عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر نے خبر دی کہ ان کے والد نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں جمع کیں، ان دونوں کے درمیان کوئی (نفل) نماز نہ تھی۔آپ نے مغرب کی تین رکعتیں ادا کیں اور عشاء کی دو رکعتیں ادا کیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی مزدلفہ میں اسی طرح نماز پڑھتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ سے جا ملے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کو جمع کر کے پڑھا، دونوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی، مغرب کی تین رکعات پڑھیں اور عشاء کی دو رکعتیں پڑھیں، حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مزدلفہ میں نماز اسی طرح پڑھتے رہے، یہاں تک کہ اللہ سے جا ملے، وفات پا گئے۔
عبدالرحمان بن مہدی نے کہا: ہمیں شعبہ نے حکم اور سلمہ بن کہیل سے حدیث بیان کی، انھوں نے سعید بن جبیر سے روایت کی کہ انھوں نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ہی اقامت سے اداکیں، پھر انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ انھوں نے اسی طرح نماز ادا کی تھی، اور ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا۔
سعید بن جبیر نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک تکبیر سے ادا کیں، پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں بتایا، انہوں نے یہ نمازیں اسی طرح (ایک تکبیر سے) پڑھیں، اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بتایا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا تھا۔
۔ (سفیان) ثوری نے سلمہ بن کہیل سے، انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب اورعشاء کی نمازیں جمع کیں، آپ نے ایک ہی اقامت سے مغرب کی تین اور عشاء کی دو رکعتیں اداکیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کو جمع کیا، مغرب کی تین رکعتیں اور عشاء کی دو رکعتیں ایک اقامت سے پڑھیں۔
ابو اسحاق سے روایت ہے، انھوں نے کہا: سعید بن جبیر نے کہا: ہم حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ (عرفہ سے) روانہ ہوئے یہاں تک کہ ہم مزدلفہ آئے تو انھوں نے ہمیں مغرب اور عشاء کی نماز ایک اقامت سےپڑھائی، پھر (پیچھے کی طرف) رخ موڑا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس مقام پر اسی طرح (جمع وقصر پر عمل کرتے ہوئے) نماز پڑھائی تھی۔
سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، ہم ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے ساتھ واپس مزدلفہ پہنچے، انہوں نے ہمیں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک اقامت سے پڑھائیں، پھر پلٹ کر بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ ہمیں اسی طرح نماز پڑھائی تھی۔
48. باب: مزدلفہ میں نحر کے دن (عید کے دن) صبح کی نماز جلدی پڑھنے کا استحباب۔
Chapter: It is recommended to pray Subh when it is still dark on the day of sacrifice in Al-Muzdalifah, and to do it very early after ascertaining that dawn has broken
ابو معاویہ نے اعمش سے خبر دی، انھوں نے عمارہ سے، انھوں نے عبدالرحمان بن یزید سے اور انھوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی نماز اس کے وقت کے بغیر ادا کرتے نہیں دیکھا، سوائے دو نمازوں کے، مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں (جمع کیں) اور اسی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز اس کے (معمول کے) وقت سے پہلے ادا کی۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر نماز اس کے وقت پر پڑھتے دیکھا ہے، مگر دو نمازیں، مغرب اور عشاء کی نماز مزدلفہ میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن صبح کی نماز (عام معمول سے) پہلے وقت سے پہلے پڑھی۔
49. باب: ضعیفوں اور عورتوں کو لوگوں کے جمگھٹے سے پہلے رات کے آخری حصہ میں مزدلفہ سے منیٰ روانہ کرنے کا استحباب، اور ان کے علاوہ لوگوں کو مزدلفہ میں ہی صبح کی نماز پڑھنے تک ٹھہرنے کا استحباب۔
Chapter: It is recommended to send the weak among women and others ahead from Al-Muzdalifah to Mina at the end of the night, before it gets crowded, but it is recommended for others to stay there until they have prayed Subh in Al-Muzdalifah
وحدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا افلح يعني ابن حميد ، عن القاسم ، عن عائشة انها قالت: " استاذنت سودة رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة المزدلفة، تدفع قبله وقبل حطمة الناس، وكانت امراة ثبطة يقول القاسم: والثبطة: الثقيلة، قال: فاذن لها فخرجت قبل دفعه، وحبسنا حتى اصبحنا فدفعنا بدفعه "، ولان اكون استاذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما استاذنته سودة، فاكون ادفع بإذنه احب إلي من مفروح به.وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا أَفْلَحُ يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: " اسْتَأْذَنَتْ سَوْدَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْمُزْدَلِفَةِ، تَدْفَعُ قَبْلَهُ وَقَبْلَ حَطْمَةِ النَّاسِ، وَكَانَتِ امْرَأَةً ثَبِطَةً يَقُولُ الْقَاسِمُ: وَالثَّبِطَةُ: الثَّقِيلَةُ، قَالَ: فَأَذِنَ لَهَا فَخَرَجَتْ قَبْلَ دَفْعِهِ، وَحَبَسَنَا حَتَّى أَصْبَحْنَا فَدَفَعْنَا بِدَفْعِهِ "، وَلَأَنْ أَكُونَ اسْتَأْذَنْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا اسْتَأْذَنَتْهُ سَوْدَةُ، فَأَكُونَ أَدْفَعُ بِإِذْنِهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مَفْرُوحٍ بِهِ.
