حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ظہر سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد بھی چار رکعتیں پڑھ لے اللہ اس کے گوشت کو جہنم پر حرام کر دے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن المهاجر
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کپڑوں میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے، جن میں آپ کے ساتھ سوتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں! بشرطیکہ اس پر کوئی گندگی نظر نہ آتی۔
ابن سعید بن مغیرہ ایک مرتبہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو انہوں نے ایک پیالے میں ستو بھر کر انہیں پلائے، پھر ابن سعید نے پانی لے کر صرف کلی کر لی، تو حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: بھتیجے! تم وضو کیوں نہیں کرتے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد وضو کیا کرو۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين
حدثنا حسن , قال: حدثنا ابن لهيعة , قال: حدثنا دراج , عن عمر بن الحكم انه حدثه , عن ام حبيبة بنت ابي سفيان , ان اناسا من اهل اليمن قدموا على رسول الله صلى الله عليه وسلم , فاعلمهم الصلاة والسنن والفرائض , ثم قالوا: يا رسول الله , إن لنا شرابا نصنعه من القمح والشعير , قال: فقال: " الغبيراء؟" , قالوا: نعم , قال:" لا تطعموه" , ثم لما كان بعد ذلك بيومين , ذكروهما له ايضا , فقال:" الغبيراء" , قالوا: نعم , قال:" لا تطعموه" , ثم لما ارادوا ان ينطلقوا , سالوه عنه , فقال:" الغبيراء؟" , قالوا: نعم , قال:" لا تطعموه" , قالوا: فإنهم لا يدعونها , قال:" من لم يتركها , فاضربوا عنقه" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا دَرَّاجٌ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْحَكَمِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ , عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ , أَنَّ أُنَاسًا مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ قَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَعْلَمَهُمْ الصَّلَاةَ وَالسُّنَنَ وَالْفَرَائِضَ , ثُمَّ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ لَنَا شَرَابًا نَصْنَعُهُ مِنَ الْقَمْحِ وَالشَّعِيرِ , قَالَ: فَقَالَ: " الْغُبَيْرَاءُ؟" , قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ:" لَا تَطْعَمُوهُ" , ثُمَّ لَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ بِيَوْمَيْنِ , ذَكَرُوهُمَا لَهُ أَيْضًا , فَقَالَ:" الْغُبَيْرَاءُ" , قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ:" لَا تَطْعَمُوهُ" , ثُمَّ لَمَّا أَرَادُوا أَنْ يَنْطَلِقُوا , سَأَلُوهُ عَنْهُ , فَقَالَ:" الْغُبَيْرَاءُ؟" , قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ:" لَا تَطْعَمُوهُ" , قَالُوا: فَإِنَّهُمْ لَا يَدَعُونَهَا , قَالَ:" مَنْ لَمْ يَتْرُكْهَا , فَاضْرِبُوا عُنُقَهُ" .
