مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 27343
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن زكريا بن ابي زائدة , عن مجالد , عن عامر , عن فاطمة بنت قيس , ان النبي صلى الله عليه وسلم , قال لها في عدتها: " لا تنكحي حتى تعلميني" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ , عَنْ مُجَالِدٍ , عن عَامِرٍ , عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ لَهَا فِي عِدَّتِهَا: " لَا تَنْكِحِي حَتَّى تُعْلِمِينِي" .
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دوران عدت فرمایا کہ مجھے بتائے بغیر شادی نہ کرنا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف مجالد، وقد توبع
حدیث نمبر: 27344
Save to word اعراب
حدثنا عبدة بن سليمان , قال: حدثنا مجالد , عن الشعبي , قال: حدثتني فاطمة بنت قيس , قالت: طلقني زوجي ثلاثا , فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم , فلم يجعل لي سكنى ولا نفقة , وقال: " إنما السكنى والنفقة لمن كان لزوجها عليها رجعة" , وامرها ان تعتد عند ابن ام مكتوم الاعمى .حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ , قَالَتْ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا , فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَلَمْ يَجْعَلْ لِي سُكْنَى وَلَا نَفَقَةً , وَقَالَ: " إِنَّمَا السُّكْنَى وَالنَّفَقَةُ لِمَنْ كَانَ لِزَوْجِهَا عَلَيْهَا رَجْعَةٌ" , وَأَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى .
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے طلاق کا پیغام بھیج دیا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کوئی سکنی اور نفقہ نہیں ملے گا اور تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گزار لو۔ اور فرمایا: رہائش اور نفقہ اسے ملتا ہے جس سے رجوع کیا جاسکتا ہو۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: إنما السكني .. عليها رجعة هذا مدرج من قول مجالد، وهو ضعيف
حدیث نمبر: 27345
Save to word اعراب
حدثنا يزيد بن هارون , قال: حدثنا زكريا , عن عامر , قال: حدثتني فاطمة بنت قيس , قالت: طلقني زوجي ثلاثا , فامرني رسول الله صلى الله عليه وسلم " ان اعتد في بيت ابن ام مكتوم .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا , عَنْ عَامِرٍ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ , قَالَتْ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا , فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ .
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے طلاق کا پیغام بھیج دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گزار لو۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لعنعنة زكريا بن أبى زائدة، وقد توبع
حدیث نمبر: 27346
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن آدم , قال: حدثنا عمار بن رزيق , عن ابي إسحاق يعني السبيعي , عن الشعبي , عن فاطمة بنت قيس , قالت: طلقني زوجي ثلاثا , فاردت النقلة , فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: " انتقلي إلى بيت ابن عمك عمرو ابن ام مكتوم , فاعتدي عنده" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ يَعْنِي السَّبِيعِيَّ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ , قَالَتْ: طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا , فَأَرَدْتُ النُّقْلَةَ , فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: " انْتَقِلِي إِلَى بَيْتِ ابْنِ عَمِّكِ عَمْرِو ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ , فَاعْتَدِّي عِنْدَهُ" .
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مجھے میرے شوہر نے تین طلاق کا پیغام بھیج دیا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا واقعہ ذکر کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گزار لو۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1480
حدیث نمبر: 27347
Save to word اعراب
حدثنا روح , قال: حدثنا ابن جريج , قال: اخبرني ابن شهاب , عن ابي سلمة بن عبد الرحمن , ان فاطمة بنت قيس اخبرته: انها كانت تحت ابي عمرو بن حفص بن المغيرة , فطلقها آخر ثلاث تطليقات , فزعمت انها جاءت إلى النبي صلى الله عليه وسلم , فاستفتته في خروجها من بيتها , " فامرها ان تنتقل إلى بيت ابن ام مكتوم الاعمى" , فابى مروان إلا ان يتهم حديث فاطمة في خروج المطلقة من بيتها , وزعم عروة , قال: قال: فانكرت ذلك عائشة على فاطمة .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , قالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ أَبِي عَمْرِو بْنِ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ , فَطَلَّقَهَا آخِرَ ثَلَاثِ تَطْلِيقَاتٍ , فَزَعَمَتْ أَنَّهَا جَاءَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَاسْتَفْتَتْهُ فِي خُرُوجِهَا مِنْ بَيْتِهَا , " فَأَمَرَهَا أَنْ تَنْتَقِلَ إِلَى بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى" , فَأَبَى مَرْوَانُ إِلَّا أَنْ يَتَّهِمَ حَدِيثَ فَاطِمَةَ فِي خُرُوجِ الْمُطَلَّقَةِ مِنْ بَيْتِهَا , وَزَعَمَ عُرْوَةُ , قَالَ: قَالَ: فَأَنْكَرَتْ ذَلِكَ عَائِشَةُ عَلَى فَاطِمَةَ .
