حدثني زهير بن حرب ، واحمد بن خراش ، قالا: حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ، حدثنا ابي ، قال: حدثني حسين المعلم ، عن ابن بريدة ، ان يحيى بن يعمر حدثه، ان ابا الاسود الديلي حدثه، ان ابا ذر حدثه، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو نائم، عليه ثوب ابيض، ثم اتيته فإذا هو نائم، ثم اتيته وقد استيقظ، فجلست إليه، فقال: " ما من عبد، قال: لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك، إلا دخل الجنة "، قلت: " وإن زنى وإن سرق، قال: وإن زنى وإن سرق، قلت: وإن زنى وإن سرق، قال: وإن زنى وإن سرق ثلاثا، ثم قال في الرابعة: على رغم انف ابي ذر، قال: فخرج ابو ذر وهو يقول: وإن رغم انف ابي ذر ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَحْمَدُ بْنُ خِرَاشٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ يَعْمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا الأَسْوَدِ الدِّيلِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ حَدَّثَهُ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِمٌ، عَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَإِذَا هُوَ نَائِمٌ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدِ اسْتَيْقَظَ، فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ، إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ "، قُلْتُ: " وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ، قَالَ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ فِي الرَّابِعَةِ: عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: فَخَرَجَ أَبُو ذَرٍّ وَهُوَ يَقُولُ: وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَرٍّ ".
ابو اسود دیلی نے بیان کیا کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اس سے حدیث بیان کی کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ایک سفید کپڑا اوڑھے ہوئے سو رہے تھے۔ میں پھر حاضر خدمت ہوا تو (ابھی) آپ سو رہے تھے، میں پھر (تیسری دفعہ) آیا تو آپ بیدار ہو چکے تھے۔ میں آپ کے پاس بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: ” کوئی بندہ نہیں جس نے لا إلہ إلا اللہ کہا اور پھر اسی پر مرا مگر وہ جنت میں داخل ہو گا۔“ میں نے پوچھا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہواور چوری کی ہو۔“ آپ نے جواب دیا: ”اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔“ میں نے پھر کہا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہواور چوری کی ہو؟ آپ نے فرمایا: ”اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کا ارتکاب کیا ہو۔“ آپ نے تین دفعہ یہی جواب دیا، پھر چوتھی مرتبہ آپ نے فرمایا: ”چاہے ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو۔“ ابو اسود نے کہا: ابو ذر (آپ کی مجلس سے) نکلے تو کہتے جاتے تھے: چاہے ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو۔
حضرت ابو ذر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس حال میں حاضر ہوا کہ آپؐ سوئے ہوئے تھے اور آپ پر ایک سفید کپڑا پڑا ہوا تھا۔ پھر میں دوبارہ حاضرِ خدمت ہوا تو آپ پھر سوئے ہوئے تھے۔ پھر میں (تیسری دفعہ) آیا تو آپ بیدار ہو چکے تھے تو میں آپ کے پاس بیٹھ گیا، اس پر آپ نے فرمایا: ”جس بندہ نے بھی لا الٰہ الااللہ کہا پھر اسی پر مرا وہ جنت میں داخل ہو گا۔“ میں نے پوچھا: اگرچہ اس نے زنا اور چوری کی ہو؟ آپؐ نے جواب دیا: ”اگر چہ وہ زنا اور چوری کرے۔“ میں نے پھر کہا: اگرچہ زنا کرے اور چوری کرے؟۔ آپؐ نے فرمایا: ”اگرچہ وہ زنا اور چوری کرے۔“ میں نے تین دفعہ کہا (آپؐ نے تینوں دفعہ یہی جواب دیا) پھر آپؐ نے چوتھی دفعہ فرمایا: ”ابو ذر کی ناک کے خاک آلود ہونے کی صورت میں بھی۔“(یعنی اس کی خواہش اور رائے کے برعکس) تو ابوذرؓ آپؐ کی مجلس سے یہ کہتے ہوئے نکلے: اگرچہ ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في اللباس، باب: الثياب البيض برقم (5489) انظر ((التحفة)) برقم (11930)»
