114 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال: ثنا الاعمش، عن عمارة بن عمير، عن عبد الرحمن بن يزيد، عن عبد الله بن مسعود قال: «ما رايت رسول الله صلي الله عليه وسلم صلي صلاة إلا لوقتها إلا بالمزدلفة فإنه جمع بين الصلاتين المغرب والعشاء، وصلي الصبح يومئذ في غير وقتها» وقال سفيان يعني في غير وقتها الذي كان يصليها فيه قبل ذلك114 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّي صَلَاةً إِلَّا لِوَقْتِهَا إِلَّا بِالْمُزْدَلِفَةِ فَإِنَّهُ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، وَصَلَّي الصُّبْحَ يَوْمَئِذٍ فِي غَيْرِ وَقْتِهَا» وَقَالَ سُفْيَانُ يَعْنِي فِي غَيْرِ وَقْتِهَا الَّذِي كَانَ يُصَلِّيَهَا فِيهِ قَبْلَ ذَلِكَ
114- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز ہمیشہ مخصوص وقت پر ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے، البتہ مزدلفہ کا معاملہ مختلف ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو نمازیں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ادا کی تھیں اور اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز اس کے مخصوص وقت سے ہٹ کر ادا کی تھی۔ سفیان کہتے ہیں: یعنی اس وقت سے مختلف وقت میں ادا کی تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ادا کیا کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 1675، ومسلم: 1289، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:5176، 5264، وأحمد فى ”مسنده“، برقم: 3711»
115 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، عن الاعمش، عن عمارة بن عمير، عن عبد الرحمن بن يزيد، عن عبد الله بن مسعود قال: قال لنا رسول الله صلي الله عليه وسلم: «يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فلينكح فإنه اغض للبصر، واحصن للفرج، ومن لا فليصم فإن الصوم له وجاء» 115 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَنْكِحْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَا فَلْيَصُمْ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ»
115- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ فرمایا: ”اے نوجوانوں کے گروہ! تم میں سے جو شخص شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ نکاح کرلے، کیونکہ یہ چیز نگاہ کو جھکا کر رکھتی ہے اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرتی ہے اور جو شخص اس کی استطاعت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے، کیونکہ روزے اس کی شہوت کو ختم کردیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 1905 ومسلم: 1400، وابن حبان فى ”صحيحه“: برقم: 4026، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:5110، 5192»
116 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، عن الاعمش او اخبرت عنه، عن مسلم بن صبيح يعني عن مسروق قال: قيل لعبد الله إن في المسجد رجلا يقول: إذا كان يوم القيامة اصاب الناس دخان ياخذ باسماع الكفار وياخذ المؤمنين كالزكمة قال: وكان عبد الله متكئا فجلس فقال: يا ايها الناس من علم منكم شيئا فليقل به، ومن لم يعلم فليقل لما لم يعلم الله اعلم، فإن من علم المرء ان يقول لما لا يعلم الله اعلم، وقد قال الله لنبيه: ﴿ قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين﴾ إن قريشا لما ابطئوا علي رسول الله صلي الله عليه وسلم فقال: «اللهم اكفنيهم بسبع كسبع يوسف» فاصابتهم سنة حصت كل شيء حتي اكلوا العظام، وحتي جعل الرجل ينظر إلي السماء فيري بينه وبينها مثل الدخان، قال الله عز وجل ﴿ فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين يغشي الناس هذا عذاب اليم﴾ قال الله ﴿ إنا كاشفو العذاب قليلا إنكم عائدون﴾ كان هذا في الدنيا افيكشف عنهم يوم القيامة؟ ثم قال عبد الله: وقد مضي الدخان، ومضي اللزام ومضي القمر، ومضي الروم ومضت البطشة116 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ أَوْ أُخْبِرْتُ عَنْهُ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ يَعْنِي عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ: قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ إِنَّ فِي الْمَسْجِدِ رَجُلًا يَقُولُ: إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَصَابَ النَّاسَ دُخَانٌ يَأْخُذُ بِأَسْمَاعِ الْكُفَّارِ وَيَأْخُذُ الْمُؤْمِنِينَ كَالزَّكْمَةِ قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ مُتَّكِئًا فَجَلَسَ فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ مِنْكُمْ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلْ لِمَا لَمْ يَعْلَمِ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ مِنْ عِلْمِ الْمَرْءِ أَنْ يَقُولَ لِمَا لَا يَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ لِنَبِيِّهِ: ﴿ قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ﴾ إِنَّ قُرَيْشًا لَمَّا أَبْطَئُوا عَلَي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «اللَّهُمَّ اكْفِنِيهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ» فَأَصَابَتْهُمْ سَنَةٌ حَصَّتْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّي أَكَلُوا الْعِظَامَ، وَحَتَّي جَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَي السَّمَاءِ فَيَرَي بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا مِثْلَ الدُّخَانِ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ﴿ فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ يَغْشَي النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾ قَالَ اللَّهُ ﴿ إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا إِنَّكُمْ عَائِدُونَ﴾ كَانَ هَذَا فِي الدُّنْيَا أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةٍ؟ ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَقَدْ مَضَي الدُّخَانُ، وَمَضَي اللِّزَامُ وَمَضَي الْقَمَرُ، وَمَضَي الرُّومُ وَمَضَتِ الْبَطْشَةُ
116- مسروق بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: مسجد میں ایک شخص یہ کہہ رہا ہے کہ جب قیامت کا دن آئے گا، تو لوگوں تک دھواں پہنچ جائے گا، جو کفار کی سماعت کو اپنی گرفت میں لے گا۔ لیکن اہل ایمان کو اس سے زکام کی سی کیفیت محسوس ہوگی۔ راوی کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے وہ سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور بولے: اے لوگو! تم میں سے جو شخص کسی چیز کا علم رکھتا ہو وہ اس کے مطابق بیان کردے اور جو علم نہ رکھتا ہو وہ اپنی لاعلمی کے بارے میں یہ کہہ دے کہ اللہ بہتر جانتا ہے، اسکی وجہ یہ ہے کہ آدمی کے علم میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جس چیز کے بارے میں وہ علم نہیں رکھتا، وہ یہ کہہ دے کہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمایا ہے: ”تم یہ فرمادو کہ میں اس پر تم سے اجر طلب نہیں کررہا اور نہ ہی میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں۔“ (پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بتایا:) جب قریش نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار نہیں بنے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: ”اے اللہ تو ان پر حضرت یوسف کے زمانے سے سات سال (قحط سالی کے مسلط کردے)“۔ تو ان لوگوں کو قحط سالی نے گرفت میں لے لیا، جس نے ہر چیز کو ختم کردیا، یہاں تک کہ وہ لوگ ہڈیاں کھانے لگے اور یہ کیفیت ہوگئی کہ ان میں سے ایک شخص آسمان کی طرف دیکھتا تو اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں محسوس ہوتا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ارشاد فرمائی: تم اس دن کا خیال کرو جب آسمان واضح دھواں لے کر آیا جس نے لوگوں کو ڈھانپ لیا تو یہ دردناک عذاب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ”بے شک ہم عذاب کو تھوڑا سا کم کردیں گے، تو تم لوگ دوبارہ واپس چلے جاؤ گے۔“، تو یہ معاملہ تو دنیا میں پیش آیا، کیا قیامت کے دن ان کفار سے عذاب کو پرے کیا جائےگا؟ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دھواں گزر چکا ہے، لزام گزر چکا ہے، چاند سے متعلق واقعہ گزر چکا ہے۔ روم کا (غالب آنا) گزر چکا ہے اور بطشہ (گرفت) کا واقعہ بھی گزر چکا ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري 1007، ومسلم: 2798، وابن حبان فى "صحيحه" برقم: 4764، 6585، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 5145»
117 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال: ثنا الاعمش، عن مسلم بن صبيح قال: كنا مع مسروق في دار يسار بن نمير فراي مسروق في صفته تماثيل فقال: سمعت عبد الله بن مسعود يقول: سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يقول: «إن اشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون» 117 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ مَسْرُوقٍ فِي دَارِ يَسَارِ بْنِ نُمَيْرٍ فَرَأَي مَسْرُوقٌ فِي صُفَّتِهِ تَمَاثِيلَ فَقَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمُصَوِّرُونَ»
