حاتم، یعنی ابن اسماعیل نے ہمیں عمر بن نبیہ سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے دینار قراظ نے خبر دی، انھوں نے کہا: میں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اہل مدینہ کے ساتھ برائی کاارادہ کیا اللہ تعالیٰ اسے اس طرح پگھلا دے گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اہل مدینہ سے برائی کا ارادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح پگھلا دے گا، جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔“
اسماعیل بن جعفر نے ہمیں عمر بن نبیہ کعبی سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو عبداللہ قراظ سے روایت کی کہ انھوں نے سعد بن مالک رضی اللہ عنہ سےسنا وہ کہہ رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آگے) اسی کے مانند ہے، البتہ انھوں نے کہا: " بڑی مصیبت یا برائی (میں مبتلا کرنے) کا ارادہ کیا۔"
حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا روایت ایک اور استاد سے بیان ہے، جس میں ہے،: ”کسی ناگوار اور گھناؤنی یا برائی کا۔“
اسامہ بن زید نے ہمیں ابو عبداللہ قراظ سے حدیث بیان کی، (اسامہ نے) کہا: میں نے ان سے سنا، کہہ رہے تھے: میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور سعد رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ دونوں کہہ رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! اہل مدینہ کے لیے ان کے مد میں برکت عطا فرما۔"آگے (اسی طرح) حدیث بیان کی اور اس میں ہے: "جس نے اس کے باشندوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا، اللہ تعالیٰ اسے اس طرح پگھلا دے گا جس طرح پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ اور سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! اہل مدینہ کے مد میں برکت ڈال دے، حدیث بیان کی، جس میں ہے، ”جو اس کے باشندوں سے برائی کا ارادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح پگھلا دے گا، جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے“(حل ہو جاتا ہے)۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عبد الله بن الزبير ، عن سفيان بن ابي زهير ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تفتح الشام، فيخرج من المدينة قوم باهليهم يبسون والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون، ثم تفتح اليمن، فيخرج من المدينة قوم باهليهم يبسون والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون، ثم تفتح العراق، فيخرج من المدينة قوم باهليهم يبسون والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون ".حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا وَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تُفْتَحُ الشَّامُ، فَيَخْرُجُ مِنَ الْمَدِينَةِ قَوْمٌ بِأَهْلِيهِمْ يَبُسُّونَ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، ثُمَّ تُفْتَحُ الْيَمَنُ، فَيَخْرُجُ مِنَ الْمَدِينَةِ قَوْمٌ بِأَهْلِيهِمْ يَبُسُّونَ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، ثُمَّ تُفْتَحُ الْعِرَاقُ، فَيَخْرُجُ مِنَ الْمَدِينَةِ قَوْمٌ بِأَهْلِيهِمْ يَبُسُّونَ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ".
