120 - حدثنا الحميدي، ثنا سفيان قال: ثنا الاعمش، عن عبد الله بن مرة، عن مسروق، عن عبد الله بن مسعود قال: اما انا قد سالنا عن ذلك يعني ارواح الشهداء، فقيل" جعلت في اجواف طير خضر تاوي إلي قناديل تحت العرش، تسرح من الجنة حيث شاءت، فاطلع إليهم ربك اطلاعة، فقال:" هل تستزيدوني شيئا فازيدكم؟ فقالوا: وما نستزيدك ونحن في الجنة نسرح منها حيث نشاء؟ ثم اطلع إليهم ربك اطلاعة فقال: «هل تستزيدوني شيئا فازيدكم؟» فلما راوا انه لا بد ان يسالوه، قالوا: ترد ارواحنا في اجسادنا فنقتل في سبيلك مرة اخري"120 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا الْأَعْمَشُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: أَمَا أَنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ يَعْنِي أَرْوَاحَ الشُّهَدَاءِ، فَقِيلَ" جُعِلَتْ فِي أَجْوَافِ طَيْرٍ خُضْرٍ تَأْوِي إِلَي قَنَادِيلَ تَحْتَ الْعَرْشِ، تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شَاءَتْ، فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّكَ اطِّلَاعَةً، فَقَالَ:" هَلْ تَسْتَزِيدُونِي شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ؟ فَقَالُوا: وَمَا نَسْتَزِيدُكَ وَنَحْنُ فِي الْجَنَّةِ نَسْرَحُ مِنْهَا حَيْثُ نَشَاءُ؟ ثُمَّ اطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّكَ اِطِّلَاعَةً فَقَالَ: «هَلْ تَسْتَزِيدُونِي شَيْئًا فَأَزِيدُكُمْ؟» فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُ لَا بُدَّ أَنْ يَسْأَلُوهُ، قَالُوا: تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا فَنُقْتَلُ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَي"
120- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم نے اس بارے میں سوال کیا تھا یعنی شہداء کی ارواح کے بارے میں سوال کیا تھا، تو یہ بات بتائی گئی کہ یہ سبز پرندوں کے پیٹ میں رکھ دی جاتی ہیں اور عرش کے نیچے قندیلوں میں رہتی ہیں۔ یہ جنت میں جہاں چاہتی ہیں اُڑ کے چلی جاتی ہیں ان کا پروردگار ان کی طرف متوجہ ہوکر دریافت کرتا ہے: کیا تم مجھ سے مزید کسی چیز کے طلبگار ہو، تاکہ میں تمہیں وہ مزید چیز عطا کروں؟ تو انہوں نے عرض کی: ہم مزید کس چیز کے طلبگار ہوں گے؟ جبکہ ہم جنت میں ہیں اور ہم اس میں جہاں چاہیں جاسکتے ہیں۔ پھر ان کا پروردگار ان کی طرف متوجہ ہوکر فرمائے گا: کیا تم مزید کسی چیز کے طلبگار ہو تاکہ میں تمہیں وہ مزید چیز بھی عطا کروں؟ جب ان لوگوں نے یہ بات دیکھی کہ انہیں ضرور کوئی نہ کوئی سوال کرنا پڑے گا، تو انہوں نے عرض کی: تو ہماری ارواح ہمارے جسموں میں واپس کردے تاکہ ہمیں ایک مرتبہ پھر تیری بارگاہ میں شہید کیا جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه مسلم: 1887، والترمذي: 3014، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم: 5376، وأحمد فى ”مسنده“، برقم: 4031»
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:120
فائدہ: اس حدیث مبارکہ میں شہداء کی زبردست فضیات ثابت ہوتی ہے کہ انھیں کس طرح احترام کے ساتھ جنت میں بلند مقام ملے گا، اور اللہ تعالیٰ کا دیدار بھی ہوگا اور وہ دنیا میں آ کر دوبارہ شہید ہونے کی خواہش کریں گے، سبحان اللہ۔ جنت برحق ہے اور اس کی نعمتیں برحق ہیں۔ تنبیہ : جو شخص معرکہ میں مارا جائے، اس کو قطعی طور پر یقینی شہید کہنا درست نہیں ہے، بلکہ اس طرح کہنا چاہیے ”ان شاء اللہ شہید ہے“۔ موجودہ دور میں بعض لوگوں نے شہداء کے متعلق کئی ایک بدعات نکال رکھی ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں صحيح منہج پر گامزن کرے، آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 120