وحدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يرغب في قيام رمضان من غير ان يامرهم فيه بعزيمة، فيقول: " من قام رمضان، إيمانا، واحتسابا، غفر له ما تقدم من ذنبه "، فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والامر على ذلك، ثم كان الامر على ذلك في خلافة ابي بكر وصدرا من خلافة عمر على ذلك.وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ فِيهِ بِعَزِيمَةٍ، فَيَقُولُ: " مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، إِيمَانًا، وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ "، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ الأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ.
امام زہری نے ابو سلمہ (بن عبدالرحمان) سے اور انھوں نے ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لازم ٹھہرائے بغیر رمضان کے قیام کی ترغیب دیتے تھے، آپ فرماتے: "جس نے رمضان کا قیام ایمان (کی حالت میں) اوراجر طلب کرتے ہوئے کیا، اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے۔"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ یہی رہا، پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت اور عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دور میں بھی معاملہ اسی طرح رہا (ترغیب دی جاتی رہی، اجتماعی طور پر اہتمام نہیں کیاگیا) -
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمصان کے قیام کی ترغیب اس کا تاکیدی حکم دیئے بغیر دیتے تھے، آپصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”جس نے رمصان کا قیام ایمان او راحتساب کے ساتھ کیا: اس کے گزشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک معاملہ یہی رہا پھر ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں معاملہ یہی رہا اور عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کے ابتدائی دور میں بھی صورت حال یہی رہی۔
حییٰ بن ابی کثیر نے کہا: ہمیں سلمہ بن عبدالرحمان نے حدیث بیان کی۔کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے انھیں حدیث سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے رمضان کے روزے ایمان (کی حالت میں) اور ثواب کے لئے رکھے، اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور جس نے لیلۃ القدر کا قیام ایمان کے ساتھ اور ثواب کے لئے کیا تو اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے روزے ایماناحتساب کے ساتھ رکھے، اس کے گزشتہ سب گناہ معاف کر دیئے جائیں گے اور جس نے لَیْلَةُ الْقَدْر کا قیام ایمان کے ساتھ اور احتساب کے ساتھ کیا تو اس کے گزشتہ سارے پہلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔“
اعرج نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور ا نھوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص لیلۃ القدر کا قیام کرے گا اور اس کو پالے گا۔میرا خیال ہے آپ نے فرمایا۔ایمان کے عالم میں اور احتساب کے لئے، اسے بخش دیا جائے گا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ﴿لَیْلَةُ الْقَدْر﴾ کا قیام کرے گا اور اس کو پا لے گا۔ (میرے خیال میں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:)”ایمان اور احتساب کے ساتھ، اسے معاف دیا جائے گا۔“
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن عروة ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " صلى في المسجد ذات ليلة، فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة او الرابعة، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما اصبح، قال: قد رايت الذي صنعتم، فلم يمنعني من الخروج إليكم، إلا اني خشيت ان تفرض عليكم، قال: وذلك في رمضان ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ، فَصَلَّى بِصَلَاتِهِ نَاسٌ، ثُمَّ صَلَّى مِنَ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ، ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَصْبَحَ، قَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ، فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ، إِلَّا أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ، قَالَ: وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ ".
