حدثنا صفوان ، قال: اخبرنا عبد الله بن سعيد ، عن ابيه ، عن ابي شريح بن عمرو الخزاعي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إياكم والجلوس على الصعدات، فمن جلس منكم على الصعيد، فليعطه حقه" , قال: قلنا: يا رسول الله وما حقه؟ قال:" غضوض البصر , ورد التحية , وامر بمعروف، ونهي عن منكر" .حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحِ بْنِ عَمْرٍو الْخُزَاعِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِيَّاكُمْ وَالْجُلُوسَ عَلَى الصُّعُدَاتِ، فَمَنْ جَلَسَ مِنْكُمْ عَلَى الصَّعِيدِ، فَلْيُعْطِهِ حَقَّهُ" , قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا حَقُّهُ؟ قَالَ:" غُضُوضُ الْبَصَرِ , وَرَدُّ التَّحِيَّةِ , وَأَمْرٌ بِمَعْرُوفٍ، وَنَهْيٌ عَنْ مُنْكَرٍ" .
حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”راستوں میں بیٹھنے سے اجتناب کیا کرو، جو شخص وہاں بیٹھ ہی جائے تو اس کا حق بھی ادا کرے“، ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کا حق کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”نگاہیں جھکا کر رکھنا، سلام کا جواب دینا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جداً، من أجل عبدالله بن سعيد
حدثنا ابو كامل ، قال: حدثنا ليث ، قال: حدثني سعيد بن ابي سعيد المقبري ، عن ابي شريح العدوي , انه قال لعمرو بن سعيد وهو يبعث البعوث إلى مكة: ائذن لي ايها الامير احدثك قولا قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم الغد من يوم الفتح، سمعته اذناي، ووعاه قلبي، وابصرته عيناي حيث تكلم به انه حمد الله واثنى عليه، ثم قال: " إن مكة حرمها الله، ولم يحرمها الناس، فلا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر ان يسفك فيها دما، ولا يعضد فيها شجرة، فإن احد ترخص بقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها، فقولوا: إن الله عز وجل اذن لرسوله، ولم ياذن لكم، وإنما اذن لي فيها ساعة من نهار، وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالامس، فليبلغ الشاهد الغائب" ، فقيل لابي شريح: ما قال لك عمرو؟ قال: قال: انا اعلم بذلك منك يا ابا شريح، إن الحرم لا يعيذ عاصيا ولا فارا بدم، ولا فارا بجزية، وكذلك قال حجاج: بجزية، وقال يعقوب ، عن ابيه ، عن ابن إسحاق : ولا مانع جزية.حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ المقبري ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ , أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ، سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حَيْثُ تَكَلَّمَ بِهِ أَنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ فِيهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ فِيهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، فَقُولُوا: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَذِنَ لِرَسُولِهِ، وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، فَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ" ، فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ: مَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو؟ قَالَ: قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ، إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ، وَلَا فَارًّا بِجِزْيَةٍ، وَكَذَلِكَ قَالَ حَجَّاجٌ: بِجِزْيَةٍ، وَقَالَ يَعْقُوبُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ : وَلَا مَانِعَ جِزْيَةٍ.
حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب عمرو بن سعید نے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مقابلے کے لئے مکہ مکرمہ کی طرف اپنا لشکر بھیجنے کا ارادہ کیا تو وہ اس کے پاس گئے، اس سے بات کی اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنایا، پھر اپنی قوم کی مجلس میں آکر بیٹھ گئے، میں بھی ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور پھر عمرو بن سعید کا جواب بیان کرتے ہوئے فرمایا: میں نے اس سے کہا کہ اے فلاں! فتح مکہ کے موقع پر ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے فتح مکہ سے اگلے دن بنو خزاعہ نے بنو ہذیل کے ایک آدمی پر حملہ کرکے اسے قتل کر دیا، وہ مقتول مشرک تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”لوگو! اللہ نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا فرمایا تھا، اسی دن مکہ مکرمہ کو حرم قرار دے دیا تھا، لہٰذا وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کسی آدمی کے لئے اس میں خون ریزی کرنا اور درخت کاٹنا جائز نہیں ہے، یہ مجھ سے پہلے نہ کسی کے لئے حلال تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لئے حلال ہو گا اور میرے لئے بھی صرف اس مختصر وقت کے لئے حلال تھا جس کی وجہ یہاں کے لوگوں پر اللہ کا غضب تھا، یاد رکھو کہ اب اس کی حرمت لوٹ کر کل گزشتہ کی طرح ہو چکی ہے، یاد رکھو تم میں سے جو لوگ موجود ہیں وہ غائبین تک یہ بات پہنچا دیں اور جو شخص تم سے کہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تو مکہ مکرمہ میں قتال کیا تھا تو کہہ دینا کہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اسے حلال کیا تھا تمہارے لئے نہیں کیا، اے گروہ خزاعہ! اب قتل سے اپنے ہاتھ اٹھا لو کہ بہت ہو چکا، اس سے پہلے تو تم نے جس شخص کو قتل کر دیا ہے، میں اس کی دیت دے دوں گا، لیکن اس جگہ پر میرے کھڑے ہونے کے بعد جو شخص کسی کو قتل کرے گا تو مقتول کے ورثاء کو دو میں سے ایک بات کا اختیار ہو گا یا تو قاتل سے قصاص لے لیں یا پھر دیت لے لیں، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کی دیت ادا کر دی جسے بنو خزاعہ نے قتل کر دیا تھا یہ حدیث سن کر عمرو بن سعید نے حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ سے کہا: بڑے میاں آپ واپس چلے جائیں، ہم اس کی حرمت آپ سے زیادہ جانتے ہیں، یہ حرمت کسی خون ریزی کرنے والے، اطاعت چھوڑنے والے اور جزیہ روکنے والے کی حفاظت نہیں کر سکتی، میں نے اس سے کہا کہ میں اس موقع پر موجود تھا، تم غائب تھے اور ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غائبین تک اسے پہنچانے کا حکم دیا تھا، سو میں نے تم تک یہ حکم پہنچا دیا، اب تم جانو اور تمہارا کام جانے۔
حدثنا محمد بن بكر ، قال: حدثنا عبد الحميد ، قال: اخبرني سعيد بن ابي سعيد المقبري ، عن ابي شريح العدوي من خزاعة وكان من الصحابة رضي الله , عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " الضيافة ثلاث , وجائزته يوم وليلة، ولا يحل لاحد ان يقيم عند اخيه حتى يؤثمه"، قالوا: يا رسول الله , ما يؤثمه، قال:" يقيم عنده، ولا يجد شيئا يقوته" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ مِنْ خُزَاعَةَ وَكَانَ مِنَ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللَّهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الضِّيَافَةُ ثَلَاثٌ , وَجَائِزَتُهُ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَلَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ أَخِيهِ حَتَّى يُؤْثِمَهُ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَا يُؤْثِمُهُ، قَالَ:" يُقِيمُ عِنْدَهُ، وَلَا يَجِدُ شَيْئًا يَقُوتُهُ" .
