495 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا سليمان بن سحيم مولي ابن عباس قال: اخبرني إبراهيم بن عبد الله بن معبد بن عباس، عن ابيه، عن ابن عباس قال:" كشف رسول الله صلي الله عليه وسلم الستارة والناس صفوف خلف ابي بكر فقال: إنه لم يبق من مبشرات النبوة إلا الرؤيا الصالحة يراها المسلم او تري له، الا إني نهيت ان اقرا راكعا او ساجدا، فاما الركوع فعظموا الرب فيه، واما السجود فاجتهدوا في الدعاء فقمن ان يستجاب لكم495 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا سُلَيْمَانُ بْنُ سُحَيْمٍ مَوْلَي ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ:" كَشَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ السِّتَارَةَ وَالنَّاسُ صُفُوفٌ خَلْفَ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُبَشِّرَاتِ النُّبُوَّةِ إِلَّا الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَوْ تُرَي لَهُ، أَلَا إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَقْرَأَ رَاكِعًا أَوْ سَاجِدًا، فَأَمَّا الرُّكُوعُ فَعَظِّمُوا الرَّبَ فِيهِ، وَأَمَّا السُّجُودُ فَاجْتَهِدُوا فِي الدُّعَاءِ فَقَمِنٌ أَنْ يُسْتَجَابَ لَكُمْ
495- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹایا، لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں بنا کر کھڑے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اب نبوت کے مبشرات میں سے صرف سچے خواب رہ گئے ہیں، جنہیں کوئی مسلمان دیکھتا ہے (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) جو اسے دکھائے جاتے ہیں۔ خبردار! مجھے اس بات سے منع کردیا گیا ہے کہ میں رکوع یا سجدے کے دوران قرأت کروں۔ جہاں تک رکوع کا تعلق ہے، تو اس میں تم اپنے پروردگار کی عظمت کرو اور جہاں تک سجدے کا تعلق ہے، تو تم اس میں اہتمام کے ساتھ دعا مانگو وہ اس لائق ہوگی کہ اسے قبول کرلیا جائے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 479 وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 548، 599، 602، 680، 674، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1896، 1900، 6045، 6046، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1044، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 637، 711، 7576، وأبو داود فى «سننه» برقم: 876، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1364، 1365، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3899، وأبو يعلى في «مسنده» برقم: 417، 2387»
496 -" قال سفيان اخبرنيه زياد بن سعد قبل ان اسمعه فقلت له: اقرئ سليمان منك السلام؟ فقال: نعم، فلما قدمت المدينة اقريته منه السلام وسالته عنه496 -" قَالَ سُفْيَانُ أَخْبَرَنِيهِ زِيَادُ بْنُ سَعْدٍ قَبْلَ أَنْ أَسْمَعَهُ فَقُلْتُ لَهُ: أُقْرِئُ سُلَيْمَانَ مِنْكَ السَّلَامَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ أَقْرَيْتُهُ مِنْهُ السَّلَامَ وَسَأَلْتُهُ عَنْهُ
496- سفیان کہتے ہیں: یہ روایت زیاد بن سعد نے بھی مجھے سنائی تھی، یہ اس سے پہلے کی بات ہے کہ جب میں نے یہ روایت سلیمان سے سنی۔ میں نے ان سے دریافت کیا: میں سلیمان بن صحیم کو آپ کی طرف سے سلام کہہ دوں، وہ بولے: جی ہاں۔ جب میں مدینہ منورہ آیا، تو میں نے سلیمان کو زیاد کی طرف سے سلام پیش کیا اور ان سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا۔ (تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی)۔
تخریج الحدیث: «وهذا إسناد موصول بالإسناد السابق وهو من المزيد فى متصل الأسانيد. وانظر التعليق السابق»
497 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا عمرو بن دينار قال: اخبرني عطاء بن ابي رباح، عن ابن عباس ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: «إذا اكل احدكم فلا يمسح يديه حتي يلعقها او يلعقها» قال سفيان: فقال له عمرو بن قيس: يا ابا محمد إنما حدثناه عطاء عن جابر فقال عمرو: والله لقد سمعته من عطاء يحدثه عن ابن عباس قبل ان يقدم علينا جابر مكة قال سفيان: وإنما لقي عمرو وعطاء إن شاء الله تعالي جابرا في سنة جاور فيها497 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَمْسَحْ يَدَيْهِ حَتَّي يَلْعَقَهَا أَوْ يُلْعِقَهَا» قَالَ سُفْيَانُ: فَقَالَ لَهُ عَمْرُو بْنُ قَيْسٍ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ إِنَّمَا حَدَّثَنَاهُ عَطَاءٌ عَنْ جَابِرٍ فَقَالَ عَمْرٌو: وَاللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ عَطَاءٍ يُحَدِّثُهُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَبْلَ أَنْ يَقْدَمَ عَلَيْنَا جَابِرٌ مَكَّةَ قَالَ سُفْيَانُ: وَإِنَّمَا لَقِيَ عَمْرٌو وَعَطَاءٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَي جَابِرًا فِي سَنَةٍ جَاوَرَ فِيهَا