امام مالکؒ نے ابن شہاب سے روایت کی، انھوں نے عروہ سے اور انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی تو کچھ اور لوگوں نے (بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، پھر آپ نے اس سے اگلی ر ات نماز پڑھی تو لوگوں (کی تعداد) میں اضافہ ہوگیا، پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر ان کے پاس تشریف نہ لائے۔جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو تم نے کیا میں نے دیکھا، مجھے تمہارے پاس آنے سے اس کے سوا کسی چیز نے نہیں روکا کہ مجھے ڈر ہوا کہ کہیں یہ (نماز) تم پر فرض نہ ہوجائے۔" (عروہ یا ان کے بعد کے کسی راوی نے) کہا: اور یہ رمضان میں ہوا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی تو کچھ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری ر ات نماز پڑھی تو لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا، پھر تیسری یا چوتھی رات لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر ان کے پاس تشریف نہ یں لائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” مجھے تمہارے پاس آنے سے صرف اس چیز نے روکا کہ مجھے خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہو جائے۔“اور یہ رمضان کا واقعہ ہے۔
وحدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس بن يزيد ، عن ابن شهاب ، قال: اخبرني عروة بن الزبير ، ان عائشة اخبرته، " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، خرج من جوف الليل، فصلى في المسجد، فصلى رجال بصلاته، فاصبح الناس يتحدثون بذلك فاجتمع اكثر منهم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في الليلة الثانية، فصلوا بصلاته، فاصبح الناس يذكرون ذلك، فكثر اهل المسجد من الليلة الثالثة، فخرج فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة، عجز المسجد عن اهله، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فطفق رجال منهم، يقولون: الصلاة، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى خرج لصلاة الفجر، فلما قضى الفجر، اقبل على الناس ثم تشهد، فقال: اما بعد، فإنه لم يخف علي شانكم الليلة، ولكني خشيت ان تفرض عليكم صلاة الليل، فتعجزوا عنها ".وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خَرَجَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ، فَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلَاتِهِ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ يَتَحَدَّثُونَ بِذَلِكَ فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اللَّيْلَةِ الثَّانِيَةِ، فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، فَأَصْبَحَ النَّاسُ يَذْكُرُونَ ذَلِكَ، فَكَثُرَ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَخَرَجَ فَصَلَّوْا بِصَلَاتِهِ، فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ، عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَفِقَ رِجَالٌ مِنْهُمْ، يَقُولُونَ: الصَّلَاةَ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى خَرَجَ لِصَلَاةِ الْفَجْرِ، فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ، أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ تَشَهَّدَ، فَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ شَأْنُكُمُ اللَّيْلَةَ، وَلَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ صَلَاةُ اللَّيْلِ، فَتَعْجِزُوا عَنْهَا ".
یونس بن یزید نے ابن شہاب سے خبر دی، انھوں نے کہا: مجھے عروہ بن زبیر نے بتایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وسط میں (گھر سے) نکلے اور مسجد میں نماز پڑھی، کچھ لوگوں نے (بھی) آپ کی نماز کے ساتھ نماز ادا کی، صبح کو لوگوں نے اس بارے میں بات چیت کی، چنانچہ (دوسری رات) لوگ پہلے سے زیادہ جمع ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم د وسری رات بھی باہر تشریف لائے اور لوگوں نے آپ کی نماز کے ساتھ (اقتداء میں) نماز پڑھی، صبح اس کا تذکرہ کرتے رہے، تیسری رات مسجد میں آنے والے اور زیادہ ہوگئے آپ باہر تشریف لائے اور لوگوں نے آپ کی نماز کے ساتھ نماز پڑھی، جب چوتھی رات ہوئی تو مسجد نمازیوں کے لئے تنگ ہوگئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر ان کے پاس تشریف نہ لائے حتیٰ کہ آپ صبح کی نماز کے لئے تشریف لائے۔جب صبح کی نماز پوری کرلی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، پھر شہادتین پڑھ کر (یہ خطبے کا حصہ ہیں) فرمایا: "اما بعد! واقعہ یہ ہے کہ آج رات تمہارا حال مجھ سے مخفی نہ تھا لیکن مجھے خدشہ ہوا کہ رات کی نماز تم پر فرض نہ کردی جائے پر تم اس (کی ادائیگی) سے عاجز رہو۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نکلے اور مسجد میں نماز پڑھنی شروع کی، کچھ لوگوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں پڑھی، صبح ہوئی تو لوگوں نے اس کا چرچا کیا، اور لوگ پہلے سے زیادہ جمع ہو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم د وسری رات نکلے اور لوگوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز پڑھی، صبح ہوئی تو لوگوں نے اس کا تذکرہ کیا، تیسری رات لوگ مسجد میں زیادہ جمع ہو گئے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور انہوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی کی اقتداء کی، جب چوتھی رات آئی تو مسجد نمازیوں کے لئے تنگ ہو گئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکل کر ان کے پاس تشریف نہ لائے ان میں سے کچھ لوگ نماز کی صدا بلند کرنے لگے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف نہ لائے حتیٰ صبح کی نماز کے لئے تشریف لائے۔ جب صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے، پھر خطبہ پڑھ کر فرمایا: ”حمد وصلاۃ کے بعد! واقعہ یہ ہے کہ آج رات تمہارا معاملہ مجھ پر مخفی نہ تھا لیکن مجھے یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ رات کی نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے پھر تم اس سے عاجز آجاؤ۔“
حدثنا محمد بن مهران الرازي ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا الاوزاعي ، حدثني عبدة ، عن زر ، قال: سمعت ابي بن كعب ، يقول: وقيل له: إن عبد الله بن مسعود، يقول: " من قام السنة، اصاب ليلة القدر، فقال ابي: والله الذي لا إله إلا هو، إنها لفي رمضان يحلف ما يستثني، ووالله إني لاعلم اي ليلة هي، هي الليلة التي امرنا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم بقيامها، هي ليلة صبيحة سبع وعشرين، وامارتها ان تطلع الشمس في صبيحة يومها بيضاء لا شعاع لها ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي عَبْدَةُ ، عَنْ زِرٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ ، يَقُولُ: وَقِيلَ لَهُ: إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ: " مَنْ قَامَ السَّنَةَ، أَصَابَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، فَقَالَ أُبَيٌّ: وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، إِنَّهَا لَفِي رَمَضَانَ يَحْلِفُ مَا يَسْتَثْنِي، وَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُ أَيُّ لَيْلَةٍ هِيَ، هِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَمَرَنَا بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقِيَامِهَا، هِيَ لَيْلَةُ صَبِيحَةِ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، وَأَمَارَتُهَا أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فِي صَبِيحَةِ يَوْمِهَا بَيْضَاءَ لَا شُعَاعَ لَهَا ".
