الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
حدیث نمبر: 2941
Save to word اعراب
وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريج ، اخبرني ابو الزبير ، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: " امرنا النبي صلى الله عليه وسلم لما احللنا ان نحرم إذا توجهنا إلى منى "، قال: فاهللنا من الابطح.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَحْلَلْنَا أَنْ نُحْرِمَ إِذَا تَوَجَّهْنَا إِلَى مِنًى "، قَالَ: فَأَهْلَلْنَا مِنَ الْأَبْطَحِ.
ابن جریج سے روایت ہے (کہا:) مجھے ابو زبیر نے جا بربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہا: جب ہم " حلت"" کی کیفیت میں آگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جب منیٰ کا رخ کرنے لگیں تو احرا م باند ھ لیں۔ (حضرت جا بر رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو ہم نے مقام ابطح سے تلبیہ پکارنا شروع کیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم حلال ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جب منیٰ کا رخ کریں تو حج کا احرام باندھ لیں، تو ہم نے ابطح سے احرام باندھا۔
حدیث نمبر: 2942
Save to word اعراب
وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريج . ح وحدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا محمد بن بكر ، اخبرنا ابن جريج ، قال: اخبرني ابو الزبير ، انه سمع جابر بن عبد الله رضي الله عنه، يقول: " لم يطف النبي صلى الله عليه وسلم ولا اصحابه بين الصفا والمروة إلا طوافا واحدا "، زاد في حديث محمد بن بكر: " طوافه الاول ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: " لَمْ يَطُفْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا أَصْحَابُهُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ إِلَّا طَوَافًا وَاحِدًا "، زَادَ فِي حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ بَكْرٍ: " طَوَافَهُ الْأَوَّلَ ".
یحییٰ بن سعید اور عبد بن حمید نے محمد بن بکر کے واسطے سے ابن جریج سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابو زبیر نے خبر دی کہانھوں نے جا بر بن عبد اللہ سے سنا، وہ فر ما رہے تھے َنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے صفا مروہ کے در میان طواف (سعی) ایک ہی مرتبہ کیا تھا۔ (عبد بن حمید نے) محمد بن بکر کی حدیث میں یہ اضا فہ کیا: (صفا مروہ کے درمیان) اپنا پہلا طواف (یعنی سعی جو وہ پہلی مرتبہ کر چکے تھے۔)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے صفا اور مروہ کے درمیان ایک ہی طواف کیا تھا، محمد بن بکر کی روایت میں اضافہ ہے، جو پہلے کر چکے تھے۔
حدیث نمبر: 2943
Save to word اعراب
وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن جريج ، اخبرني عطاء ، قال: سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما في ناس معي، قال: اهللنا اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم بالحج خالصا وحده، قال عطاء قال جابر: فقدم النبي صلى الله عليه وسلم صبح رابعة مضت من ذي الحجة، فامرنا ان نحل، قال عطاء: قال " حلوا واصيبوا النساء "، قال عطاء: ولم يعزم عليهم ولكن احلهن لهم، فقلنا لما لم يكن بيننا وبين عرفة إلا خمس، امرنا ان نفضي إلى نسائنا، فناتي عرفة تقطر مذاكيرنا المني، قال: يقول جابر: بيده كاني انظر إلى قوله بيده يحركها، قال: فقام النبي صلى الله عليه وسلم فينا، فقال: " قد علمتم اني اتقاكم لله واصدقكم وابركم ولولا هديي لحللت كما تحلون، ولو استقبلت من امري ما استدبرت لم اسق الهدي، فحلوا "، فحللنا وسمعنا واطعنا، قال عطاء: قال جابر: فقدم علي من سعايته، فقال: " بم اهللت؟ "، قال: بما اهل به النبي صلى الله عليه وسلم، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فاهد وامكث حراما "، قال: واهدى له علي هديا، فقال سراقة بن مالك بن جعشم: يا رسول الله العامنا هذا ام لابد؟، فقال: " لابد ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي نَاسٍ مَعِي، قَالَ: أَهْلَلْنَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ خَالِصًا وَحْدَهُ، قَالَ عَطَاءٌ قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَأَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ " حِلُّوا وَأَصِيبُوا النِّسَاءَ "، قَالَ عَطَاءٌ: وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ وَلَكِنْ أَحَلَّهُنَّ لَهُمْ، فَقُلْنَا لَمَّا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا خَمْسٌ، أَمَرَنَا أَنْ نُفْضِيَ إِلَى نِسَائِنَا، فَنَأْتِيَ عرَفَةَ تَقْطُرُ مَذَاكِيرُنَا الْمَنِيَّ، قَالَ: يَقُولُ جَابِرٌ: بِيَدِهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى قَوْلِهِ بِيَدِهِ يُحَرِّكُهَا، قَالَ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا، فَقَالَ: " قَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَتْقَاكُمْ لِلَّهِ وَأَصْدَقُكُمْ وَأَبَرُّكُمْ وَلَوْلَا هَدْيِي لَحَلَلْتُ كَمَا تَحِلُّونَ، وَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ، فَحِلُّوا "، فَحَلَلْنَا وَسَمِعْنَا وَأَطَعْنَا، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنْ سِعَايَتِهِ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ "، قَالَ: بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَأَهْدِ وَامْكُثْ حَرَامًا "، قَالَ: وَأَهْدَى لَهُ عَلِيٌّ هَدْيًا، فَقَالَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ؟، فَقَالَ: " لِأَبَدٍ ".
ابن جریج نے کہا: مجھے عطا ء نے خبر دی کہ میں نے اپنے متعدد فقاء کے ساتھ جا بر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے (احرا م کے وقت) صرف اکیلے حج ہی کا تلبیہ پکا را۔عطا ء نے کہا: حضرت جا بر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کی صبح مکہ پہنچے تھے۔آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال (احرا م کی پابندیوں سے فا رغ) ہو جا ئیں۔عطاء نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا تھا: " حلال ہو جاؤ اور اپنی عورتوں کے پاس جاؤ۔عطا ء نے کہا: (عورتوں کی قربت) آپ نے ان پر لا زم قرار نہیں دی تھی بلکہ بیویوں کو ان کے لیے صرف حلال قراردیا تھا۔ہم نے کہا: جب ہمارے اور یوم عرفہ کے درمیان محض پانچ دن باقی ہیں آپ نے ہمیں اپنی عورتوں کے پاس جا نے کی اجازت مرحمت فر ما دی ہے تو (یہ ایسا ہی ہے کہ) ہم (اس) عرفہ آئیں گے تو ہمارے اعضا ئے مخصوصہ سے منی کے قطرے ٹپک رہے ہوں گے۔عطاء نے کہا جابر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ سے (ٹپکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ایسا لگتا ہے میں اب بھی ان کے حرکت کرتے ہاتھ کا اشارہ دیکھ رہا ہوں۔جا بر رضی اللہ عنہ نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ دینے کے لیے) ہم میں کھڑے ہو ئے اور فرمایا: "تم (اچھی طرح) جا نتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا، تم سب سے زیادہ سچا اور تم سب سے زیادہ پارسا ہوں۔اگر میرے ساتھ قر بانی نہ ہو تی تو میں بھی ویسے حلال (احرا م سے فارغ) ہو جا تا جیسے تم حلال ہو ئے ہو، اگر وہ چیز پہلے میرے سامنے آجا تی جو بعد میں آئی تو میں قربانی اپنے ساتھ نہ لا تا، لہٰذا تم سب حلال (احرا م سے فارغ) ہو جاؤ۔چنانچہ پھر ہم حلال ہو گئے۔ہم نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو) سنا اور اطاعت کی۔عطاء نے کہا: حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا: (اتنے میں) حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی ذمہ داری سے (عہد ہبر آہو کر) پہنچ گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے) پو چھا: (علی) تم نے کس (حج) کا تلبیہ پکا را تھا؟"انھوں نے جواب دیا: جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "قربانی کرو اور احرا م ہی کی حالت میں رہو۔ (جا بر رضی اللہ عنہ نے) بیان کیا: حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی اپنے ہمراہ قربانی (کے جا نور) لا ئے تھے۔سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا اے اللہ کے رسول!!یہ (حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا) صرف ہمارے اسی سال کے لیے (جا ئز ہوا) ہے یا ہمیشہ کے لیے؟آپ نے فرمایا: "ہمیشہ کے لیے۔
حضرت عطاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کچھ ساتھیوں کے ساتھ، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، انہوں نے بتایا کہ ہم نے یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے، صرف خالص حج کا احرام باندھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار ذوالحجہ کی صبح مکہ مکرمہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حلال ہونے کا حکم دیا، عطاء کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حلال ہو جاؤ اور اپنی بیویوں سے تعلقات قائم کرو۔ عطاء کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلقات قائم کرنا ان کے لیے ضروری قرار نہ دیا لیکن ان کے لیے انہیں جائز قرار دے دیا۔ ہم نے آپس میں کہا، جب ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن رہ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عورتوں کے پاس جانے کے لیے فرما دیا ہے تو ہم عرفہ جائیں گے اور ہمارے عضو مخصوص سے منی ٹپک رہی ہو گی، یعنی تھوڑا عرصہ پہلے ہم تعلقات قائم کر چکے ہوں گے، عطاء کہتے ہیں، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ہاتھ کو حرکت دے رہے تھے، گویا کہ میں آپ (جابر) کے ہاتھ کو حرکت دیتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں خطاب کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم خوب جانتے ہو، میں تم میں سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ سچا اور سب سے زیادہ اطاعت گزار ہوں اور اگر میرے پاس ہدی نہ ہوتی تو میں بھی تمہاری طرح حلال ہو جاتا۔ اگر مجھے پہلے اس چیز کا پتہ چل جاتا، جس کا بعد میں پتہ چلا ہے تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا، اس لیے تم احرام کھول دو۔ تو ہم نے بات سنی اور اطاعت کرتے ہوئے احرام کھول دیا، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے فرائض سر انجام دے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے احرام کس نیت سے باندھا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، جس نیت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: قربانی کیجئے اور محرم ٹھہریے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ہدی لائے تھے، حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ ہمارے اس سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیشہ کے لیے۔
حدیث نمبر: 2944
Save to word اعراب
حدثنا ابن نمير ، حدثني ابي ، حدثنا عبد الملك بن ابي سليمان ، عن عطاء ، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: اهللنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج، فلما قدمنا مكة امرنا ان نحل ونجعلها عمرة، فكبر ذلك علينا وضاقت به صدورنا، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فما ندري اشيء بلغه من السماء ام شيء من قبل الناس، فقال: " ايها الناس احلوا، فلولا الهدي الذي معي، فعلت كما فعلتم "، قال: فاحللنا حتى وطئنا النساء، وفعلنا ما يفعل الحلال، حتى إذا كان يوم التروية، وجعلنا مكة بظهر اهللنا بالحج.حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَهْلَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ أَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ وَنَجْعَلَهَا عُمْرَةً، فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيْنَا وَضَاقَتْ بِهِ صُدُورُنَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا نَدْرِي أَشَيْءٌ بَلَغَهُ مِنَ السَّمَاءِ أَمْ شَيْءٌ مِنْ قِبَلِ النَّاسِ، فَقَالَ: " أَيُّهَا النَّاسُ أَحِلُّوا، فَلَوْلَا الْهَدْيُ الَّذِي مَعِي، فَعَلْتُ كَمَا فَعَلْتُمْ "، قَالَ: فَأَحْلَلْنَا حَتَّى وَطِئْنَا النِّسَاءَ، وَفَعَلْنَا مَا يَفْعَلُ الْحَلَالُ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ، وَجَعَلْنَا مَكَّةَ بِظَهْرٍ أَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ.
