حضرت طارق بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم نماز پڑھا کرو، تو اپنی دائیں جانب یا سامنے تھوک نہ پھینکا کرو، بلکہ اگر جگہ ہو تو پیچھے یا بائیں جانب تھوک لیا کرو ورنہ اس طرح کر لیا کرو یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں کے نیچے تھوک کر اسے مٹی میں مل دیا۔“
حدثنا يونس ، قال: حدثنا ليث ، عن ابي وهب الخولاني ، عن رجل قد سماه ، عن ابي بصرة الغفاري صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " سالت ربي عز وجل اربعا، فاعطاني ثلاثا، ومنعني واحدة، سالت الله عز وجل ان لا يجمع امتي على ضلالة، فاعطانيها , وسالت الله عز وجل ان لا يظهر عليهم عدوا من غيرهم، فاعطانيها، وسالت الله عز وجل ان لا يظهر عليهم عدوا من غيرهم , فاعطانيها , وسالت الله عز وجل ان لا يهلكهم بالسنين، كما اهلك الامم قبلهم، فاعطانيها، وسالت الله عز وجل ان لا يلبسهم شيعا، ويذيق بعضهم باس بعض، فمنعنيها" .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ رَجُلٍ قَدْ سَمَّاهُ ، عَنْ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " سَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَرْبَعًا، فَأَعْطَانِي ثَلَاثًا، وَمَنَعَنِي وَاحِدَةً، سَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يَجْمَعَ أُمَّتِي عَلَى ضَلَالَةٍ، فَأَعْطَانِيهَا , وَسَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لا يُظْهِرَ عليهم عدوًّا من غيرهم، فأعطانيها، وسألتُ الله عزَّ وجلَّ أَنْ لا يظهر عليهم عدوًا من غيرهم , فأعطانيها , وسألت الله عز وجل أن لَا يُهْلِكَهُمْ بِالسِّنِينَ، كَمَا أَهْلَكَ الْأُمَمَ قَبْلَهُمْ، فَأَعْطَانِيهَا، وَسَأَلْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يَلْبِسَهُمْ شِيَعًا، وَيُذِيقَ بَعْضَهُمْ بَأْسَ بَعْضٍ، فَمَنَعَنِيهَا" .
حضرت ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اپنے رب سے اپنی امت کے لئے چار دعائیں کیں جن میں سے تین اس نے مجھے عطا فرما دیں اور ایک روک لی، میں نے اس سے یہ درخواست کی کہ وہ اسے عام قحط سالی سے ہلاک نہ کرے اور انہیں مختلف فرقوں میں تقسیم کر کے ایک دوسرے کا مزہ چکھائے، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے اس سے روک دیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لابهام الراوي عن أبى بصرة. أبو بصرة وهو وهم، صوابه: أبو هانئ
حضرت ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز عصر پڑھائی اور نماز سے فراغت کے بعد فرمایا: ”یہ نماز تم سے پہلے لوگوں پر بھی پیش کی گئی تھی، لیکن انہوں نے اس میں سستی کی اور اسے چھوڑ دیا، سو تم میں سے جو شحص یہ نماز پڑھتا ہے، اسے دہرا اجر ملے گا اور اس کے بعد کوئی نماز نہیں ہے یہاں تک کے ستارے دکھائی دینے لگیں۔“
حدثنا يحيى بن إسحاق ، قال: اخبرنا ابن لهيعة ، عن عبد الله بن هبيرة ، عن ابي تميم الجيشاني ، عن ابي بصرة الغفاري ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم لما هاجرت، وذلك قبل ان اسلم، فحلب لي شويهة كان يحتلبها لاهله فشربتها، فلما اصبحت، اسلمت، وقال عيال النبي صلى الله عليه وسلم: نبيت الليلة كما بتنا البارحة جياعا، فحلب لي رسول الله صلى الله عليه وسلم شاة، فشربتها ورويت، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارويت" , فقلت: يا رسول الله، قد رويت، ما شبعت ولا رويت قبل اليوم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن الكافر ياكل في سبعة امعاء، والمؤمن ياكل في معى واحد" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُبَيْرَةَ ، عَنْ أَبِي تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيِّ ، عَنْ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا هَاجَرْتُ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ أُسْلِمَ، فَحَلَبَ لِي شُوَيْهَةً كَانَ يَحْتَلِبُهَا لِأَهْلِهِ فَشَرِبْتُهَا، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ، أَسْلَمْتُ، وَقَالَ عِيَالُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَبِيتُ اللَّيْلَةَ كَمَا بِتْنَا الْبَارِحَةَ جِيَاعًا، فَحَلَبَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةً، فَشَرِبْتُهَا وَرَوِيتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَوِيتَ" , فقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ رَوِيتُ، مَا شَبِعْتُ وَلَا رَوِيتُ قَبْلَ الْيَوْمِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْكَافِرَ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ، وَالْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ" .