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث. ح وحدثنا محمد بن رمح واللفظ متقارب، اخبرنا الليث ، عن ابن شهاب ، عن عطاء بن يزيد الليثي ، عن عبيد الله بن عدي بن الخيار ، عن المقداد بن الاسود ، انه اخبره، انه قال: يا رسول الله، ارايت إن لقيت رجلا من الكفار فقاتلني، فضرب إحدى يدي بالسيف فقطعها، ثم لاذ مني بشجرة، فقال: اسلمت لله، افاقتله يا رسول الله بعد ان قالها؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تقتله، قال: فقلت: يا رسول الله، إنه قد قطع يدي، ثم قال: ذلك بعد ان قطعها، افاقتله؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تقتله، فإن قتلته فإنه بمنزلتك قبل ان تقتله، وإنك بمنزلته قبل ان يقول كلمته التي قال ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ وَاللَّفْظُ مُتَقَارِبٌ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ ، عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ الأَسْوَدِ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلًا مِنَ الْكُفَّارِ فَقَاتَلَنِي، فَضَرَبَ إِحْدَى يَدَيَّ بِالسَّيْفِ فَقَطَعَهَا، ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ، فَقَالَ: أَسْلَمْتُ لِلَّهِ، أَفَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقْتُلْهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَدْ قَطَعَ يَدِي، ثُمَّ قَالَ: ذَلِكَ بَعْدَ أَنْ قَطَعَهَا، أَفَأَقْتُلُهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقْتُلْهُ، فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَإِنَّكَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ ".
لیث نے ابن شہاب (زہری) سے، انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے روایت کی کہ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ نے عبید اللہ بن عدی بن خیار کو خبر دی کہ انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! مجھے بتائیے کہ اگرکافروں میں سے کسی شخص سے میرا سامنا ہو، وہ مجھے سے جنگ کرے اور میرے ایک ہاتھ تلوار کی ضرب لگائے اور اسے کاٹ ڈالے، پھر مجھ سے بچاؤ کے لیے کسی درخت کی آڑ لے اور کہے: میں نے اللہ کے لیے اسلام قبول کر لیا تو اے اللہ کے رسول! کیا یہ کلمہ کہنے کے بعد میں اسے قتل کردوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے قتل نہ کرو۔“ انہوں نے کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ ک ےرسول! اس نے میرا ہاتھ کاٹ دیا اور اسے کاٹ ڈالنے کے بعد یہ کلمہ کہے تو کیا میں اسے قتل کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے قتل نہ کرو۔ اگر تم نے اسے قتل کر دیا تو وہ تمہارے اس مقام پر ہو گا جس پر تم اسے قتل کرنے سےپہلے تھے اور تم اس جگہ ہو گے جہاں وہ کلمہ کہنے سے پہلے تھا۔“
حضرت مقداد بن اسود ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا اے اللہ کے رسولؐ! مجھے بتائیے اگر کسی کافر آدمی سے میرا مقابلہ ہو جائے اور وہ مجھ سے لڑ پڑے اور میرا ایک ہاتھ تلوار کی ضرب سے کاٹ دے، پھر مجھ سے کسی درخت کی پناہ لے کر کہے: میں نے اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیا (میں مسلمان ہو گیا)، تو اے اللہ کے رسولؐ! کیا یہ کلمہ کہنے کے بعد میں اس کو قتل کر سکتا ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں! تم اسے قتل نہیں کر سکتے۔“ تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ! وہ میرا ایک ہاتھ کاٹ چکا ہے، پھر اس نے میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد یہ کلمہ کہا ہے، تو کیا میں اسے قتل کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے قتل نہ کرو، اگر تو نے اس کو قتل کر دیا تو وہ اس مقام پر ہوگا جس پر تم اس کوقتل کرنے سے پہلے تھے، اور تو اس کی جگہ و مقام پر ہو گا جس پر وہ اس کلمہ کے کہنے سے پہلے تھا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في المغازی، باب شهود الملائكة بداء برقم (3794) وفي الديات، باب قول الله تعالى: ﴿ وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ ﴾ برقم (6472) وابوداؤد في ((سننه)) في الجهاد، باب: على ما يقاتل المشركون برقم (2644) انظر ((التحفة)) برقم (11547)»
