وحدثنا ابو كريب ، وهارون بن عبد الله ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن الوليد بن كثير ، قال: حدثني عبيد الله بن عبد الله بن عمر ، ان ابن عمر حدثهم، ان رجلا نادى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد، فقال: يا رسول الله، كيف اوتر صلاة الليل؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى، فليصل مثنى مثنى، فإن احس ان يصبح سجد سجدة فاوترت له ما صلى "، قال ابو كريب عبيد الله بن عبد الله: ولم يقل ابن عمر.وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُمْ، أَنَّ رَجُلًا نَادَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أُوتِرُ صَلَاةَ اللَّيْلِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى، فَلْيُصَلِّ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِنْ أَحَسَّ أَنْ يُصْبِحَ سَجَدَ سَجْدَةً فَأَوْتَرَتْ لَهُ مَا صَلَّى "، قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: وَلَمْ يَقُلْ ابْنِ عُمَرَ.
ابو کریب اور ہارون بن عبداللہ نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے ولید بن کثیر سے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں بتایا کہ ایک آدمی نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے آپ کو آواز دی اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں رات کی نماز کو وتر (طاق) کیسے بناؤں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو (رات) کی نماز پڑھے وہ دو دو رکعت پڑھے، پھر وہ اگر محسوس کرے کہ صبح ہورہی ہےتو ایک رکعت پڑھ لے، یہ (ایک رکعت) اس کی ساری نماز کو وتر (طاق) بنا دے گی۔" ابو کریب نے عبیداللہ بن عبداللہ کہا، (آگے) ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔
عبیداللہ بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں: کہ ہمیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ ایک آدمی نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں رات کی نماز کو وتر (طاق) کیسے بناؤں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو (رات) کی نماز پڑھے وہ دو، دو رکعت پڑھے، پھر وہ اگر محسوس کرے کہ صبح ہو رہی ہے تو ایک رکعت پڑھ لے، یہ (ایک رکعت) اس کی ساری نماز کو وتر (طاق) بنا دے گی۔“ ابو کریب نے عبیداللہ بن عبداللہ کہا،(آگے) ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نہیں کہا۔
حدثنا خلف بن هشام ، وابو كامل ، قالا: حدثنا حماد بن زيد ، عن انس بن سيرين ، قال: سالت ابن عمر ، قلت: ارايت الركعتين قبل صلاة الغداة، ااطيل فيهما القراءة؟ قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل مثنى مثنى ويوتر بركعة، قال: قلت: إني لست عن هذا اسالك، قال: إنك لضخم، الا تدعني استقرئ لك الحديث، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " يصلي من الليل مثنى مثنى، ويوتر بركعة، ويصلي ركعتين قبل الغداة، كان الاذان باذنيه "، قال خلف: ارايت الركعتين قبل الغداة؟ ولم يذكر صلاة.حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، وَأَبُو كَامِلٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ سِيرِينَ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ ، قُلْتُ: أَرَأَيْتَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ، أَأُطِيلُ فِيهِمَا الْقِرَاءَةَ؟ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي لَسْتُ عَنْ هَذَا أَسْأَلُكَ، قَالَ: إِنَّكَ لَضَخْمٌ، أَلَا تَدَعُنِي أَسْتَقْرِئُ لَكَ الْحَدِيثَ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، وَيُوتِرُ بِرَكْعَةٍ، وَيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ، كَأَنَّ الأَذَانَ بِأُذُنَيْهِ "، قَالَ خَلَفٌ: أَرَأَيْتَ الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ؟ وَلَمْ يَذْكُرْ صَلَاةِ.
