حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ شخص جھوٹا نہیں ہوتا جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے کوئی بات کہہ دیتا ہے۔ اور اچھی چیز کی نسبت کرتا ہے۔“ یاد رہے کہ حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا ان مہاجر خواتین میں سے ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ شخص جھوٹا نہیں ہوتا جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے کوئی بات کہہ دیتا ہے اور اچھی چیز کی نسبت کرتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے تین جگہوں کے جھوٹ بولنے کی کبھی رخصت نہیں دی، جنگ میں، لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں، میاں بیوی کے ایک دوسرے کو خوش کرنے میں۔“
حكم دارالسلام: هذا حديث لا يصح رفعه للنبي ﷺ، وإنما هو مدرج من كلام الزهري، وقد وهم عبدالوهاب فى رفعه
حدثنا يزيد بن هارون ، قال: اخبرنا مسلم بن خالد , عن موسى بن عقبة , عن امه , عن ام كلثوم , قال عبد الله: قال ابي: حدثنا حسين بن محمد , قال: حدثنا مسلم فذكره , وقال: عن امه ام كلثوم بنت ابي سلمة , قالت: لما تزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم ام سلمة , قال لها: " إني قد اهديت إلى النجاشي حلة واواقي من مسك , ولا ارى النجاشي إلا قد مات , ولا ارى إلا هديتي مردودة علي , فإن ردت علي , فهي لك" , قال: وكان كما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم , وردت عليه هديته , فاعطى كل امراة من نسائه اوقية مسك , واعطى ام سلمة بقية المسك والحلة .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ , عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ , عَنْ أُمِّهِ , عن أُمِّ كُلْثُومٍ , قال عبد الله: قَالَ أَبِي: حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ فَذَكَرَهُ , وَقَالَ: عَنْ أُمِّهِ أُمِّ كُلْثُومٍ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ , قَالَتْ: لَمَّا تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّ سَلَمَةَ , قَالَ لَهَا: " إِنِّي قَدْ أَهْدَيْتُ إِلَى النَّجَاشِيِّ حُلَّةً وَأَوَاقِيَّ مِنْ مِسْكٍ , وَلَا أَرَى النَّجَاشِيَّ إِلَّا قَدْ مَاتَ , وَلَا أَرَى إِلَّا هَدِيَّتِي مَرْدُودَةً عَلَيَّ , فَإِنْ رُدَّتْ عَلَيَّ , فَهِيَ لَكِ" , قَالَ: وَكَانَ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَرُدَّتْ عَلَيْهِ هَدِيَّتُهُ , فَأَعْطَى كُلَّ امْرَأَةٍ مِنْ نِسَائِهِ أُوقِيَّةَ مِسْكٍ , وَأَعْطَى أُمَّ سَلَمَةَ بَقِيَّةَ الْمِسْكِ وَالْحُلَّةَ .
حضرت ام کلثوم بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا تو انہیں بتایا کہ میں نے نجاشی کے پاس ہدیہ کے طور پر ایک حلہ اور چند اوقیہ مشک بھیجی ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ نجاشی فوت ہو گیا ہے اور غالباً میرا بھیجا ہوا ہدیہ واپس آ جائے گا، اگر ایسا ہوا تو وہ تمہارا ہو گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اور وہ ہدیہ واپس آ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوقیہ مشک اپنی تمام ازواج مطہرات میں تقسیم کر دیا اور باقی ماندہ ساری مشک اور وہ جوڑا حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو دے دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف مسلم بن خالد، ووالدة موسي ابن عقبة لم نقف لها على ترجمة، وقد اضطرب مسلم بن خالد فى تعيينها
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ شخص جھوٹا نہیں ہوتا جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے کوئی بات کہہ دیتا ہے اور اچھی چیز کی نسبت کرتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔“
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین جگہوں میں جھوٹ بولنے کی رخصت دی ہے، جنگ میں، لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں، میاں بیوی کے ایک دوسرے کو خوش کرنے میں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لعنعنة ابن جريج، وهو مدلس
حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جھوٹا نہیں ہوتا جو لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے کوئی بات کہہ دیتا ہے۔ (اور اچھی چیز کی نسبت کرتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سوائے تین جگہوں کے جھوٹ بولنے کی کبھی رخصت نہیں دی، جنگ میں، لوگوں کے درمیان صلح کرانے میں، میاں بیوی کے ایک دوسرے کو خوش کرنے میں، یاد رہے کہ حضرت ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا ان مہاجر خواتین میں سے ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔)
شیبہ بن عثمان کی ام ولدہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا مروہ کے درمیان سعی کرتے جا رہے ہیں اور فرماتے جا رہے ہیں کہ مقام ابطح کو تو دوڑ کر ہی طے کیا جانا چاہیے۔
حدثنا عفان ، قال: حدثنا حماد بن زيد ، قال: حدثنا بديل بن ميسرة ، عن المغيرة بن حكيم ، عن صفية بنت شيبة ، عن امراة منهم , انها رات النبي صلى الله عليه وسلم من خوخة، وهو يسعى في بطن المسيل , وهو يقول: " لا يقطع الوادي إلا شدا" , واظنه قال: وقد انكشف الثوب عن ركبتيه، ثم قال حماد بعد:" لا يقطع" , او قال:" الابطح إلا شدا"، وسمعته يقول:" لا يقطع الابطح إلا شدا" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا بُدَيْلُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ حَكِيمٍ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ ، عَنِ امْرَأَةٍ مِنْهُمْ , أَنَّهَا رَأَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَوْخَةٍ، وَهُوَ يَسْعَى فِي بَطْنِ الْمَسِيلِ , وَهُوَ يَقُولُ: " لَا يُقْطَعُ الْوَادِي إِلَّا شَدًّا" , وَأَظُنُّهُ قَالَ: وَقَدْ انْكَشَفَ الثَّوْبُ عَنْ رُكْبَتَيْهِ، ثُمَّ قَالَ حَمَّادٌ بَعْدُ:" لَا يُقْطَعُ" , أَوْ قَالَ:" الْأَبْطَحُ إِلَّا شَدًّا"، وَسَمِعَتْهُ يَقُولُ:" لَا يُقْطَعُ الْأَبْطَحُ إِلَّا شَدًّا" .
شیبہ بن عثمان کی ام ولدہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا مروہ کے درمیان سعی کرتے جا رہے ہیں اور فرماتے جا رہے ہیں کہ مقام ابطح کو تو دوڑ کر ہی طے کیا جانا چاہیے۔
حدثنا ابو نعيم ، قال: حدثنا الوليد بن عبد الله بن جميع ، قال: حدثني عبد الرحمن بن خلاد الانصاري , وجدتي , عن ام ورقة بنت عبد الله بن الحارث : ان نبي الله صلى الله عليه وسلم كان يزورها كل جمعة , وانها قالت: يا نبي الله , يوم بدر , اتاذن فاخرج معك، امرض مرضاكم , واداوي جرحاكم، لعل الله يهدي لي شهادة؟ قال: " قري فإن الله عز وجل يهدي لك شهادة"، وكانت اعتقت جارية لها وغلاما عن دبر منها , فطال عليهما , فغماها في القطيفة حتى ماتت , وهربا , فاتى عمر , فقيل له: إن ام ورقة قد قتلها غلامها وجاريتها وهربا , فقام عمر في الناس، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يزور ام ورقة , يقول:" انطلقوا نزور الشهيدة" , وإن فلانة جاريتها وفلانا غلامها، غماها , ثم هربا , فلا يؤويهما احد , ومن وجدهما , فليات بهما , فاتي بهما , فصلبا , فكانا اول مصلوبين .حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَلَّادٍ الْأَنْصَارِيُّ , وَجَدَّتِي , عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ : أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَزُورُهَا كُلَّ جُمُعَةٍ , وَأَنَّهَا قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , يَوْمَ بَدْرٍ , أَتَأْذَنُ فَأَخْرُجُ مَعَكَ، أُمَرِّضُ مَرْضَاكُمْ , وَأُدَاوِي جَرْحَاكُمْ، لَعَلَّ اللَّهَ يُهْدِي لِي شَهَادَةً؟ قَالَ: " قَرِّي فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُهْدِي لَكِ شَهَادَةً"، وَكَانَتْ أَعْتَقَتْ جَارِيَةً لَهَا وَغُلَامًا عَنْ دُبُرٍ مِنْهَا , فَطَالَ عَلَيْهِمَا , فَغَمَّاهَا فِي الْقَطِيفَةِ حَتَّى مَاتَتْ , وَهَرَبَا , فَأَتَى عُمَرُ , فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ أُمَّ وَرَقَةَ قَدْ قَتَلَهَا غُلَامُهَا وَجَارِيَتُهَا وَهَرَبَا , فَقَامَ عُمَرُ فِي النَّاسِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَزُورُ أُمَّ وَرَقَةَ , يَقُولُ:" انْطَلِقُوا نَزُورُ الشَّهِيدَةَ" , وَإِنَّ فُلَانَةَ جَارِيَتَهَا وَفُلَانًا غُلَامَهَا، غَمَّاهَا , ثُمَّ هَرَبَا , فَلَا يُؤْوِيهِمَا أَحَدٌ , وَمَنْ وَجَدَهُمَا , فَلْيَأْتِ بِهِمَا , فَأُتِيَ بِهِمَا , فَصُلِبَا , فَكَانَا أَوَّلَ مَصْلُوبَيْنِ .
حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے حوالہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعہ کے دن ان سے ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے تھے، انہوں نے غزوہ بدر کے موقع پر عرض کیا تھا کہ اے اللہ کے نبی! کیا مجھے اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیتے ہیں، میں آپ کے مریضوں کی تیمارداری کروں گی اور زخمیوں کا علاج کروں گی، شاید اللہ مجھے شہادت سے سرفراز کر دے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہیں رہو، اللہ تمہیں شہادت عطاء فرما دے گا۔ ام ورقہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک باندی اور غلام سے کہہ دیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو جاؤ گے، ان دونوں کو گزرتے دنوں کے ساتھ، ان کی عمر لمبی لگنے لگی چنانچہ ان دونون نے انہیں ایک چادر میں لپیٹ دیا جس میں دم گھٹ جانے سے وہ فوت ہو گئیں اور وہ دونوں فرار ہو گئے، کسی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آ کر بتایا کہ ام ورقہ کو ان کے غلام اور باندی قتل کر کے بھاگ گئے ہیں، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے اور فرماتے تھے آؤ، شہیدہ کی زیارت کر کے آئیں، اب انہیں ان کی فلاں باندی اور فلاں غلام نے چادر میں لپیٹ کر مار دیا ہے اور خود فرار ہو گے ہیں، کوئی شخص بھی انہیں پناہ نہ دے، بلکہ جسے وہ دونوں ملیں، انہیں پکڑ کر لے آئے، چنانچہ ایک آدمی نے ان دونوں کو پکڑ لیا اور انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا، یہ دونوں سولی کی سزا پانے والے پہلے لوگ تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالرحمن بن خلاد وجدة الوليد ابن عبدالله، وقد اضطرب فيه الوليد بن عبدالله