امام مسلم رضی اللہ عنہ نے معمر، اوزاعی اور ابن جریج کی الگ الگ سندوں کےساتھ زہری سے سابقہ سند کے ساتھ روایت کی، اوزاعی اور ابن جریج کی روایت میں (لیث کی) سابقہ حدیث کی طرح أسلمت للہ ”میں اللہ کے لیے اسلام لے آیا“ کے الفاظ ہیں جبکہ معمر کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ”جب میں نے چاہا کہ اسے قتل کر دوں تو اس نے لا إلہ إلا اللہ کہہ دیا۔“(دونوں کا حاصل ایک ہے۔)
امام صاحبؒ مختلف اساتذہ سے یہی روایت نقل کرتے ہیں۔ ایک روایت میں "أَسْلَمْتُ لِلَّهِ" (میں اللہ کا مطیع ہوا) کے الفاظ ہیں، اور دوسری روایت میں یہ ہے: کہ جب میں اس کے قتل کے لیے لپکا تو اس نے کہا لا الٰہ الااللہ۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (270)»
یونس نے ابن شہاب نے خبر دی، انہوں نےکہا: مجھے عطاء بن یزید لیثی جندعی نے بیان کیا کہ عبید اللہ بن عدی بن خیار نے اسے خبر دی کہ حضرت مقداد بن عمرو (ابن اسود) کندی رضی اللہ عنہ نے، جو بنو زہریہ کے حلیف تھے اور ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (غزوہ) بدر میں شرکت کی تھی، عرض کی: اے اللہ کے رسول! بتائیے اگر کافروں میں سے ایک آدمی سے میرا سامنا ہو جائے ..... آگے ایسے ہی ہے جیسے لیث کی (روایت کردہ) سابقہ حدیث ہے۔
حضرت مقداد بن عمرو بن اسود کندیؓ جو بنو زہرہ کے حلیف تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے تھے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: بتائیے اگر میری ایک کافر آدمی سے مڈ بھیڑ ہو جائے، پھر سب سے پہلی حدیث کی طرح بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (270)»
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا ابو خالد الاحمر . ح وحدثنا ابو كريب وإسحاق بن إبراهيم ، عن ابي معاوية كلاهما، عن الاعمش ، عن ابي ظبيان ، عن اسامة بن زيد ، وهذا حديث ابن ابي شيبة، قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية، فصبحنا الحرقات من جهينة، فادركت رجلا، فقال: لا إله إلا الله، فطعنته فوقع في نفسي من ذلك، فذكرته للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقال: لا إله إلا الله، وقتلته؟ قال: قلت: يا رسول الله، إنما قالها خوفا من السلاح، قال: " افلا شققت عن قلبه، حتى تعلم اقالها ام لا؟ " فما زال يكررها علي حتى تمنيت اني اسلمت يومئذ، قال: فقال سعد: وانا والله لا اقتل مسلما حتى يقتله ذو البطين يعني اسامة، قال: قال رجل: الم يقل الله وقاتلوهم حتى لا تكون فتنة، ويكون الدين كله لله، فقال سعد: قد قاتلنا حتى لا تكون فتنة، وانت، واصحابك تريدون ان تقاتلوا حتى تكون فتنة.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الأَحْمَرُ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ كِلَاهُمَا، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي ظِبْيَانَ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، وَهَذَا حَدِيثُ ابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، فَصَبَّحْنَا الْحُرَقَاتِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَأَدْرَكْتُ رَجُلًا، فَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَطَعَنْتُهُ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ، فَذَكَرْتُهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَقَتَلْتَهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا قَالَهَا خَوْفًا مِنَ السِّلَاحِ، قَالَ: " أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ، حَتَّى تَعْلَمَ أَقَالَهَا أَمْ لَا؟ " فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي أَسْلَمْتُ يَوْمَئِذٍ، قَالَ: فَقَالَ سَعْدٌ: وَأَنَا وَاللَّهِ لَا أَقْتُلُ مُسْلِمًا حَتَّى يَقْتُلَهُ ذُو الْبُطَيْنِ يَعْنِي أُسَامَةَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ، وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ، فَقَالَ سَعْدٌ: قَدْ قَاتَلْنَا حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ، وَأَنْتَ، وَأَصْحَابُكَ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّى تَكُونُ فِتْنَةٌ.
ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں ابو خالد احمر نے حدیث سنائی اور ابو کریب اور اسحاق بن ابراہیم نے ابو معاویہ سے اور ان دونوں (ابو معاویہ اور ابو خالد) نے اعمش سے، انہوں نے ابو ظبیان سے اور انہوں نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت کی (حدیث کے الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک چھوٹے لشکر میں (جنگ کے لیے) بھیجا، ہم نے صبح صبح قبیلہ جہینہ کی شاخ حرقات پر حملہ کیا، میں ایک آدمی پر قابو پا لیا تو اس نے لا إلہ إلا اللہ کہہ دیا لیکن میں نے اسے نیزہ مار دیا، اس بات سے میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا تو میں نے اس کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کیا اس نے لا إلہ إلا اللہ کہا اور تم نے اسے قتل کر دیا؟“ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! اس نے اسلحے کے ڈر سے کلمہ پڑھا، آپ نے فرمایا: ” تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا تاکہ تمہیں معلوم ہو جاتا کہ اس نے (دل سے) کہا ہے یا نہیں۔“ پھر آپ میرے سامنے مسلسل یہ بات دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نےتمنا کی کہ (کاش) میں آج ہی اسلام لایا ہوتا (اور اسلام لانے کی وجہ سے اس کلمہ گو کے قتل کے عظیم گناہ سے بری ہو جاتا۔) ابو ظبیان نے کہا: (اس پر) حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اور میں اللہ کی قسم! کسی اسلام لانے والے کو قتل نہیں کروں گا جب تک ذوالبطین، یعنی اسامہ اسے قتل کرنے پر تیار نہ ہوں۔ ابو ظبیان نے کہا: اس پر ایک آدمی کہنے لگا: کیااللہ کا یہ فرمان نہیں: ” اور ان سے جنگ لڑو حتی کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا اللہ کا ہو جائے۔“ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہم فتنہ ختم کرنے کی خاطر جنگ لڑتے تھے جبکہ تم اور تمہارے ساتھی فتنہ برپا کرنے کی خاطر لڑنا چاہتے ہو۔
حضرت اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک لشکر کے ساتھ بھیجا، ہم صبح صبح جہینہ قبیلہ کی بستی حرقات پہنچ گئے۔ میں نے ایک آدمی پرغلبہ حاصل کیا تو اس نے لاالٰہ الا اللہ کہہ دیا، میں نے (اس کو) کاٹ ڈالا۔ اس کے بارے میں میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا، سو میں نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو نے لاالٰہ الااللہ کہنے کے باوجود اسے قتل کردیا؟ میں نے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس نے اسلحہ کے ڈر سے کلمہ پڑھا۔ آپؐ نے فرمایا: ”تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھ لیا، تاکہ تمہیں پتا چل جاتا اس نے دل سے کہا ہے یا ڈر سے۔“ پھر آپؐ مسلسل کلمہ دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے خواہش کی کہ میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا، تو سعد ؓ کہنے لگے: اور میں اللہ کی قسم! کسی مسلمان کو قتل نہیں کروں گا جب تک ذوالبُطَین یعنی اسامہ ؓ اسے قتل کرنے کے لیے تیار نہ ہو۔ اس پر ایک آدمی نے کہا: کیا اللہ کا یہ فرمان نہیں: ”ان سے لڑو حتیٰ کہ فتنہ مٹ جائے (کسی میں دین سے پھیرنے کی طاقت نہ رہے) اور اللہ کا پورا دین عام ہو جائے۔“ تو سعد ؓ نے جواب دیا: ہم نے فتنہ فرو کرنے کی خاطر جنگ لڑی، تو اور تیرے ساتھی فتنہ برپا کرنے کی خاطر لڑنا چاہتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في المغازي، باب: بعث النبي صلی اللہ علیہ وسلم اسامة بن زيد الی الحرقات من جهينة برقم (4021) وفي الديات، باب: قول الله تعالی ﴿وَمَنْ أَحْيَاهَا﴾ برقم (6478) وابوداؤد في ((سننه)) في الجهاد، باب: علی ما يقاتل المشركون برقم (2643) انظر ((التحفة)) برقم (88)»
