وکیع نے ہمیں مساوروراق سے خبردی، انھوں نے جعفر بن عمرو بن حریث سے انھوں نے اپنے والد (عمرہ بن حریث بن عمرو مخزومی رضی اللہ عنہ) سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا جبکہ آپ (کے سر مبارک) پر سیاہ عمامہ تھا۔
جعفر بن عمرو بن حریث اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس حال میں خطاب فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔
ابو بکر بن ابی شیبہ اور حسن حلوانی نے ہمیں حدیث بیان کی دونوں نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے مساور وراق سے حدیث بیان کی۔کہا: مجھے حدیث بیان کی (جعفر بن عمرو نے) اور حلوانی کی روایت میں ہے کہا: میں نے جعفر بن عمرو بن حریث سے سنا۔۔۔انھوں نے اپنے والد (عمرہ بن حریث رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انھوں نے کہا: جیسے میں (اب بھی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھ رہا ہوں، آپ (کے سر مبارک) پر سیاہ عمامہ ہے آپ نے اس کے دونوں کناروں کو اپنے دونوں کندھوں کے درمیا ن لٹکا یا ہوا ہے ابو بکر (بن ابی شیبہ) نے "منبرپر" کے الفاظ نہیں کہے۔
حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، گویا کہ میں اپنی آنکھوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر اس حال میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے (سر پر) سیاہ عمامہ ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دونوں کنارے اپنے دونوں کندھوں کے درمیان لٹکائے ہوئے ہیں، ابوبکر کی روایت میں منبر کا ذکر نہیں ہے۔
85. باب: مدینہ منورہ کی فضیلت اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت کی دعا اور اس کی حرمت اور اس کے شکار، اور درخت کاٹنے کی حرمت، اور اس کے حدود حرم کا بیان۔
Chapter: The virtue of Al-Madinah and the Prophet's Prayer for it to be blessed. Its sanctity and the sanctity of its game and trees. The Boundaries of its sanctuary
عبد العزیز یعنی محمد دراوردی کے بیٹے نے عمرو بن یحییٰ مازنی سے حدیث بیان کی انھوں نے عباد بن تمیم سے انھوں نے اپنے چچا عبد اللہ بن زید عاصم رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " بلا شبہ ابرا ہیم ؑنے مکہ کو حرم قرار دیا اور اس کے رہنے والوں کے لیے دعا کی اور میں نے مدینہ کو حرم قرار دیا جیسے ابرا ہیم ؑ نے مکہ کو حرم قراردیا تھا اور میں نے اس کے صاع اور مد میں سے دگنی (بر کت) کی دعا کی جتنی ابرا ہیم ؑنے اہل مکہ کے لیے کی تھی۔
حضرت عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی حرمت کی تشہیر کی اور اس کے باشندوں کے حق میں دعا فرمائی، اور میں مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں، جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا تھا، اور میں اس کے صاع اور مد کے بارے میں اس سے دگنی دعا کرتا ہوں، جتنی ابراہیم علیہ السلام نے اہل مکہ کے لیے کی تھی۔
عبدالعزیز یعنی ابن مختار سلیمان بن بلال اور وہیب (بن خالد باہلی) سب نے عمرو بن یحییٰ مازنی سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی وہیب کی حدیث درااوردی کی حدیث کی طرح ہے: " اس سے دگنی (بر کت) کی جتنی بر کت کی برا ہیمؑ نے دعا کی تھی "جبکہ سلیمان بن بلال اور عبد العزیز بن مختار دونوں کی روایت میں ہے "جتنی (برکت کی) ابرا ہیمؑ نے دعا کی تھی۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت کئی دوسرے اساتذہ سے کرتے ہیں، وہیب کی روایت میں دراوردی کی روایت کی طرح، ابراہیم علیہ السلام سے دگنی دعا کا ذکر ہے، لیکن سلیمان بن بلال اور عبدالعزیز بن مختار کی روایت میں ہے، جیسی ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی۔
