حضرت ام کرز رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے عقیقہ کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: تو انہوں نے فرمایا: ”لڑکے کی طرف سے عقیقہ میں دو بکریاں کی جائیں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جانور مذکر ہو یا مونث۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد اختلف فيه على ابن جريج، والصحيح عن ابن جريج بحذف محمد بن ثابت
حدثنا محمد بن عبيد الله , قال: حدثنا محمد بن إسحاق , عن رجل من الانصار , عن امه سلمى بنت قيس , قالت: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في نسوة من الانصار , قالت: كان فيما اخذ علينا: ان لا تغشن ازواجكن , قالت: فلما انصرفنا , قلنا: والله لو سالنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ما غش ازواجنا؟ قالت: فرجعنا فسالناه , قال: " ان تحابين او تهادين بماله غيره" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ , عَنْ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ , عَنْ أُمِّهِ سَلْمَى بِنْتِ قَيْسٍ , قَالَتْ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نِسْوَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ , قَالَتْ: كَانَ فِيمَا أَخَذَ عَلَيْنَا: أَنْ لَا تَغُشَّنَّ أَزْوَاجَكُنَّ , قَالَتْ: فَلَمَّا انْصَرَفْنَا , قُلْنَا: وَاللَّهِ لَوْ سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا غِشُّ أَزْوَاجِنَا؟ قَالَتْ: فَرَجَعْنَا فَسَأَلْنَاهُ , قَالَ: " أَنْ تُحَابِينَ أَوْ تُهَادِينَ بِمَالِهِ غَيْرَهُ" .
حضرت سلمیٰ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے کچھ انصاری عورتوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تو منجملہ شرائط بیعت کے ایک شرط یہ بھی تھی کہ تم اپنے شوہروں کو دھوکہ نہیں دو گی، جب ہم واپس آنے لگے تو خیال آیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی پوچھ لیتے کہ شوہروں کو دھوکہ دینے سے کیا مراد ہے؟ چنانچہ ہم نے پلٹ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھ لیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے شوہر کا مال کسی دوسرے کو ہدیہ کے طور پر دے دینا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، الرجل المبهم من الأنصار هو سليط بن أيوب، وهو مجهول، وأمه لم نقف لها على ترجمة، وقد اختلف فيه على ابن إسحاق
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نو ذی الحجہ، دس محرم اور مہینے کے تین دنوں کا روزہ رکھتے تھے۔
حكم دارالسلام: ضعيف لاضطرابه، والصحيح ما رواه عائشة عند مسلم: كان رسول الله ﷺ يصوم من كل شهر ثلاثة أيام، ولم يكن يبالي من أى أيام الشهر يصوم
حدثنا عبد الصمد , قال: حدثني ابي , قال: حدثنا يحيى بن سعيد , قال: حدثني محمد بن يحيى بن حبان , قال: حدثني انس بن مالك , عن ام حرام بنت ملحان , وهي خالته , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نام او قال في بيتها , فاستيقظ وهو يضحك , فقلت: يا رسول الله , ما يضحكك؟ فقال: " عرض علي ناس من امتي يركبون ظهر هذا البحر الاخضر , كالملوك على الاسرة" , قالت: فقلت: يا رسول الله , ادع الله ان يجعلني منهم , فقال:" إنك منهم" , ثم نام , فاستيقظ وهو يضحك , فقلت: يا رسول الله , ما اضحكك؟ قال:" عرض علي ناس من امتي يركبون ظهر هذا البحر الاخضر , كالملوك على الاسرة" , قالت: فقلت: يا رسول الله , ادع الله ان يجعلني منهم , قال:" انت من الاولين" , قال: فتزوجها عبادة بن الصامت , فاخرجها معه , فلما جاز البحر بها , ركبت دابة , فصرعتها , فقتلتها .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي , قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ , عَنْ أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ , وَهِيَ خَالَتُهُ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَامَ أَوْ قَالَ فِي بَيْتِهَا , فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا يُضْحِكُكَ؟ فَقَالَ: " عُرِضَ عَلَيَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي يَرْكَبُونَ ظَهْرَ هَذَا الْبَحْرِ الْأَخْضَرِ , كَالْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ" , قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ , فَقَالَ:" إِنَّكِ مِنْهُمْ" , ثُمَّ نَامَ , فَاسْتَيْقَظَ وَهُوَ يَضْحَكُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا أَضْحَكَكَ؟ قَالَ:" عُرِضَ عَلَيَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي يَرْكَبُونَ ظَهْرَ هَذَا الْبَحْرِ الْأَخْضَرِ , كَالْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ" , قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ , قَالَ:" أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ" , قَالَ: فَتَزَوَّجَهَا عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ , فَأَخْرَجَهَا مَعَهُ , فَلَمَّا جَازَ الْبَحْرَ بِهَا , رَكِبَتْ دَابَّةً , فَصَرَعَتْهَا , فَقَتَلَتْهَا .
حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں قیولہ فرما رہے تھے کہ اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہو گئے، میں نے عرض کیا کہ میرے باپ آپ پر قربان ہوں آپ کس بناء پر مسکرا رہے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے سامنے میری امت کے کچھ لوگوں کو پیش کیا گیا جو اس سطح سمندر پر اس طرح سوار چلے جا رہے ہیں جیسے بادشاہ تختوں پر براجمان ہوتے ہیں“، میں نے عرض کیا کہ اللہ سے دعا کر دیجیے کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل فرما دے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! انہیں بھی ان میں شامل فرما دے۔“ تھوڑی ہی دیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوبارہ آنکھ لگ گئی اور اس مرتبہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے وہی سوال دہرایا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی مزید کچھ لوگوں کو اس طرح پیش کیے جانے کا تذکرہ فرمایا: میں نے عرض کیا کہ اللہ سے دعا کر دیجیے کہ وہ مجھے بھی ان میں شامل فرما دے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پہلے گروہ میں شامل ہو“، چنانچہ وہ اپنے شوہر حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ہمراہ سمندری جہاد میں شریک ہوئیں اور اپنے ایک سرخ و سفید خچر سے گر کر ان کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گئیں۔
حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں قیلولہ فرما رہے تھے کہ اچانک مسکراتے ہوئے بیدار ہو گئے، پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حدثنا عبد الرحمن , عن مالك , عن ابي النضر , عن ابي مرة مولى عقيل بن ابي طالب , عن ام هانئ , انها ذهبت إلى النبي صلى الله عليه وسلم يوم الفتح , قالت: فوجدته يغتسل , وفاطمة تستره بثوب , فسلمت , وذلك ضحى , فقال:" من هذا؟" , قلت: انا ام هانئ , قلت: يا رسول الله , زعم ابن امي انه قاتل رجلا اجرته , فلان ابن هبيرة , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد اجرنا من اجرت يا ام هانئ" , فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من غسله , قام , فصلى ثمان ركعات ملتحفا في ثوب .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ , عَنْ مَالِكٍ , عَنْ أَبِي النَّضْرِ , عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ , عَنْ أُمِّ هَانِئٍ , أَنَّهَا ذَهَبَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ , قَالَتْ: فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ , وَفَاطِمَةُ تَسْتُرُهُ بِثَوْبٍ , فَسَلَّمْتُ , وَذَلِكَ ضُحًى , فَقَالَ:" مَنْ هَذا؟" , قُلْتُ: أَنَا أُمُ هَانِئٍ , قلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , زَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا أَجَرْتُهُ , فُلَانَ ابْنَ هُبَيْرَةَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ" , فَلَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غُسْلِهِ , قَامَ , فَصَلَّى ثَمَانِ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ .
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن میں نے اپنے دو دیوروں کو ”جو مشرکین میں سے تھے“ پناہ دے دی، اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم گرد و غبار میں اٹے ہوئے ایک لحاف میں لپٹے ہوئے تشریف لائے، مجھے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام ہانی کو خوش آمدید“، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے اپنے دو دیوروں کو ”جو مشرکین میں سے تھے“ پناہ دے دی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں، جسے تم نے امن دیا اسے ہم بھی امن دیتے ہیں۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا، انہوں نے پانی رکھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے غسل فرمایا، پھر ایک کپڑے میں اچھی طرح لپٹ کر آٹھ رکعتیں پڑھیں۔
حدثنا سفيان , عن ابن عجلان , عن سعيد , عن ابي مرة مولى عقيل , عن ام هانئ , قالت: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو باعلى مكة , فلم اجده , ووجدت فاطمة , فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه اثر الغبار , فقلت: يا رسول الله , إني قد اجرت حموين لي , وزعم ابن امي انه قاتلهما , قال: " قد اجرنا من اجرت" , ووضع له غسل في جفنة , فلقد رايت اثر العجين فيها , فتوضا , او قال: اغتسل انا اشك , وصلى الفجر في ثوب مشتملا به .حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ , عَنْ سَعِيدٍ , عَنْ أَبِي مُرَّةَ مَوْلَى عَقِيلٍ , عَنْ أُمِّ هَانِئٍ , قَالَتْ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِأَعْلَى مَكَّةَ , فَلَمْ أَجِدْهُ , وَوَجَدْتُ فَاطِمَةَ , فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ أَثَرُ الْغُبَارِ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي قَدْ أَجَرْتُ حَمْوَيْنِ لِي , وَزَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتِلُهُمَا , قَالَ: " قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ" , وَوُضِعَ لَهُ غُسْلٌ فِي جَفْنَةٍ , فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَثَرَ الْعَجِينِ فِيهَا , فَتَوَضَّأَ , أَوْ قَالَ: اغْتَسَلَ أَنَا أَشُكُّ , وَصَلَّى الْفَجْرَ فِي ثَوْبٍ مُشْتَمِلًا بِهِ .
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن میں نے اپنے دو دیوروں کو ”جو مشرکین میں سے تھے“ پناہ دے دی، اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم گرد و غبار میں اٹے ہوئے ایک لحاف میں لپٹے ہوئے تشریف لائے، مجھے دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام ہانی کو خوش آمدید“، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے اپنے دو دیوروں کو ”جو مشرکین میں سے تھے“ پناہ دے دی ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں، جسے تم نے امن دیا اسے ہم بھی امن دیتے ہیں۔“ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا، انہوں نے پانی رکھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے غسل فرمایا، پھر ایک کپڑے میں اچھی طرح لپٹ کر آٹھ رکعتیں پڑھیں۔