حضرت ابوشریح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ضیافت تین دن تک ہوتی ہے اور جائزہ (پرتکلف دعوت) صرف ایک دن رات تک ہوتی ہے، اس سے زیادہ جو ہوگا وہ اس پر صدقہ ہوگا اور کسی آدمی کے لئے جائز نہیں ہے کہ کسی شخص کے یہاں اتنا عرصہ ٹھہرے کہ اسے گناہگار کر دے“، صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! گناہگار کرنے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ”وہ میزبان کے یہاں ٹھہرا رہے جبکہ میزبان کے پاس اسے کھلانے کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔“
حدثنا سفيان ، عن عمرو , عن الزهري ، عن ابن كعب بن مالك ، عن ابيه ، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، يعني: " ان ارواح الشهداء في طائر خضر، تعلق من ثمر الجنة" , وقرئ على سفيان:" نسمة تعلق في ثمرة، او شجر الجنة".حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، يبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَعْنِي: " أَنَّ أَرْوَاحَ الشُّهَدَاءِ فِي طَائِرٍ خُضْرٍ، تَعْلُقُ مِنْ ثَمَرِ الْجَنَّةِ" , وَقُرِئَ عَلَى سُفْيَانَ:" نَسَمَةٌ تَعْلُقُ فِي ثَمَرَةٍ، أَوْ شَجَرِ الْجَنَّةِ".
حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شہداء کی روح سبز پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہے۔“ حضرت کعب سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہے، تآنکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اس کے جسم میں واپس لوٹا دیں گے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون لفظ: الشهداء ، فقد تفرد به سفيان بن عيينة، والحميدي رواه عن سفيان بلفظ: إن نسمة المؤمن كسائر رواة هذاالحديث
حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کی ایک سیاہ فام باندی تھی جس نے ایک بکری کو ایک دھاری دار پتھر سے ذبح کر لیا، حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بکری کا حکم پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس کے کھانے کی اجازت دے دی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن أرطاة وقد توبع
حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی چاشت کے وقت سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے مسجد میں جا کر دو رکعتیں پڑھتے تھے اور کچھ دیر وہاں بیٹھتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف فى إسناده على ابن جريج
حدثنا يزيد , وابو النضر , قالا: انا المسعودي ، عن سعد ابن إبراهيم ، عن ابن كعب بن مالك ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " مثل المؤمن كالخامة من الزرع، تفيئها الرياح، تصرعها مرة وتعدلها اخرى، حتى ياتيه اجله، ومثل الكافر مثل الارزة المجذية على اصلها، لا يقلها شيء حتى يكون انجعافها مرة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , وَأَبُو النَّضْرِ , قَالَا: أََََنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ سَعْدِ ابْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَثَلُ الْمُؤْمِنِ كَالْخَامَةِ مِنَ الزَّرْعِ، تُفَيِّئُهَا الرِّيَاحُ، تَصْرَعُهَا مَرَّةً وَتَعْدِلُهَا أُخْرَى، حَتَّى يَأْتِيَهُ أَجَلُهُ، وَمَثَلُ الْكَافِرِ مَثَلُ الْأَرْزَةِ الْمُجْذِيَةِ عَلَى أَصْلِهَا، لَا يُقِلُّهَا شَيْءٌ حَتَّى يَكُونَ انْجِعَافُهَا مَرَّةً" .
حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مؤمن کی مثال کھیتی کے ان دانوں کی سی ہے جنہیں ہوا اڑاتی رہتی ہے، کبھی برابر کرتی ہے اور کبھی دوسری جگہ لے جا کر پٹخ دیتی ہے، یہاں تک کہ اس کا وقت مقررہ آ جائے اور کافر کی مثال ان چاولوں کی سی ہے جو اپنی جڑ پر کھڑے رہتے ہیں، انہیں کوئی چیز نہیں ہلا سکتی یہاں تک کہ ایک ہی مرتبہ انہیں اتار لیا جاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 5643، م: 2810، المسعودي مختلط لكنه توبع
حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے چاشت کے وقت واپس آتے تو سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے وہاں جا کر دو رکعتیں پڑھتے اور سلام پھیر کر اپنی جائے نماز پر ہی بیٹھ جاتے تھے۔