117- مسلم بن صبیح بیان کرتے ہیں: ہم لوگ یسار بن نمیر کے گھر میں مسروق کے ساتھ تھے۔ مسروق نے ان کے گھر میں تصویریں لگی ہوئی دیکھیں، تو یہ بات بیان کی، میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”قیامت کے دن سب سے شید عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 5950، ومسلم 2109 وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:5107، 5209، 5212، وأحمد فى ”مسنده“، برقم: 3628»
118 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، عن الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: «ما من نفس تقتل ظلما إلا كان علي ابن آدم الاول كفل منها لانه سن القتل اولا» 118 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ نَفْسٍ تُقْتَلُ ظُلْمًا إِلَّا كَانَ عَلَي ابْنِ آدَمَ الْأَوَّلِ كِفْلٌ مِنْهَا لِأَنَّهُ سَنَّ الْقَتْلَ أَوَّلًّا»
118- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جس بھی شخص کو ظلم کے طور پر قتل کیا جائے گا، تو اس کا وبال آدم علیہ السلام کے اس پہلے بیٹے کے سر ہوگا، وہ اس میں حصہ دار ہوگا، کیونکہ اس نے قتل کا طریقہ سب سے پہلے ایجاد کیا تھا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 3335، 6867، 7321، ومسلم: 1677، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 5983، وأبو يعلى فى ”مسنده“: برقم: 5179»
119 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال: ثنا الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن مسعود ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال:" لا يحل دم امرئ مسلم شهد ان لا إله إلا الله واني رسول الله إلا في إحدي ثلاث: رجل كفر بعد إسلامه، او زني بعد إحصانه، او نفس بنفس"119 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَّا فِي إِحْدَي ثَلَاثٍ: رَجُلٌ كَفَرَ بَعْدَ إِسْلَامِهِ، أَوْ زَنَي بَعْدَ إِحْصَانِهِ، أَوْ نَفْسٌ بِنَفْسٍ"
119- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی بھی مسلمان شخص کا، جو اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں، ایسے مسلمان کا خون تین میں سے ایک صورت میں جائز ہے۔ ایسا شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد کافر ہوجائے، ایسا شخص جو محصن ہونے کے باوجود زنا کا ارتکاب کرے یا پھر جان کے بدلے میں جان۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 6878، ومسلم: 1676، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم: 4407، 4408، 5976، 5977، وأبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“:4767، 5202»
120 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال: ثنا الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن مسعود قال: اما انا قد سالنا عن ذلك يعني ارواح الشهداء، فقيل" جعلت في اجواف طير خضر تاوي إلي قناديل تحت العرش، تسرح من الجنة حيث شاءت، فاطلع إليهم ربك اطلاعة، فقال:" هل تستزيدوني شيئا فازيدكم؟ فقالوا: وما نستزيدك ونحن في الجنة نسرح منها حيث نشاء؟ ثم اطلع إليهم ربك اطلاعة فقال: «هل تستزيدوني شيئا فازيدكم؟» فلما راوا انه لا بد ان يسالوه، قالوا: ترد ارواحنا في اجسادنا فنقتل في سبيلك مرة اخري"120 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: أَمَا أَنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ يَعْنِي أَرْوَاحَ الشُّهَدَاءِ، فَقِيلَ" جُعِلَتْ فِي أَجْوَافِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَأْوِي إِلَي قَنَادِيلَ تَحْتَ الْعَرْشِ، تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ، فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّكَ اطِّلَاعَةً، فَقَالَ:" هَلْ تَسْتَزِيدُونِي شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ؟ فَقَالُوا: وَمَا نَسْتَزِيدُكَ وَنَحْنُ فِي الْجَنَّةِ نَسْرَحُ مِنْهَا حَيْثُ نَشَاءُ؟ ثُمَّ اطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّكَ اِطِّلَاعَةً فَقَالَ: «هَلْ تَسْتَزِيدُونِي شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ؟» فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُ لَا بُدَّ أَنْ يَسْأَلُوهُ، قَالُوا: تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا فَنُقْتَلُ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَي"
120- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم نے اس بارے میں سوال کیا تھا یعنی شہداء کی ارواح کے بارے میں سوال کیا تھا، تو یہ بات بتائی گئی کہ یہ سبز پرندوں کے پیٹ میں رکھ دی جاتی ہیں اور عرش کے نیچے قندیلوں میں رہتی ہیں۔ یہ جنت میں جہاں چاہتی ہیں اُڑ کے چلی جاتی ہیں ان کا پروردگار ان کی طرف متوجہ ہوکر دریافت کرتا ہے: کیا تم مجھ سے مزید کسی چیز کے طلبگار ہو، تاکہ میں تمہیں وہ مزید چیز عطا کروں؟ تو انہوں نے عرض کی: ہم مزید کس چیز کے طلبگار ہوں گے؟ جبکہ ہم جنت میں ہیں اور ہم اس میں جہاں چاہیں جاسکتے ہیں۔ پھر ان کا پروردگار ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمائے گا: کیا تم مزید کسی چیز کے طلبگار ہو تاکہ میں تمہیں وہ مزید چیز بھی عطا کروں؟ جب ان لوگوں نے یہ بات دیکھی کہ انہیں ضرور کوئی نہ کوئی سوال کرنا پڑے گا، تو انہوں نے عرض کی: تو ہماری ارواح ہمارے جسموں میں واپس کردے تاکہ ہمیں ایک مرتبہ پھر تیری بارگاہ میں شہید کیا جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه مسلم: 1887، والترمذي: 3014، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم: 5376، وأحمد فى ”مسنده“، برقم: 4031»
121 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال: ثنا عطاء بن السائب، عن ابي عبيدة عن عبد الله مثله وزاد «وتقرئ نبينا منا السلام، وتخبر قومنا ان قد رضينا ورضي عنا» 121 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مِثْلَهُ وَزَادَ «وَتُقْرِئُ نَبِيَّنَا مِنَّا السَّلَامَ، وَتُخْبِرُ قَوْمَنَا أَنْ قَدْ رَضِينَا وَرُضِيَ عَنَّا»
121- مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں۔ ”تو ہماری طرف سے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک سلام پہنچا دینا اور ہماری قوم کو یہ بتا دینا کہ ہم راضی ہیں اور (پروردگار) ہم سے راضی ہے۔“
تخریج الحدیث: «انظر حدیث سابق، وأخرجه مسلم: 1887، والترمذي: 3014، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم: 5376، وأحمد فى ”مسنده“، برقم: 4031»
122 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال: ثنا الاعمش، عن شمر بن عطية، عن المغيرة بن سعد بن الاخرم، عن ابيه، عن ابن مسعود قال: قال لنا رسول الله صلي الله عليه وسلم: «لا تتخذوا الضيعة فترغبوا في الدنيا» ثم قال عبد الله وبراذان ما براذان وبالمدينة ما بالمدينة122 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ سَعْدِ بْنِ الْأَخْرَمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَتَّخِذُوا الضَّيْعَةَ فَتَرْغَبُوا فِي الدُّنْيَا» ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَبِرَاذَانَ مَا بِرَاذَانَ وَبِالْمَدِينَةِ مَا بِالْمَدِينَةِ
122- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”تم لوگ عمارتیں نہ بناؤ ونہ تم دنیا میں راغب ہوجاؤ گے۔“ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: براذان میں جو کچھ ہے (وہ بھی تمہارے سامنے ہے) اور مدینہ میں جو کچھ ہے (وہ بھی تمہارے سامنے ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، أخرجه ابن حبان فى ”صحيحه“ 710، والحاكم فى مستدركه، برقم: 8005، والترمذي فى جامعه برقم: 2328، وأحمد فى مسنده، برقم: 3649 وأبو يعلى فى ”مسنده“، برقم: 5200»
123 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان، عن مسعر، عن عمرو بن مرة، عن ابي عبيدة قال: قال لي مسروق، اخبرني ابوك، «ان شجرة انذرت النبي صلي الله عليه وسلم بالجن» 123 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ: قَالَ لِي مَسْرُوقٌ، أَخْبَرَنِي أَبُوكَ، «أَنَّ شَجَرَةً أَنْذَرَتِ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِنِّ»
123- ابوعبیدہ کہتے ہیں: مسروق نے مجھ سے کہا: مجھے تمہارے والد (یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) نے یہ بات بتائی ہے کہ جنات سے ملاقات کی رات یک درخت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈرانے کی کوشش کی تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري 3859، ومسلم: 450، وابن حبان فى ”صحيحه“، برقم: 6321»