وحدثنا ابن ابي عمر واللفظ لابن ابي عمر، وعبد الله بن محمد الزهري ، قالا: حدثنا سفيان ، عن عمرو ، عن عطاء ، عن ابن عباس : " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بشاة مطروحة، اعطيتها مولاة لميمونة من الصدقة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: الا اخذوا إهابها، فدبغوه فانتفعوا به؟ ".وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِشَاةٍ مَطْرُوحَةٍ، أُعْطِيَتْهَا مَوْلَاةٌ لِمَيْمُونَةَ مِنَ الصَّدَقَةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَّا أَخَذُوا إِهَابَهَا، فَدَبَغُوهُ فَانْتَفَعُوا بِهِ؟ ".
سفیان نے عمرو سے، انہوں نے عطاء سے، انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مردہ پڑی ہوئی بکری کے پاس سے گزرے جو میمونہؓ کی باندی کو بطور صدقہ دی گئی تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے اس کے چمڑے کو کیوں نہ اتارا، وہ اس کو رنگ لیتے اور فائدہ اٹھا لیتے!“
ہمیں ابن ابی عمر اور عبداللہ بن محمد زہری نے (الفاظ ابن ابی عمر کے ہیں) سفیان کے واسطہ سے عمرو کی عطاء سے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت سنائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مردہ پڑی ہوئی بکری کے پاس سے گزرے، جو میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کی باندی کو بطور صدقہ دی گئی تھی۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے اس کے چمڑے کو کیوں نہیں اتارا؟ وہ اس کو رنگ لیتے اور فائدہ اٹھا لیتے۔“
ابن جریج نے عمرو بن دینار سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت میمونہؓ نے انہیں بتایا کہ ایک بکری، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی کی تھی، مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس کا چمڑا اتار کر اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا!“
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ کی گھر میں پلنے والی بکری مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کا چمڑا اتارا کر اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا لیا؟
عبد الملک بن ابی سلیمان نے عطاء کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ میمونہؓ کی باندی کی (مردہ) بکری کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ”تم نے اس کے چمڑے سے فائدہ کیوں نہ اٹھایا!“
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کی باندی کی (مردہ) بکری کے پاس سے گزرے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اس کے چمڑے سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا؟“
سلیمان بن بلال نے زید بن اسلم سے، انہوں نے عبد الرحمن بن وعلہ سے، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کے حوالے سے خبر دی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: ”جب چمڑے کو رنگ لیا جاتا ہے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔“
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب چمڑے کو رنگ لیا گیا تو وہ پاک ہو گیا۔
سفیان بن عیینہ، عبد العزیز بن محمد اور سفیان ثوری نے مختلف سندوں کے ساتھ زید بن اسلم کی سابقہ سند کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت بیان کی، یعنی یحییٰ بن یحییٰ کی حدیث کی طرح۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
حدثني إسحاق بن منصور ، وابو بكر بن إسحاق ، قال ابو بكر: حدثنا، وقال ابن منصور: اخبرنا عمرو بن الربيع ، اخبرنا يحيى بن ايوب ، عن يزيد بن ابي حبيب ، ان ابا الخير حدثه، قال: " رايت على ابن وعلة السبئي، فروا فمسسته، فقال: ما لك تمسه؟ قد سالت عبد الله بن عباس، قلت: إنا نكون بالمغرب، ومعنا البربر، والمجوس، نؤتى بالكبش، قد ذبحوه ونحن لا ناكل ذبائحهم، وياتونا بالسقاء، يجعلون فيه الودك، فقال ابن عباس : قد سالنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال: " دباغه طهوره ".حَدَّثَنِي إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ ابْنُ مَنْصُور: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الرَّبِيعِ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنَّ أَبَا الْخَيْرِ حَدَّثَهُ، قَالَ: " رَأَيْتُ عَلَى ابْنِ وَعْلَةَ السَّبَئِيُّ، فَرْوًا فَمَسِسْتُهُ، فَقَالَ: مَا لَكَ تَمَسُّهُ؟ قَدْ سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، قُلْتُ: إِنَّا نَكُونُ بِالْمَغْرِبِ، وَمَعَنَا الْبَرْبَرُ، وَالْمَجُوسُ، نُؤْتَى بِالْكَبْشِ، قَدْ ذَبَحُوهُ وَنَحْنُ لَا نَأْكُلُ ذَبَائِحَهُمْ، وَيَأْتُونَا بِالسِّقَاءِ، يَجْعَلُونَ فِيهِ الْوَدَكَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : قَدْ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " دِبَاغُهُ طَهُورُهُ ".