حدثنا يعقوب الدورقي ، حدثنا هشيم ، اخبرنا حصين ، حدثنا ابو ظبيان ، قال: سمعت اسامة بن زيد بن حارثة ، يحدث، قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الحرقة من جهينة، فصبحنا القوم فهزمناهم، ولحقت انا، ورجل من الانصار، رجلا منهم فلما غشيناه، قال: لا إله إلا الله، فكف عنه الانصاري، وطعنته برمحي حتى قتلته، قال: فلما قدمنا بلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لي: يا اسامة، اقتلته بعد ما قال: لا إله إلا الله؟ قال: قلت: يا رسول الله، إنما كان متعوذا، قال: فقال: " اقتلته بعد ما قال: لا إله إلا الله؟ " قال: فما زال يكررها علي، حتى تمنيت اني لم اكن اسلمت قبل ذلك اليوم.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو ظِبْيَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ ، يُحَدِّثُ، قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْحُرَقَةِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ فَهَزَمْنَاهُمْ، وَلَحِقْتُ أَنَا، وَرَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ، رَجُلًا مِنْهُمْ فَلَمَّا غَشِينَاهُ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَكَفَّ عَنْهُ الأَنْصَارِيَّ، وَطَعَنْتُهُ بِرُمْحِي حَتَّى قَتَلْتُهُ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا بَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: يَا أُسَامَةُ، أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا كَانَ مُتَعَوِّذًا، قَالَ: فَقَالَ: " أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ؟ " قَالَ: فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا عَلَيَّ، حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَلِكَ الْيَوْمِ.
حصین نے کہا: ہمیں ابو ظبیان نے حدیث سنائی، انہوں نےکہا: میں نے اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جہینہ کی شاخ (یا آبادی) حرقہ کی طرف بھیجا، ہم نے ان لوگوں پر صبح کے وقت حملہ کیا اور انہیں شکست دے دی، جنگ دوران میں ایک انصاری اور میں ان میں سے ایک آدمی تک پہنچ گئے جب ہم نے اسے گھیر لیا (اور وہ حملے کی زد میں آ گیا) تو اس نے لا إلہ إلا اللہ کہہ دیا۔ انہوں نے کہا: انصاری اس پر حملہ کرنے سے رک گیا اور میں نے اپنا نیزہ مار کر اسے قتل کر دیا۔ اسامہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ جب ہم واپس آئے تویہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئی، اس پر آپ نے مجھ سے فرمایا: ” اے اسامہ! کیا تو نے اس کے لا إلہ إلااللہ کہنے کے بعد اسے قتل کر دیا؟“ کہا: میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! وہ تو (اس کلمے کے ذریعے سے) محض پناہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ کہا: تو آپ نے فرمایا: ” کیا تو نے اسے لا إلہ إلا اللہ کہنے کے بعد قتل کر دیا؟“ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ بار بار یہ بات دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی (کاش) میں آج کے دن سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔
حضرت اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جہینہ کی شاخ حرقہ کی طرف بھیجا، تو ہم نے ان لوگوں پر صبح صبح حملہ کردیا اور ان کو شکست دے دی۔ میں اور ایک انصاری آدمی نے ان کے ایک آدمی کا تعاقب کیا، جب ہم نے اس کو گھیرے میں لے لیا (وہ حملہ کی زد میں آ گیا) اس نے لاالٰہ الااللہ کہہ دیا، انصاری اس سے رک گیا، میں نے اپنا نیزہ مار کر اس کو قتل کر دیا۔ اسامہ ؓ کا بیان ہے کہ جب ہم واپس آئے تو اس کی اطلاع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ہو گئی (جو خود اسامہ ؓ نے دی تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھےفرمایا: ”اے اسامہ! کیا تو نے لا الٰہ الااللہ کہنے کے بعد قتل کردیا؟“ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اس نے تو محض پناہ حاصل کرنے کے لیے ایسا کہا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”کیا تو نے اسے لاالٰہ الااللہ کہنے کے بعد قتل کر دیا؟“ پھر آپ بار بار یہ بات دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی اے کاش! میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوتا۔ (آج مسلمان ہوتا تا کہ تمام پچھلے گناہ معاف ہو جاتے)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (273)»