اوزاعی نے کہا: مجھ سے عبدہ (بن ابی لبابہ) نے زر (بن جیش) سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے جب کہ ان سے کہاگیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں: جس نے سال بھر قیام کیا اس نے شب قدر کو پالیا تو ابی رضی اللہ عنہ نے کہا: اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں!وہ رات ر مضان میں ہے۔۔۔وہ بغیر کسی استثناء کے حلف اٹھاتے تھے۔۔۔اور اللہ کی قسم! میں خوب جانتا ہوں کہ وہ رات کون سی ہے، یہ وہی رات ہے جس میں قیام کا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا، یہ ستائیسویں صبح کی رات ہے اور ا س کی علامت یہ ہے کہ اس دن کی صبح کو سورج سفید طلوع ہوتا ہے، اس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی۔
زِرّ بیان کرتے ہیں کہ اُبَیّ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتایا گیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں: جو انسان سال بھر قیام کرے گا وہ شب قدر کو پائے گا۔ تو ابی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، بغیر اس کے کہ ان شاء اللہ کہیں کہ اللہ کی قسم! جس کے سوا کوئی الہ نہیں ہے شب قدر رمضان میں ہے اور اللہ کی قسم! میں حوب جانتا ہوں یہ کون سی رات ہے یہ وہی رات ہے، جس کے قیام کا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا، یہ ستائسویں صبح کی رات ہے، اور اس کی علامت یہ ہے کہ اس کے دن کی صبح سورج روشن، بغیر شعاعوں کے طلوع ہوتا ہے۔
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت عبدة بن ابي لبابة ، يحدث، عن زر بن حبيش ، عن ابي بن كعب ، قال: قال ابي في ليلة القدر: والله إني لاعلمها، " واكثر علمي هي الليلة التي امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بقيامها، هي ليلة سبع وعشرين "، وإنما شك شعبة في هذا الحرف هي الليلة، التي امرنا بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وحدثني بها صاحب لي عنه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَةَ بْنَ أَبِي لُبَابَةَ ، يُحَدِّثُ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: قَالَ أُبَيٌّ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُهَا، " وَأَكْثَرُ عِلْمِي هِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقِيَامِهَا، هِيَ لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ "، وَإِنَّمَا شَكَّ شُعْبَةُ فِي هَذَا الْحَرْفِ هِيَ اللَّيْلَةُ، الَّتِي أَمَرَنَا بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَحَدَّثَنِي بِهَا صَاحِبٌ لِي عَنْهُ.
