عبد العزیز بن محمد نے کہا: یزید بن ہاد نے ہمیں محمد بن ابرا ہیم سے حدیث بیان کی انھوں نے ابو سلمہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعا لیٰ نے (کبھی) کسی چیز پر اس طرح کان نہیں دھرا جس طرح کسی خوش آواز نبی (کی قراءت) پر جب وہ بلند آواز کے ساتھ خوش الحانی سے قراءت کرے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کسی چیز پر کان نہیں دھرتا جس قدر کان اس نبی کی خوش الحانی پر دھرتا ہے جو قراءت خوش الحانی سے کرتا ہے، اس کو بلند آواز سے پڑھتا ہے۔“
عمر بن مالک اور حیوہ بن شریح نے ابن ہاد سے اسی سند کے ساتھ بالکل اس جیسی روا یت بیان کی اور انھوں نے (ان رسول اللہ)(بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) کہا اور سَمِعَ (اس نے سنا) کا لفظ نہیں بولا۔
مصنف نے یہی حدیث اپنے دوسرے استاد سے بھی بیان کی ہے۔ لیکن (سَمِعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)(کی بجائے)(اِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) ہے۔
حییٰ بن ابی کثیرؒ نے ابو سلمہ سے اور انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: اللہ تعا لیٰ نے (کبھی) کسی چیز پر اس طرح کا ن نہیں دھرا جیسے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم (کی آواز) پر کا ن دھرتا ہے جو بلند آواز کے ساتھ خوش الحانی سے قراءت کرتا ہے۔"
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کسی چیز پر کان نہیں دھرتا جیسے وہ نبی پر کان دھرتا ہے جو خوش الحانی سے قرأت کرتا ہے، اس کے لیے آواز بلند کرتا ہے۔“
یحییٰ بن ایوب قتیبہ بن سعید اور ابن حجر نے کہا: ہمیں اسماعیل بن جعفر نے محمد بن عمرو سے حدیث بیان کی انھوں نے ابو سلمہ سے انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یحییٰ بن ابی کثیر کی حدیث کی طرح روا یت بیان کی مگر ابن ایوب نے اپنی روا یت میں (کاذنہ کے بجا ئے) کاذنہ (جس طرح وہ اجازت دیتا ہے) کہا۔اس (طرح ما اذن اللہ کا معنی ہو گا اللہ تعا لیٰ نے (بار یابی کی اجازت نہیں دی۔
مصنف یہی حدیث اپنے دوسرے اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، صرف اس فرق کے ساتھ کہ پہلی جگہ (أَذَ نِهِ) تھا اور اس جگہ (اِذْنِهِ) ہے، اس صورت میں معنی اجازت دینا ہوگا، پہلی صورت میں معنی کان دھرنا تھا۔ اس لیے بقول قاضی عیاض، اس میں، اس کام پرآمادہ کرنا اور حکم دینے کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے۔
حضرت برید رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عبد اللہ بن قیس۔۔یا اشعری۔۔۔کو آل داودکی بنسریوں (خوبصورت آوازوں) میں سے ایک بنسری (خوبصورت آواز) عطاکی گئی ہے
حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عبداللہ بن قیس یا اشعری کو آل داؤد کی خوش الحانی میں سے حصہ ملا ہے۔“
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روا یت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا): کیا ہی خوب ہو تا) کاش! تم مجھے دیکھتے جب گزشتہ رات میں بڑے انہماک سے تمھاری قراءت سن رہا تھا تمھیں آل داؤدکی خوبصورت آوازوں میں سے ایک خوبصورت آوازدی گئی ہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فرمایا: ”اگر تم مجھے کل رات دیکھتے جب میں تمہاری قراءت کو انتہائی توجہ سے سن رہا تھا، (تو تم بہت خوش ہوتے) تمہیں داؤد علیہ السلام کی خوش الحانی سے حسنِ آواز نصیب ہوئی ہے۔“
عبداللہ بن ادریس اور وکیع نے شعبہ سے اور انھوں نے معاویہ بن قرہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے سال اپنے سفر میں اپنی سواری پر سورہ فتح کی تلاوت فرمائی اور اپنی قراءت میں آواز کو دہرایا۔ معاویہ نے کہا: اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ میرے گرد جمع ہوجائیں گے تو میں تمھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی قراء ت سناتا۔
حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ والے سال راستہ میں اپنی سواری پر سورہ فتح کی تلاوت فرمائی اور اپنی قراءت میں آواز کو دہرایا۔ معاویہ بن قرۃ کہتے ہیں، اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ میرے گرد جمع ہو جائیں گے تو میں تمھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کی نقل اتار کر سناتا۔
محمد بن جعفر نے کہا: شعبہ نے ہمیں معاویہ بن قرہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت عبداللہ بن مغفل سے سنا، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن اپنی اونٹنی پر (سوار) سورہ فتح پڑھتے ہوئے دیکھا۔ (معاویہ بن قرہ نے) کہا: حضرت ابن مغفل رضی اللہ عنہ نےقراءت کی اور اس میں ترجیع کی، معاویہ نے کہا: اگر مجھے لوگوں (کے اکھٹے ہوجانے) کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمھارے لئے (قراءت کا) وہی (طریقہ اختیار) کرتا جو حضرت ابن مغفل رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کیا تھا۔
حضرت عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن اپنی اونٹنی پر بیٹھے ہوئے سورہ فتح پڑھتے ہوئے دیکھا، عبداللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد کہتے ہیں کہ ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قراءت میں ترجیع کی یعنی گنگناہٹ پیدا کی، معاویہ کہتے ہیں اگر مجھے لوگوں (کے اجتماع) کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں تمھارے لئے وہی طریقہ اپناتا کرتا جو حضرت ابن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کیا تھا، یعنی اس طرح قرآت کر کے سناتا۔
خالد بن حارث اور معاذ نے کہا: شعبہ نے ہمیں اسی سند کے ساتھ اسی طرح کی حدیث بیان کی، خالد بن حارث کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (سورہ فتح تلاوت کرتے ہوئے اپنی) سواری پر سفر کررہے تھے۔
امام صاحب نے دوسرے استاد سے یہی روایت نقل کی ہے، اور خالد بن حارث کی روایت یہی ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم چلتی ہوئی سواری پر سورہ فتح کی تلاوت فرما رہے تھے۔
ابو خثیمہ نے ابو اسحاق سے اور انھوں نے حضرت بر اء رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: ایک آدمی سورہ کہف کی تلاوت کررہاتھا اور اس کے پاس ہی دو رسیوں میں بندھا ہواگھوڑا (موجود) تھا۔تو اسے ایک بدلی نے ڈھانپ لیا۔
حضرت بر اء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ، ایک آدمی سورہ کہف کی تلاوت کر رہا تھا اور اس کے پاس دو لمبی رسیوں میں بندھا ہوا گھوڑا کھڑا تھا، اسے ایک بدلی نے ڈھانپ لیا اور وہ بدلی گھومنے اور قریب آنے لگی اور اس کا گھوڑا اس سے بدکنے لگا، جب صبح ہوئی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ماجرا سنایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سکینت تھی، جوقرآن کی قرآت کی بنا پر اتری۔“