740 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا ابو إسحاق الهمداني، قال: سمعت البراء بن عازب، يقول: كان رسول الله صلي الله عليه وسلم، يقول عند مضجعه، او امر ان يقال عند المضجع، او امرني ان اقول عند مضجعي، - شك فيه سفيان لا يدري ايتهن - قال: «اللهم إليك وجهت وجهي، وإليك اسلمت نفسي، وإليك فوضت امري، وإليك الجات ظهري رغبة، ورهبة إليك، لا ملجا ولا منجا منك إلا إليك، آمنت بكتابك الذي انزلت، ونبيك الذي ارسلت» ، فقالوا له: وبرسولك الذي ارسلت، فابي، وقال: «لا، ونبيك» 740 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا أَبُو إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ عِنْدَ مَضْجَعِهِ، أَوْ أَمَرَ أَنْ يُقَالَ عِنْدَ الْمَضْجَعِ، أَوْ أَمَرَنِي أَنْ أَقُولَ عِنْدَ مَضْجَعِي، - شَكَّ فِيهِ سُفْيَانُ لَا يَدْرِي أَيَّتُهُنَّ - قَالَ: «اللَّهُمَّ إِلَيْكَ وَجَّهْتُ وَجْهِي، وَإِلَيْكَ أَسْلَمْتُ نَفْسِي، وَإِلَيْكَ فَوَّضَتُ أَمْرِي، وَإِلَيْكَ أَلْجَأْتُ ظَهْرِي رَغْبَةً، وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ، وَنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ» ، فَقَالُوا لَهُ: وَبِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، فَأَبَي، وَقَالَ: «لَا، وَنَبِيِّكَ»
740- سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوتے وقت یہ پڑھا کرتے تھے (راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت کی ہے کہ سوتے وقت یہ پڑھا جائے۔ (راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ ہدایت کی کہ میں سوتے وقت یہ کلمات پڑھوں۔ یہ شک سفیان نامی راوی کوہے کہ ان میں سے کون سے الفاظ ہیں؟ وہ یہ الفاظ ہیں: ”اے اللہ! میں اپنا رخ تیری طرف کرتا ہوں میں نے اپنا آپ تجھے سونپ دیا ہے میں نے اپنا معاملہ تیرے سپرد کردیا ہے میں اپنی پشت کو تیرا سہارا دیتا ہوں۔ تیری طرف رغبت کرتے ہوئے بھی اور تجھ سے ڈرتے ہوئے بھی۔ تیرے مقابلے میں صرف تو ہی پناہ گاہ اور جائے نجات ہے۔ میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جسے تو نے نازل کیا ہے۔ اس نبی پر ایمان لایا جسے تو نے معبوث کیا ہے۔“ تو لوگوں نے ان سے (یعنی سفیان سے) کہا: کہ روایت میں، تویہ الفاظ ہیں: ”اس رسول پرایمان لایا جسے تو نے مبعوث کیا“۔ تو انہوں نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور یہ کہا: کہ یہی الفاظ ہیں۔ ”میں تیرے نبی پر ایمان لایا“۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 247، 6311، 6313، 6315، 7488، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2710، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5522، 5523، 5527، 5536، 5542، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5046، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3394، 3399، 3574، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2725، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3876، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 18764 برقم: 18809»
741 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا يزيد بن ابي زياد بمكة، عن عبد الرحمن بن ابي ليلي، عن البراء بن عازب، قال: «رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة رفع يديه» ، قال سفيان:" وقدم الكوفة فسمعته يحدث به، فزاد فيه، ثم لا يعود، فظننت انهم لقنوه، وكان بمكة يومئذ احفظ منه يوم رايته بالكوفة، وقالوا لي: إنه قد تغير حفظه او ساء حفظه"741 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ بِمَكَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَي، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ» ، قَالَ سُفْيَانُ:" وَقَدِمَ الْكُوفَةَ فَسَمِعْتُهُ يُحَدِّثُ بِهِ، فَزَادَ فِيهِ، ثُمَّ لَا يَعُودُ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ لَقَّنُوهُ، وَكَانَ بِمَكَّةَ يَوْمَئذٍ أَحْفَظَ مِنْهُ يَوْمَ رَأَيْتُهُ بِالْكُوفَةِ، وَقَالُوا لِيَ: إِنَّهُ قَدْ تَغَيَّرَ حِفْظُهُ أَوْ سَاءَ حِفْظُهُ"
741- سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا آغاز کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا۔ سفیان کہتے ہیں: میرے استاد کوفہ آئے تو میں نے انہیں یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا۔ اس میں انہوں نے مزید یہ الفاظ نقل کیے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ایسا نہیں کیا۔ (یعنی دوبارہ رفع یدین نہیں کیا) تو اس سے میں نے یہ اندازہ لگایا، لوگوں نے انہیں ان الفاظ کی تلقین کی ہوگی۔ حالانکہ جب میں نے انہیں کوفہ میں دیکھا تھا، تو اس دن کے مقابلے میں جب وہ مکہ میں تھے اس وقت وہ روایات کو زیادہ اچھے طریقے سے یادرکھے ہوئے تھے۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ان کے حافظے میں تبدیلی آگئی ہے یا ان کا حافظہ خراب ہوگیا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 749، 752، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2346، 2568، 2569، 2570، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 18779 برقم: 18973، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1658، 1689»
742 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا ابان بن تغلب، وكان فصيحا، عن الحكم بن عتيبة، عن عبد الرحمن بن ابي ليلي، عن البراء بن عازب، قال: «لم يكن منا احد يحنو حتي يري رسول الله صلي الله عليه وسلم قد خر ساجدا» 742 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا أَبَانُ بْنُ تَغْلِبَ، وَكَانَ فَصِيحًا، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَي، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: «لَمْ يَكُنْ مِنَّا أَحَدٌ يَحْنُو حَتَّي يَرَي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ خَرَّ سَاجِدًا»
742- سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم میں سے کوئی بھی شخص (نماز کے دوران) اس وقت تک نہیں جھکتا تھا، جب تک وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجد ے میں جاتے ہوئے نہیں دیکھ لیتا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 690، 747، 811، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 474، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2226، 2227، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 828، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 536، 905، وأبو داود فى «سننه» برقم: 620، 621، 622، والترمذي فى «جامعه» برقم: 281، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2637، 2638، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 18805 برقم: 18814»
743 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا يحيي بن سعيد، ومسعر بن كدام، انهما سمعا عدي بن ثابت يحدث، عن البراء، قال:" سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم وهو يقرا في المغرب بالتين والزيتون. قال سفيان: زاد مسعر: فما سمعت إنسانا احسن قراءة منه"743 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ، وَمِسْعَرُ بْنُ كِدَامٍ، أَنَّهُمَا سَمِعَا عَدِيَّ بْنَ ثَابِتٍ يُحَدِّثُ، عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ:" سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقْرَأُ فِي الْمَغْرِبِ بِالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ. قَالَ سُفْيَانُ: زَادَ مِسْعَرٌ: فَمَا سَمِعْتُ إِنْسَانًا أَحْسَنَ قِرَاءَةً مِنْهُ"
743- سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کی نماز میں ”سورہ والتین“ کی تلا وت کرتے ہوئے سنا۔ سفیان کہتے ہیں: مسعر نامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: میں نے کسی بھی شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اچھی قرأت کرتے ہوئے نہیں سنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 767، 769، 4952، 7546، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 464، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1838، 6318، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 999، 1000، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1074، 1075، 11618، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1221، والترمذي فى «جامعه» برقم: 310، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 834، 835، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3117، 4109، 4110، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 18797 برقم: 18824 برقم: 18825»
744 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثنا عمرو بن دينار، انه سمع ابا المنهال، يقول: باع شريك لي بالكوفة دراهم بدراهم بينهما فضل، فقلت: ما اري هذا يصلح، فقال: لقد بعتها في السوق فما عاب ذلك علي احد، فاتيت البراء بن عازب فسالته، قال: قدم النبي صلي الله عليه وسلم المدينة وتجارتنا هكذا، فقال: «ما كان يدا بيد فلا باس به، وما كان نسيئة فلا خير فيه» وات ابن ارقم، فإنه كان اعظم تجارة مني، فاتيته فذكرت ذلك له، فقال: صدق البراء، قال الحميدي: «هذا منسوخ ولا يؤخذ به» 744 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ، قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الْمِنْهَالِ، يَقُولُ: بَاعَ شَرِيكٌ لِيَ بِالْكُوفَةِ دَرَاهِمَ بِدَرَاهِمَ بَيْنَهُمَا فَضْلٌ، فَقُلْتُ: مَا أَرَي هَذَا يَصْلُحُ، فَقَالَ: لَقَدْ بِعْتُهَا فِي السُّوقِ فَمَا عَابَ ذَلِكَ عَلَيَّ أَحَدٌ، فَأَتَيْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ فَسَأَلْتُهُ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وَتِجَارَتُنَا هَكَذَا، فَقَالَ: «مَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ فَلَا بَأْسَ بِهِ، وَمَا كَانَ نَسِيئَةً فَلَا خَيْرَ فِيهِ» وَأْتِ ابْنَ أَرْقَمَ، فَإِنَّهُ كَانَ أَعْظَمَ تِجَارَةً مِنِّي، فَأَتَيْتُهُ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: صَدَقَ الْبَرَاءُ، قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: «هَذَا مَنْسُوخٌ وَلَا يُؤْخَذُ بِهِ»
744- ابومنہال بیان کرتے ہیں: میرے شراکت دارنے کو فہ میں کچھ درہموں کے عوض میں درہم فروخت کیے جن میں اضافی ادائیگی کی گئی تھی، تو میں نے کہا: میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے، تو وہ بولا: میں نے یہ بازار میں فروخت کیے ہیں اور کسی نے مجھ پر کوئی اعتراض نہیں کیا، تو میں سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرہوا میں نے ا ن سے اس بارے میں دریافت کیا، تو وہ بولے: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہمارا تجارت کا طریقہ یہی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو چیز نقد لین دین ہواس میں حرج نہیں ہے اور جوادھار ہو، تو اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے۔“ تم سیدنا زید بن ارم رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ کیونکہ ان کا تجارت کا کام مجھ سے زیادہ تھا۔ میں ان کے پاس آیا میں نے ان کے سامنے یہ بات ذکر کی، تو وہ بولے: سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے سچ بیان کیا ہے۔ امام حمیدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: یہ حکم منسوخ ہے اور اس کے مطابق فتویٰ نہیں دیا جاتا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2060، 2180، 2497، 3939، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1589، 1589، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4589، 4590، 4591، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6123، 6124، 6125، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10608، 10609، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2847، 2848، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 18839 برقم: 19582»