حضرت ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں قبول اسلام سے پہلے ہجرت کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری کا دودھ مجھے دوہ کر دیا، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کے لئے دوہتے تھے۔ میں نے اسے پی لیا اور صبح ہوتے ہی اسلام قبول کر لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ ہمیں کل کی طرح آج بھی بھوکا رہ کر گزارہ کرنا پڑے گا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج بھی مجھے دودھ عطاء فرمایا میں نے اسے پیا اور سیراب ہو گیا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”کیا تم سیراب ہو گے؟“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آج میں اس طرح سیراب ہوا ہوں کہ اس سے پہلے کبھی اس طرح سیراب ہوا اور نہ پیٹ بھرا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے اور مومن ایک آنت میں کھاتا ہے۔“
حدثنا يحيى بن إسحاق ، قال: اخبرنا ابن لهيعة ، عن عبد الله بن هبيرة ، عن ابي تميم ، عن ابي بصرة الغفاري ، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في واد من اوديتهم يقال له: المخمص , صلاة العصر، فقال: " إن هذه الصلاة صلاة العصر , عرضت على الذين من قبلكم، فضيعوها، الا ومن صلاها , ضعف له اجره مرتين، الا ولا صلاة بعدها حتى تروا الشاهد"، قلت لابن لهيعة: ما الشاهد؟ قال: الكوكب، الاعراب يسمون الكوكب شاهد الليل .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هُبَيْرَةَ ، عَنْ أَبِي تَمِيمٍ ، عَنْ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَادٍ مِنْ أَوْدِيَتِهِمْ يُقَالُ لَهُ: الْمُخَمَّصُ , صَلَاةَ الْعَصْرِ، فَقَالَ: " إِنَّ هَذِهِ الصَّلَاةَ صَلَاةَ الْعَصْرِ , عُرِضَتْ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ، فَضَيَّعُوهَا، أَلَا وَمَنْ صَلَّاهَا , ضُعِّفَ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ، أَلَا وَلَا صَلَاةَ بَعْدَهَا حَتَّى تَرَوْا الشَّاهِدَ"، قُلْتُ لِابْنِ لَهِيعَةَ: مَا الشَّاهِدُ؟ قَالَ: الْكَوْكَبُ، الْأَعْرَابُ يُسَمُّونَ الْكَوْكَبَ شَاهِدَ اللَّيْلِ .
حضرت ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز عصر پڑھائی اور نماز سے فراغت کے بعد فرمایا یہ نماز تم سے پہلے لوگوں پر بھی پیش کی گئی تھی لیکن انہوں نے اس میں سستی کی اور اسے چھوڑ دیا، سو تم میں سے جو شحص یہ نماز پڑھتا ہے اسے دہرا اجر ملے گا اور اس کے بعد کوئی نماز نہیں ہے یہاں تک کے ستارے دکھائی دینے لگیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 830، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، وقد توبع
حدثنا يحيى بن إسحاق ، اخبرنا ابن لهيعة ، اخبرنا عبد الله بن هبيرة ، قال: سمعت ابا تميم الجيشاني ، يقول: سمعت عمرو بن العاص ، يقول: اخبرني رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم , يقول: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: " إن الله عز وجل زادكم صلاة، فصلوها فيما بين صلاة العشاء إلى صلاة الصبح، الوتر الوتر"، الا وإنه ابو بصرة الغفاري، قال ابو تميم: فكنت انا وابو ذر قاعدين، قال: فاخذ بيدي ابو ذر، فانطلقنا إلى ابي بصرة، فوجدناه عند الباب الذي يلي دار عمرو بن العاص، فقال ابو ذر: يا ابا بصرة، آنت سمعت النبي صلى الله عليه وسلم , يقول: إن الله عز وجل زادكم صلاة، صلوها فيما بين صلاة العشاء إلى صلاة الصبح، الوتر الوتر؟" , قال: نعم، قال: انت سمعته؟ قال: نعم، قال: انت سمعته؟ قال: نعم .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هُبَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا تَمِيمٍ الْجَيْشَانِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ زَادَكُمْ صَلَاةً، فَصَلُّوهَا فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى صَلَاةِ الصُّبْحِ، الْوَتْرُ الْوَتْرُ"، أَلَا وَإِنَّهُ أَبُو بَصْرَةَ الْغِفَارِيُّ، قَالَ أَبُو تَمِيمٍ: فَكُنْتُ أَنَا وَأَبُو ذَرٍّ قَاعِدَيْنِ، قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِي أَبُو ذَرٍّ، فَانْطَلَقْنَا إِلَى أَبِي بَصْرَةَ، فَوَجَدْنَاهُ عِنْدَ الْبَابِ الَّذِي يَلِي دَارَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: يَا أَبَا بَصْرَةَ، آنْتَ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ زَادَكُمْ صَلَاةً، صَلُّوهَا فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى صَلَاةِ الصُّبْحِ، الْوَتْرُ الْوَتْرُ؟" , قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ .
حضرت خارجہ بن حذافہ عدوی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کے ایک مرتبہ صبح کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ نے تمہارے لئے ایک نماز کا اضافہ فرمایا ہے، جو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ کون سی نماز ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز وتر، جو نماز عشاء اور طلوع آفتاب کے درمیان کسی بھی وقت پڑھی جا سکتی ہے۔
حدثنا يعقوب ، قال: حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني يزيد بن ابي حبيب ، عن مرثد بن عبد الله اليزني ، عن ابي بصرة الغفاري ، قال: لقيت ابا هريرة وهو يسير إلى مسجد الطور ليصلي فيه، قال: فقلت له: لو ادركتك قبل ان ترتحل، ما ارتحلت، قال: فقال: ولم؟ قال: قال: فقلت: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد المسجد الحرام، والمسجد الاقصى، ومسجدي" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَزَنِيِّ ، عَنْ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ ، قَالَ: لَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ وَهُوَ يَسِيرُ إِلَى مَسْجِدِ الطُّورِ لِيُصَلِّيَ فِيهِ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: لَوْ أَدْرَكْتُكَ قَبْلَ أَنْ تَرْتَحِلَ، مَا ارْتَحَلْتَ، قَالَ: فقال: ولم؟ قَالَ: قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى، وَمَسْجِدِي" .