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ یمن کے کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز کا طریقہ، سنتیں اور فرائض سکھائے پھر وہ لوگ کہنے لگے: یا رسول اللہ! ہم لوگ گیہوں اور جَو کا مشروب بناتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہی جس کا نام «غبيراء» رکھا گیا ہے؟“ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے مت پیو“، دو دن بعد انہوں نے پھر اسی چیز کا ذکر کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: ”وہی جس کا نام «غبيراء» ہے؟“ تین مرتبہ یہی سوال جواب ہوئے اور واپس روانہ ہوتے ہوئے بھی یہی سوال جواب ہوئے، لوگوں نے عرض کیا کہ اہل یمن اسے نہیں چھوڑیں گے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اسے نہ چھوڑے اس کی گردن اڑا دو۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف دراج وأبن لهيعة، وقد توبع
حدثنا إبراهيم بن إسحاق , حدثنا عبد الله بن المبارك , عن معمر . وعلي بن إسحاق , انبانا عبد الله , اخبرنا معمر , عن الزهري , عن عروة , عن ام حبيبة , انها كانت تحت عبيد الله بن جحش وكان اتى النجاشي , وقال علي بن إسحاق: وكان رحل إلى النجاشي فمات , وان رسول الله صلى الله عليه وسلم " تزوج ام حبيبة , وإنها بارض الحبشة , زوجها إياه النجاشي , ومهرها اربعة آلاف , ثم جهزها من عنده , وبعث بها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم مع شرحبيل بن حسنة , وجهازها كله من عند النجاشي , ولم يرسل إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم بشيء , وكان مهور ازواج النبي صلى الله عليه وسلم اربع مائة درهم" .حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْحَاقَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , عَنْ مَعْمَرٍ . وَعَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ , أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ , أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ جَحْشٍ وَكَانَ أَتَى النَّجَاشِيَّ , وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ: وَكَانَ رَحَلَ إِلَى النَّجَاشِيِّ فَمَاتَ , وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَزَوَّجَ أُمَّ حَبِيبَةَ , وَإِنَّهَا بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ , زَوَّجَهَا إِيَّاهُ النَّجَاشِيُّ , وَمَهَرَهَا أَرْبَعَةَ آلَافٍ , ثُمَّ جَهَّزَهَا مِنْ عِنْدِهِ , وَبَعَثَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ شُرَحْبِيلَ بْنِ حَسَنَةَ , وَجِهَازُهَا كُلُّهُ مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ , وَلَمْ يُرْسِلْ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ , وَكَانَ مُهُورُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ مِائَةِ دِرْهَمٍ" .
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ وہ عبیداللہ بن جحش کے نکاح میں تھیں، ایک مرتبہ عبیداللہ نجاشی کے یہاں گئے اور وہیں فوت ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا، اس وقت وہ ملک حبش میں ہی تھیں، نجاشی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وکیل بن کر ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح کرا دیا اور انہیں چار ہزار درہم مہر کے دئیے اور انہیں اپنے یہاں سے رخصت کر دیا اور حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روانہ کر دیا، یہ سب تیاریاں نجاشی کے یہاں ہوئی تھیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس کچھ نہیں بھیجا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے مہر چار سو درہم رہے ہیں۔
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وقد اختلف فى اسناد على الزهري
حدثنا ابو اليمان , اخبرنا شعيب بن ابي حمزة , فذكر هذا الحديث , يتلو احاديث ابن ابي حسين , وقال: انا انس بن مالك , عن ام حبيبة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , انه قال: " رايت ما تلقى امتي بعدي , وسفك بعضهم دماء بعض , وسبق ذلك من الله تعالى , كما سبق في الامم قبلهم , فسالته ان يوليني شفاعة يوم القيامة فيهم , ففعل" , قال عبد الله: قلت لابي: هاهنا قوم يحدثون به , عن ابي اليمان , عن شعيب , عن الزهري؟ قال ليس هذا من حديث الزهري , إنما هو من حديث ابن ابي حسين.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ , فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ , يَتْلُو أَحَادِيثَ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ , وَقَالَ: أَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ , عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ قَالَ: " رَأَيْتُ مَا تَلْقَى أُمَّتِي بَعْدِي , وَسَفْكَ بَعْضِهِمْ دِمَاءَ بَعْضٍ , وَسَبَقَ ذَلِكَ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى , كَمَا سَبَقَ فِي الْأُمَمِ قبلهم , فَسَأَلْتُهُ أَنْ يُوَلِّيَنِي شَفَاعَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيهِمْ , فَفَعَلَ" , قَالَ عَبْد اللَّهِ: قُلْتُ لِأَبِي: هَاهُنَا قَوْمٌ يُحَدِّثُونَ بِهِ , عَنْ أَبِي الْيَمَانِ , عَنْ شُعَيْبٍ , عَنْ الزُّهْرِيِّ؟ قَالَ لَيْسَ هَذَا مِنْ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ , إِنَّمَا هُوَ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ.
