سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنی قربانی کے اونٹ کو دھکیل رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”سوار ہو جا۔“ اس نے کہا: یہ قربانی کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین مرتبہ فرمایا: کہ ”سوار ہو جا۔“
ہمیں وکیع نے مسعر سے حدیث بیان کی انھوں نے بکیر بن اخنس سے اور انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: میں نے ان (انس رضی اللہ عنہ) سے سنا کہہ رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے قربانی کے ایک اونٹ یا (حرم کے لیے) ہدیہ کیے جا نے والے ایک جا نور کا گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس پر سوار ہو جا ؤ اس نے کہا: یہ قر بانی کا اونٹ یا ہدی کا جا نور ہے آپ نے فرمایا: "چا ہے (ایسا ہی ہے) "
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک بدنہ یا ہدیہ (قربانی کا اونٹ) لے جایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جا۔“ اس نے عرض کیا، یہ بدنہ یا ہدیہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خواہ یہی ہے۔“
ہمیں ابن بشر نے مسعر سے حدیث بیان کی، (کہا) مجھے بکیر بن اخنس نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے قربانی کا ایک اونٹ گزارا گیا آگے اسی کے مانند بیان کیا۔
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، اس میں صرف بدنہ کا لفظ ہے۔
ابن جریج سے روایت ہے (انھوں نے کہا) مجھے زبیر نے خبر دی کہا میں نے جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے سنا ان سے ہدی پر سواری کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فر ما رہے تھے " جب اس (پر سوار ہو نے) کی ضرورت ہو تو اور سواری ملنے تک معروف (قابل قبول) طریقے سے اس پر سواری کرو۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے ہدی پر سوار ہونے کا مسئلہ پوچھا گیا؟ انہوں نے جواب دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، جب لاچار ہو جاؤ، تو سواری ملنے تک عرف و دستور کے مطابق سوار ہو جاؤ۔"
ہمیں معقل نے ابو زبیر سے حدیث بیان کی کہا: میں نے حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے ہدی (بیت اللہ کی طرف بھیجے گئے ہدیہ قر بانی) پر سواری کے بارے میں پو چھا تو انھوں نے کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہو ئے سنا: " دوسری سواری ملنے تک اس پر معروف طریقے سے سوار ہو جاؤ
ابو زبیر کہتے ہیں، میں نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کے بارے میں سوال کیا؟ انہوں نے جواب دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”جب تک سواری نہ ملے تو دستور و عرف کے مطابق سوار ہو جاؤ۔“
حدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا عبد الوارث بن سعيد ، عن ابي التياح الضبعي ، حدثني موسى بن سلمة الهذلي ، قال: انطلقت انا، وسنان بن سلمة معتمرين، قال: وانطلق سنان معه ببدنة يسوقها، فازحفت عليه بالطريق فعيي بشانها إن هي ابدعت كيف ياتي بها، فقال: لئن قدمت البلد لاستحفين عن ذلك، قال: فاضحيت فلما نزلنا البطحاء، قال: انطلق إلى ابن عباس ، نتحدث إليه، قال: فذكر له شان بدنته، فقال: على الخبير سقطت بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بست عشرة بدنة مع رجل وامره فيها، قال: فمضى، ثم رجع، فقال: يا رسول الله، كيف اصنع بما ابدع علي منها؟ قال: " انحرها، ثم اصبغ نعليها في دمها، ثم اجعله على صفحتها، ولا تاكل منها انت ولا احد من اهل رفقتك "،حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ سَلَمَةَ الْهُذَلِيُّ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا، وَسِنَانُ بْنُ سَلَمَةَ مُعْتَمِرَيْنِ، قَالَ: وَانْطَلَقَ سِنَانٌ مَعَهُ بِبَدَنَةٍ يَسُوقُهَا، فَأَزْحَفَتْ عَلَيْهِ بِالطَّرِيقِ فَعَيِيَ بِشَأْنِهَا إِنْ هِيَ أُبْدِعَتْ كَيْفَ يَأْتِي بِهَا، فقَالَ: لَئِنْ قَدِمْتُ الْبَلَدَ لَأَسْتَحْفِيَنَّ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: فَأَضْحَيْتُ فَلَمَّا نَزَلْنَا الْبَطْحَاءَ، قَالَ: انْطَلِقْ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ، نَتَحَدَّثْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَذَكَرَ لَهُ شَأْنَ بَدَنَتِهِ، فقَالَ: عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسِتَّ عَشْرَةَ بَدَنَةً مَعَ رَجُلٍ وَأَمَّرَهُ فِيهَا، قَالَ: فَمَضَى، ثُمَّ رَجَعَ، فقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَصْنَعُ بِمَا أُبْدِعَ عَلَيَّ مِنْهَا؟ قَالَ: " انْحَرْهَا، ثُمَّ اصْبُغْ نَعْلَيْهَا فِي دَمِهَا، ثُمَّ اجْعَلْهُ عَلَى صَفْحَتِهَا، وَلَا تَأْكُلْ مِنْهَا أَنْتَ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ رُفْقَتِكَ "،
ہمیں عبد الوارث بن سعید نے ابو تیاح ضبعی سے خبر دی (کہا) مجھ سے موسیٰ بن سلمہ ہذلی نے حدیث بیان کی انھوں نے کہا میں اور سنان بن سلمہ عمرہ ادا کرنے کے لیے نکلے اور سنان اپنے ساتھ قر بانی کا اونٹ لے کر چلے وہ اسے ہانک رہے تھے تو راستے ہی میں تھک کر رک گیا وہ اس کی حالت کے سبب سے (یہ سمجھنے سے) عاجز آگئے کہ اگر وہ بالکل ہی رہ گیا تو اسے مکہ) کیسے لا ئیں۔انھوں نے کہا: اگر میں بلد (امین مکہ) پہنچ گیا تو میں ہر صورت اس کے بارے میں اچھی طرح پو چھوں گا۔ (موسیٰ نے) کہا تو مجھے دن چڑھ گیا جب ہم نے بطحاء میں قیام کیا تو انھوں نے کہا بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس چلیں تا کہ ہم ان سے بات کریں۔کہا انھوں نے ان کو اپنی قر بانی کے جانور کا حال بتا یا تو انھوں نے کہا تم جاننے والے کے پاس آپہنچے ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ساتھ بیت اللہ کے پا س قر بانی کے لیے سولہ اونٹ روانہ کیے اور اسے ان کا نگران بنا یا۔کہا وہ تھوڑی دور) گیا پھر واپس آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ان میں سے کوئی تھک کر رک جا ئے اس کے ساتھ میں کیا کروں؟آپ نے فر مایا: " اسے نحر کر دینا پھر اس کے (گلے میں ڈالے گئے) دونوں جوتے اس کے خون سے رنگ دینا پھر انھیں (بطور نشانی) اس کے پہلو پر رکھ دینا۔اور (احرام کی حالت میں) تم اور تمھا رے ساتھ جا نے والوں میں سے کوئی اس (کے گو شت میں) سے کچھ نہ کھا ئے۔
