اسماعیل بن جعفر سے روایت ہے۔ (کہا:) علاء نے ا پنے والد سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ر وایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مشرق کی جانب سے مسیح دجال آئےگا، اس کا ارادہ مدینہ (میں داخلے کا) ہوگا یہاں تک کہ وہ احد پہاڑ کے پیچھے اترے گا، پھر فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہیں وہ ہلاک ہوجائے گا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسیح (دجال) مدینہ کا عزم کر کے آئے گا یہاں تک کہ اُحد کے پیچھے اترے گا، پھر فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہیں ہلاک ہو گا۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني الدراوردي ، عن العلاء ، عن ابيه ، عن ابي هريرة : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ياتي على الناس زمان يدعو الرجل ابن عمه، وقريبه هلم إلى الرخاء هلم إلى الرخاء والمدينة خير لهم لو كانوا يعلمون، والذي نفسي بيده، لا يخرج منهم احد رغبة عنها، إلا اخلف الله فيها خيرا منه، الا إن المدينة كالكير تخرج الخبيث لا تقوم الساعة حتى تنفي المدينة شرارها، كما ينفي الكير خبث الحديد ".حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنِ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَدْعُو الرَّجُلُ ابْنَ عَمِّهِ، وَقَرِيبَهُ هَلُمَّ إِلَى الرَّخَاءِ هَلُمَّ إِلَى الرَّخَاءِ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَخْرُجُ مِنْهُمْ أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا، إِلَّا أَخْلَفَ اللَّهُ فِيهَا خَيْرًا مِنْهُ، أَلَا إِنَّ الْمَدِينَةَ كَالْكِيرِ تُخْرِجُ الْخَبِيثَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَنْفِيَ الْمَدِينَةُ شِرَارَهَا، كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ ".
۔ ہمیں عبدالعزیز یعنی دراوردی نے حدیث بیان کی، انھوں نےعلاء سے انھوں نے ا پنے والد سے اور انھوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک وقت لوگوں پر ایسا آئے گا کہ آدمی اپنے بھتیجے اور اپنے قرابت والے کو پکارے گا کہ خوشحالی کے ملک میں خوشحالی کے ملک میں چلو، حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر ہو گا کاش کہ وہ جانتے ہوتے۔ اور قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی شخص مدینہ سے بیزار ہو کر نہیں نکلتا مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر دوسرا شخص مدینہ میں بھیج دیتا ہے۔ آگاہ رہو کہ مدینہ لوہار کی بھٹی کی مانند ہے کہ وہ میل کو نکال دیتا ہے اور قیامت قائم نہ ہو گی جب تک کہ مدینہ اپنے شریر لوگوں کو نکال نہ دے گا جیسے کہ بھٹی لوہے کی میل کو نکال دیتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا آدمی اپنے چچا زاد اور قریبی کو دعوت دے گا، سہولت و آسائش کی طرف سہولت و آسائش کی طرف آ، حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہو گا اگر وہ علم رکھتے ہوں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ان میں کوئی ایک اس سے بے رغبتی کرتے ہوئے نکلے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے بہتر جانشین پیدا کرے گا، خبردار مدینہ بھٹی کی طرح ہے یا دھونکی کی طرح ہے جو ردی، نکمے کو نکال دے گا۔ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی حتی کہ مدینہ اپنے بروں کو نکال دے گا جس طرح بھٹی لوہے کی میل کچیل نکال دیتی ہے۔“
امام مالک بن انس نے یحییٰ بن سعید سے روایت کی، انھوں نے کہا، میں نے ابو حباب سعید بن یسار سے سنا، وہ کہہ رہے تھے، میں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے ایک بستی (کی طرف ہجرت کرنے جانے) کا حکم دیا گیا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (سب پر غالب آجائےگی) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں، وہ مدینہ ہے، وہ (شریر) لوگوں کو نکال دے گی جیسے بھٹی لوہےکے میل کو باہر نکال دیتی ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے ایسی بستی کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اس کو یثرب کا نام دیتے ہیں، حالانکہ وہ مدینہ ہے، وہ لوگوں کو اس طرح ممتاز کر دیتا ہے، جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو الگ کر دیتی ہے۔“
سفیان اورعبدالوہاب دونوں نے یحییٰ بن سعید سے اسی سند کے ساتھ روایت کی اور دونوں نے کہا: "جیسے بھٹی میل کو نکال دیتی ہے"ان دونوں نے لوہے کا ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب اپنے تین اور اساتذہ سے یہی روایت نقل کرتے ہیں، لیکن اس میں (خبث) میل کچیل کے بعد الحديد (لوہا) کا ذکر نہیں ہے۔
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن محمد بن المنكدر ، عن جابر بن عبد الله : ان اعرابيا بايع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاصاب الاعرابي وعك بالمدينة، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا محمد، اقلني بيعتي، فابى رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم جاءه، فقال: اقلني بيعتي فابى، ثم جاءه، فقال: اقلني بيعتي، فابى فخرج الاعرابي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنما المدينة كالكير تنفي خبثها، وينصع طيبها ".حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ : أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَصَابَ الْأَعْرَابِيَّ وَعْكٌ بِالْمَدِينَةِ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَقِلْنِي بَيْعَتِي، فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَهُ، فقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى، ثُمَّ جَاءَهُ، فقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي، فَأَبَى فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا، وَيَنْصَعُ طَيِّبُهَا ".
حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ایک بدو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔اس کے بعد اس بدو کے مدینے میں بخار نے آلیا، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور کہنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !مجھے میری بیعت واپس کردیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمادیا۔پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا۔مجھے میری بیعت واپس کردیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ انکار کردیا، پھر وہ (تیسری بار) آیا، اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے میری بیعت واپس کردیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر) انکار فرمایا۔اس کے بعد اعرابی نکل گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مدینہ بھٹی کی طرح ہے، وہ اپنے میل (برے لوگوں) کو باہر نکال دیتاہے اور یہاں کا پاکیزہ (خالص ایمان والا) نکھر جاتا ہے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بدو (جنگلی) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، تو اسے مدینہ میں شدید بخار چڑھ گیا، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! میری بیعت واپس کرو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا، پھر وہ دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا، میری بیعت واپس کر دو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا، تیسری دفعہ حاضر ہو کر پھر کہنے لگا، میری بیعت واپس کر دو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انکار کر دیا، تو بدو چلا گیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ تو بس بھٹی کی طرح ہے، میل کچیل اور گندگی کو الگ کر دیتا ہے، اور پاک چیز کو خالص اور ممتاز کر دیتا ہے۔“
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلا شبہ یہ طیبہ (پاک) ہے،۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مدینہ سے تھی۔یہ میل کچیل کو اس طرح دور کردیتا ہے جیسےآگ چاندی کے میل کچیل کو نکال دیتی ہے۔"
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ طابہ ہے، اور یہ گندگی اور پلیدی کو الگ کر دیتا ہے، جس طرح آگ چاندی کی میل کچیل کو علیحدہ کر دیتی ہے۔“
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئےسنا، "بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام"طابہ" رکھا ہے۔"
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام ”طابہ“
عبداللہ بن عبدالرحمان بن یحس نےمجھے ابو عبداللہ قراظ سے خبر دی، انھوں نے کہا: میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں گواہ دیتا ہوں کہ انھوں نےکہا: کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اس شہر (یعنی مدینہ) والوں کی برائی کا ارادہ کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسا گھلا دیتا ہے جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔
ابو عبداللہ قراظ کہتے ہیں، میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں شہادت سے کہتا ہوں، کہ انہوں نے کہا، ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اس شہر یعنی مدینہ کے باشندوں سے برائی کا ارادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح پگھلا دے گا، جس طرح پانی میں نمک گھل جاتا ہے۔“
محمد بن حاتم اور ابراہیم بن دینار نے مجھے حدیث بیان کی، دونوں نے کہا، ہم سے حجاج نے حدیث بیا ن کی، نیز محمد بن رافع نے مجھے حدیث بیا ن کی، (کہا:) ہمیں عبدالرزاق نے حدیث سنائی، انھوں (حجاج اورعبدالرزاق) نے ابن جریج سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے عمرو بن یحییٰ بن عمارہ نے خبر دی کہ انھوں نے (ابو عبداللہ) قراظ سے سنا اور وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں (شاگردوں) میں سے تھے، وہ یقین سے کہتے تھے کہ انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے اس کے باشندوں کے ساتھ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مدینہ سے تھی۔برائی کا ارادہ کیا۔اللہ اسے اس طرح پگھلا دے گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔" ابن حاتم نے ابن یحس کی حدیث میں سوء (برائی) کی جگہ شر (نقصان) کا لفظ بیان کیا۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ سے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اہل مدینہ سے برائی کا ارادہ کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اس طرح پگھلا دے گا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔“ ابن حاتم کہتے ہیں‘ ابن یحنّس کی روایت میں ”سوء“ کی جگہ ”شر“ کا لفظ ہے۔
ابو ہارون موسیٰ بن ابی عیسیٰ اورمحمد بن عمرو دونوں نے ابو عبداللہ قراظ سے سنا، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانند روایت کرتے ہوئے سنا۔
امام صاحب، اپنے مختلف اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت ایک اور سند سے بیان کرتے ہیں۔