محمد (بن سیرین) نے حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: آپ نے ہمیں حکم دیا۔۔۔ان کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔۔۔کہ ہم عیدین میں بالغہ اور پردہ نشین عورتوں کو لے جایا کریں اور آپ نے حیض والی عورتوں کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کی نماز کی جگہ سے ہٹ کر بیٹھیں۔
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عیدین میں بالغہ، پردہ نشین عورتوں کو لے جایا کریں اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے حیض والی عورتوں کو حکم دیا کہ وہ مسلمانوں کی نمازگاہ سے الگ رہیں۔
عاصم احول نے حفصہ بنت سیرین سے اور انھوں نے حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: "ہمیں عیدین میں نکلنے کا حکم دیاجاتاتھا، پردہ نشین اوردوشیزہ کو بھی۔"انھوں نے کہا: حیض والی عورتیں بھی نکلیں گی اور لوگوں کے پیچھے رہیں گی اور لوگوں کے ساتھ تکبیر کہیں گی۔
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ہمیں عیدین کے لیے نکلنے کا حکم دیا جاتا تھا۔ پردہ نشین اور دوشیزہ کو بھی، وہ بتاتی ہیں کہ حیض والی عورتیں بھی نکلیں گی اور لوگوں کے پیچھے رہیں گی اور لوگوں کے ساتھ تکبیر کہیں گی۔
۔ ہشام نے حفصہ بن سیرین سے اور انھوں نے حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اورعید الاضحیٰ میں عورتوں کو باہر نکالیں، دوشیزہ، حائضہ اور پردہ نشیں عورتوں کو باہر نکالیں، دوشیزہ اور حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو، لیکن حائضہ نمازسےدور رہیں۔وہ خیروبرکت اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کسی عورت کے پاس چادر نہیں ہوتی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی (کوئی مسلمانک) بہن اس کو اپنی چادر کا ایک حصہ پہنا دے۔"
حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عید الفطر اورعید الاضحیٰ میں جوان، حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو لے کر جائیں لیکن حائضہ جائے نماز سےدور رہیں گی۔ نیک کاموںراور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں۔ میں نے عرض کی:ا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے بعض کے پاس چادر نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی بہن اس کو اپنی چادر کا پہنا دے۔“
وحدثنا عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، عن عدي ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خرج يوم اضحى او فطر، فصلى ركعتين لم يصل قبلها ولا بعدها، ثم اتى النساء ومعه بلال فامرهن بالصدقة، فجعلت المراة تلقي خرصها وتلقي سخابها ".وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَرَجَ يَوْمَ أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلَا بَعْدَهَا، ثُمَّ أَتَى النِّسَاءَ وَمَعَهُ بِلَالٌ فَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، فَجَعَلَتِ الْمَرْأَةُ تُلْقِي خُرْصَهَا وَتُلْقِي سِخَابَهَا ".
معاذ عنبری نے کہا: ہم سے شعبہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے عدی سے روایت کی، انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیٰ یا عید الفطر کے دن باہر نکلے اوردو رکعتیں پڑھائیں، اس سے پہلے یا بعد میں کوئی نماز نہیں پڑھی۔پھر عورتوں کے پاس آئے جبکہ بلال رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو صدقے کا حکم دیا تو کوئی عورت اپنی بالیاں (بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں) ڈالتی تھیں اور کوئی اپنا (لونگ وغیرہ کا خوشبودار) ہار ڈالتی تھی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں،کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیٰ یا عید الفطر کے دن باہر نکلے اور دو رکعت پڑھائی، اس سے پہلے یا بعد میں کوئی نماز نہیں پڑھی۔ پھر عورتوں کے پاس آئے اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتھ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، اور عورتوں کو صدقے کا حکم دیا عورتیں اپنی بالیاں، چھلے اور ہار (بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑے میں) ڈالنے لگیں۔
مالک نے ضمرہ بن سعید مازنی سے اور انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ابو واقدلیثی سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیٰ اور عید الفطر میں کون سی سورت قراءت فرماتے تھے؟توانھوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں میں سورہ ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ اور سورہ اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ پڑھا کرتے تھے۔
سیدنا عمر بن الخطاب نے ابوواقد لیثی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیٰ اور عید الفطر میں کیا قرآت فرماتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا۔ آپ ان میں سورہ ﴿ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ﴾ اور سورہ ﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ﴾ پڑھا کرتے تھے۔
فلیح نے ضمر ہ بن سعید سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے اور انھوں نے حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے فرمایا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے اس بارے میں پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز میں کیا پڑھا؟تو میں نے کہا: اقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ اور ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِیدِ
حضرت ابوواقد لیثی بیان کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کی نماز میں کیا پڑھا تھا؟ تو میں نے کہا: ﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ﴾ اور ﴿ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ﴾ کی قرآت کی تھی۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: دخل علي ابو بكر وعندي جاريتان من جواري الانصار، تغنيان بما تقاولت به الانصار يوم بعاث، قالت: وليستا بمغنيتين، فقال ابو بكر: ابمزمور الشيطان في بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وذلك في يوم عيد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا ابا بكر إن لكل قوم عيدا وهذا عيدنا ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ أَبُو بَكْرٍ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِي الْأَنْصَار، تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ بِهِ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ، قَالَتْ: وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ، فَقَالَ أَبُو بَكْر: أَبِمَزْمُورِ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَلِكَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا ".