موسیٰ بن سلمہ ہذلی بیان کرتے ہیں کہ میں اور سنان بن سلمہ عمرہ کے لیے روانہ ہوئے، سنان اپنے ساتھ قربانی کا اونٹ لے کر چلا، اور وہ راستہ میں ٹھہر گیا، تو سنان، اس کے معاملہ میں بے بس ہو گیا، کہ اگر وہ اونٹ تھک ہار گیا، تو وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے، اس نے سوچا، اگر میں مکہ مکرمہ پہنچ گیا، تو میں اس کے بارے میں تحقیق کروں گا، اس نے بتایا، میں دوپہر کے وقت چل پڑا، تو جب ہم بطحاء میں اترے، اس نے کہا، آؤ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے گفتگو کریں، اس نے جا کر، ان سے اپنی قربانی کی صورت حال بیان کی، تو انہوں نے فرمایا، تم نے مسئلہ واقف کار سے دریافت کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کی سپرداری میں سولہ (16) قربانیاں روانہ فرمائیں، وہ شخص چل پڑا، پھر واپس آ گیا، اور پوچھنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر ان میں سے کوئی تھک ہار کر بیٹھ جائے، تو میں اس کا کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو نحر کر کے، اس کے گلے میں دونوں جوتے، اس کے خون میں رنگ دینا، پھر اس کے پہلو پر رکھ دینا پھر تو اور تیرے رفقاء میں سے کوئی بھی اس سے نہ کھائے۔
اسماعیل بن علیہ نے ابو تیاح سے حدیث بیان کی انھوں نے موسیٰ بن سلمہ سے اور انھوں نے ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قر بانی کے اٹھارہ اونٹ ایک آدمی کے ساتھ روانہ کیے۔۔۔پھر عبد الوارث کی حدیث کے مانند حدیث بیان کی، اور انھوں نے حدیث کا ابتدا ئی حصہ بیان نہیں کیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کی معیت میں اٹھارہ قربانیاں روانہ فرمائیں، آ گے مذکورہ بالا حدیث ہے، لیکن اس میں ابتدائی واقعہ کا ذکر نہیں ہے۔
ابو قبیصہ ذؤیب نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ قر بانی کے اونٹ بھیجتے پھر فرماتے اگر ان میں سے کوئی تھک کر رک جا ئے اور تمھیں اس کے مر جا نے کا خدشہ ہو تو اسے نحر کر دینا پھر اس کے (گلے میں لٹکا ئے گئے) جوتے کو اس کے خون میں ڈبونا پھر اسے اس کے پہلو پر ڈال دینا پھر تم اس میں سے (کچھ) کھا نا نہ تمھا رے ساتھیوں میں سے کوئی (اس میں کھا ئے۔)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت ابو قبیصہ ذؤیب نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے قربانیاں دے کر بھیجتے اور فرماتے: ”اگر تھکنے سے کسی کی ہلاکت کا خطرہ محسوس کرو، تو اسے نحر کر دینا، پھر اس کی جوتیوں کو اس کے خون میں ڈبو کر، اس کے پہلو پر مارنا، لیکن تو خود اور تیرے قافلہ والوں میں سے کوئی اسے نہ کھائے۔“
سعید بن منصور اور زہیر بن حرب نے ہمیں حدیث بیان کی دونوں نے کہا: ہمیں سفیان نے سلیما ن احول سے حدیث بیان کی انھوں نے طا ؤس سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: لوگ (حج کے بعد) ہر سمت میں نکل (کر چلے) جا تے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی شخص ہر گز روانہ نہ ہو یہاں تک کہ اس کی آخری حاضری (بطور طواف) بیت اللہ کی ہو زہیر نے کہا: ”ہر سمت“ اور ”(ہر سمت) میں“ نہیں کہا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (حج کے بعد) لوگ ہر طرف سے نکل جاتے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی انسان سفر اختیار نہ کرے، جب تک آخری وقت میں بیت اللہ کا طواف نہ کر لے، زہیر کی روایت میں يَنْصَرِفُوْنَ کے بعد میں فی کا لفظ نہیں ہے۔
طاؤس کے بیٹے (عبد اللہ) نے اپنے والد سے انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: لوگوں کو حکم دیا گیا کہ ان کی آخری حاضر ی بیت اللہ کی ہو مگر اس میں حائضہ عورت کے لیے تخفیف کی گئی ہے (وہآخری طواف سے مستثنیٰ ہے)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ آخری وقت میں بیت اللہ کا طواف کریں، لیکن حیض والی عورت کو سہولت دی گئی ہے، (وہ پہلے جاسکتی ہے)۔