عبد الملک بن ابی سلیمان نے عطا ء سے انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا (احرا م باندھ کر) تلبیہ کہا۔جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم حلال ہو جائیں اور اسے (حج کی نیت کو) عمرے میں بدل دیں، یہ بات ہمیں بہت گراں (بڑی) لگی اور اس سے ہمارے دل بہت تنگ ہو ئے (ہمارے اس قلق کی خبر) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچ گئی۔معلوم نہیں کہ آپ کو آسمان سے (بذریعہ وحی) اس چیز کی خبر پہنچی یا لوگوں کے ذریعے سے کوئی چیز معلوم ہوئی۔آپ نے فرمایا: "اے لوگو!حلال ہو جاؤ (احرا م کھول دو) اگر میرے ساتھ قربانی نہ ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جس طرح تم نے کیا ہے (جابر رضی اللہ عنہ نے) بیان کیا: ہم حلال (احرا م سےآزاد) ہو گئے حتی کہ اپنی بیویوں سے قربت بھی کی اور (وہ سب کچھ) کیا جو حلال (احرا م کے بغیر) انسان کرتا ہے۔ حتی کہ ترویہ کا دن (آٹھ ذوالحجہ) آ گیا۔اور ہم نے مکہ کو پیچھے چھوڑ ا (خیر باد کہا) اور حج کا (احرام باند ھ کر) تلبیہ کہنے لگے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی الله تعالی عنهما بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھا تو جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں احرام کھولنے اور حج کو عمرہ قرار دینے کا حکم دیا تو یہ چیز ہمارے لیے انتہائی ناگواری کا باعث بنی اور اس سے ہمارے سینے میں تنگی (گھٹن) پیدا ہوئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ بات پہنچ گئی، اس کا ہمیں علم نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم آسمانی وحی سے ہوا، یا لوگوں کی طرف سے پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! احرام کھول دو، اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی تمہاری طرح احرام کھول دیتا۔ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، اس پر ہم حلال ہو گئے، حتی کہ عورتوں سے تعلقات قائم کئے اور حلال والا ہر کام کیا، حتی کہ جب ترویہ کا دن آیا اور ہم مکہ سے روانہ ہو گئے تو ہم نے حج کا احرام باندھا۔
حدیث نمبر: 2945
Save to word اعراب
وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابو نعيم ، حدثنا موسى بن نافع ، قال: قدمت مكة متمتعا بعمرة قبل التروية باربعة ايام، فقال الناس: تصير حجتك الآن مكية، فدخلت على عطاء بن ابي رباح فاستفتيته، فقال عطاء: حدثني جابر بن عبد الله الانصاري رضي الله عنهما، انه حج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام ساق الهدي معه، وقد اهلوا بالحج مفردا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " احلوا من إحرامكم فطوفوا بالبيت وبين الصفا والمروة، وقصروا واقيموا حلالا، حتى إذا كان يوم التروية فاهلوا بالحج، واجعلوا التي قدمتم بها متعة "، قالوا: كيف نجعلها متعة وقد سمينا الحج؟، قال: " افعلوا ما آمركم به، فإني لولا اني سقت الهدي، لفعلت مثل الذي امرتكم به، ولكن لا يحل مني حرام حتى يبلغ الهدي محله ففعلوا ".وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ نَافِعٍ ، قَالَ: قَدِمْتُ مَكَّةَ مُتَمَتِّعًا بِعُمْرَةٍ قَبْلَ التَّرْوِيَةِ بِأَرْبَعَةِ أَيَّامٍ، فَقَالَ النَّاسُ: تَصِيرُ حَجَّتُكَ الْآنَ مَكِّيَّةً، فَدَخَلْتُ عَلَى عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ فَاسْتَفْتَيْتُهُ، فَقَالَ عَطَاءٌ: حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ حَجَّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ سَاقَ الْهَدْيَ مَعَهُ، وَقَدْ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ مُفْرَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَحِلُّوا مِنْ إِحْرَامِكُمْ فَطُوفُوا بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَقَصِّرُوا وَأَقِيمُوا حَلَالًا، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ فَأَهِلُّوا بِالْحَجِّ، وَاجْعَلُوا الَّتِي قَدِمْتُمْ بِهَا مُتْعَةً "، قَالُوا: كَيْفَ نَجْعَلُهَا مُتْعَةً وَقَدْ سَمَّيْنَا الْحَجَّ؟، قَالَ: " افْعَلُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ، فَإِنِّي لَوْلَا أَنِّي سُقْتُ الْهَدْيَ، لَفَعَلْتُ مِثْلَ الَّذِي أَمَرْتُكُمْ بِهِ، وَلَكِنْ لَا يَحِلُّ مِنِّي حَرَامٌ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَفَعَلُوا ".
موسیٰ بن نافع نے کہا: میں عمرے کی نیت سے یوم ترویہ (آٹھ ذوالحجہ) سے چار دن پہلے مکہ پہنچا لوگوں نے کہا: اب تو تمھارا مکی حج ہو گا۔ (میں ان کی باتیں سن کر) عطاء بن ابی رباح کے ہاں حاضر ہوا اور ان سے (اس مسئلے کے بارے میں) فتویٰ پوچھا۔عطاء نے جواب دیا: مجھے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی کہ انھوں نے اُس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی سعادت حاصل کی تھی لوگوں نے حج افراد کا (احرا م باند ھ کر) تلبیہ کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فر مایا: "اپنے احرا م سے فارغ ہو جاؤ۔ بیت اللہ کا اور صفا و مروہ کا طواف (سعی کرو) ۔اپنے بال چھوٹے کرو الو اورحلال (احرام سے آزاد) ہو جاؤ جب ترویہ (آٹھ ذوالحجہ کا) کا دن آجائے تو حج کا (احرا م باندھ کر) تلبیہ کہو۔ اور (حج افراد کو) جس کے لیے تم آئے تھے اسے حج تمتع بنا لو۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: (اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !) ہم اسے کیسے حج تمتع بنا لیں؟ہم نے تو صرف حج کا نام لے کر تلبیہ کہا تھا آپ نے فر مایا: " میں نے تمھیں جو حکم دیا ہے وہی کرو۔اگر میں اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا تو اسی طرح کرتا جس طرح تمھیں حکم دے رہا ہوں۔لیکن مجھ پر (احرام کی وجہ سے) حرام کردہ چیزیں اس وقت تک حلال نہیں ہو ں گی جب تک کہ قربانی اپنی قربان گا ہ میں نہیں پہنچ جاتی۔اس پر لوگوں نے ویسا ہی کیا (جس کا آپ نے حکم دیا تھا)۔
موسیٰ بن نافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کی نیت سے احرام باندھ کر ترویہ کے دن سے چار دن پہلے مکہ پہنچا تو لوگوں نے کہا، اب تیرا حج مکی ہو گا (یعنی میقات سے حج کا احرام باندھنے والا ثواب نہیں ملے گا) تو میں عطاء بن ابی رباح کے پاس گیا اور ان سے مسئلہ پوچھا، عطاء نے بتایا، مجھے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا، میں نے اس سال جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدی ساتھ لے کر گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا، لوگوں نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا احرام کھول دو، یعنی حج کی بجائے عمرہ قرار دے لو، بیت اللہ کا طواف کرو اور درمیان صفا اور مروہ کے، سر کتروا لو اور حلال ہو جاؤ۔ جب ترویہ کا دن آ جائے تو حج کا احرام باندھ لینا اور جس حج کا احرام باندھا ہے، اس کو حج تمتع بنا لو۔ لوگوں نے عرض کیا، ہم اس کو تمتع کیسے بنا لیں جبکہ ہم نے حج (مفرد) کا احرام باندھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو حکم میں دیتا ہوں، اس پر عمل کرو اور اگر میں ہدی ساتھ نہ لایا ہوتا تو جس کا تمہیں حکم دے رہا ہوں، میں بھی اسی طرح کرتا، لیکن اس وقت تک احرام نہیں کھول سکتا، جب تک ہدی اپنے حلال ہونے کی جگہ نہیں پہنچتی۔ تو لوگوں نے ایسے ہی کیا۔
حدیث نمبر: 2946
Save to word اعراب
وحدثنا محمد بن معمر بن ربعي القيسي ، حدثنا ابو هشام المغيرة بن سلمة المخزومي ، عن ابي عوانة ، عن ابي بشر ، عن عطاء بن ابي رباح ، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: " قدمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم مهلين بالحج، فامرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نجعلها عمرة ونحل، قال: وكان معه الهدي فلم يستطع ان يجعلها عمرة ".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرِ بْنِ رِبْعِيٍّ الْقَيْسِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَجْعَلَهَا عُمْرَةً وَنَحِلَّ، قَالَ: وَكَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً ".