حدثنا احمد بن الحسن بن خراش ، حدثنا عمرو بن عاصم ، حدثنا معتمر ، قال: سمعت ابي يحدث، ان خالدا الاثبج ابن اخي صفوان بن محرز حدث، عن صفوان بن محرز ، انه حدث، ان جندب بن عبد الله البجلي ، بعث إلى عسعس بن سلامة زمن فتنة ابن الزبير، فقال: اجمع لي نفرا من إخوانك حتى احدثهم، فبعث رسولا إليهم، فلما اجتمعوا، جاء جندب وعليه برنس اصفر، فقال: تحدثوا بما كنتم تحدثون به، حتى دار الحديث، فلما دار الحديث إليه، حسر البرنس عن راسه، فقال: إني اتيتكم ولا اريد ان اخبركم عن نبيكم، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث بعثا من المسلمين إلى قوم من المشركين، وإنهم التقوا، فكان رجل من المشركين، إذا شاء ان يقصد إلى رجل من المسلمين قصد له فقتله، وإن رجلا من المسلمين قصد غفلته، قال: وكنا نحدث انه اسامة بن زيد، فلما رفع عليه السيف، قال: لا إله إلا الله، فقتله، فجاء البشير إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فساله، فاخبره حتى اخبره خبر الرجل كيف صنع، فدعاه فساله، فقال: لم قتلته؟ قال: يا رسول الله، اوجع في المسلمين، وقتل فلانا وفلانا، وسمى له نفرا، وإني حملت عليه، فلما راى السيف، قال: لا إله إلا الله، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اقتلته؟ قال: نعم، قال: فكيف تصنع بلا إله إلا الله، إذا جاءت يوم القيامة؟ قال: يا رسول الله، استغفر لي، قال: وكيف تصنع بلا إله إلا الله، إذا جاءت يوم القيامة؟ قال: فجعل لا يزيده على ان يقول: " كيف تصنع بلا إله إلا الله، إذا جاءت يوم القيامة؟ ".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ خِرَاشٍ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِر ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، أَنَّ خَالِدًا الأَثْبَجَ ابْنَ أَخِي صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ حَدَّثَ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ مُحْرِزٍ ، أَنَّهُ حَدَّثَ، أَنَّ جُنْدَبَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيَّ ، بَعَثَ إِلَى عَسْعَسِ بْنِ سَلَامَةَ زَمَنَ فِتْنَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: اجْمَعْ لِي نَفَرًا مِنْ إِخْوَانِكَ حَتَّى أُحَدِّثَهُمْ، فَبَعَثَ رَسُولًا إِلَيْهِمْ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا، جَاءَ جُنْدَبٌ وَعَلَيْهِ بُرْنُسٌ أَصْفَرُ، فَقَالَ: تَحَدَّثُوا بِمَا كُنْتُمْ تَحَدَّثُونَ بِهِ، حَتَّى دَارَ الْحَدِيثُ، فَلَمَّا دَارَ الْحَدِيثُ إِلَيْهِ، حَسَرَ الْبُرْنُسَ عَنْ رَأْسِهِ، فَقَالَ: إِنِّي أَتَيْتُكُمْ وَلَا أُرِيدُ أَنْ أُخْبِرَكُمْ عَنْ نَبِيِّكُمْ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بَعْثًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَى قَوْمٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، وَإِنَّهُمُ الْتَقَوْا، فَكَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، إِذَا شَاءَ أَنْ يَقْصِدَ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَصَدَ لَهُ فَقَتَلَهُ، وَإِنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ قَصَدَ غَفْلَتَهُ، قَالَ: وَكُنَّا نُحَدَّثُ أَنَّهُ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، فَلَمَّا رَفَعَ عَلَيْهِ السَّيْفَ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهَ، فَقَتَلَهُ، فَجَاءَ الْبَشِيرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ، فَأَخْبَرَهُ حَتَّى أَخْبَرَهُ خَبَرَ الرَّجُلِ كَيْفَ صَنَعَ، فَدَعَاهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: لِمَ قَتَلْتَهُ؟ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهَ، أَوْجَعَ فِي الْمُسْلِمِينَ، وَقَتَلَ فُلَانًا وَفُلَانًا، وَسَمَّى لَهُ نَفَرًا، وَإِنِّي حَمَلْتُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَى السَّيْفَ، قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقَتَلْتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: وَكَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: فَجَعَلَ لَا يَزِيدُهُ عَلَى أَنْ يَقُولَ: " كَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ ".