۔ یزید بن ابی حبیب نے ابو خیر سے روایت کی کہ میں نے علی بن وعلہ سبائی کو ایک پوستین (چمڑے کا کوٹ) پہنے ہوئے دیکھا، میں نے اسے چھوا تو اس نے کہا: اسے کیوں چھوتے ہو؟ میں نے عبد اللہ بن عباسؓ سے پوچھا تھا: ہم مغرب میں ہوتے ہیں اور ہمارے ساتھ بربر اور مجوسی ہوتے ہیں، ہمارے پاس مینڈھا لایا جاتا ہے جسے انہوں نے ذبح کیا ہوتا ہے اور ہم ان کے ذبح کیے ہوئے جانور نہیں کھاتے، وہ ہمارے پاس مشکیزہ لاتے ہیں جس میں وہ چربی ڈالتے ہیں۔ تو ابن عباسؓ نے جواب دیا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تھا۔ آپ نے فرمایا: ” اس کو رنگنا اس کو پاک کر دیتا ہے۔“
ابوالخیر سے روایت ہے کہ میں نے علی بن وعلہ سبائی کو ایک پوستین (چمڑے کا کوٹ) پہنے ہوئے دیکھا، میں نے اس کو چھوا تو اس نے کہا، اس کو کیوں چھوتے ہو؟ میں نے عبداللہ بن عباس ؓ سے پوچھا تھا، ہم مغرب میں رہتے ہیں، اور ہمارے ساتھ بربر اور مجوسی رہتے ہیں، ہمارے پاس مینڈھا لایا جاتا ہے، جسے انہوں نے ذبح کیا ہوتا ہے اور ہم ان کے ذبیحہ کیے ہوئے جانور نہیں کھاتے، وہ ہمارے پاس مشکیزہ لاتے ہیں، جس میں وہ چربی ڈالتے ہیں تو ابن عباس ؓ نے جواب دیا، ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: اس کو رنگنا، اس کو پاک کر دیتا ہے۔
۔ جعفر بن ربیعہ نے ابو خیر سے روایت کی، کہا: مجھ سے ابن وعلہ سبائی نے بیان کیا کہ میں نے عبد اللہ بن عباسؓ سے پوچھا: ہم مغرب میں ہوتے ہیں تو مجوسی ہمارے پاس پانی اور چربی کے مشکیزے لاتے ہیں۔ انہوں نے کہا: پی لیا کرو۔ میں نے پوچھا: کیا آپ اپنی رائےبتا رہے ہیں؟ ابن عباسؓ نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناے: ” اس کو رنگنا اس کو پاک کر دیتا ہے۔“
ابن وعلہ سبائی سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا، ہم مغرب میں رہتے ہیں، تو ہمارے پاس مجوسی پانی اور چربی کے مشکیزے لاتے ہیں تو انہوں نے کہا، پی لیا کرو، میں نے پوچھا، کیا آپ اپنی رائے سے بتا رہے ہیں؟ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے جواب دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اس کو رنگنا اس کو پاک کر دیتا ہے۔
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، عن ابيه ، عن عائشة ، انها قالت: " خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره، حتى إذا كنا بالبيداء، او بذات الجيش، انقطع عقد لي، فاقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه، واقام الناس معه، وليسوا على ماء، وليس معهم ماء، فاتى الناس إلى ابي بكر، فقالوا: الا ترى إلى ما صنعت عائشة؟ اقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم، وبالناس معه، وليسوا على ماء، وليس معهم ماء، فجاء ابو بكر، ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع راسه على فخذي، قد نام، فقال: حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم، والناس، وليسوا على ماء، وليس معهم ماء، قالت: فعاتبني ابو بكر، وقال: ما شاء الله ان يقول، وجعل يطعن بيده في خاصرتي، فلا يمنعني من التحرك، إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اصبح على غير ماء، فانزل الله آية التيمم فتيمموا سورة المائدة آية 6، فقال اسيد بن الحضير وهو احد النقباء: ما هي باول بركتكم يا آل ابي بكر، فقالت عائشة: فبعثنا البعير الذي كنت عليه، فوجدنا العقد تحته ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ، أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ، انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي، فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ، وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَأَتَى النَّاسُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالُوا: أَلَا تَرَى إِلَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ؟ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِالنَّاسِ مَعَهُ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي، قَدْ نَامَ، فَقَالَ: حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسَ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ، وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، قَالَتْ: فَعَاتَبَنِي أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ، وَجَعَلَ يَطْعُنُ بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي، فَلَا يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ، إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ فَتَيَمَّمُوا سورة المائدة آية 6، فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ وَهُوَ أَحَدُ النُّقَبَاءِ: مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ، فَوَجَدْنَا الْعِقْدَ تَحْتَهُ ".