497- عطاء بن ابی رباح سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جب کوئی شخص کچھ کھائے تو اپنا ہاتھ (کپڑے یا کسی اور چیز کے ساتھ) اس وقت تک نہ پونچھے جب تک وہ اسے چاٹ نہ لے یا کسی دوسرے سے چٹوا نہ لے۔“ سفیان کہتے ہیں: عمرو نے ان سے کہا: اے ابومحمد! یہ روایت عطاء نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کی ہے، تو عمرو بولے: اللہ کی قسم! میں نے تو یہ روایت عطاء کی زبانی سنی ہے، جسے انہوں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نقل کیا تھا، اور یہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے ہمارے ہاں مکہ آنے سے پہلے کی بات ہے۔ سفیان کہتے ہیں: عمرو بن قیس اور عطاء کی ملاقات سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اس سال ہوئی تھی، جس سال سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں رہائش اختیار کی تھی (یا وہاں اعتکاف کیا تھا)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5456، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2031، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6744، 6745، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3847، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2069، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3269، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14730، 14731، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1949، برقم: 2716، برقم: 3296، برقم: 3568، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2503»
498 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا عطاء، عن ابن عباس ان النبي صلي الله عليه وسلم مر بشاة لمولاة لميمونة قد اعطيتها من الصدقة ميتة قال النبي صلي الله عليه وسلم: «ما علي اهل هذه لو اخذوا إهابها فدبغوه وانتفعوا به» فقالوا يا رسول الله إنها ميتة فقال «إنما حرم اكلها» وكان سفيان ربما ذكر فيه ميمونة وربما لم يذكره فنحن نذكر كذا وكذا498 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَطَاءٌ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِشَاةٍ لِمَوْلَاةٍ لِمَيْمُونَةَ قَدْ أُعْطِيَتْهَا مِنَ الصَّدَقَةِ مَيِّتَةً قَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا عَلَي أَهْلِ هَذِهِ لَوْ أَخَذُوا إِهَابَهَا فَدَبَغُوهُ وَانْتَفَعُوا بِهِ» فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا مَيْتَةٌ فَقَالَ «إِنَّمَا حُرِّمَ أَكْلُهَا» وَكَانَ سُفْيَانُ رُبَّمَا ذَكَرَ فِيهِ مَيْمُونَةَ وَرُبَّمَا لَمْ يَذْكُرْهُ فَنَحْنُ نَذْكُرُ كَذَا وَكَذَا
498- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی کنیز کی مردہ بکری کے پاس سے ہوا جو اس کنیز کو صدقے کے طور پر دی گئی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس کے مالک کو کوئی نقصان نہیں ہوگا اگر وہ اس کی کھال حاصل کرکے اس کی دباغت کرکے اس سے نفع حاصل کریں۔“ لوگوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )! یہ مردار ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ سفیان نامی راوی نے بعض اوقات اس میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ کیا ہے اور بعض اوقات ان کا تذکرہ نہیں کیا، تو ہم اس طرح اور اس طرح (دونوں طرح) سے ذکر کررہے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1492، 2221، 5531، 5532 ومسلم فى «صحيحه» برقم: 363، 365 ومالك فى «الموطأ» برقم: 1829 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1280، 1282، 1284 والنسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 4246، 4247 2449، 4250، 4272 والنسائي فى «الكبريٰ» برقم: 4547، 4548، 4550، 4551، 4573 وأبو داود فى «سننه» برقم: 4120، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1727، والحميدي فى «مسنده» برقم: 317، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2419»
499 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا عمرو بن دينار، عن عطاء وحدثناه ابن جريج، عن عطاء، عن ابن عباس قال عمرو: «اعتم رسول الله صلي الله عليه وسلم ذات ليلة بالعشاء» فخرج عمر فنادي فقال الصلاة يا رسول الله قد رقد النساء والولدان وقال ابن جريج: اخر رسول الله صلي الله عليه وسلم ذات ليلة بالعشاء فخرج رسول الله صلي الله عليه وسلم وراسه يقطر ماء وهو يقول: «إنه للوقت لولا ان اشق علي المؤمنين ما صليت إلا هذه الساعة» قال ابن جريج فخرج صلي الله عليه وسلم وهو يمسح الماء عن شقه وهو يقول «إنه الوقت لولا ان اشق علي امتي» وكان سفيان ربما حدث بهذا الحديث فادرجه عن ابن عباس عن عمرو وابن جريج ما يذكر فيه الخبر فإذا قال فيه حدثنا وسمعت او سمعت او اخبرنا اخبر بهذا علي هذا وهذا علي هذا499 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ وَحَدَّثَنَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ عَمْرٌو: «أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ بِالْعِشَاءِ» فَخَرَجَ عُمَرُ فَنَادَي فَقَالَ الصَّلَاةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ رَقَدَ النِّسَاءُ وَالْوِلْدَانُ وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ بِالْعِشَاءِ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ مَاءً وَهُوَ يَقُولُ: «إِنَّهُ لَلْوَقْتُ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَي الْمُؤْمِنِينَ مَا صَلَّيْتُ إِلَّا هَذِهِ السَّاعَةَ» قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ فَخَرَجَ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَمْسَحُ الْمَاءَ عَنْ شِقَّهِ وَهُوَ يَقُولُ «إِنَّهُ الْوَقْتُ لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلَي أُمَّتِي» وَكَانَ سُفْيَانُ رُبَّمَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ فَأَدْرَجَهُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ عَمْرٍو وَابْنِ جُرَيْجٍ مَا يَذْكُرُ فِيهِ الْخَبَرَ فَإِذَا قَالَ فِيهِ حَدَّثَنَا وَسَمِعْتُ أَوْ سَمِعْتُ أَوْ أَخْبَرَنَا أَخْبَرَ بِهَذَا عَلَي هَذَا وَهَذَا عَلَي هَذَا
499- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز ادا کرنے میں تاخیر کردی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )! نماز (کا وقت گزر رہا ہے)۔ خواتین اور بچے سوچکے ہیں: یہاں عمرو نامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا: ”یہی تو وقت ہے! اگر مجھے اہل ایمان کے مشقت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو میں اس نماز کو اسی وقت میں ادا کرتا۔“ ابن جریج نامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت عشاء کی نماز مؤخر کردی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ایک پہلو کی طرف سے پانی پونچھ رہے تھے اور یہ ارشاد فرما رہے تھے، ”یہی تو وقت ہے! اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا۔“ سفیان نامی راوی نے بعض اوقات اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے اس میں یہ ادراج کیا ہے کہ یہ روایت سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے منقول ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 571، 7239، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 642، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 342، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1098، 1532، 1533، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 530، 531، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1525، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1951، برقم: 3535، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2398»
500 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا عمرو قال سمعت طاوسا يحدث عن ابن عباس «ان النبي صلي الله عليه وسلم امر ان يسجد منه علي سبع ونهي ان يكف شعره او ثيابه» 500 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَمْرٌو قَالَ سَمِعْتُ طَاوُسًا يُحَدِّثُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرَ أَنْ يَسْجُدَ مِنْهُ عَلَي سَبْعٍ وَنُهِيَ أَنْ يَكُفَّ شَعْرَهُ أَوْ ثِيَابَهُ»
500- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات اعضاء پر سجدہ کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے منع کیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے دوران) اپنے بالوں، یا کپڑوں کو سمیٹیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 809، 810، 812، 815، 816، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 490، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1923، 1924، 1925، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1097، وأبو داود فى «سننه» برقم: 889، 890، والترمذي فى «جامعه» برقم: 273، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1357، 1358، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 883، 884، 1040»
501 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس قال: «امر النبي صلي الله عليه وسلم ان يسجد منه علي سبع علي يديه، وركبتيه، واطراف اصابعه، وجبهته، ونهي إن شاء الله ان يكف الشعر والثياب» قال سفيان: وارانا ابن طاوس فوضع يده علي جبينه ثم مر بها حتي بلغ بها طرف انفه وكان ابي يعد هذا واحدا501 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُسْجَدَ مِنْهُ عَلَي سَبْعٍ عَلَي يَدَيْهِ، وَرُكْبَتَيْهِ، وَأَطْرَافِ أَصَابِعِهِ، وَجَبْهَتِهِ، وَنَهَي إِنْ شَاءَ اللَّهُ أَنْ يُكَفَّ الشَّعْرُ وَالثِّيَابُ» قَالَ سُفْيَانُ: وَأَرَانَا ابْنُ طَاوُسٍ فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَي جَبِينِهِ ثُمَّ مَرَّ بِهَا حَتَّي بَلَغَ بِهَا طَرَفَ أَنْفِهِ وَكَانَ أَبِي يَعُدُّ هَذَا وَاحِدًا
501- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات اعضاء پر سجدہ کریں، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے، انگلیوں کے کنارے اور پیشانی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے منع کیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے دوران) بال یا کپڑے سمیٹیں۔ سفیان کہتے ہیں: طاؤس کے صاحبزادے نے ہمیں یہ کرکے دکھایا، انہوں نے اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھا پھر اسے ناک کے کنارے تک لائے اور بولے: میرے والد اسے ایک عضو شمار کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 809، 810، 812، 815، 816، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 490، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1923، 1924، 1925، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1098، وأبو داود فى «سننه» برقم: 889، 890، والترمذي فى «جامعه» برقم: 273، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1357، 1358، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 883، 884، 1040»
502 - حدثنا الحميدي قال: حدثنا سفيان قال: حدثنا ابو امية عبد الكريم بن ابي المخارق، عن طاوس، عن ابن عباس: ان النبي صلي الله عليه وسلم امر ان يسجد منه علي سبعة اعظم، وامر ان لا يكف شعرا ولا ثوبا.502 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّةَ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنِ أَبِي الْمُخَارِقِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرَ أَنْ يَسْجُدَ مِنْهُ عَلَي سَبْعَةِ أَعْظُمٍ، وَأُمِرَ أَنْ لَا يَكُفَّ شَعَرًا وَلَا ثَوْبًا.
502- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات ہڈیوں پر سجدہ کریں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے دوران) بال یا کپڑے سمیٹیں۔
تخریج الحدیث: «أبو امية عبد الكريم ضعيف، لكنه متابع عليه، والحديث صحيح، وانظر الحديث السابق»
503 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا سليمان الاحول خال ابن ابي نجيح قال: سمعت طاوسا يقول: «كان النبي صلي الله عليه وسلم إذا قام من الليل يتهجد قال اللهم لك الحمد انت نور السموات والارض ومن فيهن، ولك الحمد انت قيم السموات والارض ومن فيهن، ولك الحمد انت ملك السموات والارض ومن فيهن، ولك الحمد انت الحق، ووعدك الحق، ولقاؤك حق، والجنة حق، والنار حق، والساعة حق، ومحمد حق، والنبيون حق، اللهم لك اسلمت، وبك آمنت، وعليك توكلت، وإليك انبت، وبك خاصمت، وإليك حاكمت، فاغفر لي ما قدمت، وما اخرت، وما اسررت وما اعلنت، انت المقدم، وانت المؤخر لا إله إلا انت» او قال: «لا إله غيرك» شك سفيان وزاد فيه عبد الكريم «ولا حول ولا قوة إلا بك» ولم يقلها سليم503 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا سُلَيْمَانُ الْأَحْوَلُ خَالُ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ قَالَ: سَمِعْتُ طَاوُسًا يَقُولُ: «كَانَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَتَهَجَّدُ قَالَ اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ مَلِكُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ، وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ الْحَقُّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ، وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ» أَوْ قَالَ: «لَا إِلَهَ غَيْرُكَ» شَكَّ سُفْيَانُ وَزَادَ فِيهِ عَبْدُ الْكَرِيمِ «وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِكَ» وَلَمْ يَقُلْهَا سُلَيْمٌ
503- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کے وقت نماز تہجد ادا کرنے کے لئے اٹھتے تھے، تو یہ دعا مانگا کرتے تھے: ”اے اللہ! حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو آسمانوں اور زمین میں موجود سب چیزوں کو روشن کرنے والا ہے، حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو آسمانوں، زمین اور ان میں موجود سب چیزوں کو قائم رکھنے ولا ہے، حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو آسمانوں، زمین اور ان میں موجود سب چیزوں کا بادشاہ ہے، حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیری بارگاہ میں حاضری حق ہے، جہنم حق ہے، قیامت حق ہے، (سیدنا) محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) حق ہیں، تمام انبیاء حق ہیں۔ اے اللہ! میں نے تیرے لئے اسلام قبول کیا، تجھ پر ایمان لایا، میں نے تجھ پر توکل کیا، تیری طرف رجوع کیا، میری تیری مدد سے مقابلہ کرتا ہوں، میں تجھے ہی ثالث تسلیم کرتا ہوں، تو میرے گزشتہ اور آئندہ ضفیہ اور اعلانیہ (ذنب) کی مغفرت کردے، تو آگے کرنے ولا ہے، تو پیچھے کرنے والا ہے، تیرے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے (یہاں کچھ الفاظ میں راوی کو شک ہے)۔“ سفیان کہتے ہیں: عبدالکریم نامی راوی نے اس میں یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں: ”تیری مدد کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔“ یہ الفاظ سلیمان نامی راوی نے نقل نہیں کیے ہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1120، 6317، 7385، 7442، 7499، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 769، ومالك فى «الموطأ» برقم:، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1151، 1152، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2597، 2598، 2599، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1618، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1321، 7656، 7657، 7658، 10638، 11300، وأبو داود فى «سننه» برقم: 771، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3418، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1527، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1355، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2404، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2754»
504 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا محمد بن عبد الرحمن مولي آل طلحة قال: ثنا كريب ابو رشدين قال: سمعت ابن عباس يقول: خرج رسول الله صلي الله عليه وسلم من بيت جويرية حين صلي الصبح وكان اسمها برة فسماها جويرية كره ان يقال خرج من عند برة قال ابن عباس فخرج من عندها حين صلي الصبح ثم رجع إليها بعدما تعالي النهار وهي جالسة في مصلاها فقال لها: «لم تزالي في مجلسك هذا» قالت: نعم فقال النبي صلي الله عليه وسلم: «لقد قلت بعدك اربع كلمات ثلاث مرات لو وزن بجميع ما قلت لوزنتهن سبحان الله وبحمده عدد خلقه، ورضي نفسه، وزنة عرشه، ومداد كلماته» 504 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَي آلِ طَلْحَةَ قَالَ: ثنا كُرَيْبٌ أَبُو رِشْدِينَ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ بَيْتِ جُوَيْرِيَةَ حِينَ صَلَّي الصُّبْحَ وَكَانِ اسْمُهَا بَرَّةُ فَسَمَّاهَا جُوَيْرِيَةَ كَرِهَ أَنْ يُقَالَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِ بَرَّةَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَخَرَجَ مِنْ عِنْدِهَا حِينَ صَلَّي الصُّبْحَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهَا بَعْدَمَا تَعَالَي النَّهَارُ وَهِيَ جَالِسَةٌ فِي مُصَلَّاهَا فَقَالَ لَهَا: «لَمْ تَزَالِي فِي مَجْلِسِكِ هَذَا» قَالَتْ: نَعَمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدْ قُلْتُ بَعْدَكَ أَرْبَعَ كَلِمَاتٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ لَوْ وُزِنَّ بِجَمِيعِ مَا قُلْتِ لَوَزَنَتْهُنَّ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَي نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ، وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ»
504- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے ہاں سے بار تشریف لائے۔ ان کا نام ”برہ“ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام جویریہ رکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ یہ کہا جائے کہ آپ برہ (بھلائی یا نیکی) کے پاس سے تشریف لے گئے ہیں۔ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ادا کرلینے کے بعد اس خاتون کے ہاں سے نکلے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس واپس تشریف لائے، تو دن اچھی طرح چڑھ چکا تھا۔ وہ خاتون اپنی جائے نماز پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا: ”کیا تم اس وقت سے یہیں بیٹھی ہوئی ہو؟“ انہوں نے عرض کی: جی ہاں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہارے پاس سے جانے کے بعد چار کلمات تین مرتبہ پڑھے، تم نے جو کچھ پڑھا ہے اگر ان کلمات کو ان کے وزن میں رکھا جائے، تو یہ کلمات وزنی ہوں گے (وہ کلمات یہ ہیں)”اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے، اس کے لئے حمد مخصوص ہے، جو اس مخلوق کی تعداد کے برابر ہو۔ اس کی ذات کی رضامندی کے برابر ہو، اس کے عرش کے وزن کے برابر ہو اور اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر ہو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2140، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 832، 5829، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9916، 9917، 9918، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1503، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2370»