صفوان بن محرز نے حدیث بیان کی کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے فتنے کے زمانے میں جندب بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے عسعس بن سلامہ کو پیغام بھیجا اور کہا: میرے لیے اپنے ساتھیوں میں ایک نفری (نفرتیں سے دس تک کی جماعت) جمع کرو تاکہ میں ان سے بات کروں: چنانچہ عسعس نے اپنے ان ساتھیوں کی جانب ایک قاصد بھیجا جب و ہ جمع ہو گئے تو جندب ایک زرد رنگ کی لمبی ٹوپی پہنے ہوئےآئے اور کہا: جو باتیں تم کر رہے تھے، وہ کرتے رہو۔ یہاں تک کہ بات چیت کا دور چل پڑا۔ جب بات ان تک پہنچی (ان کے بولنے کی باری آئی) تو انہوں نے اپنے سر سےلمبی ٹوپی اتار دی اور کہا: میں تمہارے پاس آیاتھا اور میرا ارادہ یہ نہ تھا کہ تمہیں تمہارے نبی سے کوئی حدیث سناؤں (لیکن اب یہ ضروری ہو گیا ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکین کی ایک قوم کی طرف بھیجا اور ان کے آمنا سامنا ہوا۔ مشرکوں کا ایک آدمی تھا، وہ جب مسلمانوں کے کسی آدمی پر حملہ کرنا چاہتا تو اس پر حملہ کرتا اور اسے قتل کر دیتا۔ اور مسلمانوں کا ایک آدمی تھا جو اس (مشرک) کی بے دھیانی کا متلاشی تھا، (جندب بن عبد اللہ نے) کہا: ہم ایک دوسرےسے کہتے تھے کہ وہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ہیں۔ جب ان کی تلوار مارنے کی باری آئی تو اس نے لا إلہ إلا اللہ کہہ دیا۔ لیکن انہوں نے اسے قتل کر دیا۔ فتح کی خوش خبری دینے والا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے اس سے (حالات کے متعلق) پوچھا، اس نے آپ کو حالات بتائے حتی کہ اس آدمی (حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ) کی خبر بھی دے دی کہ انہوں کیا کیا۔ آپ نے انہیں بلا کر پوچھا اور فرمایا: ” تم نے اسے کیوں قتل کیا؟“ ا نہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اس نے مسلمانوں کو بہت ایذا پہنچائی تھی اور فلاں فلاں کو قتل کیا تھا، انہوں نے کچھ لوگوں کے نام گنوائے، (پھر کہا:) میں اس پر حملہ کیا، اس نے جب تلوار دیکھی تو لا إلہ إلا اللہ کہہ دیا۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” کیا تم نے اسے قتل کر دیا؟“(اسامہ رضی اللہ عنہ) کہا، جی ہاں! فرمایا: ”قیامت کے دن جب لا إلہ إلا اللہ (تمہارے سامنے) آئے گا تو اس کا کیا کرو گے؟“(اسامہ رضی اللہ عنہ نے) عرض کی: اے اللہ کے رسول! میرے لیے بخشش طلب کیجیے۔ آپ نے فرمایا: ”قیامت کےدن (تمہارے سامنے کلمہ) لا إلہ إلااللہ آئے گا تو اس کا کیا کرو گے؟“(جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے مزید کوئی بات نہیں کر رہے تھے، یہی کہہ رہے تھے: ”قیامت کے دن لا إلہ إلا اللہ (تمہارے سامنے) آئے گا تو اس کیا کرو گے؟“