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میرے شوہر ابوعمرو بن حفص بن مغیرہ نے ایک دن مجھے طلاق کا پیغام بھیج دیا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور سارا واقعہ ذکر کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے چچا زاد بھائی ابن ام مکتوم کے گھر میں جا کر عدت گزار لو، مروان اس حدیث سے انکار کرتا تھا اور مطلقہ عورت کو اس کے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں دیتا تھا اور بقول عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اس کا انکار کرتی تھیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1480
حدیث نمبر: 27348
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد , قال: حدثنا مجالد , عن عامر , قال: قدمت المدينة , فاتيت فاطمة بنت قيس , فحدثتني ان زوجها طلقها على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم , فبعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية , فقال لي اخوه: اخرجي من الدار , فقلت: إن لي نفقة وسكنى حتى يحل الاجل , قال: لا , قالت: فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت: إن فلانا طلقني , وإن اخاه اخرجني , ومنعني السكنى والنفقة , فارسل إليه , فقال:" ما لك ولابنة آل قيس" , قال: يا رسول الله , إن اخي طلقها ثلاثا جميعا , قالت: فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" انظري اي بنت آل قيس , إنما النفقة والسكنى للمراة على زوجها ما كانت له عليها رجعة , فإذا لم يكن له عليها رجعة , فلا نفقة ولا سكنى , اخرجي فانزلي على فلانة" , ثم قال:" إنه يتحدث إليها , انزلي عند ابن ام مكتوم , فإنه اعمى , لا يراك" , ثم قال:" لا تنكحي حتى اكون انا انكحك" , قالت: فخطبني رجل من قريش , فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم استامره , فقال:" الا تنكحين من هو احب إلي منه؟" , فقلت: بلى يا رسول الله , فانكحني من احببت , قالت: فانكحني من اسامة بن زيد .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ , عَنْ عَامِرٍ , قَالَ: قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ , فَأَتَيْتُ فَاطِمَةَ بِنْتَ قَيْسٍ , فَحَدَّثَتْنِي أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَبَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ , فَقَالَ لِي أَخُوهُ: اخْرُجِي مِنَ الدَّارِ , فَقُلْتُ: إِنَّ لِي نَفَقَةً وَسُكْنَى حَتَّى يَحِلَّ الْأَجَلُ , قَالَ: لَا , قَالَتْ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: إِنَّ فُلَانًا طَلَّقَنِي , وَإِنَّ أَخَاهُ أَخْرَجَنِي , وَمَنَعَنِي السُّكْنَى وَالنَّفَقَةَ , فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ , فَقَالَ:" مَا لَكَ وَلِابْنَةِ آلِ قَيْسٍ" , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَخِي طَلَّقَهَا ثَلَاثًا جَمِيعًا , قَالَتْ: فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْظُرِي أَيْ بِنْتَ آلِ قَيْسٍ , إِنَّمَا النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى لِلْمَرْأَةِ عَلَى زَوْجِهَا مَا كَانَتْ لَهُ عَلَيْهَا رَجْعَةٌ , فَإِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ عَلَيْهَا رَجْعَةٌ , فَلَا نَفَقَةَ وَلَا سُكْنَى , اخْرُجِي فَانْزِلِي عَلَى فُلَانَةَ" , ثُمَّ قَالَ:" إِنَّهُ يُتَحَدَّثُ إِلَيْهَا , انْزِلِي عِنْدَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ , فَإِنَّهُ أَعْمَى , لَا يَرَاكِ" , ثُمَّ قَالَ:" لَا تَنْكِحِي حَتَّى أَكُونَ أَنَا أُنْكِحُكِ" , قَالَتْ: فَخَطَبَنِي رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ , فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْتَأْمِرُهُ , فَقَالَ:" أَلَا تَنْكِحِينَ مَنْ هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ؟" , فَقُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَأَنْكِحْنِي مَنْ أَحْبَبْتَ , قَالَتْ: فَأَنْكَحَنِي مِنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ .
امام عامر شعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوا اور حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے یہاں گیا تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ان کے شوہر نے انہیں طلاق دے دی، اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک دستہ کے ساتھ روانہ فرما دیا، تو مجھ سے اس کے بھائی نے کہا کہ تم اس گھر سے نکل جاؤ، میں نے اس سے پوچھا کہ کیا عدت ختم ہونے تک مجھے نفقہ اور رہائش ملے گی؟ اس نے کہا: نہیں، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئی اور عرض کیا کہ فلاں شخص نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اس کا بھائی مجھے گھر سے نکال رہا ہے اور نفقہ اور سکنی بھی نہیں دے رہا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پیغام بھیج کر اسے بلایا اور فرمایا: بنت آل قیس کے ساتھ تمہارا کیا جھگڑا ہے؟ اس نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے بھائی نے اسے اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہیں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بنت آل قیس! دیکھو، شوہر کے ذمے اس بیوی کا نفقہ اور سکنی واجب ہوتا ہے جس سے ہو رجوع کر سکتا ہو اور جب اس کے پاس رجوع کی گنجائش نہ ہو تو عورت کو نفقہ اور سکنی نہیں ملتا، اس لئے تم اس گھر سے فلاں عورت کے گھر منتقل ہو جاؤ، پھر فرمایا: اس کے یہاں لوگ جمع ہو کر باتیں کرتے ہیں اس لئے تم ابن ام مکتوم کے یہاں چلی جاؤ، کیونکہ وہ نابینا ہیں اور تمہیں دیکھ نہیں سکیں گے اور تم آئندہ نکاح خود سے نہ کرنا بلکہ میں خود تمہارا نکاح کروں گا، اسی دوران مجھے قریش کے ایک آدمی نے پیغام بھیجا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مشورہ کرنے حاضر ہوئی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس شخص سے نکاح نہیں کر لیتیں جو مجھے اس سے زیادہ محبوب ہے؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں، یا رسول اللہ! آپ جس سے چاہیں میرا نکاح کرا دیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حضرت اسامہ بن زید کے نکاح میں دے دیا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: إنما النفقة والسكني .. عليه رجعة هذا مدرج من قول مجالد، وهو ضعيف
حدیث نمبر: 27349
Save to word اعراب
قال: فلما اردت ان اخرج , قالت: اجلس حتى احدثك حديثا , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: قال: فلما اردت ان اخرج , قالت: اجلس حتى احدثك حديثا , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما من الايام فصلى صلاة الهاجرة , ثم قعد , ففزع الناس , فقال: " اجلسوا ايها الناس , فإني لم اقم مقامي هذا لفزع , ولكن تميما الداري اتاني , فاخبرني خبرا منعني من القيلولة , من الفرح وقرة العين , فاحببت ان انشر عليكم فرح نبيكم صلى الله عليه وسلم , اخبرني ان رهطا من بني عمه ركبوا البحر , فاصابتهم ريح عاصف , فالجاتهم الريح إلى جزيرة لا يعرفونها , فقعدوا في قويرب سفينة , حتى خرجوا إلى الجزيرة , فإذا هم بشيء اهلب كثير الشعر , لا يدرون ارجل هو او امراة , فسلموا عليه , فرد عليهم السلام , فقالوا: الا تخبرنا؟ فقال: ما انا بمخبركم , ولا مستخبركم , ولكن هذا الدير قد رهقتموه , ففيه من هو إلى خبركم بالاشواق ان يخبركم ويستخبركم , قالوا: قلنا: ما انت؟ قالت: انا الجساسة , فانطلقوا حتى اتوا الدير , فإذا هم برجل موثق شديد الوثاق , مظهر الحزن , كثير التشكي , فسلموا عليه فرد عليهم , فقال: من انتم؟ قالوا: من العرب , قال: ما فعلت العرب , اخرج نبيهم بعد؟ قالوا: نعم , قال: فما فعلت العرب؟ قالوا: خيرا , آمنوا به وصدقوه , قال: ذلك خير لهم , وكان له عدو , فاظهره الله عليهم , قال: فالعرب اليوم إلههم واحد , ودينهم واحد , وكلمتهم واحدة؟ قالوا: نعم , قال: فما فعلت عين زغر؟ قال: قالوا: صالحة يشرب منها اهلها لشفتهم، ويسقون منها زرعهم , قال: فما فعل نخل بين عمان وبيسان؟ قالوا: صالح يطعم جناه كل عام , قال: فما فعلت بحيرة الطبرية؟ قالوا: ملاى , قال: فزفر , ثم زفر , ثم زفر , ثم حلف: لو خرجت من مكاني هذا , ما تركت ارضا من ارض الله إلا وطئتها , غير طيبة , ليس لي عليها سلطان , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إلى هذا انتهى فرحي ثلاث مرات إن طيبة المدينة , إن الله عز وجل حرم على الدجال ان يدخلها" , ثم حلف رسول الله صلى الله عليه وسلم:" والله الذي لا إله إلا هو , ما لها طريق ضيق , ولا واسع , في سهل ولا جبل , إلا عليه ملك شاهر بالسيف إلى يوم القيامة , ما يستطيع الدجال ان يدخلها على اهلها" , قال عامر: فلقيت المحرر بن ابي هريرة , فحدثته بحديث فاطمة بنت قيس , فقال: اشهد على ابي انه حدثني كما حدثتك فاطمة , غير انه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنه في نحو المشرق" , قال: ثم لقيت القاسم بن محمد , فذكرت له حديث فاطمة , فقال: اشهد على عائشة انها حدثتني كما حدثتك فاطمة , غير انها قالت:" الحرمان عليه حرام: مكة والمدينة" .