وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن الزهري بهذا الإسناد، سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول في مثل هذا اليوم: " إني صائم فمن شاء ان يصوم فليصم "، ولم يذكر باقي حديث مالك ويونس.وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ: " إِنِّي صَائِمٌ فَمَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَ فَلْيَصُمْ "، وَلَمْ يَذْكُرْ بَاقِي حَدِيثِ مَالِكٍ وَيُونُسَ.
ابن ابی عمر، سفیان بن عینیہ، حضرت زہری سے اس سند کے ساتھ روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا کہ میں روزے سے ہوں کہ جو چاہتا ہے کہ روزہ رکھ لے وہ رکھ لے اور مالک بن انس رضی اللہ عنہ اور یونس رضی اللہ عنہ کی حدیث کا باقی حصہ ذکر نہیں کیا۔
امام صاحب ایک اور استاد سے زہری ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دن کے بارے میں سنا: ”میں روزے دار ہوں تو جو چاہے کہ روزہ رکھے وہ روزہ رکھ لے۔“ مالک اور یونس کی حدیث کا بقیہ حصہ بیان نہیں کیا۔
حدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا هشيم ، عن ابي بشر ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة، فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء، فسئلوا عن ذلك، فقالوا: هذا اليوم الذي اظهر الله فيه موسى وبني إسرائيل على فرعون، فنحن نصومه تعظيما له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " نحن اولى بموسى منكم، فامر بصومه "،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَوَجَدَ الْيَهُودَ يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَسُئِلُوا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالُوا: هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي أَظْهَرَ اللَّهُ فِيهِ مُوسَى وَبَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى فِرْعَوْنَ، فَنَحْنُ نَصُومُهُ تَعْظِيمًا لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَحْنُ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ، فَأَمَرَ بِصَوْمِهِ "،
یحییٰ بن یحییٰ، ہشیم ابی بشر، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا تو لوگوں نے ان سے اس روزے کےبارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ یہ وہ دن ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے حضر ت موسیٰ علیہ السلام کو اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا تھا تو ہم اس دن کی عظمت کی وجہ سے روزہ رکھتے ہیں۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روزے کا حکم فرمایا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا تو ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا؟ انھوں نے جواب دیا یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنو اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عنایت فرمایا تھا تو ہم اس کے احترام و تعظیم کی خاطر روزہ رکھتے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم تمھارے مقابلہ میں موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں۔“ اس لیے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے روزہ کا حکم دیا۔
ابن بشار، ابو بکر بن نافع، محمد بن جعفر، شعبہ، ابی بشراس سندکے ساتھ حضرت ابی بشر رضی اللہ عنہ سے اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے اور اس میں ہے کہ آپ نے ان سے اس کی وجہ پوچھی۔
امام صاحب نے اپنے دو اور اساتذہ سے یہی روایت ابو بشر کی سند ہی سے بیان کی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا۔
وحدثني ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن ايوب ، عن عبد الله بن سعيد بن جبير ، عن ابيه ، عن ابن عباس رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قدم المدينة، فوجد اليهود صياما يوم عاشوراء، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما هذا اليوم الذي تصومونه؟ "، فقالوا: هذا يوم عظيم، انجى الله فيه موسى وقومه، وغرق فرعون وقومه فصامه موسى شكرا، فنحن نصومه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فنحن احق واولى بموسى منكم، فصامه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وامر بصيامه "،وحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَوَجَدَ الْيَهُودَ صِيَامًا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي تَصُومُونَهُ؟ "، فَقَالُوا: هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ، أَنْجَى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى وَقَوْمَهُ، وَغَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَهُ فَصَامَهُ مُوسَى شُكْرًا، فَنَحْنُ نَصُومُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ، فَصَامَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ "،