خلف بن ہشام اور ابوکامل نے کہا: ہمیں حماد بن زیدنے انس بن سیرن سے حدیث سنائی، انھوں نے کہا میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کی: صبح کی نماز سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، کیا میں ان میں طویل قراءت کرسکتا ہوں؟انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دو دو رکعت پڑھتے تھے اور ایک رکعت سے اس کو وتر بناتے، میں نے کہا: میں آپ سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہا۔انھوں نے کہا: تم ایک بوجھل آدمی ہو (اپنی سوچ کو ترجیح دیتے ہو) کیا مجھے موقع نہ دو گے کہ میں تمہارے لئے بات کو مکمل کروں؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دو دو رکعت پڑھتے تھے اور ایک وتر پڑھتے اور صبح (کی نماز) سے پہلے (مختصر سی) دو رکعتیں پڑھتے، گویا کہ اذان (اقامت) آ پ کے کانوں میں (سنائی دے رہی) ہے۔ خلف نے اپنی حدیث میں"صبح سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟کہا اور انھوں نے "صلاۃ" کا لفظ بیان نہیں کیا۔
ابن سیرین کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا: صبح کی نماز سے پہلے کی دو رکعتوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے، کیا میں ان میں طویل قراءت کر سکتا ہوں؟ انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دو، دو رکعت پڑھتے تھے اور ایک رکعت سے اس کو وتر بناتے، میں نے کہا: میں آپ سے اس کے بارے میں نہیں پوچھ رہا۔انھوں نے کہا: تم ایک بوجھل آدمی ہو (اپنی سوچ کو ترجیح دیتے ہو) کیا مجھے موقع نہ دو گے کہ میں تمہارے لئے بات کو مکمل کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو دو، دو رکعت پڑھتے تھے اور ایک وتر پڑھتے اور صبح (کی نماز) سے پہلے (مختصر سی) دو رکعتیں پڑھتے، گویا کہ اذان (اقامت) آ پصلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں (سنائی دے رہی) ہے۔ خلف کی حدیث میں ہے، مجھے صبح سے پہلے دو رکعت کے بارے میں بتائیے، ”اَلْغَدَاة“ کے لفظ سے پہلے ”صَلاَة“ کا لفظ بیان نہیں کیا۔
شعبہ نے انس بن سیرین سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا۔۔۔پھر مذکورہ بالا حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور اس میں یہ اضافہ کیا: رات کے آخری حصے میں ایک رکعت وتر پڑھتے۔اس میں ہے (اور میرے دوبارہ سوا ل پر) کہا: بس، بس، تم ایک بوجھل آدمی ہو۔
انس بن سیرین کہتے ہیں، میں نے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا، پھر مذکورہ بالاحدیث بیان کی اور اس میں یہ اضافہ کیا، رات کے آخری حصہ میں ایک رکعت وتر پڑھتے اور میرے دوبارہ سوال پر کہا، ”بَهْ . بَهْ“ بس بس، رک جا تو ایک کند ذہن آدمی ہے۔
حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت عقبة بن حريث ، قال: سمعت ابن عمر يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا رايت ان الصبح يدركك فاوتر بواحدة "، فقيل لابن عمر: ما مثنى مثنى؟ قال: ان تسلم في كل ركعتين.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُقْبَةَ بْنَ حُرَيْثٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا رَأَيْتَ أَنَّ الصُّبْحَ يُدْرِكُكَ فَأَوْتِرْ بِوَاحِدَةٍ "، فَقِيلَ لِابْنِ عُمَرَ: مَا مَثْنَى مَثْنَى؟ قَالَ: أَنْ تُسَلِّمَ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ.