۔ عبد الرحمان بن قاسم (بن محمد) نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سفر میں آپ کے ساتھ نکلے، جب ہم بیداء یا ذات الجیش کے مقام پر پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش کی خاطر ٹھہر گئے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ رک گئے، نہ وہ پانی (والی جگہ) پر تھے نہ ان کے پاس پانی (بچا ہوا) تھا۔ لوگ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: کیا آپ کو پتہ نہیں، عائشہؓ نے کیا کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ (دوسرے) لوگوں کو روک رکھا ہے، نہ وہ پانی (والی جگہ) پر ہیں اور نہ لوگوں کے پاس پانی بچا ہے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے (اس وقت) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھ کر سو چکے تھے اور کہا: تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو روک رکھا ہے جبکہ نہ وہ پانی والی جگہ پر ہیں اور نہ ان کے پاس پانی ہے۔ عائشہؓ نے فرمایا: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ڈانٹا اور جو کچھ اللہ کو منظور رتھا کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگانے لگے، مجھے صرف اس بات نے حرکت کرنے سے روکے رکھا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر میری ران پر تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہے اور پانی کے بغیر ہی صبح ہو گی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے تیمم کیا۔ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے، جو نقباء میں سے تھے، کہا: اے ابو بکر رضی اللہ عنہ کے خاندان! یہ آپ کی پہلی برکت نہیں ہے۔ حضرت عائشہؓ نے کہا: ہم نے اس اونٹ کو جس پر میں سوار تھی اٹھایا تو ہمیں اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بتایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر میں نکلے جب ہم مقام بیداء یا ذات الحبیش پر پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش کی خاطر ٹھر گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم بھی آپ کے ساتھ رک گئے، اس جگہ پانی نہ تھا، اور لوگوں کے پاس بھی (پہلے سے) موجود نہ تھا۔ لوگ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے، اور کہا، کیا آپ کو پتہ نہیں، عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کیا کیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ لوگوں کو روک رکھا ہے، نہ اس جگہ پانی ہے اور نہ ہی لوگوں کے پاس پانی موجود ہے، ابو بکر اس حالت میں تشریف لائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھ کر سو چکے تھے، اور کہا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو روک رکھا ہے جبکہ یہاں پانی نہیں ہے اور لوگوں کے پاس بھی پانی نہیں۔ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ، ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے ڈانٹا اور جو کچھ اللہ کو منظور تھا کہا، اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگانے لگے، اور مجھے صرف اس چیز نے حرکت کرنے سے روکے رکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر میری ران پر رکھا ہوا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی کے بغیر ہی صبح تک سوئے رہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمّم کی آیت اتاری تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے تیمّم کیا۔ اسید بن حضیر جو نقباء میں سے ہیں، نے کہا اے ابو بکر کی اولاد! یہ آپ کی پہلی برکت نہیں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا، ہم نے اس اونٹ کو جس پر میں سوار تھی اٹھایا تو ہمیں اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔
ہشام کے والد عروہ بن زبیر نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت اسماء ؓ سے عاریتاً ہار لیا، وہ گم ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کچھ ساتھیوں کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا۔ ان کی نماز کا وقت آ گیا تو انہوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھ لی اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ سے اس بات کی شکایت کی، (اس پر) تیمم کی آیت اتری تو اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے (حضرت عائشہؓ سے) کہا: اللہ آپ کو بہترین جزا دے، اللہ کی قسم! آپ کو کبھی کوئی مشکل معاملہ پیش نہیں آیا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اس سے نکلنے کی سبیل پیدا کر دی اور اسی میں مسلمانوں کے لیے برکت رکھ کر دی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ اس نے اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے عاریتہً ہار لیا، اور وہ ضائع ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کچھ ساتھیوں کو اس کی تلاش کی خاطر بھیجا، انہیں نماز کے وقت نے آ لیا تو انہوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھ لی، اور جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس بات کی شکایت کی، اس پر تیمّم کی آیت اتری تو اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، (اے عائشہ!) اللہ آپ کو بہترین اجر دے، اللہ کی قسم! آپ کسی پریشانی میں مبتلا ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے اس سے نکلنے کی سبیل (راہ) پیدا کر دیتا ہے، اور وہ چیز مسلمانوں کے لیے باعث برکت بنتی ہے۔