ابو بشر نے عطاء بن ابی رباح سے انھوں نے جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: ہم حج کا تلبیہ کہتے ہو ئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مکہ) آئے آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اس (حج کی نیت اور احرا م کو) عمرے میں بدل دیں اور (عمرے کے بعد) حلال (عمرے سے فارغ) ہو جائیں (حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی تھی اس لیے آپ اپنے حج کو عمرہ نہیں بنا سکتے تھے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر (مکہ) پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسے عمرہ قرار دینے کا حکم دیا اور اس بات کا حکم دیا کہ ہم حلال ہو جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چونکہ ہدی تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے عمرہ قرار نہ دے سکے۔
18. باب فِي الْمُتْعَةِ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ:
18. باب: حج اور عمرہ میں تمتع کے بارے میں۔
Chapter: Tamattu with Hajj and Umrah
حدیث نمبر: 2947
Save to word اعراب
حدثنا حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت قتادة يحدث، عن ابي نضرة ، قال: كان ابن عباس يامر بالمتعة، وكان ابن الزبير ينهى عنها. (حديث موقوف) قال: قال: فذكرت ذلك لجابر بن عبد الله ، فقال: " على يدي دار الحديث تمتعنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم " فلما قام عمر ، قال: " إن الله كان يحل لرسوله ما شاء بما شاء، وإن القرآن قد نزل منازله فاتموا الحج والعمرة لله كما امركم الله، وابتوا نكاح هذه النساء، فلن اوتى برجل نكح امراة إلى اجل، إلا رجمته بالحجارة "،حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَأْمُرُ بِالْمُتْعَةِ، وَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَنْهَى عَنْهَا. (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ: " عَلَى يَدَيَّ دَارَ الْحَدِيثُ تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَلَمَّا قَامَ عُمَرُ ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ كَانَ يُحِلُّ لِرَسُولِهِ مَا شَاءَ بِمَا شَاءَ، وَإِنَّ الْقُرْآنَ قَدْ نَزَلَ مَنَازِلَهُ فَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ كَمَا أَمَرَكُمُ اللَّهُ، وَأَبِتُّوا نِكَاحَ هَذِهِ النِّسَاءِ، فَلَنْ أُوتَى بِرَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً إِلَى أَجَلٍ، إِلَّا رَجَمْتُهُ بِالْحِجَارَةِ "،
شعبہ نے کہا: میں نے قتادہ سے سنا، وہ ابو نضرہ سے حدیث بیان کر رہے تھے، کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہ حج تمتع کا حکم دیا کر تے تھے اور ابن زبیر رضی اللہ عنہ اس سے منع فرماتے تھے۔ (ابو نضرہ نے) کہا: میں نے اس چیز کا ذکر جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے کیا، انھوں نے فرمایا: "میرے ہی ذریعے سے (حج کی) یہ حدیث پھیلی ہے۔ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (جا کر) حج تمتع کیا تھا۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ (خلیفہ بن کر) کھڑے ہوئے (بحیثیت خلیفہ خطبہ دیا) توا نھوں نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جو چیز جس ذریعے سے چاہتا حلال کر دیتا تھا اور بلاشبہ قرآن نے جہاں جہاں (جس جس معاملے میں) اترنا تھا، اتر چکا، لہذا تم اللہ کے لئے حج کو اور عمرے کو مکمل کرو، جس طرح (الگ الگ نام لے کر) اللہ تعالیٰ نے تمھیں حکم دیا ہے۔اور ان عورتوں سے حتمی طور پر نکاح کیا کرو (جز وقتی نہیں)، اگر میرے پاس کوئی ایسا شخص لایا گیا جس نے کسی عورت سے کسی خاص مدت تک کے لئے نکاح کیا ہو گا تو میں اسے پتھروں سے رجم کروں گا۔
ابو نضرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج تمتع کا حکم دیتے تھے، اور ابن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے منع کرتے تھے، یہ بات میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتائی تو انہوں نے بتایا، یہ حدیث میرے ذریعہ ہی پھیلی ہے، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج تمتع کیا، پھر جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلافت کے منصب پر فائز ہوئے تو انہوں نے کہا، اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جس چیز کو جیسے چاہتا تھا، حلال کر دیتا تھا، اور قرآن مجید کا ہر حکم اپنی جگہ لے چکا ہے، اس لیے تم حج اور عمرہ اس طرح پورا کرو، جیسے تمہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، اور ان عورتوں کے نکاح کو یقینی اور دائمی ٹھہراؤ، پھر میرے پاس جو ایسا آدمی لایا جائے گا جس نے ایک مقررہ مدت تک کے لیے نکاح کیا ہو گا تو میں اس کو رجم کر کے رہوں گا، پتھروں سے مار دوں گا۔
حدیث نمبر: 2948
Save to word اعراب
وحدثنيه زهير بن حرب ، حدثنا عفان ، حدثنا همام ، حدثنا قتادة بهذا الإسناد، وقال في الحديث: " فافصلوا حجكم من عمرتكم، فإنه اتم لحجكم، واتم لعمرتكم ".وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: " فَافْصِلُوا حَجَّكُمْ مِنْ عُمْرَتِكُمْ، فَإِنَّهُ أَتَمُّ لِحَجِّكُمْ، وَأَتَمُّ لِعُمْرَتِكُمْ ".
ہمیں ہمام نے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: ہمیں قتادہ نے اسی (مذکورہ بالا) سندسے حدیث بیا ن کی، اور (اپنی) حدیث میں کہا: اپنے حج کو اپنے عمرے سے الگ (ادا کیا) کرو۔بلا شبہ یہ تمھارے حج کو اور تمھارے عمرے کو زیادہ مکمل کرنے والا ہے۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں، اور اس میں یہ ہے کہ اپنے حج کو عمرہ سے جدا کرو، کیونکہ اس طرح تمہارا حج الگ پورا ہو گا اور تمہارا عمرہ الگ پورا ہو گا۔
حدیث نمبر: 2949
Save to word اعراب
وحدثنا خلف بن هشام ، وابو الربيع ، وقتيبة جميعا، عن حماد ، قال خلف: حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب ، قال: سمعت مجاهدا يحدث، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: " قدمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نقول: لبيك بالحج فامرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نجعلها عمرة ".وحَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ ، وَقُتَيْبَةُ جميعا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ خَلَفٌ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَقُولُ: لَبَّيْكَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَجْعَلَهَا عُمْرَةً ".