فلح، یعنی ابن حمید نے قاسم سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: مزدلفہ کی رات حضرت سودہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے، اور لوگوں کا اذدھام ہونے سے پہلے پہلے (منیٰ) چلی جائیں۔اور وہ تیزی سے حرکت نہ کرسکنے والی خاتون تھیں۔قاسم نے کہا: ثبطہ بھاری جسم والی عورت کو کہتے ہیں۔کہا، (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:) آپ نے انھیں اجازت دے دی۔وہ آپ کی روانگی سے پہلے ہی نکل پڑیں اور ہمیں آپ نے روکے رکھا یہاں تک کہ ہم نے (وہیں) صبح کی، اور آپ کی روانگی کے ساتھ ہی ہم روانہ ہوئیں۔اگر میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجاز ت لے لیتی، جیسے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت لی تھی۔اور یہ کہ (ہمیشہ) آ پ کی اجازت سے (جلد) روانہ ہوتی تو یہ میرے لئے ہر خوش کرنے والی چیز سے زیادہ پسندیدہ ہوتا۔
حضرت عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت سودہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے مزدلفہ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور لوگوں کے دھکم پیل سے پہلے (منیٰ) چلی جائیں، کیونکہ وہ بھاری بھر کم عورت تھیں، (قاسم نے ثَبِطَة
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، ومحمد بن المثنى ، جميعا عن الثقفي ، قال ابن المثنى: حدثنا عبد الوهاب، حدثنا ايوب ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن القاسم ، عن عائشة ، قالت: كانت سودة امراة ضخمة ثبطة " فاستاذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ان تفيض من جمع بليل، فاذن لها "، فقالت عائشة: فليتني كنت استاذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما استاذنته سودة، وكانت عائشة لا تفيض إلا مع الإمام.وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، جميعا عَنِ الثَّقَفِيِّ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَتْ سَوْدَةُ امْرَأَةً ضَخْمَةً ثَبِطَةً " فَاسْتَأْذَنَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُفِيضَ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ، فَأَذِنَ لَهَا "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَيْتَنِي كُنْتُ اسْتَأْذَنْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا اسْتَأْذَنَتْهُ سَوْدَةُ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ لَا تُفِيضُ إِلَّا مَعَ الْإِمَامِ.
ایوب نے عبدالرحمان بن قاسم سے حدیث بیا ن کی، انھوں نے قاسم سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بڑی (اور) بھاری جسم والی خاتون تھیں، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ وہ رات ہی کو مزدلفہ سے روانہ ہوجایئں، تو آپ نے انھیں اجازت دے دی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کاش جیسے سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت لی، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی ہوتی۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (صبح کو باقی لوگوں کی طرح) امیر (حج) کے ساتھ ہی واپس لوٹا کرتی تھیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھاری بھر کم جسم کی عورت تھیں، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزدلفہ سے رات کے وقت واپس جانے کی اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں، اے کاش! میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگ لیتی، جیسا کہ سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت طلب کر لی تھی، حضرت عائشہ ایام حج کے ساتھ ہی واپس جایا کرتی تھیں۔
وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا عبيد الله بن عمر ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن القاسم ، عن عائشة ، قالت: وددت اني كنت استاذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم كما استاذنته سودة، فاصلي الصبح بمنى، فارمي الجمرة قبل ان ياتي الناس، فقيل لعائشة: فكانت سودة استاذنته؟ قالت: نعم، إنها كانت امراة ثقيلة ثبطة، فاستاذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاذن لها "،وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ اسْتَأْذَنْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا اسْتَأْذَنَتْهُ سَوْدَةُ، فَأُصَلِّي الصُّبْحَ بِمِنًى، فَأَرْمِي الْجَمْرَةَ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَ النَّاسُ، فَقِيلَ لِعَائِشَةَ: فَكَانَتْ سَوْدَةُ اسْتَأْذَنَتْهُ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، إِنَّهَا كَانَتِ امْرَأَةً ثَقِيلَةً ثَبِطَةً، فَاسْتَأْذَنَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنَ لَهَا "،
عبیداللہ بن عمر نے عبدالرحمان بن قاسم سے حدیث بیان کی، انھوں نے قاسم سے، اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: میری آرزو تھی کہ جیسے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت لی تھی، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی ہوتی، میں بھی صبح کی نماز منیٰ میں ادا کیاکرتی اور لوگوں کے منیٰ آنے سے پہلے جمرہ (عقبہ) کو کنکریاں مارلیتی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا: (کیا) حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت لی تھی؟انھوں نے کہا: ہاں۔وہ بھاری کم حرکت کرسکنے والی خاتون تھیں۔انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اجازت دے دی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، میں چاہتی ہوں، میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی ہوتی، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اجازت لے لی تھی، تو میں بھی صبح کی نماز منیٰ میں پڑھ کر لوگوں کی آمد سے پہلے جمرہ پر کنکریاں مار لیتی، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا گیا، حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی تھی؟ انہوں نے جواب دیا، ہاں، وہ بھاری بھر کم عورت تھیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی۔