حدثنا إسماعيل بن محمد ، قال: حدثنا مروان بن معاوية ، قال: حدثنا ابو مالك الاشجعي ، قال: حدثني ابي ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من وحد الله، وكفر بما يعبد من دونه، حرم الله ماله ودمه، وحسابه على الله عز وجل" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ وَحَّدَ اللَّهَ، وَكَفَرَ بِمَا يُعْبَدُ مِنْ دُونِهِ، حَرَّمَ اللَّهُ مَالَهُ وَدَمَهُ، وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت طارق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قوم سے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے اور دیگر معبودان باطلہ کا انکار کرتا ہے، اس کی جان، مال محفوظ اور قابل احترام ہو جاتے ہیں اور اس کا حساب کتاب اللہ کے ذمے ہو گا۔
حدثنا عبد الله بن إدريس ، قال: سمعت الاعمش يروي، عن شقيق ، عن خباب ، قال: هاجرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمنا من مات، ولم ياكل من اجره شيئا، منهم مصعب بن عمير، لم يترك إلا نمرة، إذا غطوا بها راسه بدت رجلاه، وإذا غطينا رجله، بدا راسه، فقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " غطوا راسه" , وجعلنا على رجليه إذخرا ، قال: ومنا من اينع الثمار، فهو يهدبها.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ يَرْوِي، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ خَبَّابٍ ، قَالَ: هَاجَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمِنَّا مَنْ مَاتَ، وَلَمْ يَأْكُلْ مِنْ أَجْرِهِ شَيْئًا، مِنْهُمْ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ، لَمْ يَتْرُكْ إِلَّا نَمِرَةً، إِذَا غَطَّوْا بِهَا رَأْسَهُ بَدَتْ رِجْلَاهُ، وَإِذَا غَطَّيْنَا رِجْلَْهِ، بَدَا رَأْسُهُ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غَطُّوا رَأْسَهُ" , وَجَعَلْنَا عَلَى رِجْلَيْهِ إِذْخِرًا ، قَالَ: وَمِنَّا مَنْ أَيْنَعَ الثِّمَارَ، فَهُوَ يَهْدِبُهَا.
حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صرف اللہ کی رضا کے لئے ہجرت کی تھی، لہٰذا ہمارا اجر اللہ کے ذمے ہو گیا، اب ہم میں سے کچھ لوگ دنیا سے چلے گئے اور اپنے اجر و ثواب میں سے کچھ نہ کھا سکے، ان ہی افراد میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں، جو غزوہ احد کے موقع پر شہید ہو گئے تھے اور ہمیں کوئی چیز انہیں کفنانے کے لئے نہیں مل رہی تھی، صرف ایک چادر تھی جس سے اگر ہم ان کا سر ڈھانپتے تو پاؤں کھلے رہتے اور پاؤں ڈھانپتے تو سر کھلا رہ جاتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ان کا سر ڈھانپ دیں اور پاؤں پر اذخرنامی گھاس ڈال دیں اور ہم میں سے کچھ لوگ وہ ہیں جن کا پھل تیار ہو گیا ہے اور وہ اسے چن رہے ہیں۔
حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا الاعمش ، عن عمارة بن عمير ، عن ابي معمر ، قال: قلنا لخباب : هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا في الظهر والعصر؟ قال: نعم، قال: فقلنا: باي شيء كنتم تعرفون ذلك؟ قال: فقال: " باضطراب لحيته" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، قَالَ: قُلْنَا لِخَبَّابٍ : هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقُلْنَا: بِأَيِّ شَيْءٍ كُنْتُمْ تَعْرِفُونَ ذَلِكَ؟ قَالَ: فَقَال: " بِاضْطِرَابِ لِحْيَتِهِ" .
ابومعمر کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر اور عصر میں قرأت کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! ہم نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا؟ فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک ہلنے کی وجہ سے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن إسماعيل ، قال: حدثنا قيس ، قال: اتيت خبابا اعوده , وقد اكتوى سبعا في بطنه، فسمعته يقول: لولا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهانا ان ندعو بالموت , لدعوت به" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَيْسٌ ، قَالَ: أَتَيْتُ خَبَّابًا أَعُودُهُ , وَقَدْ اكْتَوَى سَبْعًا فِي بَطْنِهِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: لَوْلَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَانَا أَنْ نَدْعُوَ بِالْمَوْتِ , لَدَعَوْتُ بِهِ" .