مجاہد نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیا ن کی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حج کے لئے) آئے اور ہم کہہ رہے تھے: اے اللہ! میں حج کرنے کے لئے حاضر ہوں (ہماری نیت حج کی تھی راستے میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا۔ کہ ہم اسے عمر ہ بنا لیں۔اور لبیک عمرۃکہیں۔)
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے اور ہم حج کا تلبیہ کہہ رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اسے عمرہ قرار دینے کا حکم دیا۔
19. باب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
19. باب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا بیان۔
Chapter: The Hajj of the Prophet saws
حدیث نمبر: 2950
Save to word اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم جميعا، عن حاتم ، قال ابو بكر: حدثنا حاتم بن إسماعيل المدني، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، قال: دخلنا على جابر بن عبد الله فسال عن القوم حتى انتهى إلي، فقلت انا محمد بن علي بن حسين فاهوى بيده إلى راسي، فنزع زري الاعلى، ثم نزع زري الاسفل، ثم وضع كفه بين ثديي، وانا يومئذ غلام شاب، فقال مرحبا بك يا ابن اخي، سل عما شئت، فسالته وهو اعمى وحضر وقت الصلاة، فقام في نساجة ملتحفا بها كلما وضعها على منكبه، رجع طرفاها إليه من صغرها ورداؤه إلى جنبه على المشجب، فصلى بنا، فقلت:" اخبرني عن حجة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال بيده: فعقد تسعا، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم مكث تسع سنين لم يحج، ثم اذن في الناس في العاشرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم حاج، فقدم المدينة بشر كثير، كلهم يلتمس ان ياتم برسول الله صلى الله عليه وسلم ويعمل مثل عمله، فخرجنا معه حتى اتينا ذا الحليفة فولدت اسماء بنت عميس محمد بن ابي بكر، فارسلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم كيف اصنع؟، قال:" اغتسلي واستثفري بثوب واحرمي"، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد، ثم ركب القصواء حتى إذا استوت به ناقته على البيداء نظرت إلى مد بصري بين يديه من راكب وماش، وعن يمينه مثل ذلك وعن يساره مثل ذلك، ومن خلفه مثل ذلك ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين اظهرنا، وعليه ينزل القرآن وهو يعرف تاويله وما عمل به من شيء عملنا به، فاهل بالتوحيد: لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك، إن الحمد والنعمة، لك والملك، لا شريك لك، واهل الناس بهذا الذي يهلون به فلم يرد رسول الله صلى الله عليه وسلم عليهم شيئا منه، ولزم رسول الله صلى الله عليه وسلم تلبيته، قال جابر رضي الله عنه: لسنا ننوي إلا الحج لسنا نعرف العمرة، حتى إذا اتينا البيت معه، استلم الركن فرمل ثلاثا ومشى اربعا، ثم نفذ إلى مقام إبراهيم عليه السلام، فقرا واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى سورة البقرة آية 125 فجعل المقام بينه وبين البيت، فكان ابي يقول: ولا اعلمه ذكره إلا عن النبي صلى الله عليه وسلم، كان يقرا في الركعتين قل هو الله احد سورة الإخلاص آية 1 و قل يايها الكافرون سورة الكافرون آية 1 ثم رجع إلى الركن فاستلمه، ثم خرج من الباب إلى الصفا، فلما دنا من الصفا قرا إن الصفا والمروة من شعائر الله سورة البقرة آية 158 ابدا بما بدا الله به، فبدا بالصفا فرقي عليه حتى راى البيت، فاستقبل القبلة فوحد الله وكبره، وقال: لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير، لا إله إلا الله وحده، انجز وعده، ونصر عبده، وهزم الاحزاب وحده، ثم دعا بين ذلك، قال مثل هذا ثلاث مرات، ثم نزل إلى المروة، حتى إذا انصبت قدماه في بطن الوادي سعى، حتى إذا صعدتا مشى حتى اتى المروة ففعل على المروة كما فعل على الصفا، حتى إذا كان آخر طوافه على المروة، فقال: لو اني استقبلت من امري ما استدبرت، لم اسق الهدي، وجعلتها عمرة، فمن كان منكم ليس معه هدي فليحل وليجعلها عمرة، فقام سراقة بن مالك بن جعشم، فقال يا رسول الله: العامنا هذا ام لابد؟ فشبك رسول الله صلى الله عليه وسلم اصابعه واحدة في الاخرى، وقال: دخلت العمرة في الحج مرتين، لا بل لابد ابد، وقدم علي من اليمن ببدن النبي صلى الله عليه وسلم، فوجد فاطمة رضي الله عنها ممن حل ولبست ثيابا صبيغا واكتحلت، فانكر ذلك عليها، فقالت: إن ابي امرني بهذا، قال: فكان علي يقول بالعراق: فذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم محرشا على فاطمة للذي صنعت، مستفتيا لرسول الله صلى الله عليه وسلم فيما ذكرت عنه، فاخبرته اني انكرت ذلك عليها، فقال: صدقت صدقت، ماذا قلت: حين فرضت الحج؟، قال: قلت اللهم إني اهل بما اهل به رسولك، قال: فإن معي الهدي فلا تحل، قال: فكان جماعة الهدي الذي قدم به علي من اليمن، والذي اتى به النبي صلى الله عليه وسلم مائة، قال: فحل الناس كلهم وقصروا إلا النبي صلى الله عليه وسلم ومن كان معه هدي، فلما كان يوم التروية توجهوا إلى منى فاهلوا بالحج، وركب رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى بها الظهر والعصر والمغرب والعشاء والفجر، ثم مكث قليلا حتى طلعت الشمس، وامر بقبة من شعر تضرب له بنمرة، فسار رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا تشك قريش إلا انه واقف عند المشعر الحرام كما كانت قريش تصنع في الجاهلية، فاجاز رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اتى عرفة فوجد القبة قد ضربت له بنمرة، فنزل بها حتى إذا زاغت الشمس، امر بالقصواء فرحلت له، فاتى بطن الوادي فخطب الناس، وقال: إن دماءكم واموالكم حرام عليكم كحرمة يومكم هذا في شهركم هذا في بلدكم هذا، الا كل شيء من امر الجاهلية تحت قدمي موضوع، ودماء الجاهلية موضوعة، وإن اول دم اضع من دمائنا دم ابن ربيعة بن الحارث كان مسترضعا في بني سعد فقتلته هذيل، وربا الجاهلية موضوع، واول ربا اضع ربانا ربا عباس بن عبد المطلب، فإنه موضوع كله، فاتقوا الله في النساء، فإنكم اخذتموهن بامان الله، واستحللتم فروجهن بكلمة الله، ولكم عليهن ان لا يوطئن فرشكم احدا تكرهونه، فإن فعلن ذلك فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف، وقد تركت فيكم ما لن تضلوا بعده إن اعتصمتم به كتاب الله، وانتم تسالون عني فما انتم قائلون؟، قالوا: نشهد انك قد بلغت واديت ونصحت، فقال بإصبعه السبابة يرفعها إلى السماء وينكتها إلى الناس: اللهم اشهد اللهم اشهد ثلاث مرات، ثم اذن، ثم اقام فصلى الظهر، ثم اقام فصلى العصر ولم يصل بينهما شيئا، ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اتى الموقف، فجعل بطن ناقته القصواء إلى الصخرات، وجعل حبل المشاة بين يديه واستقبل القبلة، فلم يزل واقفا حتى غربت الشمس وذهبت الصفرة قليلا، حتى غاب القرص واردف اسامة خلفه، ودفع رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد شنق للقصواء الزمام، حتى إن راسها ليصيب مورك رحله، ويقول بيده اليمنى: ايها الناس السكينة السكينة، كلما اتى حبلا من الحبال ارخى لها قليلا حتى تصعد، حتى اتى المزدلفة فصلى بها المغرب والعشاء باذان واحد وإقامتين ولم يسبح بينهما شيئا، ثم اضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى طلع الفجر، وصلى الفجر حين تبين له الصبح باذان وإقامة، ثم ركب القصواء حتى اتى المشعر الحرام، فاستقبل القبلة فدعاه وكبره وهلله ووحده، فلم يزل واقفا حتى اسفر جدا فدفع قبل ان تطلع الشمس، واردف الفضل بن عباس وكان رجلا حسن الشعر ابيض وسيما فلما دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم مرت به ظعن يجرين، فطفق الفضل ينظر إليهن، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده على وجه الفضل، فحول الفضل وجهه إلى الشق الآخر ينظر، فحول رسول الله صلى الله عليه وسلم يده من الشق الآخر على وجه الفضل، يصرف وجهه من الشق الآخر ينظر، حتى اتى بطن محسر فحرك قليلا ثم سلك الطريق الوسطى التي تخرج على الجمرة الكبرى حتى اتى الجمرة التي عند الشجرة فرماها بسبع حصيات، يكبر مع كل حصاة منها مثل حصى الخذف رمى من بطن الوادي، ثم انصرف إلى المنحر فنحر ثلاثا وستين بيده، ثم اعطى عليا فنحر ما غبر واشركه في هديه، ثم امر من كل بدنة ببضعة فجعلت في قدر، فطبخت فاكلا من لحمها وشربا من مرقها، ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم فافاض إلى البيت فصلى بمكة الظهر، فاتى بني عبد المطلب يسقون على زمزم، فقال: انزعوا بني عبد المطلب، فلولا ان يغلبكم الناس على سقايتكم، لنزعت معكم، فناولوه دلوا فشرب منه"،
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعًا، عَنْ حَاتِمٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل الْمَدَنِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فَسَأَلَ عَنِ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ، فَقُلْتُ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي، فَنَزَعَ زِرِّي الْأَعْلَى، ثُمَّ نَزَعَ زِرِّي الْأَسْفَلَ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ، فَقَالَ مَرْحَبًا بِكَ يَا ابْنَ أَخِي، سَلْ عَمَّا شِئْتَ، فَسَأَلْتُهُ وَهُوَ أَعْمَى وَحَضَرَ وَقْتُ الصَّلَاةِ، فَقَامَ فِي نِسَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبِهِ، رَجَعَ طَرَفَاهَا إِلَيْهِ مِنْ صِغَرِهَا وَرِدَاؤُهُ إِلَى جَنْبِهِ عَلَى الْمِشْجَبِ، فَصَلَّى بِنَا، فَقُلْتُ:" أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ بِيَدِهِ: فَعَقَدَ تِسْعًا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ، ثُمَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فِي الْعَاشِرَةِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ، كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَعْمَلَ مِثْلَ عَمَلِهِ، فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَصْنَعُ؟، قَالَ:" اغْتَسِلِي وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي"، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ، وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلَ ذَلِكَ وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلَ ذَلِكَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ وَمَا عَمِلَ بِهِ مِنْ شَيْءٍ عَمِلْنَا بِهِ، فَأَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ، وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَيْئًا مِنْهُ، وَلَزِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلْبِيَتَهُ، قَالَ جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ، حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ، اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا، ثُمَّ نَفَذَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَرَأَ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، فَكَانَ أَبِي يَقُولُ: وَلَا أَعْلَمُهُ ذَكَرَهُ إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ سورة الإخلاص آية 1 وَ قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ سورة الكافرون آية 1 ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الصَّفَا قَرَأَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ، فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَوَحَّدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ، وَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ، قَالَ مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ، حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْوَادِي سَعَى، حَتَّى إِذَا صَعِدَتَا مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا، حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ طَوَافِهِ عَلَى الْمَرْوَةِ، فَقَالَ: لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ، وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحِلَّ وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً، فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ؟ فَشَبَّكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ وَاحِدَةً فِي الْأُخْرَى، وَقَالَ: دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ مَرَّتَيْنِ، لَا بَلْ لِأَبَدٍ أَبَدٍ، وَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ بِبُدْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مِمَّنْ حَلَّ وَلَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا وَاكْتَحَلَتْ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي أَمَرَنِي بِهَذَا، قَالَ: فَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ بِالْعِرَاقِ: فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَرِّشًا عَلَى فَاطِمَةَ لِلَّذِي صَنَعَتْ، مُسْتَفْتِيًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا ذَكَرَتْ عَنْهُ، فَأَخْبَرْتُهُ أَنِّي أَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: صَدَقَتْ صَدَقَتْ، مَاذَا قُلْتَ: حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ؟، قَالَ: قُلْتُ اللَّهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ، قَالَ: فَإِنَّ مَعِيَ الْهَدْيَ فَلَا تَحِلُّ، قَالَ: فَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي قَدِمَ بِهِ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ، وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةً، قَالَ: فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ تَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى فَأَهَلُّوا بِالْحَجِّ، وَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِهَا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ، ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ شَعَرٍ تُضْرَبُ لَهُ بِنَمِرَةَ، فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ، فَنَزَلَ بِهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ، أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِلَتْ لَهُ، فَأَتَى بَطْنَ الْوَادِي فَخَطَبَ النَّاسَ، وَقَالَ: إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ، وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ، فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللَّهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّي فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟، قَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ، فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ: اللَّهُمَّ اشْهَدِ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَذَّنَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ، فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ، وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا، حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَهُ، وَدَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ، حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَيُصِيبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ، وَيَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى: أَيُّهَا النَّاسُ السَّكِينَةَ السَّكِينَةَ، كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا مِنَ الْحِبَالِ أَرْخَى لَهَا قَلِيلًا حَتَّى تَصْعَدَ، حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، وَصَلَّى الْفَجْرَ حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَدَعَاهُ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ وَكَانَ رَجُلًا حَسَنَ الشَّعْرِ أَبْيَضَ وَسِيمًا فَلَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِهِ ظُعُنٌ يَجْرِينَ، فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ، فَحَوَّلَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ، فَحَوَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ، يَصْرِفُ وَجْهَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ، حَتَّى أَتَى بَطْنَ مُحَسِّرٍ فَحَرَّكَ قَلِيلًا ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تَخْرُجُ عَلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا مِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بِيَدِهِ، ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ، ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ، فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ، فَأَتَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ، فَقَالَ: انْزِعُوا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ، لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ، فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ"،
ہم سے حاتم بن اسماعیل مدنی نے جعفر (الصادق) بن محمد (الباقرؒ) سے، انھوں نےاپنے والد سے ر وایت کی، کہا: ہم جابر بن عبداللہ کے ہاں آئے، انھوں نے سب کے متعلق پوچھنا شروع کیا، حتیٰ کہ مجھ پر آکر رک گئے، میں نے بتایا: میں محمد بن علی بن حسین ہوں، انھوں نے (ازراہ شفقت) اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے سر پر رکھا، پھر میرا اوپر، پھر نیچے کا بٹن کھولا اور (انتہائی شفقت اورمحبت سے) اپنی ہتھیلی میرے سینے کے درمیان رکھ دی، ان دنوں میں بالکل نوجوان تھا، فرمانے لگے: میرے بھتیجے تمھیں خوش آمدید!تم جوچاہوپوچھ سکتے ہو، میں نے ان سے سوال کیا، وہ ان دنوں نابینا ہوچکے تھے۔ (اس وقت) نماز کا وقت ہوگیا تھا، اور موٹی بُنائی کا ایک کپڑا اوڑھنے والا لپیٹ کر (نماز کےلیے) کھڑے ہوگئے۔وہ جب بھی اس (کے ایک پلو) کو (دوسری جانب) کندھے پر ڈالتے تو چھوٹا ہونے کی بناء پر اس کے دونوں پلوواپس آجاتے جبکہ ا ن کی (بڑی) چادر ان کے پہلو میں ایک کھونٹی پرلٹکی ہوئی تھی۔انھوں نے ہمیں نماز پڑھائی، (نماز سے فارغ ہوکر) میں نے عرض کی: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں بتائیے۔انھوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور نو گرہ بنائی، اور کہنے لگے: بلاشبہ نو سال ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توقف فرمایا، حج نہیں کیا، اس کےبعد دسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اعلان کروایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حج کررہے ہیں۔ (یہ اعلان سنتے ہی) بہت زیادہ لوگ مدینہ میں آگئے۔وہ سب اس بات کے خواہشمند تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں۔اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کریں اس پر عمل کریں۔ (پس) ہم سب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ ذوالحلیفہ پہنچ گئے، (وہاں) حضرت اسماء بن عمیس رضی اللہ عنہا نے محمد بن ابی بکر کو جنم دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھی بھیجا کہ (زچگی کی اس حالت میں اب) میں کیا کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "غسل کرو، کپڑے کالنگوٹ کسو، اور حج کا احرام باندھ لو۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ذوالحلیفہ کی) مسجد میں نماز ادا کی۔اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوگئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر بیداء کے مقام پر سیدھی کھڑی ہوئی۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے، تاحد نگاہ پیادے اورسوار ہی دیکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بھی یہی حال تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان (موجود) تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرقرآن نازل ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کی (حقیقی) تفسیر جانتے تھے۔جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے ہم بھی اس پر عمل کرتے تھے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اللہ کی) توحید کا تلبیہ پکارا"لبیک اللہم لبیک .. لبیک لا شریک لک لبیک .. إن الحمد والنعمۃ لک والملک .. لا شریک لک"ان لوگوں نے وہی تلبیہ پکارا۔"اور لوگوں نے وہی تلبیہ پکارا جو (بعض الفاظ کے اضافے کے ساتھ) وہ آج پکارتے ہیں۔آپ نے ان کے تلبیہ میں کسی بات کو مسترد نہیں کیا۔اور اپنا وہی تلبیہ (جو پکاررہے تھے) پکارتے رہے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہماری نیت حج کےعلاوہ کوئی (اور) نہ تھی، (حج کے مہینوں میں) عمرے کو ہم جانتے (تک) نہ تھے۔حتیٰ کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کااستلام (ہاتھ یا ہونٹوں سے چھونا) کیا، پھر (طواف شروع کیا)، تین چکروں میں چھوٹے قدم اٹھاتے، کندھوں کوحرکت دیتے ہوئے، تیز چلے، اور چار چکروں میں (آرام سے) چلے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیمؑ کی طرف بڑھے اوریہ آیت تلاوت فرمائی (وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَ‌اہِیمَ مُصَلًّی) "اور مقام ابراہیم (جہاں آپ کھڑے ہوئے تھے) کو نماز کی جگہ بناؤ"۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیمؑ کواپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھا۔میرے والد (محمد الباقرؒ) کہا کر تے تھے۔اور مجھے معلوم نہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےعلاوہ کسی اور (کے حوالے) سے یہ کہا ہو۔کہ آپ دو رکعتوں میں (قُلْ ہُوَ اللَّـہُ أَحَدٌ) اور (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُ‌ونَ) پڑھا کرتے تھے۔پھر آپ حجر اسود کے پاس تشریف لائے، اس کا استلام کیا اور باب (صفا) سے صفا (پہاڑی) کی جانب نکلے۔جب آپ (کوہ) صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت تلاوت فرمائی: (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْ‌وَۃَ مِن شَعَائِرِ‌اللَّـہِ ۖ) "صفا اور مروہ اللہ کے شعائر (مقرر کردہ علامتوں) میں سے ہیں۔"میں (بھی سعی کا) وہیں سے آغاز کررہا ہوں جس (کےذکر) سے اللہ تعالیٰ نے آغاز فرمایا۔"اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفاسے (سعی کا) آغاز فرمایا۔اس پر چڑھتے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کودیکھ لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہوئے، اللہ کی وحدانیت اورکبریائی بیان فرمائی۔اور کہا: "اللہ کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں، وہ اکیلا ہے، ساری بادشاہت اسی کی ہے اورساری تعریف اسی کے لئے ہے۔