عبد اللہ بن عمرو بن عثمان نے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلا شبہ حضرت ابرا ہیم ؑ نے مکہ کو حرم ٹھہرا یا اور میں اس (شہر) کی دونوں سیاہ پتھر زمینوں کے درمیان میں واقع حصے کو حرم قرار دیتا ہوں۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مدینہ تھا۔۔۔
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(حضرت ابراہیم علیہ السلام) نے مکہ کو حرم ٹھہرایا اور میں مدینہ کے دونوں سیاہ پتھریلی زمینوں کے درمیان والے علاقے کو حرم قرار دیتا ہوں۔“
وحدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا سليمان بن بلال ، عن عتبة بن مسلم ، عن نافع بن جبير : ان مروان بن الحكم خطب الناس، فذكر مكة، واهلها وحرمتها، ولم يذكر المدينة، واهلها وحرمتها، فناداه رافع بن خديج ، فقال: " ما لي اسمعك ذكرت مكة، واهلها وحرمتها، ولم تذكر المدينة، واهلها وحرمتها، وقد حرم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بين لابتيها "، وذلك عندنا في اديم خولاني إن شئت اقراتكه، قال: فسكت مروان، ثم قال: قد سمعت بعض ذلك.وحدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعَنْبٍ ، حدثنا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ : أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ خَطَبَ النَّاسَ، فَذَكَرَ مَكَّةَ، وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا، وَلَمْ يَذْكُرِ الْمَدِينَةَ، وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا، فَنَادَاهُ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ ، فقَالَ: " مَا لِي أَسْمَعُكَ ذَكَرْتَ مَكَّةَ، وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا، وَلَمْ تَذْكُرِ الْمَدِينَةَ، وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا، وَقَدْ حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا "، وَذَلِكَ عَنْدَنَا فِي أَدِيمٍ خَوْلَانِيٍّ إِنْ شِئْتَ أَقْرَأْتُكَهُ، قَالَ: فَسَكَتَ مَرْوَانُ، ثُمَّ قَالَ: قَدْ سَمِعْتُ بَعْضَ ذَلِكَ.
نافع بن جبیر سے روایت ہے کہ مروان بن حکم نے لوگون کو خطا ب کیا، اس نے مکہ کے باشبدوں اور اس کی حرمت کا تذکرہ کیا اور مدینہ اس کے باشندوں اور اس کی حرمت کا تذکرہ نہ کیاتو رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے اس کو مخا طب کیا اور کہا: کیا ہوا ہے؟ میں سن رہا ہوں کہ تم نے مکہ اس کے باشندوں اور اس کی حرمت کا تذکرہ کیا لیکن مدینہ اس کے باشندوں اور اس کی حرمت کا تذکرہ نہیں کیا، حالانکہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دونوں سیاہ پتھروں والی زمینوں کے درمیان میں واقع علا قے کو حرم قرار دیا ہے اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا) وہ فر ما ن خولانی چمڑے میں ہمارے پاس محفوظ ہے۔ اگر تم چاہو تو اسے میں تمھیں پڑھا دوں۔اس پر مروان خاموش ہوا پھر کہنے لگا: اس کا کچھ حصہ میں نے بھی سنا ہے
نافع بن جبیر بیان کرتے ہیں، کہ مروان بن حکم نے لوگوں کو خطاب کیا اور اس میں مکہ، اہل مکہ اور وہاں کے ادب و احترام کا ذکر کیا، تو اسے حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آواز دی، کیا وجہ ہے، میں تم سے مکہ، اہل مکہ اور اس کی حرمت کا تذکرہ سن رہا ہوں، لیکن تم نے مدینہ، اہل مدینہ اور اس کی حرمت کا ذکر نہیں کیا، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دونوں سنگریزوں کے درمیان کے علاقہ کو حرم قرار دیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان، ہمارے پاس خولانی چمڑے پر لکھا ہوا موجود ہے، اگر چاہو تو میں تمہیں اسے پڑھا سکتا ہوں، اس پر مروان خاموش ہو گیا، پھر کہا، اس کا کچھ حصہ میں نے بھی سنا ہے۔
حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: " بلا شبہ ابرا ہیم ؑ نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں مدینہ کو جو ان دو سیاہ پتھر یلی زمینوں کے درمیان ہے حرم قرار دیتا ہوں، نہ اس کے کا نٹے دار درخت کا ٹے جا ئیں اور نہ اس کے شکار کے جا نوروں کا شکار کیا جا ئے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے حرم ہونے کا اعلان کیا، اور میں مدینہ کے دونوں پتھریلے علاقوں کے درمیان کے حصہ کے حرم ہونے کا اعلان کرتا ہوں، اس کے کانٹے دار درخت نہیں کاٹے جائیں گے، اور نہ اس کا شکار کیا جائے گا۔“
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الله بن نمير . ح وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا عثمان بن حكيم ، حدثني عامر بن سعد ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني احرم ما بين لابتي المدينة ان يقطع عضاهها، او يقتل صيدها "، وقال: " المدينة خير لهم لو كانوا يعلمون، لا يدعها احد رغبة عنها، إلا ابدل الله فيها من هو خير منه، ولا يثبت احد على لاوائها وجهدها، إلا كنت له شفيعا، او شهيدا يوم القيامة "،حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ أَنْ يُقْطَعَ عِضَاهُهَا، أَوْ يُقْتَلَ صَيْدُهَا "، وَقَالَ: " الْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، لَا يَدَعُهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا، إِلَّا أَبْدَلَ اللَّهُ فِيهَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ، وَلَا يَثْبُتُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَائِهَا وَجَهْدِهَا، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا، أَوْ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ "،
عبد اللہ بن نمیر نے کہا: ہمیں عثمان بن حکیم نے حدیث بیان کی (کہا)۔مجھ سے عامر بن سعد نے اپنے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے حدیث بیان کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں مدینہ کی دو سیاہ پتھریلی زمینوں کے درمیانی حصے کو حرا م ٹھہرا تا ہوں کہ اس کے کا نٹے دار درخت کاٹے جا ئیں یا اس میں شکار کو مارا جا ئے۔اور آپ نے فرمایا: " اگر یہ لو گ جا ن لیں تو مدینہ ان کے لیے سب سے بہتر جگہ ہے۔کوئی بھی آدمی اس سے بے رغبتی کرتے ہو ئے اسے چھوڑ کر نہیں جا تا مگر اس کے بدلے میں اللہ تعا لیٰ ایسا شخص اس میں لے آتا ہے جو اس (جا نے والے) سے بہتر ہو تا ہے اور کوئی شخص اس کی تنگدستی اور مشقت پر ثابت قدم نہیں رہتا مگر میں قیامت کے دن اس کے لیے سفارشی یاگواہ ہوں گا۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حرم قرار دیتا ہوں، مدینہ کی دونوں حدوں کے درمیانی علاقہ کو، اس کے خار دار درخت نہ کاٹے جائیں اور اس کے شکار کو قتل نہ کیا جائے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”مدینہ لوگوں کے لیے بہتر ہے، اگر وہ (اس کی خیر و برکت کو) جانتے ہوں، کوئی انسان اس کو بے نیازی اختیار کرتے ہوئے نہیں چھوڑے گا، مگر اللہ تعالیٰ اس کی جگہ، اس سے بہتر بندے کو بھیج دے گا، (جانے والا ہی خیر و برکت سے محروم ہو گا، اس کے جانے سے مدینہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی) اور جو کوئی بندہ اس کی تنگیوں ترشیوں اور مشقتوں پر صبر کر کے وہاں پڑا رہے گا، تو میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا، اور اس کے حق میں شہادت دوں گا۔“
مروان بن معاویہ نے ہمیں حدیث بیان کی (کہا:) ہمیں عثمان بن حکیم انصاری نے حدیث بیان کی، (کہا:) مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے والد سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔پھر ابن نمیر کی حدیث کی طرح بیان کیا اور حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ کیا: "اور کوئی شخص نہیں جو اہل مدینہ کے ساتھ برا ئیکا ارادہ کرے گا مگر اللہ تعا لیٰ اسے آگ میں سیسے کے پگھلنے یاپانی میں نمک کے پگھلنے کی طرح پگھلا دے گا۔
ایک اور استاد سے امام صاحب مذکورہ بالا روایت نقل کرتے ہیں، اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی اہل مدینہ کو تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو آگ میں اس طرح پگھلائے گا، جس طرح سیسہ پگھلتا ہے، یا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، وعبد بن حميد ، جميعا عن العقدي ، قال عبد: اخبرنا عبد الملك بن عمرو، حدثنا عبد الله بن جعفر ، عن إسماعيل بن محمد ، عن عامر بن سعد : ان سعدا ركب إلى قصره بالعقيق، فوجد عبدا يقطع شجرا او يخبطه فسلبه، فلما رجع سعد جاءه اهل العبد، فكلموه ان يرد على غلامهم او عليهم ما اخذ من غلامهم، فقال: معاذ الله ان ارد شيئا نفلنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وابى ان يرد عليهم.وحدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، جميعا عَنِ الْعَقَدِيِّ ، قَالَ عبدَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ : أَنَّ سَعْدًا رَكِبَ إِلَى قَصْرِهِ بِالْعَقِيقِ، فَوَجَدَ عَبْدًا يَقْطَعُ شَجَرًا أَوْ يَخْبِطُهُ فَسَلَبَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ سَعْدٌ جَاءَهُ أَهْلُ الْعَبْدِ، فَكَلَّمُوهُ أَنْ يَرُدَّ عَلَى غُلَامِهِمْ أَوْ عَلَيْهِمْ مَا أَخَذَ مِنْ غُلَامِهِمْ، فقَالَ: مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ أَرُدَّ شَيْئًا نَفَّلَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ.
اسماعیل بن محمد نے عا مر بن سعد سے روایت کی کہ حضرت سعد (بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ)(مدینہ کے قریب) عقیق میں اپنے محل کی طرف روانہ ہو ئے انھوں نے ایک غلام کو دیکھا وہ درخت کا ٹ رہا تھا یا اس کے پتے چھاڑ رہا تھا انھوں نے اس سے (اس لباس اور سازو سامان) سلب کر لیا۔ جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ (مدینہ) لو ٹے تو غلام کے مالک ان کے پاس حا ضر ہو ئے اور ان سے گفتگو کی کہ انھوں نے جو ان کے غلام کو۔۔۔یا انھیں۔۔۔واپس کردیں۔انھوں نے کہا: اللہ کی پناہ کہ میں کوئی ایسی چیز واپس کروں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بطور غنیمت دی ہے اور انھوں نے وہ (سامان) انھیں واپس کرنے سے انکا ر کر دیا۔
عامر بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوار ہو کر اپنے گھر جو عقیق میں واقع تھا کی طرف چلے تو راستہ میں ایک غلام کو درخت کاٹتے یا اس کے پتے جھاڑتے پایا، تو اس کا سامان چھین لیا، تو جب حضرت سعد واپس آئے، ان کے پاس غلام کے مالک آئے اور ان سے کہا، (گفتگو کی) کہ ان کے غلام کو یا ان کو وہ کچھ واپس کر دیں، جو ان کے غلام سے لیا ہے، تو انہوں نے کہا، اللہ کی پناہ کہ میں وہ چیز واپس کر دوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور انعام عنایت فرمائی ہے، اور سامان واپس کرنے سے انکار کر دیا۔