محمد بن جعفر نے کہا: ہم سے شعبہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے عبدہ بن ابی لبابہ کو زرین حبیش سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انھوں نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی، (زرنے) کہا: حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے لیلۃ القدر کے بارے میں کہا: اللہ کی قسم!میں اس کے بارے میں جانتا ہوں اور میرا غالب گمان ہے کہ یہ وہی رات ہے جس کے قیام کا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا، یہ ستائیسویں رات ہے۔ شعبہ نے"یہ وہی رات ہے جس کے قیام کا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا تھا"فقرے کے بارے میں شک کیا، انھوں نے کہا: مجھے یہ روایت میرے ساتھی نے ان (عبدہ بن ابی لبابہ کے حوالے) سے سنائی تھی۔
زِرُّ بن جیش کہتے ہیں، مجھے اُبَیّ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےلَیْلَةُ الْقَدْر کے بارے میں کہا، اللہ کی قسم! میں اس کے بارے میں اچھی طرح علم رکھتا ہوں۔ اور میرا ظن غالب یہ ہے کہ یہ وہی رات ہے، جس کے قیام کا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، یہ ستائیسویں رات ہے، ”هِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَمَرَنَا بِهَا“ کے بارے میں شعبہ کو شک لاحق ہوا ہے کہ یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں کیونکہ یہ روایت انہیں ان کے ساتھی نے سنائی تھی۔
۔ (عبیداللہ کے والد) معاذ نے کہا: ہم سے شعبہ نے اسی سند کے ساتھ سابقہ روایت کی مانند حدیث بیان کی لیکن اس میں انما شک شعبۃ (شعبہ نے اس کے بارے میں شک کیا) اور اس کے بعد کی عبارت بیان نہیں کی۔
امام صاحب دوسری اسناد سے شعبہ کی روایت نقل کرتے ہیں لیکن اس میں یہ بیان نہیں کرتے شعبہ کو شک ہے، سے لے کر آخر تک۔
سلمہ بن کہیل نے کریب سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گزاری، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور اپنی ضرورت (کی جگہ) آئے، پھر اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر سو گئے پھر اٹھے اور مشکیزے کے پاس آئے اور اس کا بندھن کھولا، پھر دو (طرح کے) وضو (بہت ہلکا وضو اور بہت زیادہ وضو) کے درمیان کا وضو کیا اور (پانی) زیادہ (استعمال) نہیں کیا اور (وضو) اچھی طرح کیا، پھر اٹھے اور نماز شروع کی تو میں اٹھا اور میں نے انگڑائی لی، اس ڈر سے کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں آپ (کے حالات جاننے) کی خاطر جاگ رہا تھا، پھر میں نے وضو کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔تو میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب (کھڑا) کر لیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ رکعت رات کی نماز مکمل ہوئی، پھر آپ لیٹ گئے اور سو گئے حتیٰ کہ آپ کی سانس لینے کی آواز آنے لگی، آپ جب سوتے تھے تو آواز آتی تھی۔، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت بلال رضی اللہ عنہ آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دی، آپ نے نماز پڑھی (سنت فجر ادا کیں) اور وضو نہ کیا اور آپ کی دعا میں تھا: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَعَظِّمْ لِي نُورًا» "اےللہ! میرے دل میں نور ڈال دے اور میری آنکھوں میں اور میرے کانوں میں نور بھردے اورمیری دائیں طرف نور کردے اور میری بائیں طرف نور کردے اور میرے نیچے نور کر دے اور میرے آگے اور میرے پیچھے نور کردے اور میرے لئے نور کو عظیم کردے۔" (ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد) کریب نے بتایا کہ (ان کے علاوہ مزید) سات (چیزوں کے بارے میں دعا مانگی جن) کا تعلق جسم کے صندوق (پسلیوں اور اردگرد کے حصے) سے ہے، میر ی ملاقات حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے ہوئی تو انھوں نے مجھے ان کے بارے میں بتایا، انھوں نے بتایا کہ میرے پٹھوں، میرے گوشت، میرےخون، میرے بالوں اور میری کھال (کو نور کردے)، دو اور بھی چیزیں بتائیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں گزاری، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور اپنی (بول و براز) حاجت پوری کی، پھر اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، پھر سو گئے، پھر اٹھے اور مشکیزے کے پاس آ کر اس کا بندھن کھولا، پھر درمیانہ وضو کیا پانی زیادہ استعمال نہیں کیا اور وضو اچھی طرح کیا، پھر اٹھے اور نماز شروع کی تو میں اٹھا اور میں نے انگڑائی لی، اس ڈر سے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ سمجھیں کہ میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے حالات جاننے کی خاطر جاگ رہا تھا، پھر میں نے وضو کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ رکعت رات کی نماز مکمل ہوئی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور سو کر خراٹے لینے لگے آپصلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تھے تو خراٹے لیتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی (سنت فجر ادا کیں) اور وضو نہ کیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں تھا: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَعَظِّمْ لِي نُورًا»”اےللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما اور میری آنکھوں میں نور پیدا کر دے اور میرے سننے میں نور پیدا فرما اورمیرے دائیں نور کر دے اور میرے بائیں طرف نور کر دے اور میرے نیچے نور کر دے اور میرے آگے اور میرے پیچھے نور کر دے اور میرے لئے نور کو بڑھادے۔“ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے شاگرد کریب نے بتایا سات کا تعلق جسم سے ہے، اور سلمہ بن کہیل کہتے ہیں، میری ملاقات عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کسی بیٹے سے ہوئی تو اس نے مجھے وہ سات اعضاء بتائے، اس نے بتایا، میرے پٹھوں، میرے گوشت، میرے خون، میرے بالوں، میری کھال کو نور کر دے اور دو اور چیزیں بتائیں۔