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے وہ تمام چیزیں دیکھیں جن سے میری امت میرے بعد دو چار ہو گی اور ایک دوسرے کا خون بہائے گی اور اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ پہلے سے فرما رکھا ہے جیسے پہلی امتوں کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا گیا تھا، میں نے اپنے پروردگار سے درخواست کی کہ قیامت کے دن ان کی شفاعت کا مجھے حق دے دے، چنانچہ پروردگار نے ایسا ہی کیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، هذا الحديث ليس محفوظا من حديث الزهري، وأن الصواب فيه أنه من حديث ابن أبى حسين
حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص ایک دن میں فرائض کے علاوہ بارہ رکعتیں (نوافل) پڑھ لے اللہ اس کا گھر جنت میں بنا دے گا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه، أبو صالح لم يسمعه من أم حبيبة
حدثنا يعقوب , حدثنا ابن اخي ابن شهاب , عن عمه , قال: اخبرني عروة بن الزبير , ان زينب بنت ابي سلمة اخبرته , ان ام حبيبة زوج النبي صلى الله عليه وسلم اخبرتها , انها قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم , يا رسول الله , انكح اختي ابنة ابي سفيان , فزعمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال لها:" اوتحبين ذلك؟" , قالت: نعم , يا رسول الله , لست لك بمخلية , واحب من شركني في خير اختي , قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن ذلك لا يحل لي" , فقلت: فوالله يا رسول الله , إنا لنتحدث انك تريد ان تنكح درة بنت ابي سلمة , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابنة ام سلمة؟" , قالت: نعم , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وايم الله إنها لو لم تكن ربيبتي في حجري ما حلت لي , إنها ابنة اخي من الرضاعة , وارضعتني وابا سلمة ثويبة , فلا تعرضن علي بناتكن ولا اخواتكن" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عَمِّهِ , قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , أَنَّ زَيْنَبَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ أَخْبَرَتْهُ , أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهَا , أَنَّهَا قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَا رَسُولَ اللَّهِ , انْكِحْ أُخْتِي ابْنَةَ أَبِي سُفْيَانَ , فَزَعَمَتْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ لَهَا:" أَوَتُحِبِّينَ ذَلِكَ؟" , قَالَتْ: نَعَمْ , يَا رَسُولَ اللَّهِ , لَسْتُ لَكَ بِمُخْلِيَةٍ , وَأَحَبُّ مَنْ شَرِكَنِي فِي خَيْرٍ أُخْتِي , قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ ذَلِكَ لَا يَحِلُّ لِي" , فَقُلْتُ: فَوَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا لَنَتَحَدَّثُ أَنَّكَ تُرِيدُ أَنْ تَنْكِحَ دُرَّةَ بِنْتَ أَبِي سَلَمَةَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ابْنَةَ أُمِّ سَلَمَةَ؟" , قَالَتْ: نَعَمْ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَايْمُ اللَّهِ إِنَّهَا لَوْ لَمْ تَكُنْ رَبِيبَتِي فِي حِجْرِي مَا حَلَّتْ لِي , إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ , وَأَرْضَعَتْنِي وَأَبَا سَلَمَةَ ثُوَيْبَةُ , فَلَا تَعْرِضْنَ عَلَيَّ بَنَاتِكُنَّ وَلَا أَخَوَاتِكُنَّ" .
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ کو میری بہن میں کوئی دلچسپی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا مطلب؟“ انہوں نے عرض کیا کہ آپ اس سے نکاح کر لیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تمہیں یہ بات پسند ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! میں آپ کی اکیلی بیوی تو ہوں نہیں، اس لئے خیر میں میرے ساتھ جو لوگ شریک ہو سکتے ہیں، میرے نزدیک ان میں سے میری بہن سب سے زیادہ حقدار ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لئے وہ حلال نہیں ہے (کیونکہ تم میرے نکاح میں ہو)“، انہوں نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ درہ بنت ام سلمہ کے لئے پیغام نکاح بھیجنے والے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ میرے لئے حلال ہوتی تب بھی میں اس سے نکاح نہ کرتا کیونکہ مجھے اور اس کے باپ (ابو سلمہ) کو بنو ہاشم کی آزاد کردہ باندی ثوبیہ نے دودھ پلایا تھا، بہرحال! تم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو میرے سامنے پیش نہ کیا کرو۔“