ابن ابی عمر، سفیان، ایوب، عبداللہ بن سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اس دن کی کیا وجہ ہے؟تو وہ کہنے لگے کہ یہ وہ عظیم دن ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کونجات عطا فرمائی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق فرمایا چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کاروزہ رکھا اس لئے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم زیادہ حق دار ہیں اور تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے قریب ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اپنے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے پایا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں سے دریافت کیا۔ ”یہ دن جس کا تم روزہ رکھتے ہو اس کی کیا حقیقت و خصوصیت ہے؟“ انھوں نے کہا یہ بڑی عظمت والا دن ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کی نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرقاب کیا تھا تو موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر اس کا روزہ رکھا اس لیے ہم بھی (ان کی پیروی میں) اس دن روزہ رکھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا موسیٰ ؑ سے تعلق تم سے زیادہ ہے اور ہم ان کے زیادہ حق دار ہیں“ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو بھی (فرائض وواجبات کی طرح تاکید ی) حکم دیا۔
اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، حضرت ایوب سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی گئی ہے سوائے اس کے کہ اس میں ابن سعید بن جبیر ہے نام ذکر نہیں کیاگیا۔
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ روایت بیان کرتے ہیں مگر اس میں عبداللہ بن سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بجائے ابن سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے اس کا نام (عبداللہ) نہیں لیا۔
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابن نمیر، ابو اسامہ، ابی عمیس، قیس بن سالم، طارق بن شہاب، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ یہودی لوگ عاشورہ کے دن کی تعظیم کرتے تھے اور اسے عید سمجھتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم بھی اس دن کو روزہ رکھو۔
حضرت ابو موسیٰ سے روایت ہے کہ یوم عاشورہ ایسا دن تھا جس کی یہود تعظیم کرتے تھے اور اسے عید (مسرت) کا دن قرار دیتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بھی اس دن کا روزہ رکھو۔“
احمد بن منذر، حماد بن اسامہ، ابو عمیس، قیس، صدقہ بن ابی عمران، قیس بن سالم، طارق بن شہاب، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ خیبر کے یہودی عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے اور اسے عید سمجھتے تھے اور اپنی عورتوں کو زیور پہناتے اور بناؤ سنگھار کرتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی اس دن کو روزہ رکھو۔ راوی: احمد بن منذر، حماد بن اسامہ، ابو عمیس، قیس، صدقہ بن ابی عمران، قیس بن سالم، طارق بن شہاب، حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ
حضرت ابو موسیٰ ؑ سے روایت ہے کہ اہل خیبر یوم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے اسے عید کا دن قراردیتے تھےاور اپنی عورتوں کو ان کے زیورات پہناتے تھے اور ان کو بہترین لباس پہناتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم بھی اس دن کا روزہ رکھو۔“
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعمرو الناقد جميعا، عن سفيان ، قال ابو بكر: حدثنا ابن عيينة، عن عبيد الله بن ابي يزيد ، سمع ابن عباس رضي الله عنهما وسئل عن صيام يوم عاشوراء؟، فقال " ما علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صام يوما، يطلب فضله على الايام إلا هذا اليوم، ولا شهرا إلا هذا الشهر "، يعني: رمضان،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَسُئِلَ عَنْ صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ؟، فَقَالَ " مَا عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَامَ يَوْمًا، يَطْلُبُ فَضْلَهُ عَلَى الْأَيَّامِ إِلَّا هَذَا الْيَوْمَ، وَلَا شَهْرًا إِلَّا هَذَا الشَّهْرَ "، يَعْنِي: رَمَضَانَ،
ابو بکر ابن شیبہ، عمروناقد، سفیان، ابو بکر، ابن عینیہ، عبیداللہ ابن ابی یزید، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عاشورہ کے دن کے روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو ا نہوں نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عاشورہ کے دن کے علاوہ کسی اور دن کی وجہ سے روزہ رکھا ہو اور نہ کسی مہینے میں سوائے اس مہینے یعنی رمضان کے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے یوم عاشورہ کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دیا: نہیں جانتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دن کا روزہ اس کو دوسرے دنوں پر فضیلت دیتے ہوئے رکھا ہو سوائے اس دن کے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مہینہ کی فضیلت کی بنا پر پورا مہینہ روزے رکھے سوائے اس ماہ یعنی رمضان کے۔
ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع بن جراح، حاجب ابن عمر، حضرت حکم بن اعرج سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اس حال میں کہ وہ زم زم (کے قریب) اپنی چادر سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ مجھے عاشورے کے روزے کے بارے میں خبر دیجئے انہوں نے فرمایا کہ جب تو محرم کا چانددیکھے تو گنتا رہ اور نویں تاریخ کے دن کی صبح روزے کی حالت میں کر۔میں نے عرض کیا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح روزہ رکھتے تھے انہوں نے فرمایا ہاں!
حکم بن اعرج رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچا جبکہ وہ زمزم کے پاس اپنی چادر کو سرہانہ (تکیہ) بنائے ہوئے تھے تو میں نے ان سے پوچھا، مجھے عاشورہ کے روزے کے بارے میں بتائیے تو انھوں نے جواب دیا جب محرم کا چاند دیکھ لو تو اس کو گنتے رہو اور نویں دن کی صبح روزہ کی حالت میں کرو۔ میں نے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا روزہ ایسے ہی رکھتے تھے؟ انھوں نے کہا، ہاں۔