صفوان بن محرزؒ بیان کرتے ہیں، حضرت ابنِ زبیر ؓ کے فتنہ کے زمانہ میں جندب بن عبداللہ بجلی ؓ نے عَسْعَسْ بن سلامہ کے پاس پیغام بھیجا کہ میرے لیے اپنے ساتھیوں کا ایک گروہ جمع کرو، تاکہ میں ان سے بات کروں۔ عسعس نے اپنے ساتھیوں کو بلا بھیجا، تو جب وہ جمع ہو گئے، جندب ؓ ایک برنس (برانڈی) زرد رنگ کی پہنے ہوئے آئے اور فرمایا: جو باتیں تم کر رہے تھے وہ کرتے رہو تو جب بات ان تک پہنچی (ان کے بولنے کی باری آئی) انھوں نے سر سے برانڈی اتار دی پھر کہا: میں تمھارے نبی کی حدیث بیان کرنے کے ارادے سے نہیں آیا تھا۔ (لیکن اب آپ کی حدیث بیان کرتا ہوں) رسو ل اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرک لوگوں کی طرف بھیجا، اور ان کا آمنا سامنا ہوا، مشرکوں میں سے ایک آدمی تھا جس مسلمان پر حملہ کرنا چاہتا حملہ کر کے اس کو قتل کر دیتا، ایک مسلمان آدمی نے اس کی غفلت سے فائدہ اٹھانا چاہا (اس کی گھات میں رہا) ہمیں بتایا جاتا تھا: کہ وہ اسامہ بن زید ؓ تھے۔ تو جب انھوں نے اس پر تلوار اٹھائی (ان کی تلوار کی زد میں آگیا) تو اس نے لا الٰہ الا اللہ کہہ دیا، لیکن انھوں نے اسے قتل کر دیا۔ فتح کی بشارت دینے والا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، تو آپؐ نے اس سے پوچھا، اس نے حالات بتائے یہاں تک کہ اس آدمی نے حضرت اسامہ ؓ کے کارنامہ کی بھی خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر پوچھا: ”تو نے اس کو قتل کیوں کیا؟“ انھوں نے جواب دیا: اے اللہ کے رسولؐ! اس نے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی اور فلاں فلاں کو قتل کیا۔ انھوں نے چند آدمیوں کے نام لیے، جب میں نے اس پر حملہ کیا، تو تلوار دیکھ کر اس نے لا لٰہ الا اللہ کہہ دیا۔ آپ نے پوچھا کیا: ”تو نے اسے قتل کیا ہے؟“ اسامہ ؓ نے ہاں میں جواب دیا۔ آپؐ نے فرمایا: ”قیامت کےدن جب لا الٰہ الا اللہ آئے گا تو کیا جواب دو گے؟“ اسامہ ؓ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے لیے بخشش طلب کیجیے! آپؐ نے فرمایا: ”لاالٰہ الا اللہ جب قیامت کو آئے گا تو اس کا کیا جواب دو گے؟“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے زائد کچھ نہیں کہہ رہے تھے: ”جب قیامت کے روز لا الٰہ الا اللہ آئے گا تو اس کا کیا جواب دو گے؟“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3258)»
عبید ا للہ اور امام مالک نےنافع سے اور انہو ں نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس نے ہمارے خلاف اسلحہ اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“ <ہیڈنگ 1>
حضرت ابنِ عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (8003)»
ایاس بن سلمہ نے اپنے والد سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس نےہم پر تلوار سونتی، وہ ہم میں سے نہیں۔“
ایاس بن سلمہؒ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے خلاف تلوار سونتی تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (4521)»
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: ” جس نے ہمارے خلاف اسلحہ اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں۔“
ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الفتن، باب: قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم ((من حمل علينا السلاح فليس منا)) برقم (6660) والترمذي في ((جامعه)) في الحدود، باب: ما جاء فيمن السلاح برقم (1459) وقال: حسن صحيح - وابن ماجه في ((سننه)) في الحدود، باب: من شهر السلاح برقم (2577) انظر ((التحفة)) برقم (9042)»