قیس کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے وہ اپنے باغ کی تعمیر میں مصروف تھے، ہمیں دیکھ کر فرمایا کہ مسلمان کو ہر چیز میں ثواب ملتا ہے، سوائے اس کے جو وہ اس مٹی میں لگاتا ہے، انہوں نے سات مرتبہ اپنے پیٹ پر داغنے کا علاج کیا تھا اور کہہ رہے تھے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا مانگنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں اس کی دعا ضرور کرتا۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن إسماعيل ، قال: حدثنا قيس ، عن خباب ، قال: شكونا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو متوسد بردة في ظل الكعبة، فقلنا: الا تستنصر لنا الله عز وجل او الا، يعني: تستنصر لنا؟ فقال: " قد كان الرجل فيمن كان قبلكم يؤخذ، فيحفر له في الارض، فيجاء بالميشار، فيوضع على راسه، فيجعل بنصفين، فما يصده ذلك عن دينه، ويمشط بامشاط الحديد، ما دون عظمه من لحم، او عصب، فما يصده ذلك عن دينه، والله ليتمن الله هذا الامر، حتى يسير الراكب من المدينة إلى حضرموت، لا يخاف إلا الله عز وجل، والذئب على غنمه، ولكنكم تستعجلون" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَيْسٌ ، عَنْ خَبَّابٍ ، قَالَ: شَكَوْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ بُرْدَةً فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَقُلْنَا: أَلَا تَسْتَنْصِرُ لَنَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ أَلَا، يَعْنِي: تَسْتَنْصِرُ لَنَا؟ فَقَالَ: " قَدْ كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ يُؤْخَذُ، فَيُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ، فَيُجَاءُ بِالْمِيشَارِ، فَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ، فَيُجْعَلُ بِنِصْفَيْنِ، فَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَيُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيدِ، مَا دُونَ عَظْمِهِ مِنْ لَحْمٍ، أَوْ عَصَبٍ، فَمَا يَصُدُّهُ ذَلِكَ عَنْ دِينِهِ، وَاللَّهِ لَيُتِمَّنَّ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ، حَتَّى يَسِيرَ الرَّاكِبُ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى حَضْرَمَوْتَ، لَا يَخَافُ إِلَّا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَالذِّئْبَ عَلَى غَنَمِهِ، وَلَكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُونَ" .
حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ سے ہمارے لئے دعا کیجئے اور مدد مانگیے، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو گیا اور فرمایا: ”تم سے پہلے لوگوں کے لئے دین قبول کرنے کی پاداش میں گڑھے کھودے جاتے تھے اور آرے لے کر سر پر رکھے جاتے اور ان سے سر کو چیر دیا جاتا تھا، لیکن یہ چیز بھی انہیں ان کے دن سے برگشتہ نہیں کرتی تھی، اسی طرح لوہے کی کنگھیاں لے کر جسم کی ہڈیوں کے پیچھے گوشت، پٹھوں میں گاڑی جاتی تھیں لیکن یہ تکلیف بھی انہیں ان کے دین سے برگشتہ نہیں کرتی تھی اور اللہ تعالیٰ اس دین کو پورا کر کے رہے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء اور حضر موت کے درمیان سفر کرے گا جس میں اسے صرف اللہ کا خوف ہو گا یا بکری پر بھیڑیے کے حملے کا، لیکن تم لوگ جلد باز ہو۔
حدثنا روح ، قال: حدثنا ابو يونس القشيري ، عن سماك بن حرب ، عن عبد الله بن خباب بن الارت ، قال: حدثني ابي خباب بن الارت ، قال: إنا لقعود على باب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ننتظر ان يخرج لصلاة الظهر، إذ خرج علينا، فقال:" اسمعوا"، فقلنا: سمعنا، ثم قال:" اسمعوا"، فقلنا: سمعنا، فقال: " إنه سيكون عليكم امراء، فلا تعينوهم على ظلمهم، ولا تصدقوهم بكذبهم، فإن من اعانهم على ظلمهم، وصدقهم بكذبهم، فلن يرد علي الحوض" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو يُونُسَ الْقُشَيْرِيُّ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي خَبَّابُ بْنُ الْأَرَتِّ ، قَالَ: إِنَّا لَقُعُودٌ عَلَى بَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَنْتَظِرُ أَنْ يَخْرُجَ لِصَلَاةِ الظُّهْرِ، إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَقَالَ:" اسْمَعُوا"، فَقُلْنَا: سَمِعْنَا، ثُمَّ قَالَ:" اسْمَعُوا"، فَقُلْنَا: سَمِعْنَا، فَقَالَ: " إِنَّهُ سَيَكُونُ عَلَيْكُمْ أُمَرَاءُ، فَلَا تُعِينُوهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، وَلَا تُصَدِّقُوهُمْ بِكَذِبِهِمْ، فَإِنَّ مَنْ أَعَانَهُمْ عَلَى ظُلْمِهِمْ، وَصَدَّقَهُمْ بِكَذِبِهِمْ، فَلَنْ يَرِدَ عَلَيَّ الْحَوْضَ" .
حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھے نماز ظہر کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے باہر آنے کا انتظار کر رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو فرمایا: ”میری بات سنو“، صحابہ رضی اللہ عنہم نے لبیک کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”میری بات سنو“، صحابہ رضی اللہ عنہم نے پھر حسب سابق جواب دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تم پر کچھ حکمران آئیں گے، تم ظلم پر ان کی مدد نہ کرنا اور جو شخص ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا وہ میرے پاس حوض کوثر پر ہرگز نہیں آ سکے گا۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع ، سماك بن حرب لم يسمع من عبدالله بن خباب
حدثنا يحيى بن آدم ، قال: حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة بن مضرب ، قال: دخلت على خباب وقد اكتوى سبعا، فقال: لولا اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " لا يتمن احدكم الموت" , لتمنيته، ولقد رايتني مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لا املك درهما، وإن في جانب بيتي الآن لاربعين الف درهم، قال: ثم اتي بكفنه، فلما رآه، بكى، وقال: لكن حمزة لم يوجد له كفن إلا بردة ملحاء، إذا جعلت على راسه، قلصت عن قدميه، وإذا جعلت على قدميه قلصت عن راسه، حتى مدت على راسه، وجعل على قدميه الإذخر .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى خَبَّابٍ وَقَدْ اكْتَوَى سَبْعًا، فَقَالَ: لَوْلَا أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " لَا يَتَمَنَّ أَحَدُكُمْ الْمَوْتَ" , لَتَمَنَّيْتُهُ، وَلَقَدْ رَأَيْتُنِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا أَمْلِكُ دِرْهَمًا، وَإِنَّ فِي جَانِبِ بَيْتِي الْآنَ لَأَرْبَعِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، قَالَ: ثُمَّ أُتِيَ بِكَفَنِهِ، فَلَمَّا رَآهُ، بَكَى، وَقَالَ: لَكِنَّ حَمْزَةَ لَمْ يُوجَدْ لَهُ كَفَنٌ إِلَّا بُرْدَةٌ مَلْحَاءُ، إِذَا جُعِلَتْ عَلَى رَأْسِهِ، قَلَصَتْ عَنْ قَدَمَيْهِ، وَإِذَا جُعِلَتْ عَلَى قَدَمَيْهِ قَلَصَتْ عَنْ رَأْسِهِ، حَتَّى مُدَّتْ عَلَى رَأْسِهِ، وَجُعِلَ عَلَى قَدَمَيْهِ الْإِذْخِرُ .
حارثہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کے لئے حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ تم میں سے کوئی شخص موت کی تمنا نہ کرے، تو میں ضرور اس کی تمنا کر لیتا اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمراہ وہ وقت بھی دیکھا ہے، جب میرے پاس ایک درہم نہیں ہوتا تھا اور اس وقت میرے گھر کے کونے میں چالیس ہزار درہم پڑے ہیں، پھر ان کے پاس کفن کا کپڑا لایا گیا، تو وہ اسے دیکھ کر رونے لگے اور فرمایا: لیکن حمزہ کو کفن نہیں مل سکا، سوائے اس کے کہ ایک منقش چادر تھی، جسے اگر ان کے سر پر ڈالا جاتا تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں پر ڈالا جاتا تو سر کھل جاتا، بالآخر اسے ان کے سر پر ڈال دیا گیا اور ان کے پاؤں پر اذخر نامی گھاس ڈال دی گئی۔
حدثنا حماد بن مسعدة ، قال: حدثنا ابن جريج ، عن ابي الزبير ، عن عمر بن نبهان ، عن ابي ثعلبة الاشجعي ، قال: قلت: مات لي يا رسول الله ولدان في الإسلام، فقال: " من مات له ولدان في الإسلام، ادخله الله عز وجل الجنة بفضل رحمته إياهما"، قال: فلما كان بعد ذلك، لقيني ابو هريرة، قال: فقال: انت الذي قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم في الولدين ما قال؟ قلت: نعم، قال: فقال: لئن قاله لي، احب إلي مما غلقت عليه حمص وفلسطين .حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نَبْهَانَ ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: قُلْتُ: مَاتَ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَدَانِ فِي الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: " مَنْ مَاتَ لَهُ وَلَدَانِ فِي الْإِسْلَامِ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْجَنَّةَ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ إِيَّاهُمَا"، قَالَ: فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، لَقِيَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: فَقَالَ: أَنْتَ الَّذِي قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْوَلَدَيْنِ مَا قَالَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَقَالَ: لَئِنْ قَالَهُ لِي، أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا غُلِّقَتْ عَلَيْهِ حِمْصُ وَفِلَسْطِينُ .
حضرت ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! زمانہ اسلام میں میرے دو بچے فت ہو گئے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ مسلمان آدمی جس کے دو نابالغ بچے فوت ہو گئے ہوں، اللہ ان بچوں کے ماں باپ کو اپنے فضل و کرم سے جنت میں داخلہ عطا فرمائے گا“، کچھ عرصے بعد مجھے حضرت ابوہریر رضی اللہ عنہ ہ ملے اور کہنے لگے کہ کیا آپ ہی وہ ہیں جن سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بچوں کے متعلق کچھ فرمایا تھا؟ میں نے کہا: جی ہاں، وہ کہنے لگے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات مجھ سے فرمائی ہوتی تو میری نظروں میں حمص اور فلسطین کی چیزوں سے بھی بہتر ہوتی۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن سفيان ، عن منصور ، عن ربعي ، عن طارق بن عبد الله المحاربي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا صليت , فلا تبصق عن يمينك، ولا بين يديك، وابصق خلفك، وعن شمالك إن كان فارغا، وإلا فهكذا"، وذلك تحت قدمه ، ولم يقل وكيع , ولا عبد الرزاق:" وابصق خلفك"، وقالا: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُحَارِبِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَلَّيْتَ , فَلَا تَبْصُقْ عَنْ يَمِينِكَ، وَلَا بَيْنَ يَدَيْكَ، وَابْصُقْ خَلْفَكَ، وَعَنْ شِمَالِكَ إِنْ كَانَ فَارِغًا، وَإِلَّا فَهَكَذَا"، وَذَلِكَ تَحْتَ قَدَمِهِ ، وَلَمْ يَقُلْ وَكِيعٌ , وَلَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ:" وَابْصُقْ خَلْفَكَ"، وَقَالَا: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت طارق بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم نماز پڑھا کرو تو اپنی دائیں جانب یا سامنے تھوک نہ پھینکا کرو، بلکہ اگر جگہ ہو تو پیچھے یا بائیں جانب تھوک لیا کرو، ورنہ اس طرح کر لیا کرو، یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں کے نیچے تھوک کر اسے مٹی میں مل دیا۔“
حدثنا محمد بن جعفر ، قال: حدثنا شعبة ، عن منصور ، قال: سمعت ربعي بن حراش ، عن طارق بن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه، قال: " إذا صليت، فلا تبصق بين يديك، ولا عن يمينك، ولكن ابصق تلقاء شمالك إن كان فارغا، وإلا فتحت قدميك وادلكه" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِيَّ بْنَ حِرَاشٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ، قَالَ: " إِذَا صَلَّيْتَ، فَلَا تَبْصُقْ بَيْنَ يَدَيْكَ، وَلَا عَنْ يَمِينِكَ، وَلَكِنْ ابْصُقْ تِلْقَاءَ شِمَالِكَ إِنْ كَانَ فَارِغًا، وَإِلَّا فَتَحْتَ قَدَمَيْكَ وَادْلُكْهُ" .
حضرت طارق بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم نماز پڑھا کرو، تو اپنی دائیں جانب یا سامنے تھوک نہ پھینکا کرو، بلکہ اگر جگہ ہو تو پیچھے یا بائیں جانب تھوک لیا کرو ورنہ اس طرح کر لیا کرو یہ کہہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں کے نیچے تھوک کر اسے مٹی میں مل دیا۔“