ابو اسامہ نے ہشام سے، انھوں نے اپنے والد (عروہ) سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت ابو بکر میرے ہاں تشریف لائے جبکہ میرے پاس انصار کی دو بچیاں تھیں۔اور انصار نے جنگ بعاث میں جو اشعار ایک دوسرے کے مقابلے میں کہےتھے، انھیں گارہی تھیں۔کہا: وہ کوئی گانے والیاں نہ تھیں۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے (انھیں دیکھ کر) کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطان کی آواز (بلند ہورہی) ہے؟اور یہ عید کے دن ہوا تھا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابو بکر!ہر قوم کے لئے ایک عید ہے اور یہ ہماری عید ہے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے ہاں تشریف لائے جبکہ انصار کی دو بچیوں میں سے دوبچیاں انصار نے جنگ بعاث کے وقت جو اشعار کہے تھے گا رہی تھیں۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں وہ کوئی باقاعدہ فنکار نہ تھیں اور گانا ان کا پیشہ نہ تھا۔ تو ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےفرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطانی ساز کی آواز؟ اور یہ عید کا دن تھا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابو بکر! ہر قوم کے لئے ایک مسرت اور شادمانی کا دن ہے اور یہ ہمارا تہوار یا جشن مسرت ہے۔“
حدثني هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني عمرو ، ان ابن شهاب ، حدثه، عن عروة ، عن عائشة ، ان ابا بكر دخل عليها وعندها جاريتان في ايام منى تغنيان وتضربان، ورسول الله صلى الله عليه وسلم مسجى بثوبه، فانتهرهما ابو بكر، فكشف رسول الله عنه، وقال: " دعهما يا ابا بكر فإنها ايام عيد ". وقالت: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسترني بردائه، وانا انظر إلى الحبشة وهم يلعبون وانا جارية، فاقدروا قدر الجارية العربة الحديثة السن.حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ ، حَدَّثَهُ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا جَارِيَتَانِ فِي أَيَّامِ مِنًى تُغَنِّيَانِ وَتَضْرِبَانِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسَجًّى بِثَوْبِهِ، فَانْتَهَرَهُمَا أَبُو بَكْرٍ، فَكَشَف رَسُولُ اللَّهِ عَنْهُ، وَقَالَ: " دَعْهُمَا يَا أَبَا بَكْرٍ فَإِنَّهَا أَيَّامُ عِيدٍ ". وَقَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتُرُنِي بِرِدَائِهِ، وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْحَبَشَةِ وَهُمْ يَلْعَبُونَ وَأَنَا جَارِيَةٌ، فَاقْدِرُوا قَدْرَ الْجَارِيَةِ الْعَرِبَةِ الْحَدِيثَةِ السِّنِّ.
عمرو نے کہا کہ ابن شہاب نے انھیں عروہ سے حدیث سنائی اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی (انھوں نے کہا) کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ میرے ہاں تشریف لائے جبکہ منیٰ کے ایام میں میرے پاس دو بچیاں گارہی تھیں۔اور دف بجا رہی تھیں۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑا اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، ابو بکر رضی اللہ عنہ ان دونوں کو ڈانٹا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا: "ابو بکر!انھیں چھوڑیئے کہ یہ عید کے دن ہیں۔"اور (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مجھےاپنی چادر سے چھپائے ہوئے تھے اور میں حبشیوں کو دیکھ رہی تھی کہ وہ کھیل رہے تھے اور میں کم سن لڑکی تھی، ذرا اندازہ لگاؤ اس لڑکی کو شوق کس قدر ہوگا جو کھیل کی شوقین، نو عمر تھی (وہ کتنی دیر کھیل دیکھے گی؟)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے ہاں تشریف لائے جبکہ ایام منیٰ (عید کے دن) میں میرے پاس دو بچیاں گارہی تھیں۔اور دف بجا رہی تھیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑا اوڑھے لیٹے ہوئے تھے،ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو ڈانٹا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کپڑا ہٹا کر فرمایا: ”ابو بکر! انھیں چھوڑیئے کیونکہ یہ خوشی کے دن ہیں۔ اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپصلی اللہ علیہ وسلم مجھےاپنی چادر سے چھپائے ہوئے ہیں اور میں حبشیوں کو کھیلتا دیکھ رہی اور میں کم سن تھی، ذرا اندازہ لگاؤ اس بچی کا جو کھیل کی شوقین، کم سن اور نو عمر تھی (وہ کس قدر کھیل دیکھے گی؟)