قَالَ: فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَخْرُجَ , قَالَتْ: اجْلِسْ حَتَّى أُحَدِّثَكَ حَدِيثًا , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: قَالَ: فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَخْرُجَ , قَالَتْ: اجْلِسْ حَتَّى أُحَدِّثَكَ حَدِيثًا , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا مِنَ الْأَيَّامِ فَصَلَّى صَلَاةَ الْهَاجِرَةِ , ثُمَّ قَعَدَ , فَفَزِعَ النَّاسُ , فَقَالَ: " اجْلِسُوا أَيُّهَا النَّاسُ , فَإِنِّي لَمْ أَقُمْ مَقَامِي هَذَا لِفَزَعٍ , وَلَكِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ أَتَانِي , فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا مَنَعَنِي مِنَ الْقَيْلُولَةِ , مِنَ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ , فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْكُمْ فَرَحَ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَخْبَرَنِي أَنَّ رَهْطًا مِنْ بَنِي عَمِّهِ رَكِبُوا الْبَحْرَ , فَأَصَابَتْهُمْ رِيحٌ عَاصِفٌ , فَأَلْجَأَتْهُمْ الرِّيحُ إِلَى جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا , فَقَعَدُوا فِي قُوَيْرِبِ سَفِينَةٍ , حَتَّى خَرَجُوا إِلَى الْجَزِيرَةِ , فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ أَهْلَبَ كَثِيرِ الشَّعْرِ , لَا يَدْرُونَ أَرَجُلٌ هُوَ أَوْ امْرَأَةٌ , فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ , فَرَدَّ عَلَيْهِمْ السَّلَامَ , فَقَالُوا: أَلَا تُخْبِرُنَا؟ فَقَالَ: مَا أَنَا بِمُخْبِرِكُمْ , وَلَا مُسْتَخْبِرِكُمْ , وَلَكِنَّ هَذَا الدَّيْرَ قَدْ رَهِقْتُمُوهُ , فَفِيهِ مَنْ هُوَ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ أَنْ يُخْبِرَكُمْ وَيَسْتَخْبِرَكُمْ , قَالُوا: قُلْنَا: مَا أَنْتَ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ , فَانْطَلَقُوا حَتَّى أَتَوْا الدَّيْرَ , فَإِذَا هُمْ بِرَجُلٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ , مُظْهِرٍ الْحُزْنَ , كَثِيرِ التَّشَكِّي , فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيْهِمْ , فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: مِنَ الْعَرَبِ , قَالَ: مَا فَعَلَتْ الْعَرَبُ , أَخَرَجَ نَبِيُّهُمْ بَعْدُ؟ قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ: فَمَا فَعَلَتْ الْعَرَبُ؟ قَالُوا: خَيْرًا , آمَنُوا بِهِ وَصَدَّقُوهُ , قَالَ: ذَلِكَ خَيْرٌ لَهُمْ , وَكَانَ لَهُ عَدُوٌّ , فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ , قَالَ: فالْعَرَبُ الْيَوْمَ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ , وَدِينُهُمْ وَاحِدٌ , وَكَلِمَتُهُمْ وَاحِدَةٌ؟ قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ: فَمَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ؟ قَالَ: قَالُوا: صَالِحَةٌ يَشْرَبُ مِنْهَا أَهْلُهَا لِشَفَتِهِمْ، وَيَسْقُونَ مِنْهَا زَرْعَهُمْ , قَالَ: فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عَمَّانَ وَبَيْسَانَ؟ قَالُوا: صَالِحٌ يُطْعِمُ جَنَاهُ كُلَّ عَامٍ , قَالَ: فَمَا فَعَلَتْ بُحَيْرَةُ الطَّبَرِيَّةِ؟ قَالُوا: مَلْأَى , قَالَ: فَزَفَرَ , ثُمَّ زَفَرَ , ثُمَّ زَفَرَ , ثُمَّ حَلَفَ: لَوْ خَرَجْتُ مِنْ مَكَانِي هَذَا , مَا تَرَكْتُ أَرْضًا مِنْ أَرْضِ اللَّهِ إِلَّا وَطِئْتُهَا , غَيْرَ طَيْبَةَ , لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سُلْطَانٌ , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِلَى هَذَا انْتَهَى فَرَحِي ثَلَاثَ مَرَّاتٍ إِنَّ طَيْبَةَ الْمَدِينَةُ , إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الدَّجَّالِ أَنْ يَدْخُلَهَا" , ثُمَّ حَلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ , مَا لَهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ , وَلَا وَاسِعٌ , فِي سَهْلٍ وَلَا جَبَلٍ , إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرٌ بِالسَّيْفِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ , مَا يَسْتَطِيعُ الدَّجَّالُ أَنْ يَدْخُلَهَا عَلَى أَهْلِهَا" , قَالَ عَامِرٌ: فَلَقِيتُ الْمُحْرَّرَ بْنَ أَبِي هُرَيْرَةَ , فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ , فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى أَبِي أَنَّهُ حَدَّثَنِي كَمَا حَدَّثَتْكَ فَاطِمَةُ , غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ فِي نَحْوِ الْمَشْرِقِ" , قَالَ: ثُمَّ لَقِيتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ , فَذَكَرْتُ لَهُ حَدِيثَ فَاطِمَةَ , فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى عَائِشَةَ أَنَّهَا حَدَّثَتْنِي كَمَا حَدَّثَتْكَ فَاطِمَةُ , غَيْرَ أَنَّهَا قَالَتْ:" الْحَرَمَانِ عَلَيْهِ حَرَامٌ: مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ" .
امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے جانے لگا تو انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سناتی ہوں، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے ظہر کی نماز پڑھائی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کر لی تو فرمایا: بیٹھے رہو، (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) منبر پر تشریف فرما ہوئے، لوگ حیران ہوئے تو فرمایا: لوگو! اپنی نماز کی جگہ پر ہی رہو، میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہو گئے اور مجھے ایک بات بتائی جس نے خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک سے مجھے قیلولہ کرنے سے روک دیا، اس لئے میں نے چاہا کہ تمہارے پیغمبر کی خوشی تم تک پھیلا دوں، چنانچہ انہوں نے مجھے خبر دی کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے، اچانک سمندر میں طوفان آ گیا، وہ سمندر میں ایک نامعلوم جزیرہ کی طرف پہنچے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ کے اندر داخل ہوئے تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ مرد ہے یا عورت، انہوں نے اسے سلام کیا، اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: اے قوم! اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے، ہم نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ میں جساسہ ہوں، چنانچہ وہ چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہو گئے، وہاں ایک انسان تھا جسے انتہائی سختی کے ساتھ باندھا گیا تھا، وہ انتہائی غمگین اور بہت زیادہ شکایت کرنے والا تھا، انہوں نے اسے سلام کیا، اس نے جواب دیا اور پوچھا تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم عرب کے لوگ ہیں، اس نے پوچھا کہ اہل عرب کا کیا بنا؟ کیا ان کے نبی کا ظہور ہو گیا؟ انہوں نے کہا: ہاں! اس نے پوچھا: پھر اہل عرب نے کیا کیا؟ انہوں نے بتایا کہ اچھا کیا، ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تصدیق کی، اس نے کہا کہ انہوں نے اچھا کیا وہ ان کے دشمن تھے لیکن اللہ نے انہیں ان پر غالب کر دیا، اس نے پوچھا کہ اب عرب کا ایک خدا، ایک دین اور ایک کلمہ ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! اس نے پوچھا: زغر چشمے کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ صحیح ہے، لوگ اس کا پانی خود بھی پیتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو بھی اس سے سیراب کرتے ہیں، اس نے پوچھا: عمان اور بیسان کے درمیان باغ کیا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ صحیح ہے اور ہر سال پھل دیتا ہے، اس نے پوچھا: بحیرہ طریہ کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا کہ بھرا ہوا ہے، اس پر وہ تین مرتبہ بےچینی اور قسم کھا کر کہنے لگا: اگر میں اس جگہ سے نکل گیا، تو اللہ کی زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں چھوڑوں گا جسے اپنے پاؤں تلے روند نہ دوں، سوائے طیبہ کے کہ اس پر مجھے کوئی قدرت نہیں ہو گی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں پہنچ کر میری خوشی بڑھ گئی (تین مرتبہ فرمایا) مدینہ ہی طیبہ ہے اور اللہ نے میرے حرم میں داخل ہونا دجال پر حرام قرار دے رکھا ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، مدینہ کا کوئی تنگ یا کشادہ وادی اور پہاڑ ایسا نہیں ہے جس پر قیامت تک کے لئے تلوار سونتا ہوا فرشتہ مقرر نہ ہو، دجال اس شہر میں داخل ہونے کی طاقت نہیں رکھتا۔ عامر کہتے ہیں کہ پھر میں محرر بن ابی ہریرہ رحمہ اللہ سے ملا اور ان سے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میرے والد صاحب نے مجھے یہ حدیث اسی طرح سنائی تھی جس طرح حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کوئی سنائی ہے البتہ والد صاحب نے بتایا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: وہ مشرق کی جانب ہے۔ پھر میں قاسم بن محمد رحمہ اللہ سے ملا اور ان سے یہ حدیث فاطمہ ذکر کی، انہوں نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مجھے بھی یہ حدیث اسی طرح سنائی تھی جیسے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو سنائی ہے، البتہ انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ دونوں حرم یعنی مکہ اور مدینہ دجال پر حرام ہوں گے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناده ضعيف لضعف مجالد، وقد توبع
حدیث نمبر: 27350
Save to word اعراب
حدثنا يونس بن محمد , قال: حدثنا حماد يعني ابن سلمة , عن داود بن ابي هند , عن الشعبي , عن فاطمة بنت قيس , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء ذات يوم مسرعا , فصعد المنبر , ونودي في الناس الصلاة جامعة , فاجتمع الناس , فقال:" يا ايها الناس , إني لم ادعكم لرغبة ولا لرهبة , ولكن تميما الداري اخبرني ان نفرا من اهل فلسطين ركبوا البحر , فقذف بهم الريح إلى جزيرة من جزائر البحر , فإذا هم بدابة اشعر , لا يدرى ذكر هو ام انثى , لكثرة شعره , فقالوا: من انت؟ فقالت: انا الجساسة , فقالوا: فاخبرينا , فقالت: ما انا بمخبرتكم ولا مستخبرتكم , ولكن في هذا الدير رجل فقير إلى ان يخبركم , وإلى ان يستخبركم , فدخلوا الدير , فإذا هو رجل اعور مصفد في الحديد , فقال: من انتم؟ قالوا: نحن العرب , فقال: هل بعث فيكم النبي؟ قالوا: نعم , قال: فهل اتبعه العرب؟ قالوا: نعم , قال: ذاك خير لهم , قال: فما فعلت فارس؟ هل ظهر عليها؟ قالوا: لا , قال: اما إنه سيظهر عليها , ثم قال: ما فعلت عين زغر؟ قالوا: هي تدفق ملاى , قال: فما فعل نخل بيسان؟ هل اطعم؟ قالوا: نعم , اوائله , قال: فوثب وثبة حتى ظننا انه سيفلت , فقلنا: من انت؟ فقال: انا الدجال , اما إني ساطا الارض كلها غير مكة وطيبة" , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابشروا معاشر المسلمين , هذه طيبة لا يدخلها" .حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ , عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ مُسْرِعًا , فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ , وَنُودِيَ فِي النَّاسِ الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ , فَاجْتَمَعَ النَّاسُ , فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ , إِنِّي لَمْ أَدْعُكُمْ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ , وَلَكِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ أَخْبَرَنِي أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَهْلِ فِلَسْطِينَ رَكِبُوا الْبَحْرَ , فَقَذَفَ بِهِمْ الرِّيحُ إِلَى جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ , فَإِذَا هُمْ بِدَابَّةٍ أَشْعَرَ , لَا يُدْرَى ذَكَرٌ هُوَ أَمْ أُنْثَى , لِكَثْرَةِ شَعْرِهِ , فَقَالُوا: مَنْ أَنْتَ؟ فَقَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةَ , فَقَالُوا: فَأَخْبِرِينَا , فَقَالَتْ: مَا أَنَا بِمُخْبِرَتِكُمْ وَلَا مُسْتَخْبِرَتِكُمْ , وَلَكِنْ فِي هَذَا الدَّيْرِ رَجُلٌ فَقِيرٌ إِلَى أَنْ يُخْبِرَكُمْ , وَإِلَى أَنْ يَسْتَخْبِرَكُمْ , فَدَخَلُوا الدَّيْرَ , فَإِذَا هُوَ رَجُلٌ أَعْوَرُ مُصَفَّدٌ فِي الْحَدِيدِ , فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قَالُوا: نَحْنُ الْعَرَبُ , فَقَالَ: هَلْ بُعِثَ فِيكُمْ النَّبِيُّ؟ قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ: فَهَلْ اتَّبَعَهُ الْعَرَبُ؟ قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ: ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ , قَالَ: فَمَا فَعَلَتْ فَارِسُ؟ هَلْ ظَهَرَ عَلَيْهَا؟ قَالُوا: لَا , قَالَ: أَمَا إِنَّهُ سَيَظْهَرُ عَلَيْهَا , ثُمَّ قَالَ: مَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ؟ قَالُوا: هِيَ تَدْفُقُ مَلْأَى , قَالَ: فَمَا فَعَلَ نَخْلُ بَيْسَانَ؟ هَلْ أَطْعَمَ؟ قَالُوا: نَعَمْ , أَوَائِلُهُ , قَالَ: فَوَثَبَ وَثْبَةً حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيَفْلِتُ , فَقُلْنَا: مَنْ أَنْتَ؟ فَقَالَ: أَنَا الدَّجَّالُ , أَمَا إِنِّي سَأَطَأُ الْأَرْضَ كُلَّهَا غَيْرَ مَكَّةَ وَطَيْبَةَ" , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبْشِرُوا مَعَاشِرَ الْمُسْلِمِينَ , هَذِهِ طَيْبَةُ لَا يَدْخُلُهَا" .