وکیع نے ہمیں ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شام فتح کرلیا جائے گا تو کچھ لوگ انتہائی تیزی سے اونٹ ہانکتے ہوئے اپنے اہل وعیال سمیت مدینہ سے نکل جائیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے ہوں۔پھر یمن فتح ہوگا تو کچھ لوگ تیز رفتاری سے اونٹ ہانکتے ہوئے اپنے اہل وعیال سمیت مدینہ سے نکل جائیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے ہوں، پھر عراق فتح ہوگا تو کچھ تیزی سے اونٹ ہانکتے ہوئے اپنے اہل وعیال سمیت مدینہ سے نکل جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہوگا اگر وہ جانتے ہوں۔"
حضرت سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شام فتح ہو گا، تو مدینہ سے کچھ لوگ اپنے اہل و عیال کو لے کر اپنی سواریوں کو ہانکتے ہوئے نکلیں گے، حالانکہ مدینہ میں ان کے لیے رہنا بہتر ہو گا، اے کاش! وہ اس کو جانتے، پھر یمن فتح ہو گا، تو کچھ لوگ مدینہ سے اپنے متعلقین کو لے کر اپنی سواریوں کو ہانکتے ہوئے نکلیں گے، درآں حالیکہ مدینہ ان کے حق میں بہتر ہو گا، کاش وہ اس حقیقت کو جانتے، پھر عراق فتح ہو گا، تو کچھ لوگ اپنے اہل کو لے کر، سواریوں کو ہانکتے نکلیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہو گا، کاش وہ سمجھتے۔“
ہمیں ابن جریج نے خبر دی، (کہا:) مجھے ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے خبر دی، انھوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے انھوں نے سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: سیدنا سفیان بن ابی زہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ یمن فتح ہو گا تو کچھ لوگ مدینہ سے اپنے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اپنے گھر والوں اور خدام کے ساتھ نکلیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہو گا، کاش وہ جانتے ہوتے۔ پھر شام فتح ہو گا اور مدینہ کی ایک قوم اپنے گھر والوں اور خدام کے ساتھ، اونٹوں کو ہانکتے ہوئے نکلے گی اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہو گا، کاش وہ جانتے۔ پھر عراق فتح ہو گا اور مدینہ کی ایک قوم اپنے گھر والوں اور خدام کے ساتھ اپنے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے نکلے گی حالانکہ مدینہ ان کے حق میں بہتر ہو گا، کاش وہ جانتے۔
حضرت سفیان بن ابی زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”یمن فتح کیا جائے گا تو کچھ لوگ سواریوں کو ہانکتے ہوئے آئیں گے، اور اپنے اہل و عیال اور اپنے فرمانبردار لوگوں کو سوار کر کے لے جائیں گے، حالانکہ مدینہ ان کے حق میں بہتر ہو گا، کاش وہ (اس کی خوبیوں اور برکات) کو جانتے پھر شام فتح کیا جائے گا، تو کچھ لوگ اس علاقہ کو مزیّن اور محبوب ٹھہراتے ہوئے لوگوں کو چلنے کی دعوت دیں گے، اور اپنے اہل اور اطاعت گزار لوگوں کو سوار کر کے لے جائیں گے، حالانکہ مدینہ کی رہائش ان کے حق میں بہتر ہو گی، کاش وہ سمجھتے، پھر عراق مفتوح ہو گا، کچھ لوگ اس کی سرسبز و شادابی کی دعوت دیں گے، اور اپنے متعلقین اور اطاعت کیشوں کو سوار کر کے لے جائیں گے، حالانکہ مدینہ کی اقامت ان کے لیے بہتر ہو گی، کاش وہ اس کا ادراک کر سکتے۔“
ابو صفوان اور ابن وہب نے یونس بن یزید سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے سعید بن مسیب سے روایت کی کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے بارے میں فرمایا: "اس کے رہنے والے اس کے بہترین حالت میں ہونے کے باوجود، اسے اس حالت میں چھوڑ دیں گے کہ وہ خوراک کے متلاشیوں کے قدموں کے نیچے روندا جارہا ہوگا۔"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد درندوں اور پرندوں سے تھی۔ امام مسلمؒ نے کہا: یہ ابو صفوان، عبداللہ بن عبدالملک ہے، دس سال تک ابن جریج کا (پروردہ) یتیم، جو ان کی گود میں تھا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے بارے میں فرمایا: ”اس کے باشندے یقینا اسے اس کی بہترین حالت میں رزق کے متلاشیوں کی ماتحتی میں چھوڑ جائیں گے،“ رزق کے متلاشیوں سے مراد درندے اور پرندے ہیں، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، ابو صفوان عبداللہ بن عبدالملک یتیم تھا، اور اس نے دس سال ابن جریج کی گود میں پرورش پائی۔
وحدثني عبد الملك بن شعيب بن الليث ، حدثني ابي ، عن جدي ، حدثني عقيل بن خالد ، عن ابن شهاب ، انه قال: اخبرني سعيد بن المسيب ، ان ابا هريرة ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " يتركون المدينة على خير ما كانت، لا يغشاها إلا العوافي يريد: عوافي السباع والطير، ثم يخرج راعيان من مزينة يريدان المدينة، ينعقان بغنمهما، فيجدانها وحشا حتى إذا بلغا ثنية الوداع خرا على وجوههما ".وحَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يَتْرُكُونَ الْمَدِينَةَ عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ، لَا يَغْشَاهَا إِلَّا الْعَوَافِي يُرِيدُ: عَوَافِيَ السِّبَاعِ وَالطَّيْرِ، ثُمَّ يَخْرُجُ رَاعِيَانِ مِنْ مُزَيْنَةَ يُرِيدَانِ الْمَدِينَةَ، يَنْعِقَانِ بِغَنَمِهِمَا، فَيَجِدَانِهَا وَحْشًا حَتَّى إِذَا بَلَغَا ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ خَرَّا عَلَى وُجُوهِهِمَا ".
