ہے) اس کو مہر کیا دیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا، اس کا نفس، اس کو آزاد کیا اور اس سے شادی کر لی، حتی کہ جب (واپسی پر) راستہ میں ہی تھے، تو حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں تیار کر کے رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو نوشہ (دولہا) بن چکے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے پاس کچھ ہو وہ لے آئے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چمڑے کا دسترخوان بچھا دیا، تو کوئی آدمی پنیر لا رہا ہے اور کوئی آدمی کھجور لا رہا ہے اور کوئی گھی لا رہا ہے۔ ان سے صحابہ کرام نے مالیدہ تیار کیا، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