حضرت ابوبصرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میری ملاقات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہوئی، وہ مسجد طور کی طرف نماز پڑھنے کے لئے جا رہے تھے، میں نے ان سے کہا اگر آپ کی روانگی سے پہلے آپ سے ملاقات ہو جاتی تو آپ کبھی وہاں کا سفر نہ کرتے کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سواریوں کو تین مسجدوں کے علاوہ کسی اور مسجد کی زیارت کے لئے تیار نہیں کرنا چاہیے، مسجد حرام، میری مسجد، مسجد بیت المقدس۔
حدثنا حجاج , ويونس , قالا: حدثنا الليث قال: حدثني يزيد بن ابي حبيب ، عن ابي الخير ، عن منصور الكلبي ، عن دحية بن خليفة انه " خرج من قريته إلى قريب من قرية عقبة في رمضان، ثم انه افطر وافطر معه ناس، وكره آخرون ان يفطروا، قال فلما رجع إلى قريته، قال: والله لقد رايت اليوم امرا ما كنت اظن ان اراه، إن قوما رغبوا عن هدي رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه، يقول ذلك للذين صاموا، ثم قال عند ذلك: اللهم اقبضني إليك" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , وَيُونُسُ , قَالَا: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ مَنْصُورٍ الْكَلْبِيِّ ، عَنْ دِحْيَةَ بْنِ خَلِيفَةَ أَنَّهُ " خَرَجَ مِنْ قَرْيَتِهِ إِلَى قَرِيبٍ مِنْ قَرْيَةِ عُقْبَةَ فِي رَمَضَانَ، ثُمَّ أَنَّهُ أَفْطَرَ وَأَفْطَرَ مَعَهُ نَاسٌ، وَكَرِهَ آخَرُونَ أَنْ يُفْطِرُوا، قَالَ فَلَمَّا رَجَعَ إِلَى قَرْيَتِهِ، قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُ الْيَوْمَ أَمْرًا مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنْ أَرَاهُ، إِنَّ قَوْمًا رَغِبُوا عَنْ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ، يَقُولُ ذَلِكَ لِلَّذِينَ صَامُوا، ثُمَّ قَالَ عِنْدَ ذَلِكَ: اللَّهُمَّ اقْبِضْنِي إِلَيْكَ" .
حضرت دحیہ بن خلیفہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ ماہ رمضان میں اپنی بستی سے نکل کر عقبہ سے قریبی بستی میں تشریف لئے گے، پھر انہوں نے اور ان کے ساتھ کچھ لوگوں نے روزہ ختم کر دیا جبکہ کچھ لوگوں نے (مسافر ہونے کے باوجود) روزہ ختم کرنا اچھا نہیں سمجھا، جب وہ اپنی بستی میں واپس آئے تو فرمایا: واللہ! آج میں نے ایسا کام کرتے ہوئے دیکھا ہے جس کے متعلق میرا خیال نہیں تھا کہ میں اسے دیکھوں گا، کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے طریقوں سے روگردانی کر رہے ہیں، یہ بات انہوں نے روزہ رکھنے والوں کے متعلق فرمائی تھی، پھر کہنے لگے، اے اللہ! مجھے اپنے پاس بلا لے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة منصور الكلبي
حدثنا حدثنا ابو عبد الرحمن ، قال: حدثنا سعيد يعنى بن ابي ايوب ، قال: حدثني يزيد بن ابي حبيب ان كليب بن ذهل اخبره، عن عبيد يعني ابن جبر ، قال: " ركبت مع ابي بصرة الغفاري صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفينة من الفسطاط في رمضان، فدفع , ثم قرب غداءه، ثم قال: اقترب، فقلت: السنا نرى البيوت؟ فقال ابو بصرة: ارغبت عن سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟!" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيد يعنى بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ أَنَّ كُلَيْبَ بْنَ ذُهْلٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ عُبَيْدٍ يَعْنِي ابْنَ جَبْرٍ ، قَالَ: " رَكِبْتُ مَعَ أَبِي بَصْرَةَ الْغِفَارِيِّ صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفِينَةٍ مِنَ الْفُسْطَاطِ فِي رَمَضَانَ، فدفع , ثُمَّ قَرَّبَ غَدَاءَهُ، ثُمَّ قَالَ: اقْتَرِبْ، فَقُلْتُ: أَلَسْنَا نَرَى الْبُيُوتَ؟ فَقَالَ أَبُو بَصْرَةَ: أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟!" .
عبید ابن جبر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ماہ رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت ابوغفاری رضی اللہ عنہ کے ہمراہ میں فسطاط سے ایک کشتی میں روانہ ہوا، کشتی چل پڑی تو انہیں ناشتہ پیش کیا گیا، انہوں نے مجھ سے قریب ہونے کے لئے فرمایا، میں نے عرض کیا کہ ہمیں ابھی تک شہر کے مکانات نظر نہیں آ رہے؟ انہوں نے فرمایا کیا تم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اعراض کرنا چاہتے ہو؟
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة كليب بن ذهل