حدثنا يحيى بن يحيى ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وابن نمير جميعا، عن ابي معاوية ، قال ابو بكر: حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش ، عن شقيق ، قال: " كنت جالسا مع عبد الله ، وابي موسى ، فقال ابو موسى: يا ابا عبد الرحمن، ارايت لو ان رجلا اجنب فلم يجد الماء شهرا، كيف يصنع بالصلاة؟ فقال عبد الله: لا يتيمم وإن لم يجد الماء شهرا، فقال ابو موسى: فكيف بهذه الآية في سورة المائدة فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا سورة المائدة آية 6، فقال عبد الله: لو رخص لهم في هذه الآية، لاوشك إذا برد عليهم الماء، ان يتيمموا بالصعيد، فقال ابو موسى لعبد الله: الم تسمع قول عمار ، بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة، فاجنبت، فلم اجد الماء، فتمرغت في الصعيد كما تمرغ الدابة، ثم اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، فقال: إنما كان يكفيك ان تقول بيديك هكذا، ثم ضرب بيديه الارض ضربة واحدة، ثم مسح الشمال على اليمين وظاهر كفيه ووجهه، فقال عبد الله: اولم تر عمر لم يقنع بقول عمار.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ جميعا، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: " كُنْتُ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ ، وَأَبِي مُوسَى ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا، كَيْفَ يَصْنَعُ بِالصَّلَاةِ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَا يَتَيَمَّمُ وَإِنْ لَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: فَكَيْفَ بِهَذِهِ الآيَةِ فِي سُورَةِ الْمَائِدَةِ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا سورة المائدة آية 6، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَوْ رُخِّصَ لَهُمْ فِي هَذِهِ الآيَةِ، لَأَوْشَكَ إِذَا بَرَدَ عَلَيْهِمُ الْمَاءُ، أَنْ يَتَيَمَّمُوا بِالصَّعِيدِ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى لِعَبْدِ اللَّهِ: أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ ، بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، فَأَجْنَبْتُ، فَلَمْ أَجِدِ الْمَاءَ، فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيدِ كَمَا تَمَرَّغُ الدَّابَّةُ، ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ أَنْ تَقُولَ بِيَدَيْكَ هَكَذَا، ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدَيْهِ الأَرْضَ ضَرْبَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ مَسَحَ الشِّمَالَ عَلَى الْيَمِينِ وَظَاهِرَ كَفَّيْهِ وَوَجْهَهُ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَوَلَمْ تَرَ عُمَرَ لَمْ يَقْنَعْ بِقَوْلِ عَمَّارٍ.
ابو معاویہ نے اعمش سے، انہوں نے شقیق سے روایت کی، کہا: میں حضرت عبد اللہ (بن مسعود) اور ابو موسیٰ ؓ کے بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ نے پوچھا: ابو عبد الرحمن! بتائیےاگر انسان حالت جنابت میں ہو اور ایک ماہ تک اسے پانی نہ ملے تو وہ نماز کا کیا کرے؟ اس پر حضرت عبد اللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا: وہ تیمم نہ کرے، چاہے اسے ایک ماہ تک پانی نہ ملے۔ اس پر ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو سورہ مائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہے: ”تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو؟“ اس پر عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اگر انہیں اس آیت کی بنا پر رخصت دے دی گئی تو خطرہ ہے جب انہیں پانی ٹھنڈا محسوس ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم کر لیں گے۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ نے عمار کی یہ بات نہیں سنی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیجا، مجھے جنابت ہو گئی اور پانی نہ ملا تو میں چوپائے کی طرح مٹی میں لوٹ پوٹ ہوا (اور نماز پڑھ لی)، پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ”تمہارے لیے بس اپنے دونوں ہاتھوں سے اس طرح کرنا کافی تھا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ ایک بار زمین پر مارے، پھر بائیں ہاتھ کو دائیں پر اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کی پشت پر اور اپنے چہرے پر ملا۔ تو عبد اللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عمار کی بات پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ (تفصیل آگے حدیث: 820 میں ہے۔)
شقیق سے روایت ہے کہ میں عبداللہ اور ابو موسیٰ کی خدمت میں حاضر تھا ابو موسیٰ ؓ نے ابو عبدالرحمٰن سے پوچھا، بتایئے، اگر انسان جنبی ہو جائے اور ایک ماہ تک اسے پانی نہ ملے تو وہ تیمّم نہ کرے؟ تو نماز کا کیا کرے؟ اس پر عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا، وہ تیمّم نہ کرے، اگرچہ اسے ایک ماہ تک پانی نہ ملے تو اس پر ابو موسیٰ نے کہا تو سورة مائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب، ”اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمّم کرو"۔ اس پر عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا، اگر انہیں اس آیت کی بنا پر رخصت دے دی جائے تو خطرہ ہے، جب انہیں پانی ٹھنڈا محسوس ہوگا تو وہ مٹی سے تیمّم کر لیں گے تو ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ نے عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا، کیا آپ نے عمار رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ بات نہیں سنی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضرورت کے لیے بھیجا، میں جنبی ہو گیا، اور مجھے پانی نہ ملا تو میں، چوپائے کی طرح زمین پر لوٹ پوٹ ہوا (اور نماز پڑھ لی) پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرے لیے بس اپنے دونوں ہاتھوں سے اس طرح کرنا کافی تھا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ ایک ہی دفعہ زمین پر مارے، پھر بائیں ہاتھ کو دائیں پر اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کی پشت پر اور اپنے چہرے پر ملا تو عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے عمار کے قول پر قناعت و اطمینان کا اظہار نہیں کیا۔