عقبہ بن حریث نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ حدیث بیان کررہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رات کی نماز دو رکعت ہے اور جب تم دیکھو کہ صبح آیا چاہتی ہے تو ایک رکعت سے (اپنی نماز کو) وتر کرو۔"ابن عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کی گئی: مثنیٰ، مثنیٰ، کا کیا مفہوم ہے؟انھوں نے کہا: یہ کہ تم ہر دو رکعتوں (کے آخر) میں سلام پھیرو۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو رکعت ہے اور جب تم دیکھو کہ صبح آیا چاہتی ہے تو ایک رکعت سے (اپنی نماز کو) وتر کرو۔“ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے عرض کیا گیا: ”مَثْنٰى مَثْنٰى“ کا کیا مفہوم ہے؟ انھوں نے کہا: یہ کہ تم ہر دو رکعتوں (کے آخر) میں سلام پھیرو۔
معمرنے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ابو نضرہ سے اور انھوں نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صبح سے پہلے پہلے وتر پڑھ لو۔"
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وترصبح سے پہلے پہلے پڑھ لو۔“
شیبان نے یحییٰ (بن ابی کثیر) سے روایت کی، انھوں نے کہا: ابو نضرۃ عوقی نے مجھے بتایا کہ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نے انھیں بتایا کہ انھوں (صحابہ) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وتر کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صبح ہونے سے پہلے وتر پڑھ لو۔"
حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا وتر کے بارے میں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وترصبح سے پہلے پڑھ لو۔“
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا حفص ، وابو معاوية ، عن الاعمش ، عن ابي سفيان ، عن جابر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من خاف ان لا يقوم من آخر الليل، فليوتر اوله، ومن طمع ان يقوم آخره، فليوتر آخر الليل، فإن صلاة آخر الليل مشهودة، وذلك افضل "، وقال ابو معاوية: محضورة.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ، فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذَلِكَ أَفْضَلُ "، وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: مَحْضُورَةٌ.
حفص اور ابو معاویہ نے اعمش سے حدیث سنائی، انھوں نے ابو سفیان سے اور انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جسے ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں نہیں اٹھ سکے گا، وہ رات کے شروع میں وتر پڑھ لے۔اور جسے امید ہو کہ وہ رات کے آخر میں اٹھ جائے گا، وہ رات کے آخر میں وتر پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصے کی نماز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور یہ افضل ہے۔" ابومعاویہ نے (مشہودہ کی بجائے) محضورۃ (اس میں حاضری دی جاتی ہے) کہا۔ (مفہوم ایک ہی ہے) -
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں نہیں اٹھ سکے گا، وہ رات کے شروع میں وتر پڑھ لے۔ اور جسے امید ہو کہ وہ رات کے آخر میں اٹھ جائے گا، وہ رات کے آخر میں وتر پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصے کی نماز کا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور یہ افضل ہے۔“ ابومعاویہ نے مشهودة کی بجائےمحضورة کہا۔ (دونوں کا معنی ایک ہے)
ابو زبیر نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرمارہے تھے: "تم میں سے جسے یہ خدشہ ہوکہ وہ رات کے آخر میں نہیں اٹھ سکے گا تو وہ وتر پڑھ لے، پھر سوجائے اور جسے رات کو اٹھ جانے کا یقین ہو، وہ رات کے آخرمیں وتر پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصے میں قراءت کے وقت حاضری دی جاتی ہے اور یہ بہتر ہے۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”جسے تم میں سے خدشہ ہو کہ وہ رات کے آخر میں نہیں اٹھ سکے گا تو وہ وتر پڑھ لے، پھر سو جائے اور جسے رات کو اٹھنے وثوق و اعتماد ہو، وہ اس کے آخر میں وتر پڑھے کیونکہ رات کے آخری حصے میں قراءت کے وقت رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں یا دل حاضر ہوتا ہے اور یہ بہتر ہے۔“
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابو کریب دونوں نے کہا: ہمیں ابو معاویہ نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہمیں اعمش نے ابو سفیان سے حدیث سنائی اور انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاگیا: کون سی نمازافضل ہے؟آپ نے فرمایا: "قیام کا لمبا ہونا۔" ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا: ابومعاویہ نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سی نماز افضل ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لمبا قیام“ یعنی جس نماز میں قیام طویل ہو۔ ابوبکرنے حَدَّثَنَا الْاَعْمَشْ کی جگہ عَنِ الْاَعْمَشْ کیا۔