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور ظہر کی نماز پڑھائی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کر لی تو منبر پر تشریف فرما ہوئے، لوگ حیران ہوئے، تو فرمایا: لوگو! اپنی نماز کی جگہ پر ہی رہو میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہو گئے اور مجھے ایک بات بتائی کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے اچانک سمندر میں طوفان آ گیا، وہ سمندر میں ایک نامعلوم جزیرہ کی طرف پہنچے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرہ کے اندر داخل ہوئے، تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ مرد ہے یا عورت انہوں نے اسے سلام کیا، اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا تم کون ہو؟ اس نے کہا: اے قوم! اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے، ہم نے اس سے پوچھا: تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ میں جساسہ ہوں، چنانچہ وہ چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہو گئے، وہاں ایک انسان تھا جسے انتہائی سختی کے ساتھ باندھا گیا تھا، اس نے پوچھا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم عرب کے لوگ ہیں، اس نے پوچھا کہ اہل عرب کا کیا بنا؟ کیا ان کے نبی کا ظہور ہو گیا؟ انہوں نے کہا ہاں! اس نے پوچھا: پھر اہل عرب نے کیا کیا؟ انہوں نے بتایا کہ اچھا کیا، ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تصدیق کی، اس نے کہا کہ انہوں نے اچھا کیا، پھر اس نے پوچھا کہ اہل فارس کا کیا بنا، کیا وہ ان پر غالب آ گئے؟ انہوں کے کہا کہ وہ ابھی تک اہل فارس پر غالب نہیں آئے، اس نے کہا: یاد رکھو! عنقریب وہ ان پر غالب آ جائیں گے، اس نے کہا: مجھے زغر کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا یہ کثیر پانی والا ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں، پھر اس نے کہا نخل بیسان کا کیا بنا؟ کیا اس نے پھل دینا شروع کیا؟ انہوں نے کہا کہ اس کا ابتدائی حصہ پھل دینے لگا ہے، اس پر وہ اتنا اچھلا کہ ہم سمجھے یہ ہم پر حملہ کر دے گا، ہم نے اس سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں مسیح (دجال) ہوں، عنقریب مجھے نکلنے کی اجازت دے دی جائی گی۔ پس میں نکلوں گا تو زمین میں چکر لگاؤں گا اور چالیس راتوں میں ہر ہر بستی پر اتروں گا مکہ اور طیبہ کے علاوہ کیونکہ ان دونوں پر داخل ہونا میرے لئے حرام کر دیا گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمانو! خوش ہو جاؤ کہ طیبہ یہی مدینہ ہے، اس میں دجال داخل نہ ہو سکے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 27351
Save to word اعراب
حدثنا يزيد بن هارون , قال: اخبرنا شريك بن عبيد الله , عن جامع بن ابي راشد , عن منذر الثوري , عن الحسن بن محمد بن علي , قال: حدثتني امراة من الانصار وهي حية اليوم , إن شئت ادخلتك عليها , قلت: لا , قالت: دخلت على ام سلمة , فدخل عليها رسول الله صلى الله عليه وسلم وكانه غضبان , فاستترت بكم درعي , فتكلم بكلام لم افهمه , فقلت: يا ام المؤمنين , كاني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم غضبان؟ قالت: نعم , اوما سمعتيه؟ قالت: قلت: وما قال؟ قالت: قال: " إن السوء إذا فشا في الارض , فلم يتناه عنه , انزل الله عز وجل باسه على اهل الارض" , قالت: قلت: يا رسول الله , وفيهم الصالحون؟! قال:" نعم , وفيهم الصالحون , يصيبهم ما اصاب الناس , ثم يقبضهم الله عز وجل إلى مغفرته ورحمته او إلى رحمته ومغفرته" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا شَرِيكُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ جَامِعِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ , عَنْ مُنْذِرٍ الثَّوْرِيِّ , عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ , قَالَ: حَدَّثَتْنِي امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ وَهِيَ حَيَّةٌ الْيَوْمَ , إِنْ شِئْتَ أَدْخَلْتُكَ عَلَيْهَا , قُلْتُ: لَا , قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ , فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَأَنَّهُ غَضْبَانُ , فَاسْتَتَرْتُ بِكُمِّ دِرْعِي , فَتَكَلَّمَ بِكَلَامٍ لَمْ أَفْهَمْهُ , فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ , كَأَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَضْبَانَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ , أَوَمَا سَمِعْتِيهِ؟ قَالَتْ: قُلْتُ: وَمَا قَالَ؟ قَالَتْ: قَالَ: " إِنَّ السُّوءَ إِذَا فَشَا فِي الْأَرْضِ , فَلَمْ يُتَنَاهَ عَنْهُ , أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَأْسَهُ عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ" , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَفِيهِمْ الصَّالِحُونَ؟! قَالَ:" نَعَمْ , وَفِيهِمْ الصَّالِحُونَ , يُصِيبُهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ , ثُمَّ يَقْبِضُهُمْ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى مَغْفِرَتِهِ وَرَحْمَتِهِ أَوْ إِلَى رَحْمَتِهِ وَمَغْفِرَتِهِ" .
