حدثنا علي بن ثابت , حدثني هشام بن سعد , عن حاتم بن ابي نصر , عن عبادة بن نسي , قال: كان رجل بالشام يقال له: معدان , كان ابو الدرداء يقرئه القرآن , ففقده ابو الدرداء , فلقيه يوما وهو بدابق , فقال له ابو الدرداء : يا معدان , ما فعل القرآن الذي كان معك؟ كيف انت والقرآن اليوم؟ قال: قد علم الله منه فاحسن , قال: يا معدان , افي مدينة تسكن اليوم او في قرية؟ قال: لا , بل في قرية قريبة من المدينة , قال: مهلا , ويحك يا معدان , فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: " ما من خمسة اهل ابيات لا يؤذن فيهم بالصلاة , وتقام فيهم الصلوات , إلا استحوذ عليهم الشيطان , وإن الذئب ياخذ الشاذة" , فعليك بالمدائن , ويحك يا معدان" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ , حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ , عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ , قَالَ: كَانَ رَجُلٌ بِالشَّامِ يُقَالُ لَهُ: مَعْدَانُ , كَانَ أَبُو الدَّرْدَاءِ يُقْرِئُهُ الْقُرْآنَ , فَفَقَدَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَلَقِيَهُ يَوْمًا وَهُوَ بِدَابِقٍ , فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ : يَا مَعْدَانُ , مَا فَعَلَ الْقُرْآنُ الَّذِي كَانَ مَعَكَ؟ كَيْفَ أَنْتَ وَالْقُرْآنُ الْيَوْمَ؟ قَالَ: قَدْ عَلِمَ اللَّهُ مِنْهُ فَأَحْسَنَ , قَالَ: يَا مَعْدَانُ , أَفِي مَدِينَةٍ تَسْكُنُ الْيَوْمَ أَوْ فِي قَرْيَةٍ؟ قَالَ: لَا , بَلْ فِي قَرْيَةٍ قَرِيبَةٍ مِنَ الْمَدِينَةِ , قَالَ: مَهْلًا , وَيْحَكَ يَا مَعْدَانُ , فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ: " مَا مِنْ خَمْسَةِ أَهْلِ أَبْيَاتٍ لَا يُؤَذَّنُ فِيهِمْ بِالصَّلَاةِ , وَتُقَامُ فِيهِمْ الصَّلَوَاتُ , إِلَّا اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمْ الشَّيْطَانُ , وَإِنَّ الذِّئْبَ يَأْخُذُ الشَّاذَّةَ" , فَعَلَيْكَ بِالْمَدَائِنِ , وَيْحَكَ يَا مَعْدَانُ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ معدان کو قرآن پڑھاتے تھے، کچھ عرصے تک وہ غائب رہا، ایک دن " دابق " میں وہ انہیں ملا تو انہوں نے پوچھا معدان! اس قرآن کا کیا بنا جو تمہارے پاس تھا؟ تم اور قرآن آج کیسے ہو؟ اس نے کہا اللہ جانتا ہے اور خوب اچھی طرح، انہوں نے معدان بن ابی طلحہ سے پوچھا کہ تمہاری رہائش کہاں ہے؟ میں نے بتایا کہ حمص سے پیچھے ایک بستی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس بستی میں تین آدمی ہوں اور وہاں اذان اور اقامت ِ نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان غالب آجاتا ہے، لہذا تم جماعت ِ مسلمین کو اپنے اوپر لازم پکڑو کیونکہ اکیلی بکری کو بھڑیا کھا جاتا ہے، ارے معدان! مدائن شہر کو لازم پکڑو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حاتم بن أبى نصر، ولضعف هشام بن سعد
معدان بن ابی طلحہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری رہائش کہاں ہے؟ میں نے بتایا کہ حمص سے پیچھے ایک بستی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس بستی میں تین آدمی ہوں اور وہاں اذان اور اقامت ِ نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان غالب آجاتا ہے، لہذا تم جماعت ِ مسلمین کو اپنے اوپر لازم پکڑو کیونکہ اکیلی بکری کو بھڑیا کھا جاتا ہے، ارے معدان! مدائن شہر کو لازم پکڑو۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن الحكم قال: سمعت ابا عمر الصيني , عن ابي الدرداء , انه إذا كان نزل به ضيف , قال: يقول له ابو الدرداء: مقيم فنسرح, او ظاعن فنعلف؟ قال: فإن قال له , ظاعن , قال له , ما اجد لك شيئا خيرا من شيء امرنا به رسول الله صلى الله عليه وسلم , قلنا: يا رسول الله , ذهب الاغنياء بالاجر , يحجون ولا نحج , ويجاهدون ولا نجاهد , وكذا وكذا , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الا ادلكم على شيء إن اخذتم به , جئتم من افضل ما يجيء به احد منهم: ان تكبروا الله اربعا وثلاثين , وتسبحوه ثلاثا وثلاثين , وتحمدوه ثلاثا وثلاثين , في دبر كل صلاة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنِ الْحَكَمِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُمَرَ الصِّينِيَّ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , أَنَّهُ إِذَا كَانَ نَزَلَ بِهِ ضَيْفٌ , قَالَ: يَقُولُ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ: مُقِيمٌ فَنُسْرحُ, أَوْ ظَاعِنٌ فَنَعْلِفُ؟ قَالَ: فَإِنْ قَالَ لَهُ , ظَاعِنٌ , قَالَ لَهُ , مَا أَجِدُ لَكَ شَيْئًا خَيْرًا مِنْ شَيْءٍ أَمَرَنَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ذَهَبَ الْأَغْنِيَاءُ بِالْأَجْرِ , يَحُجُّونَ وَلَا نَحُجُّ , وَيُجَاهِدُونَ وَلَا نُجَاهِدُ , وَكَذَا وَكَذَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ , جِئْتُمْ مِنْ أَفْضَلِ مَا يَجِيءُ بِهِ أَحَدٌ مِنْهُمْ: أَنْ تُكَبِّرُوا اللَّهَ أَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ , وَتُسَبِّحُوهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ , وَتَحْمَدُوهُ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ , فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا، انہوں نے پوچھا کہ تم مقیم ہو کہ ہم تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں یا مسافر ہو کہ تمہیں زاد راہ دیں؟ اس نے کہا مسافر ہوں، انہوں نے فرمایا تمہیں ایک ایسی چیز زاد راہ کے طور پر دیتا ہوں جس سے افضل اگر کوئی چیز مجھے ملتی تمہیں وہی دیتا، ایک مرتبہ میں نبی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مالدار دنیا اور آخرت دونوں لے گئے، ہم بھی نماز پڑھتے ہیں اور وہ بھی پڑھتے ہیں، ہم بھی روزے رکھتے ہیں وہ بھی رکھتے ہیں البتہ وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم صدقہ نہیں کرسکتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تم سے پہلے والا کوئی تم سے آگے نہ بڑھ سکے اور پیچھے والا تمہیں نہ پا سکے، الاً یہ کہ کوئی آدمی تمہاری ہی طرح عمل کرنے لگے، ہر نماز کے بعد ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ، ٣٣ مرتبہ الحمد اللہ اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال أبى عمر الصيني
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص سورت کہف کی آخری دس آیات یاد کرلے وہ دجال کے فتنے سے مخفوظ رہے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 809، لكن شذ فيه شعبة، فقال: "من أواخر سورة الكهف"
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میزان عمل میں سب سے افضل اور بھاری چیز اخلاق ہوں گے۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن يزيد بن خمير , قال: سمعت عبد الرحمن بن جبير بن نفير , يحدث , عن ابيه , عن ابي الدرداء , عن النبي صلى الله عليه وسلم , انه مر بامراة مجح على باب فسطاط , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لعله يريد ان يلم بها؟" , فقالوا: نعم , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لقد هممت ان العنه لعنا يدخل معه قبره , كيف يورثه وهو لا يحل له؟ كيف يستخدمه وهو لا يحل له؟" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ , قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ , يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ مَرَّ بِامْرَأَةٍ مُجِحٍّ عَلَى بَابِ فُسْطَاطٍ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَلَّهُ يُرِيدُ أَنْ يُلِمَّ بِهَا؟" , فَقَالُوا: نَعَمْ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَلْعَنَهُ لَعْنًا يَدْخُلُ مَعَهُ قَبْرَهُ , كَيْفَ يُوَرِّثُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟ كَيْفَ يَسْتَخْدِمُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خیمے کے باہر ایک عورت کو دیکھا جس کے یہاں بچے کی پیدائش کا زمانہ قریب آچکا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لگتا ہے کہ اس کا مالک اس کے " قریب " جانا چاہتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا دل چاہتا ہے کہ اس پر ایسی لعنت کروں جو اس کے ساتھ اس کی قبر تک جائے، یہ اسے کیسے اپنا وارث بنا سکتا ہے جب کہ یہ اس کے لئے حلال ہی نہیں اور کیسے اس سے خدمت لے سکتا ہے جبکہ یہ اس کے لئے حلال ہی نہیں۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن سليمان , عن ذكوان , عن عطاء بن يسار , عن شيخ , عن ابي الدرداء : انه سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن هذه الآية: الذين آمنوا وكانوا يتقون لهم البشرى في الحياة الدنيا سورة يونس آية 63 - 64 , قال: " الرؤيا الصالحة يراها المسلم , او ترى له" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ سُلَيْمَانَ , عَنْ ذَكْوَانَ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ شَيْخٍ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ : أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا سورة يونس آية 63 - 64 , قَالَ: " الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ يَرَاهَا الْمُسْلِمُ , أَوْ تُرَى لَهُ" .
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآنی لھم البشری فی الحیاۃ الدنیا میں بشری کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس سے مراد اچھے خواب ہیں جو کوئی مسلمان دیکھے یا اس کے حق میں کوئی دوسرا دیکھے۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن أبى الدرداء
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ تم ایک رات میں تہائی قرآن پڑھنے سے عاجز ہو؟ صحابہ کرام یہ بات بہت مشکل معلوم ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ اس کی طاقت کس کے پاس ہوگی؟ ہم بہت کمزور اور عاجز ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے تین حصے کئے ہیں اور سورت اخلاص کو ان میں سے ایک جزو قرار دیا ہے۔ گذشہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