ہمیں (سفیان) بن عیینہ نے زہری سے حدیث بیان کی انھوں نے عیسیٰ بن طلحہ سے اور انھوں نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: کوئی آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: میں نے قربانی کر نے سے پہلے سر منڈوالیا ہے آپ نے فرمایا (اب) قربانی کرلو رمی کر لو کوئی حرج نہیں۔ (کسی اور نے) کہا: میں رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے تو آپ نے فرمایا: " (اب) رمی کر لو کوئی حرج نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ایک آدمی نے کہا، میں نے قربانی ذبح کرنے سے پہلے حلق کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذبح کرو، کوئی حرج نہیں ہے۔“ اس نے کہا، کنکریاں مارنے سے پہلے، ذبح کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کنکریاں مارو، کوئی حرج نہیں ہے۔“
معمر نے زہری سے اسی سند کے ساتھ (یہی) روایت کی (عبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا (آپ) منیٰ میں اونٹنی پر (سوار) تھے تو آپ کے پا س ایک آدمی آیا۔۔۔آگے ابن عیینہ کی حدیث کے ہم معنی حدیث ہے۔
امام صاحب دو اور اساتذہ سے یہی روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منیٰ میں اونٹنی پر سوار دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا، آ گے مذکورہ بالا روایت ہے۔
محمد بن ابی حفصہ نے ہمیں زہری سے خبر دی انھوں نے عیسیٰ بن طلحہ سے اور انھوں نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا جب آپ کے پاس قر بانی کے دن ایک آدمی آیا آپ جمرہ عقبہ کے پاس رکے ہو ئے تھے۔اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول!! میں نے رمی کر نے سے پہلے سر منڈوالیا ہے آپ نے فرمایا: " (اب رمی کر لو کوئی حرج نہیں۔ایک اور آدمی آیا۔ وہ کہنے لگا: میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے؟ آپ نے فرمایا: " (اب) رمی کر لو کوئی حرج نہیں پھر آپ کے پاس ایک اور آدمی آیا اور کہا میں نے رمی سے پہلے طواف افاضہ کر لیا؟ ہے؟فرمایا: " (اب) رمی کر لو کوئی حرج نہیں۔کہا: میں نے آپ کو نہیں دیکھا کہ اس دن آپ سے کسی بھی چیز (کی تقدیمو تا خیر) کے بارے میں سوال کیا گیا ہو مگر آپ نے یہی فرمایا: "کر لو کوئی حرج نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، جبکہ آپ جب عقبہ کے پاس کھڑے تھے، قربانی کے دن، آپ کے پاس ایک آدمی آیا، اور کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے سر منڈوا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کنکریاں مارو، کوئی حرج نہیں ہے۔“ دوسرا آ کر کہنے لگا، میں نے رمی سے پہلے ذبح کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی کرو، کوئی حرج نہیں ہے۔“ ایک اور آدمی آ کر کہنے لگا، میں نے رمی سے پہلے طواف افاضہ کر لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی کرو، کوئی حرج نہیں ہے۔“ حضرت عبداللہ کہتے ہیں، میں نے نہیں دیکھا، کہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب اس کے سوا کوئی اور جواب دیا ہو، ”کرو، کوئی حرج نہیں ہے۔“
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی کرنے سر منڈوانے رمی کرنے اور (کا موں کی) تقدیم و تا خیر کے بارے میں پو چھا گیا تو آپ نے فرمایا: " کوئی حرج نہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے، ذبح، حلق، رمی اور تقدیم و تاخیر کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں ہے۔“
حدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا عبيد الله بن عمر ، عن نافع ، عن ابن عمر : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم افاض يوم النحر، ثم رجع فصلى الظهر بمنى "، قال نافع: فكان ابن عمر يفيض يوم النحر ثم يرجع فيصلي الظهر بمنى ويذكر ان النبي صلى الله عليه وسلم فعله.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَاضَ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَلَّى الظُّهْرَ بِمِنًى "، قَالَ نَافِعٌ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُفِيضُ يَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ يَرْجِعُ فَيُصَلِّي الظُّهْرَ بِمِنًى وَيَذْكُرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَهُ.
نا فع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قر بانی کے دن طواف افاضہ کیا۔پھر واپس آکر ظہر کی نماز منیٰ میں ادا کی۔ نافع نے کہا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ قربانی کے دن طواف افاضہ کرتے پھر واپس آتے ظہر کی نماز منیٰ میں ادا کرتے اور بیان کیا کرتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ نحر کے دن کیا، پھر واپس آ کر نماز ظہر منیٰ میں پڑھی، نافع بیان کرتے ہیں، کہ حضرت ابن عمرضی اللہ تعالیٰ عنہما طواف افاضہ، نحر کے دن کرتے تھے، (یوم النحر سے مراد دس 10 ذوالحجہ کا دن ہوتا ہے) پھر واپس آ کر ظہر کی نماز منیٰ میں پڑھتے تھے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل یہی بتاتے تھے۔
عبد العزیز بن رفیع سے روایت ہے انھوں نے کہا میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سوال کیا میں نے کہا: مجھے ایسی چیز بتا یئے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھی ہو (اور یاد رکھی ہو) آپ نے تر ویہ کے دن (آٹھ ذوالحجہ کو ظہر کی نماز کہاں ادا کی تھی؟ انھوں نے بتا یا منیٰ میں۔میں نے پو چھا: آپ نے (منیٰ سے) واپسی کے دن عصر کی نماز کہاں ادا کی؟انھوں نے کہا اَبطح میں۔پھر کہا (لیکن تم) اسی طرح کرو جیسے تمھا رے امراء کرتے ہیں۔
عبدالعزیز بن رفیع رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، مجھے ایسی بات کی روشنی میں بتائیے، جو آپ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھی ہو، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) پانی پلانے کے دن نماز ظہر کہاں ادا کی؟ انہوں نے جواب دیا، منیٰ میں، میں نے پوچھا، آپ نے روانگی کے دن عصر کی نماز کہاں پڑھی؟ جواب دیا، ابطح (محصب) میں، پھر فرمایا، تم اس طرح کرو جس طرح تمہارے امرا کرتے تھے۔
ایوب نے نا فع سے انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہ ابطح میں پڑاؤ کیا کرتے تھے (واپسی کے وقت مدینہ کے راستے میں منیٰ کے باہر وہیں پڑاؤ کیا جا سکتا تھا)
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما وادی أَبْطَحَ
صخر بن جو یریہ نے نافع سے حدیث بیان کی کہ حضر ت ابن عمر رضی اللہ عنہ محصب میں پڑاؤ کرنے کو سنت سمجھتے تھے اور وہ روانگی کے دن ظہر کی نماز حصبہ (محصب) میں ادا کرتے تھے۔نافع نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفاء نے وادی محصب میں قیام کیا۔
نافع سے روایت ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما وادی محصب میں ٹھہرنا سنت سمجھتے تھے، اور وہ سفر کے دن ظہر کی نماز حصبه میں پڑھتے تھے، نافع بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفاء محصب میں اترتے رہے ہیں۔
عبد اللہ بن نمیر نے حدیث بیان کی (کہا) ہمیں ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے حدیث بیان کی انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی انھوں نے کہا ابطح میں ٹھہر نا (اعمال حج کی سنتوں میں سے کوئی) سنت نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اترے تھے کیونکہ (مکہ سے) روانہ ہو تے وقت وہاں سے نکلنا آسان تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، اَبطَحَ میں اترنا سنت نہیں ہے، وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محض اس لیے اترے تھے کہ وہاں سے جاتے وقت نکلنا آپ کے لیے آسان تھا۔