حسن بن محمد کہتے کہ مجھے انصار کی ایک عورت نے بتایا ہے وہ اب بھی زندہ ہیں، اگر تم چاہو تو ان سے پوچھ سکتے ہو اور میں تمہیں ان کے پاس لے چلتا ہوں، راوی نے کہا نہیں، آپ خود ہی بیان کر دیجئے کہ میں ایک مرتبہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے یہاں تشریف لے آئے اور یوں محسوس ہو رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں ہیں، میں نے اپنی قمیص کی آستین سے پردہ کر لیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات کی جو مجھے سمجھ نہیں آئی، میں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ام المومنین! میں دیکھ رہی ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں تشریف لائے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! کیا تم نے ان کی بات سنی ہے؟ میں نے پوچھا کہ انہوں نے کیا فرمایا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب زمین میں شر پھیل جائے گا تو اسے روکا نہ جا سکے گا اور پھر اللہ اہل زمین پر اپنا عذ اب بھیج دے گا، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس میں نیک لوگ بھی شامل ہوں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اس میں نیک لوگ بھی شامل ہوں گے اور ان پر بھی وہی آفت آئے گی جو عام لوگوں پر آئے گی، پھر اللہ تعالیٰ انہیں کھینچ کر اپنی مغفرت اور خوشنودی کی طرف لے جائے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف شريك بن عبدالله ولاضطرابه فيه
حدیث نمبر: 27352
Save to word اعراب
حدثنا يزيد بن هارون , حدثنا يحيى بن سعيد , ويعلى , قال: حدثنا يحيى , عن بشير بن يسار , عن حصين بن محصن , ان عمة له , اتت النبي صلى الله عليه وسلم في حاجة , ففرغت من حاجتها , فقال لها: " اذات زوج انت؟" , قالت: نعم , قال:" فاين انت منه؟" , قال يعلى:" فكيف انت له؟" , قالت: ما آلوه إلا ما عجزت عنه , قال:" انظري اين انت منه , فإنه جنتك ونارك" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بنُ سعيد , وَيَعْلَى , قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ , عَنْ حُصَيْنِ بْنِ مِحْصَنٍ , أَنَّ عَمَّةً لَهُ , أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ , فَفَرَغَتْ مِنْ حَاجَتِهَا , فَقَالَ لَهَا: " أَذَاتُ زَوْجٍ أَنْتِ؟" , قَالَتْ: نَعَمْ , قَالَ:" فَأَيْنَ أَنْتِ مِنْهُ؟" , قَالَ يَعْلَى:" فَكَيْفَ أَنْتِ لَهُ؟" , قَالَتْ: مَا آلُوهُ إِلَّا مَا عَجَزْتُ عَنْهُ , قَالَ:" انْظُرِي أَيْنَ أَنْتِ مِنْهُ , فَإِنَّهُ جَنَّتُكِ وَنَارُكِ" .
حضرت حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کی ایک پھوپھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کسی کام کی غرض سے آئیں، جب کام مکمل ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تمہاری شادی ہوئی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم اپنے شوہر کی خدمت کرتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ میں اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی، الاّ یہ کہ کسی کام سے عاجز آ جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس چیز کا خیال رکھنا کہ وہ تمہاری جنت بھی ہے اور جہنم بھی۔

حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين

Previous    16    17    18    19    20    21    22    23    24    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.