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن مخرمة بن سليمان ، عن كريب مولى ابن عباس، ان ابن عباس اخبره، انه بات ليلة عند ميمونة ام المؤمنين وهي خالته، قال: فاضطجعت في عرض الوسادة، واضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم، واهله في طولها، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى انتصف الليل او قبله بقليل او بعده بقليل، استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعل يمسح النوم عن وجهه بيده، ثم قرا العشر الآيات الخواتم من سورة آل عمران، ثم قام إلى شن معلقة فتوضا منها فاحسن وضوءه، ثم قام فصلى، قال ابن عباس: فقمت فصنعت مثل ما صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم ذهبت فقمت إلى جنبه، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده اليمنى على راسي، واخذ باذني اليمنى يفتلها، " فصلى ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم اوتر، ثم اضطجع حتى جاء المؤذن فقام فصلى ركعتين خفيفتين، ثم خرج فصلى الصبح ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ بَاتَ لَيْلَةً عِنْدَ مَيْمُونَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ وَهِيَ خَالَتُهُ، قَالَ: فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ، اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الآيَاتِ الْخَوَاتِمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي، وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا، " فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ ".
امام مالک نے مخرمہ بن سلیمان سے اور انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مولیٰ کریب سے روایت کی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں بتایا کہ انھوں نے ایک رات ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گزاری جو ان کی خالہ تھیں، تو میں سرہانے (بستر) کے عرض میں لیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اہلیہ اس (بستر) کے طول (لمبائی) میں لیٹے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے یہاں تک کہ رات آدھی ہوئی۔یا اس سے تھوڑا پہلے یا تھوڑا بعد کا وقت ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدا ر ہوگئے اور اپنے ہاتھ کے ساتھ اپنے چہرے سے نیند زائل کرنے لگے، (چہرے پر ہاتھ پھیرا) پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں، پھر آپ اٹھ کرایک لٹکے ہوے مشکیزے کے پاس گئے اور اس سے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: "میں اٹھا اور میں نے بھی وہی کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاتھا۔پھر جا کر آپ کے پہلو میں کھڑ ہوگیااس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دائیاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرے دائیں کان کو پکڑ کر (آہستہ سے) مروڑنے لگے۔پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی۔پھر دورکعتیں، پھر دورکعتیں، پھر دورکعتیں، پھر دورکعتیں، پھر دورکعتیں پڑھیں۔پھر وتر پڑھا، پھر آپ لیٹ گئے حتیٰ کہ موذن آپ کے پاس آیا تو آ پ کھڑے ہوئے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر تشریف لئے گئے اور صبح کی نماز ادا کی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ انھوں نے ایک رات ام المومنین میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں گزاری جو ان کی خالہ تھیں، تو میں سرہانے یعنی بستر) کے عرض میں لیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ اس کے طول (لمبائی) میں لیٹے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے یہاں تک کہ رات آدھی ہو گئی۔ یا اس سے کچھ قبل یا کچھ بعد، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدا ر ہو گئے اور اپنے ہاتھ کے ساتھ اپنے چہرے سے نیند زائل کرنے لگے، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت کی تلاوت فرمائی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کے پاس گئے اور اس سے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہتے ہیں: ”میں اٹھا اور میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح یہی عمل کیا پھر جا کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑا ہو گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرے کان کو پکڑ کر مروڑنے لگے۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر دورکعت، پھر دورکعت، پھر دورکعت، پھر دورکعت، پھر دورکعت پڑھیں۔ پھر وتر پڑھا، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے حتیٰ کہ مؤذن آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر دو ہلکی ہلکی رکعتیں پڑھیں، پھر تشریف لئے گئے اور صبح کی نماز پڑھائی۔