اکیلے اللہ کےسوا کوئی عبادت کےلائق نہیں، اس نےاپنا وعدہ خوب پورا کیا، اپنے بندے کی نصرت فرمائی، تنہا (اسی نے) ساری جماعتوں (فوجوں) کو شکست دی۔"ان (کلمات) کے مابین دعا فرمائی۔آپ نے یہ کلمات تین مرتبہ ارشادفرمائے تھے۔پھر مروہ کی طرف اترے۔حتیٰ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک وادی کی ترائی میں پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی فرمائی، (تیز قدم چلے) جب وہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےقدم مباک مروہ کی) چڑھائی چڑھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (معمول کی رفتار سے) چلنے لگے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مروہ کی طرف پہنچ گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مروہ پر اسی طرح کیا جس طرح صفا پر کیا تھا۔جب مروہ پر آخری چکر تھا تو فرمایا: " اگر پہلے میرے سامنے وہ بات ہوتی جو بعد میں آئی تو میں قربانی ساتھ نہ لاتا، اور اس (منسک) کو عمرے میں بدل دیتا، لہذا تم میں سے جس کے ہمرا ہ قربانی نہیں، وہ حلال ہوجائے اور اس (منسک) کو عمرہ قرار دے لے۔" (اتنے میں) سراقہ بن مالک جعشم رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے عرض کی: اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا) ہمارے اسی سال کے لئے (خاص) ہے یا ہمیشہ کے لئے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی (دونوں ہاتھوں کی) انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کیں، اور فرمایا: "عمرہ، حج میں داخل ہوگیا۔"دو مرتبہ (ایسا کیا اورساتھ ہی فرمایا:) " صرف اسی سال کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔"حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کی اونٹنیاں لے کرآئے، انھوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو احرام سے فارغ ہوچکے تھے۔، رنگین کپڑے پہن لیے تھے اورسرمہ لگایا ہوا ہے۔اسےا نھوں (حضرت علی رضی اللہ عنہ) نے ان کے لئے نادرست قرار دیا۔انھوں نے جواب دیا: میرے والدگرامی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق میں کہا کرتے تھے: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس، اس کام کی وجہ سے جو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کیاتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے خلاف ابھارنے کے لئے گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کے متعلق پوچھنے کے لئے جو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہی تھی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (یہ بھی) بتایا کہ میں نے ان کے اس کام (احرام کھولنے) پر اعتراض کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا ہے، اس نے بالکل سچ کہا ہے۔اورتم نے جب حج کی نیت کی تھی تو کیا کہا تھا؟"میں نے جواب دیا میں نے کہا تھا: اے اللہ! میں بھی اسی (منسک) کے لئے تلبیہ پکارتاہوں۔جس کے لئے تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ پکارا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میرے ساتھ قربانی ہے۔ (میں عمرے کے بعدحلال نہیں ہوسکتا اور تمھاری بھی نیت میری نیت جیسی ہے، لہذا) تم بھی عمرے سے فارغ ہونے کے بعد احرام مت کھولنا۔ (حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: جانوروں کی مجموعی تعداد جو حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائےتھے اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ لے کرآئے تھے۔ایک سوتھی۔پھر (عمرے کےبعد) تمام لوگوں نے (جن کے پاس قربانیاں نہیں تھیں) احرام کھول لیا اور بال کتروالیے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ لوگ جن کے ہمراہ قربانیاں تھیں (انھوں نے احرام نہیں کھولا)، جب ترویہ (آٹھ ذوالحجہ) کا دن آیا تو لوگ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے، حج (کا احرام باندھ کر اس) کا تلبیہ پکارا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں (منیٰ میں) ظہر، عصر، مغرب، عشاء اورفجر کی نمازیں ادا فرمائیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر ٹھہرے رہے حتیٰ کہ سورج طلو ع ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ بالوں سے بنا ہوا یک خیمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نمرہ میں لگا دیاجائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے، قریش کو اس بارے میں کوئی شک نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشعر حرام کے پاس جا کر ٹھر جائیں گے۔ جیسا کہ قریش جاہلیت میں کیا کرتے تھے۔ (لیکن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (وہاں سے آگے) گزر گئے یہاں تک کہ عرفات میں پہنچ گئے۔وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وادی نمرہ میں اپنے لیے خیمہ لگا ہواملا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں فروکش ہوگئے۔جب سورج ڈھلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی اونٹنی) قصواء کو لانے کا حکم دیا، اس پر آ پ کے لئے پالان کس دیا گیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم و ادی (عرفہ) کے درمیان تشریف لے آئے، اور لوگوں کو خطبہ دیا: تمہارے خون اور اموال ایک دوسرے پر (ایسے) حرام ہیں جیسے آج کے دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے اور زمانہ جاہلیت کی ہر چیز میرے دونوں پیروں کے نیچے رکھ دی گئی (یعنی ان چیزوں کا اعتبار نہ رہا) اور جاہلیت کے خون بے اعتبار ہو گئے اور پہلا خون جو میں اپنے خونوں میں سے معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ کا خون ہے کہ وہ بنی سعد میں دودھ پیتا تھا اور اس کو ہذیل نے قتل کر ڈالا (غرض میں اس کا بدلہ نہیں لیتا) اور اسی طرح زمانہ جاہلیت کا سود سب چھوڑ دیا گیا (یعنی اس وقت کا چڑھا سود کوئی نہ لے) اور پہلے جو سود ہم اپنے یہاں کے سود میں سے چھوڑتے ہیں (اور طلب نہیں کرتے) وہ عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کا سود ہے اس لئے کہ وہ سب چھوڑ دیا گیا اور تم لوگ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اس لئے کہ ان کو تم نے اللہ تعالیٰ کی امان سے لیا ہے اور تم نے ان کے ستر کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ (نکاح) سے حلال کیا ہے۔ اور تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ تمہارے بچھونے پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں (یعنی تمہارے گھر میں) جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو پھر اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسا مارو کہ ان کو سخت چوٹ نہ لگے (یعنی ہڈی وغیرہ نہ ٹوٹے، کوئی عضو ضائع نہ ہو، حسن صورت میں فرق نہ آئے کہ تمہاری کھیتی اجڑ جائے) اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ ان کی روٹی اور ان کا کپڑا دستور کے موافق تمہارے ذمہ ہے اور میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو گے (وہ ہے) اللہ تعالیٰ کی کتاب۔ اور تم سے (قیامت میں) میرے بارے میں سوال ہو گا تو پھر تم کیا کہو گے؟ ان سب نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیرخواہی کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگشت شہادت (شہادت کی انگلی) آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا۔ تین بار (یہی فرمایا اور یونہی اشارہ کیا) پھر اذان اور تکبیر ہوئی تو ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر اقامت کہی اور عصر پڑھائی اور ان دونوں کے درمیان میں کچھ نہیں پڑھا (یعنی سنت و نفل وغیرہ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو کر موقف میں آئے اونٹنی کا پیٹ پتھروں کی طرف کر دیا اور پگڈنڈی کو اپنے آگے کر لیا اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور غروب آفتاب تک وہیں ٹھہرے رہے۔ زردی تھوڑی تھوڑی جاتی رہی اور سورج کی ٹکیا ڈوب گئی تب (سوار ہوئے) سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیچھے بٹھا لیا اور واپس (مزدلفہ کی طرف) لوٹے اور قصواء کی مہار اس قدر کھینچی ہوئی تھی کہ اس کا سر کجاوہ کے (اگلے حصے) مورک سے لگ گیا تھا (مورک وہ جگہ ہے جہاں سوار بعض وقت تھک کر اپنا پیر جو لٹکا ہوا ہوتا ہے اس جگہ رکھتا ہے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے کہ اے لوگو! آہستہ آہستہ آرام سے چلو اور جب کسی ریت کی ڈھیری پر آ جاتے (جہاں بھیڑ کم پاتے) تو ذرا مہار ڈھیلی کر دیتے یہاں تک کہ اونٹنی چڑھ جاتی (آخر مزدلفہ پہنچ گئے اور وہاں مغرب اور عشاء ایک اذان اور دو تکبیروں سے پڑھیں اور ان دونوں فرضوں کے بیچ میں نفل کچھ نہیں پڑھے (یعنی سنت وغیرہ نہیں پڑھی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ رہے۔ (سبحان اللہ کیسے کیسے خادم ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ دن رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے بیٹھنے، اٹھنے جاگنے، کھانے پینے پر نظر ہے اور ہر فعل مبارک کی یادداشت و حفاظت ہے اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کرے) یہاں تک کہ صبح ہوئی جب فجر ظاہر ہو گئی تو اذان اور تکبیر کے ساتھ نماز فجر پڑھی پھر قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے یہاں تک کہ مشعر الحرام میں آئے اور وہاں قبلہ کی طرف منہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ اکبر کہا اور لا الٰہ الا اللہ کہا اور اس کی توحید پکاری اور وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ بخوبی روشنی ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے طلوع آفتاب سے قبل لوٹے اور سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور فضل رضی اللہ عنہ ایک نوجوان اچھے بالوں والا گورا چٹا خوبصورت جوان تھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو عورتوں کا ایک ایسا گروہ چلا جاتا تھا کہ ایک اونٹ پر ایک عورت سوار تھی اور سب چلی جاتی تھیں اور سیدنا فضل صان کی طرف دیکھنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کے چہرے پر ہاتھ رکھ دیا (اور زبان سے کچھ نہ فرمایا۔ سبحان اللہ یہ اخلاق کی بات تھی اور نہی عن المنکر کس خوبی سے ادا کیا) اور فضل رضی اللہ عنہ نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا اور دیکھنے لگے (یہ ان کے کمال اطمینان کی وجہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا ہاتھ ادھر پھیر کر ان کے منہ پر رکھ دیا تو فضل دوسری طرف منہ پھیر کر پھر دیکھنے لگے یہاں تک کہ بطن محسر میں پہنچے تب اونٹنی کو ذرا تیز چلایا اور بیچ کی راہ لی جو جمرہ کبریٰ پر جا نکلتی ہے، یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے (اور اسی کو جمرہ عقبہ کہتے ہیں) اور سات کنکریاں اس کو ماریں۔ ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے، ایسی کنکریاں جو چٹکی سے ماری جاتی ہیں (اور دانہ باقلا کے برابر ہوں) اور وادی کے بیچ میں کھڑے ہو کر ماریں (کہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ داہنی طرف اور مکہ بائیں طرف رہا) پھر نحر کی جگہ آئے اور تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر (یعنی قربان) کئے، باقی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دئیے کہ انہوں نے نحر کئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی قربانی میں شریک کیا اور پھر ہر اونٹ سے گوشت ایک ٹکڑا لینے کا حکم فرمایا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق لے کر) ایک ہانڈی میں ڈالا اور پکایا گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور اس کا شوربا پیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف آئے اور طواف افاضہ کیا اور ظہر مکہ میں پڑھی۔ پھر بنی عبدالمطلب کے پاس آئے کہ وہ لوگ زمزم پر پانی پلا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانی بھرو اے عبدالمطلب کی اولاد! اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ لوگ بھیڑ کر کے تمہیں پانی نہ بھرنے دیں گے تو میں بھی تمہارا شریک ہو کر پانی بھرتا (یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھرتے تو سنت ہو جاتا تو پھر ساری امت بھرنے لگتی اور ان کی سقایت جاتی رہتی) پھر ان لوگوں نے ایک ڈول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے پیا۔
جعفر بن محمد باقررحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم چند ساتھی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے ہم سے دریافت کیا، کہ ہم کون کون ہیں، (ہر ایک نے اپنے متعلق بتایا) یہاں تک کہ میری باری آ گئی، تو میں نے بتایا کہ میں محمد بن علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہوں، (حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے) تو انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے سر پر رکھا، اور میرے کرتے کا اوپر والا بٹن کھولا اور پھر اس سے نیچے کا بٹن کھولا، پھر اپنی ہتھیلی میرے دونوں پستانوں کے درمیان (میرے سینے پر) رکھی، اور میں ان دنوں بالکل نوجوان لڑکا تھا، اور فرمایا: اے میرے بھتیجے! تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں، تم جو چاہو مجھ سے (بے تکلف) پوچھ سکتے ہو، میں نے ان سے پوچھا، وہ نابینا ہو چکے تھے، اور نماز کا وقت ہو چکا تھا، تو وہ ایک چادر لپیٹ کر کھڑے ہو گئے، وہ جب اسے اپنے کندھوں پر رکھتے تو اس کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے، اس کے کنارے ان کی طرف لوٹ آتے، (نیچے گر جاتے) حالانکہ ان کی بڑی چادر ان کے پہلو میں کھونٹی یا ٹیبل پر پڑی ہوئی تھی، مگر انہوں نے بڑی چادر اوڑھ کر نماز پڑھانا ضروری خیال نہ کیا، چھوٹی چادر کو لپیٹ کر ہی نماز پڑھائی) انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی (نماز سے فراغت کے بعد) میں نے پوچھا، مجھے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں (تفصیلا) بتائیں۔ انہوں نے ہاتھ کی انگلیوں سے نو کی گنتی کا اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو (9) سال تک (مدینہ) رہے اور کوئی حج نہ کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں سال لوگوں میں اعلان کروایا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے جانے والے ہیں، اس اطلاع سے بہت بڑی تعداد میں لوگ مدینہ آ گئے، ہر ایک کی آرزو اور خواہش یہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل جیسا عمل کرے، (آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی پوری پوری پیروی کرے) ہم سب لوگ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی معیت میں (مدینہ سے) روانہ ہوئے، حتی کہ ذوالحلیفہ پہنچ گئے، تو یہاں اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے، تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا کہ ایسی حالت میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غسل کر لو اور ایک کپڑے کا لنگوٹ باندھ کر احرام باندھ لو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں (ظہر کی) نماز پڑھی، پھر اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہو گئے، حتی کہ جب آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی اونٹنی مقام بیداء پر پہنچی، تو میں نے اپنی حد نظر تک آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے آگے سوار اور پیدل لوگ دیکھے، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے دائیں طرف بھی یہی کیفیت تھی اور بائیں طرف بھی یہی حالت تھی، (حد نظر تک ہر طرف آدمی ہی آدمی سوار اور پیادہ نظر آ رہے تھے) اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے پیچھے بھی یہی صورت تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تھے، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ پر ہی قرآن نازل ہوتا تھا، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ہی اس کی حقیقت (اس کا صحیح مطلب و مدعا) جانتے تھے، ہمارا رویہ یہ تھا کہ جو کچھ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کرتے تھے، ہم بھی وہی کچھ کرتے تھے (ہم نے ہر عمل میں آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی پیروی کی) آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے بلند آواز سے (بیداء پر) توحید کا یہ تلبیہ کہا: (لَبَّيْكَ اللهُمَّ، لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ، وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ) اور لوگوں نے وہ تلبیہ پڑھا جو اب پڑھتے ہیں، (جس میں آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے تلبیہ پر بعض الفاظ کا اضافہ تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تلبیہ کی تردید اور تغلیط نہیں کی اور خود اپنا تلبیہ ہی پڑھتے رہے (اپنے تلبیہ کی پابندی کی) حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہماری نیت صرف حج کی تھی، ہم عمرہ کو نہیں جانتے تھے، (عمرہ ہمارے ذہن میں نہیں تھا) یہاں تک کہ ہم (سفر پورا کر کے) آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے ساتھ بیت اللہ پہنچ گئے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے حجر اسود کو بوسہ دیا (اور طواف شروع کر دیا) آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے پہلے تین چکروں میں رمل کیا، (وہ چال چلے جس سے قوت و شجاعت کا اظہار ہوتا تھا) اور باقی چار چکروں میں معمول کے مطابق چلے پھر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مقام ابراہیم علیہ السلام کی طرف بڑھے اور یہ آیت پڑھی: ﴿وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى﴾ (البقرہ، آیت نمبر 125) (اور مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ۔) اور مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھو، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اس طرح کھڑے ہوئے کہ مقام ابراہیم آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا، میرے باپ (محمد باقررحمة الله عليه) بیان کرتے تھے اور میرے علم کے مطابق وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہی بتاتے تھے کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے دوگانہ، طواف میں ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾ اور ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ﴾ پڑھی، پھر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رکن (حجر اسود) کی طرف واپس آئے اور اسے چوما، (یہ چومنا سعی کے لیے تھا) پھر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ باب صفا سے صفا کی طرف چلے گئے، تو جب صفا کے قریب پہنچے، یہ آیت پڑھی: ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ﴾ (البقرہ: 158) (بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں) میں اس جگہ سے آغاز کرتا ہوں، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے پہلے کیا ہے، تو صفا سے ابتدا کی اور اس پر اس حد تک اوپر چڑھے کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کو بیت اللہ نظر آنے لگا، اس وقت آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قبلہ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو گئے، اللہ کی توحید اور کبریائی بیان فرمائی اور یہ دعا پڑھی: (لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ) (اللہ کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں، وہی تنہا معبود و مالک ہے، اس کا کوئی شریک ساجھی نہیں، ساری کائنات پر اس کی فرمانروائی ہے، اور حمد و ستائش کا حقدار وہی ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہی تنہا مالک و معبود ہے۔ اس نے (مکہ پر اقتدار بخشنے اور اپنے دین کو سر بلند کرنے کا) اپنا وعدہ پورا فر دیا، اپنے بندے کی اس نے (بھرپور) مدد فرمائی، (کفر و شرک کے لشکروں کو) تنہا اس نے شکست دی) آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے یہ کلمات تین دفعہ فرمائے اور ان کے درمیان دعا مانگی، اس کے بعد مروہ کی طرف (جانے کے لیے) اترے حتی کہ جب آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے قدم وادی کے نشیب میں پہنچے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دوڑ پڑے، حتی کہ جب آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے قدم نشیب سے اوپر آ گئے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عام رفتار کے مطابق چلے، یہاں تک کہ مروہ پر آ گئے، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے یہاں بالکل وہی کچھ کیا جو صفا پر کیا تھا، یہاں تک کہ جب آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخری چکر پورا کر کے مروہ پر پہنچے تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے (ساتھیوں کو مخاطب کر کے) فرمایا: اگر پہلے میرے دل میں وہ بات آ جاتی، مجھے اس کا پہلے پتہ چل جاتا) جو بعد میں مجھے معلوم ہوئی، تو میں قربانی کے جانور مدینہ سے ساتھ نہ لاتا، اور اس طواف و سعی کو جو میں نے کیا ہے، عمرہ بنا دیتا، اس لیے تم میں سے جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں آئے ہیں، وہ اپنا احرام ختم کر دیں، اور اپنے طواف و سعی کو عمرہ بنا دیں۔ اس پر سراقہ بن مالک بن جعشم کھڑے ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! کیا یہ حکم (کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کیا جائے) خاص ہمارے اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے یہی حکم ہے؟ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے فرمایا: عمرہ حج میں داخل ہو گیا، عمرہ حج میں داخل ہو گیا، خاص اسی سال کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے لیے (مزید) جانور لے کر آئے، انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیکھا کہ وہ احرام ختم کر کے حلال ہو چکی ہیں اور رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ بھی استعمال کیا ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر، ان پر اپنی ناگواری کا اظہار کیا، (اور ان کے اس طرز عمل کو غلط قرار دیا) تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، مجھے میرے باپ نے اس کا حکم دیا ہے، امام جعفر کہتے ہیں، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عراق میں کہا کرتے تھے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، تاکہ انہیں فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے خلاف بھڑکاؤں، کہ اس نے یہ حرکت کی ہے، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے وہ بات پوچھوں، جو فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے بارے میں بیان کی تھی، تو میں نے آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کو بتایا کہ میں نے اس کی اس حرکت پر اعتراض کیا ہے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: اس نے (فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) سچ کہا ہے، اس نے سچ بتایا ہے۔ تو نے جب حج کی نیت کی تھی تو کیا کہا تھا؟ میں نے کہا، میں نے یہ نیت کی تھی کہ میں اس چیز کا احرام باندھتا ہوں، جس کا احرام تیرے رسول صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے باندھا ہے، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: میں تو چونکہ قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں (اس لیے میں حج سے پہلے احرام ختم کر کے حلال نہیں ہو سکتا، اور تم نے میرے احرام کی نیت کی ہے) اس لیے تم حلال نہیں ہو سکتے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ قربانی کے جو جانور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن سے لائے تھے، ان کی مجموعی تعداد سو تھی، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے سوا جو قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے، سب لوگوں نے احرام ختم کر دیا اور بال ترشوا کر حلال ہو گئے، پھر جب ترویہ کا دن (آٹھ ذوالحجہ کا دن) ہوا، سب لوگوں نے منیٰ کا رخ کیا، (اور احرام ختم کر کے حلال ہونے والوں نے) حج کا احرام باندھ لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ پر سوار ہو گئے، (وہاں پہنچ کر) آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھیں، پھر تھوڑی دیر ٹھہرے رہے، یہاں تک کہ جب سورج نکل آیا، (آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عرفات کی طرف چل پڑے) اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے حکم دیا بالوں سے بنے ہوئے خیمہ کو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے لیے مقام نمرہ میں گاڑ دیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے اور قریش کو اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا، کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مشعر حرام کے پاس ٹھہریں گے، جیسا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے آگے گزر کر عرفات پہنچ گئے، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے دیکھا کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا خیمہ نمرہ میں نصب کر دیا گیا ہے، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وہاں اتر گئے، یہاں تک کہ جب سورج ڈھل گیا، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے قصواء پر کجاوا کسنے کا حکم دیا، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سوار ہو کر وادی عرفہ کے درمیان آ گئے، اور لوگوں کو خطبہ دیا، اور فرمایا: لوگو! تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں، جس طرح کہ آج عرفہ کے دن، اس مبارک ماہ میں، تمہارے اس مقدس و محترم مہینے میں، خوب ذہن نشین کر لو کہ جاہلیت کی ساری چیزیں (تمام رسم و رواج) میرے دونوں قدموں کے نیچے پامال ہیں، (میں ان کے خاتمہ اور منسوخی کا اعلان کرتا ہوں) اور جاہلیت (اسلام کی روشنی سے پہلے کی تاریکی اور گمراہی کا زمانہ) کے خون بھی پامال ہیں، (اب کوئی آدمی زمانہ جاہلیت کے کسی خون کا بدلہ نہیں لے سکے گا۔) اور سب سے پہلے میں اپنے گھرانہ کے خون، ربیعہ بن حارث کے بیٹے کے خون کو معاف کرتا ہوں، (اس کا بدلہ نہیں لیا جائے گا) جو قبیلہ بنو سعد کے ایک گھر میں دودھ پیتا تھا، اور اسی قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے قتل کر دیا تھا، اور جاہلیت کے دور کے سودی مطالبات کو پامال کرتا ہوں، (اب کوئی مسلمان کسی سے اپنا سود وصول نہیں کر سکے گا) اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے سود (اپنے چچا) عباس بن عبدالمطلب کے سود کے بارے میں اعلان کرتا ہوں، کہ وہ سب کا سب ختم کر دیا گیا ہے، (اب وہ کسی سے اپنا سود وصول نہیں کریں گے) اے لوگو! عورتوں کے (حقوق اور ان کے ساتھ برتاؤ کے) بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر لیا ہے اور اللہ کے حکم و قانون (نکاح کے کلمات) سے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لیے حلال کر لیا ہے، تمہارا ان پر حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ بیٹھنے دیں، (اس کو تمہارے گھر آنے کا موقع نہ دیں) جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو، اگر وہ ایسا کریں، تو انہیں ایسی مار مارو جو شدید نہ ہو، (تنبیہ اور آئندہ سدباب کے لیے کچھ خفیف سزا دے سکتے ہو) اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ دستور اور عرف کے مطابق، ان کے کھانے پینے اور پہننے کا بندوبست کرو، اور میں تمہارے اندر وہ سامان ہدایت چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے (اس کی پیروی کرو گے) تو پھر ہرگز گمراہ نہ ہو گے، وہ ہے، اللہ کی کتاب، (قرآن، اس کا قانون، جو کتاب و سنت کی شکل میں موجود ہے) (قیامت کے دن) تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا، (کہ میں نے تمہیں اللہ کی ہدایات اور احکام پہنچائے تھے یا نہیں) تو تم کیا جواب دو گے؟ حاضرین نے عرض کیا، ہم گواہی دیں گے (اب بھی دیتے ہیں) کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے اللہ کا پیغام اور احکام پہنچا دیے، (رہنمائی اور تبلیغ کا) حق اور فریضہ ادا کر دیا، نصیحت و خیر خواہی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے اور لوگوں کے مجمع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین دفعہ فرمایا: اے اللہ گواہ ہو جا، اے اللہ گواہ رہ! پھر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے اذان اور اقامت کہلوائی، اور ظہر کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہلوائی اور عصر کی نماز پڑھائی، اور دونوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو کر (میدان عرفات میں) مقام وقوف پر تشریف لائے اور اپنی ناقہ قصواء کا رخ پتھر کی چٹانوں کی طرف کر دیا، اور پیدل چلنے والا مجمع اپنے سامنے کر لیا، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قبلہ رخ ہو گئے، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یہاں تک ٹھہرے رہے کہ سورج غروب ہو گیا، اور کچھ زردی ختم ہو گئی، حتی کہ جب سورج کی ٹکیا غائب ہو گئی تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پیچھے سوار کر لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ کی طرف واپس چل پڑے، جبکہ قصواء کی مہار اس قدر کھینچی ہوئی تھی کہ اس کا سر پالان کے اگلے حصہ سے لگ رہا تھا اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اپنے دائیں ہاتھ کے اشارے سے کہہ رہے تھے: اے لوگو! سکینت و طمانیت اختیار کرو، سکینت اور نرمی سے چلو۔ جب راستہ کے ٹیلوں میں سے کسی ٹیلے اور پہاڑی پر پہنچتے تو اونٹنی کی مہار کچھ ڈھیلی کر دیتے، تاکہ وہ اوپر چڑھ سکے حتی کہ مزدلفہ کو پہنچے، تو وہاں مغرب اور عشاء کی نماز ایک اذان اور دو تکبیروں سے پڑھی اور دونوں کے درمیان کسی قسم کی نفل نماز نہیں پڑھی، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو گئی، تو جب صبح اچھی طرح آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے سامنے واضح ہو گئی، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ایک اذان اور اقامت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی، پھر اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہو کر مشعر حرام پر پہنچے، (جو مزدلفہ کے حدود میں ایک بلند ٹیلہ تھا) یہاں آ کر قبلہ رخ کھڑے ہو گئے، اللہ سے دعا کی، اس کی تکبیر، تہلیل و تمجید اور توحید کے کلمات کہتے ہوئے کھڑے رہے، یہاں تک کہ خوب اجالا ہو گیا، اور اچھی طرح روشنی پھیل گئی۔ پھر سورج نکلنے سے پہلے ہی منیٰ کی طرف لوٹے، اور اپنے پیچھے فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سوار کر لیا، وہ خوبصورت بالوں والے، سفید رنگ اور خوبصورت نوجوان تھے، جب آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ منیٰ کو روانہ ہوئے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے پاس سے عورتوں کی جماعت چلتی ہوئی گزری، تو حضرت فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو دیکھنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، تو فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر کر دیکھنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ دوسری طرف پھیر کر فضل کے چہرہ پر رکھ دیا، وہ اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر کر دیکھنے لگتے، حتی کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وادی محسر کے درمیان پہنچ گئے، اور اپنی سواری کو کچھ تیز کر دیا، پھر درمیانی راستہ پر چلے، جو جمرہ کبریٰ (بڑا جمرہ) پر پہنچتا ہے، حتی کہ اس جمرہ پر آ گئے جو درخت کے پاس ہے، (یہی جمرہ کبریٰ یا جمرہ عقبہ تھا) اور اس پر سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے، یہ سنگ ریزے چھوٹے چھوٹے تھے، جیسے انگلیوں میں رکھ کر پھینکے جاتے ہیں، (جو چنے اور مٹر کے دانے کے برابر ہوتے ہیں) آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے سنگریزے نشیبی جگہ سے پھینکے تھے، پھر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قربان گاہ کی طرف پلٹے اور تریسٹھ (63) اونٹوں کو اپنے ہاتھ سے نحر کیا، پھر جو باقی رہ گئے، وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ کر دیے، اور انہوں نے انہیں نحر کر دیا، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے انہیں اپنی قربانی میں شریک کر لیا، پھر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے حکم دیا کہ قربانی کے ہر اونٹ سے ایک گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹ لیا جائے، یہ سارے ٹکڑے ایک دیگ میں ڈال کر پکائے گئے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں نے اس گوشت سے کھایا اور شوربا پیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ پر سوار ہو کر طواف افاضہ (طواف زیارت) کے لیے بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے، طواف کیا، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ظہر کی نماز مکہ میں ادا فرمائی، اس کے بعد، بنو عبدالمطلب کے پاس آئے، جو زمزم سے پانی کھنچ کھنچ کر لوگوں کو پلا رہے تھے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا: اے عبدالمطلب کی اولاد! پانی کھینچو، اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو دوسرے لوگ تمہاری پانی کی خدمت پر غالب آ جائیں گے، (اس کو مناسک حج کا حصہ سمجھ کر تم سے ڈول چھین لیں گے) تو میں بھی تمہارے ساتھ ڈول کھینچتا۔ انہوں نے ایک ڈول بھر کر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کو دیا اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے اس سے نوش فر لیا۔

Previous    12    13    14    15    16    17    18    19    20    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.