عقیل بن خالد نے مجھے ابن شہاب سے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ لوگ مدینہ کو اس کے خیر ہونے کے باوجود چھوڑ دیں گے اور اس میں کوئی نہ رہے گا سوائے درندوں اور پرندوں کے۔ پھر قبیلہ مزینہ سے دو چرواہے اپنی بکریوں کو پکارتے ہوئے مدینہ (جانے) کا ارادہ کرتے ہوئے نکلیں گے اور وہ مدینہ کو ویران پائیں گے یہاں تک کہ جب ثنیۃ الوداع تک پہنچیں گے تو اپنے منہ کے بل گر پڑیں گے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی الله تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”لوگ مدینہ کو اس کی بہترین حالت میں چھوڑ جائیں گے، اس میں صرف عوافی ٹھہریں گے، عوافی سے مراد درندے اور پرندے ہیں، پھر مزینہ قبیلے کے دو چرواہے مدینہ جانے کے ارادے سے نکلیں گے، اپنی بکریوں کو آواز دیں گے، اور اسے وحشیوں کی زمین پائیں گے، جب ثنیۃ الوداع تک پہنچیں گے، تو اپنے منہ کے بل گر پڑیں گے۔“ اور یہ معنی بھی ہو سکتا ہے کہ وہ بکریوں کو وحشی پائیں گے، کیونکہ وہ مدینہ تو پہنچ ہی نہیں سکیں گے۔
92. بَابُ فَصْلِ مَا بَيْنَ قَبْرِهِ صلى الله عليه وسلم وَ مِنْبَرِهِ وَفَصْلِ مَوْضِعِ مِنْبَرِهِ
92. باب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کی درمیانی جگہ (ریاض الجنۃ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منبر والی جگہ کی فضیلت۔
Chapter: The virtue of the area between the prophet's grave and his Minbar, and the virtue of the spot where his minbar is
عبد اللہ بن ابوبکر نے عباد بن تمیم سے انھوں نے عبد اللہ بن زید (بن عاصم) مازنی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو (جگہ) میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان ہے، وہ جنت کے باغوں میں ایک سے باغ ہے۔
حضرت عبداللہ بن زید مازنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے گھر اور میرے منبر کی درمیان جگہ جنت کے چمنوں میں سے ایک چمن ہے۔“
ابو بکر نے ے عباد تمیم سے انھوں نے عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: "جو (جگہ) میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان ہے، وہ جنت کے باغوں میں سےایک باغ ہے۔
حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”میرے گھر اور منبر کا درمیانی علاقہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔“
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان (کی جگہ) جنت کے باغوں میں سےایک باغ ہے۔اور میرا منبر حوض پر ہے۔ فائدہ: منبر کا اصل مقام حوض پر ہے اور قیامت کے دن اسی پر ہو گا۔ یا اب بھی اسی کے اوپر ہی ہے لیکن فا صلے سمیت اس جہت کا ابھی ہمیں ادراک نہیں ہو سکتا۔واللہ اعلم بالصواب۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔“