بشر بن مفضل نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں یحییٰ بن ابی اسحاق نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مانندروایت کی۔
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے یہی روایت بیان کرتے ہیں۔
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " اناخ بالبطحاء التي بذي الحليفة، فصلى بها "، وكان عبد الله بن عمر يفعل ذلك.حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَاخَ بِالْبَطْحَاءِ الَّتِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ، فَصَلَّى بِهَا "، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَفْعَلُ ذَلِكَ.
امام مالک ؒ نے نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارانی پانی کی سنگریزوں اور ریت والی گزرگاہ (بطحاء) میں جو ذوالحلیفہ میں ہے، اونٹنی کو بٹھایا اوروہاں نماز ادا کی۔ (نافع نے) کہا: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اسی طرح کیا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ کی کنکریلی زمین پر اپنا اونٹ بٹھایا اور وہاں نماز پڑھی، اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
لیث نے ہمیں نافع سے حدیث بیان کی، انھوں نےکہا: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اس ر یتلی پتھریلی وادی میں اونٹ کو بٹھاتے جو ذوالحلیفہ میں ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی کو بٹھاتے تھے اور نماز ادا کرتے۔
نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ذوالحلیفہ کی کنکریلی زمین پر اونٹ بٹھاتے تھے، جس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا اونٹ بٹھاتے تھے اور وہاں نماز پڑھتے۔
انس (بن عیاض)، یعنی ابوضمرہ نے موسیٰ بن عقبہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے نافع سے روایت کی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ جب حج یا عمرے سے لوٹتے تواس پتھریلی ریتلی وادی میں اونٹ کو بٹھاتے جو ذوالحلیفہ میں ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹنی کو بٹھاتے تھے۔
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جب حج یا عمرہ سے واپس آتے، تو ذوالحلیفہ کے کنکروں والے حصہ پر اونٹ بٹھاتے، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ بٹھایا کرتے تھے۔
حاتم، یعنی ابن اسماعیل نے ہمیں موسیٰ بن عقبہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے سالم سے، انھوں نے اپنے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) سے روایت کی کہ ذوالحلیفہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی استراحت کی جگہ پر (ایک آنے والے کو) بھیجا گیا، اور آپ سے کہا گیا کہ آپ ایک مبارک وادی میں ہیں۔
حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ (ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے بیان کرتے ہیں کہ رات کے آخری حصہ میں، ذوالحلیفہ کے پڑاؤ (منزل) میں، خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبارک بطحاء میں ہیں۔
وحدثنا محمد بن بكار بن الريان ، وسريج بن يونس ، واللفظ لسريج، قالا: حدثنا إسماعيل بن جعفر اخبرني موسى بن عقبة ، عن سالم بن عبد الله بن عمر ، عن ابيه : ان النبي صلى الله عليه وسلم اتي وهو في معرسه من ذي الحليفة في بطن الوادي، فقيل: إنك ببطحاء مباركة "، قال موسى: وقد اناخ بنا سالم بالمناخ من المسجد الذي كان عبد الله ينيخ به يتحرى معرس رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو اسفل من المسجد الذي ببطن الوادي، بينه وبين القبلة وسطا من ذلك.وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ الرَّيَّانِ ، وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، وَاللَّفْظُ لِسُرَيْجٍ، قَالَا: حدثنا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ وَهُوَ فِي مُعَرَّسِهِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ فِي بَطْنِ الْوَادِي، فَقِيلَ: إِنَّكَ بِبَطْحَاءَ مُبَارَكَةٍ "، قَالَ مُوسَى: وَقَدْ أَنَاخَ بِنَا سَالِمٌ بِالْمُنَاخِ مِنَ الْمَسْجِدِ الَّذِي كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُنِيخُ بِهِ يَتَحَرَّى مُعَرَّسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ أَسْفَلُ مِنَ الْمَسْجِدِ الَّذِي بِبَطْنِ الْوَادِي، بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ وَسَطًا مِنْ ذَلِكَ.
اسماعیل بن جعفر نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں موسیٰ عقبہ نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، جب آپ ذوالحلیفہ میں اپنی آرام گاہ میں جو وادی کے درمیان تھی، (کسی آنے والے کو) بھیجا گیا، اور آپ سے کہا گیا: آپ مبارک وادی میں ہیں۔ موسیٰ (بن عقبہ) نے کہا: سالم نے ہمارے ساتھ مسجد کے قریب اسی جگہ اونٹ بٹھائے جہاں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بٹھایا کرتے تھے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کے پچھلے پہر کی استراحت کی جگہ تلاش کرتے تھے، اور وہ جگہ اسی مسجد سے نیچے تھی، جو وادی کے درمیان میں تھی، اس (مسجد) کے اور قبلے کے درمیان، اس کے وسط میں۔
حضرت سالم رحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک فرشتہ آیا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ کی وادی عتیق کے اندر اپنے پڑاؤ میں تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبارک بطحاء میں ہیں، راوی موسیٰ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ سالم نے نماز کی جگہ میں جہاں حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اونٹ بٹھایا کرتے تھے، اونٹ بٹھائے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑاؤ کا قصد کرتے تھے، اور وہ بطن وادی کی مسجد سے نشیب میں ہے، اور وہ جگہ مسجد اور قبلہ کے درمیان ہے۔
عمرو (بن حارث) نے ابن شہاب سے، انھوں نے حمید بن عبدالرحمان (بن عوف) سے خبردی، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، نیز بونس (بن یزید ایلی) نے ابن شہاب سے اسی سندکے ساتھ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے اس حج میں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع سے پہلے انھیں امیر بنایا تھا، ایک چھوٹی جماعت کے ساتھ روانہ کیا کہ وہ لوگ قربانی کے دن لوگوں میں (یہ) اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور نہ کوئی برہنہ شخص بیت اللہ کا طواف کرے گا۔ ابن شہاب نے کہا: حمید بن عبدالرحمان (بن عوف) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی بنا پر کہاکرتے تھے: قربانی کا دن ہی حج اکبر کا دن ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع سے پہلے جس حج کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امیر مقرر کیا تھا، اس میں ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے ایک گروہ کے ساتھ، قربانی کے دن بھیجا کہ لوگوں میں اعلان کرو، اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے، اور کوئی شخص برہنہ ہو کر بیت اللہ کا طواف نہ کرے، ابن شہاب کہتے ہیں، کہ حمید بن عبدالرحمان، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث کی بنا پر یہ کہتے تھے کہ قربانی کا دن ہی حج اکبر کا دن ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: بلاشبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو، وہ (اپنے بندوں کے) قریب ہوتا ہے۔ اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے: یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن بندوں کو دوزخ سے آزاد نہیں کرتا، اور وہ قریب ہوتا ہے، اور فرشتوں کے سامنے (وہاں موجود) لوگوں پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے، یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟“
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن سمي مولى ابي بكر بن عبد الرحمن، عن ابي صالح السمان ، عن ابي هريرة : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة "،حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ "،
امام مالک نےابو بکر بن عبدالرحمان کے آزاد کردہ غلام سمی سے، انھوں نےابو صالح اور سمان سے اور ا نھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک عمرہ دوسرے عمرے تک (کےگناہوں) کا کفارہ ہے اور حج مبرور، اس کا بدلہ جنت کے سوا اور کوئی نہیں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ ان کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہے، اور حج مبرور کی جزا جنت سے کم نہیں۔“
سفیان بن عینیہ، سہیل، عبیداللہ، وکیع اورسفیان (ثوری) سب نے سمی سے، انھوں نے ابوصالح سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اورانھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مالک بن انس کی حدیث کے مانند روایت کی۔
امام صاحب نے مذکورہ بالا روایت اپنے بہت سے اساتذہ سے روایت کی ہے۔