مسند احمد
مِنْ مُسْنَدِ الْقَبَائِلِ
0
1267. حَدِيثُ أُمِّ وَرَقَةَ بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
0
حدیث نمبر: 27282
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَلَّادٍ الْأَنْصَارِيُّ , وَجَدَّتِي , عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ : أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَزُورُهَا كُلَّ جُمُعَةٍ , وَأَنَّهَا قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , يَوْمَ بَدْرٍ , أَتَأْذَنُ فَأَخْرُجُ مَعَكَ، أُمَرِّضُ مَرْضَاكُمْ , وَأُدَاوِي جَرْحَاكُمْ، لَعَلَّ اللَّهَ يُهْدِي لِي شَهَادَةً؟ قَالَ: " قَرِّي فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُهْدِي لَكِ شَهَادَةً"، وَكَانَتْ أَعْتَقَتْ جَارِيَةً لَهَا وَغُلَامًا عَنْ دُبُرٍ مِنْهَا , فَطَالَ عَلَيْهِمَا , فَغَمَّاهَا فِي الْقَطِيفَةِ حَتَّى مَاتَتْ , وَهَرَبَا , فَأَتَى عُمَرُ , فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ أُمَّ وَرَقَةَ قَدْ قَتَلَهَا غُلَامُهَا وَجَارِيَتُهَا وَهَرَبَا , فَقَامَ عُمَرُ فِي النَّاسِ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَزُورُ أُمَّ وَرَقَةَ , يَقُولُ:" انْطَلِقُوا نَزُورُ الشَّهِيدَةَ" , وَإِنَّ فُلَانَةَ جَارِيَتَهَا وَفُلَانًا غُلَامَهَا، غَمَّاهَا , ثُمَّ هَرَبَا , فَلَا يُؤْوِيهِمَا أَحَدٌ , وَمَنْ وَجَدَهُمَا , فَلْيَأْتِ بِهِمَا , فَأُتِيَ بِهِمَا , فَصُلِبَا , فَكَانَا أَوَّلَ مَصْلُوبَيْنِ .
حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کے حوالہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جمعہ کے دن ان سے ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے تھے، انہوں نے غزوہ بدر کے موقع پر عرض کیا تھا کہ اے اللہ کے نبی! کیا مجھے اپنے ساتھ چلنے کی اجازت دیتے ہیں، میں آپ کے مریضوں کی تیمارداری کروں گی اور زخمیوں کا علاج کروں گی، شاید اللہ مجھے شہادت سے سرفراز کر دے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہیں رہو، اللہ تمہیں شہادت عطاء فرما دے گا۔ ام ورقہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ایک باندی اور غلام سے کہہ دیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد تم آزاد ہو جاؤ گے، ان دونوں کو گزرتے دنوں کے ساتھ، ان کی عمر لمبی لگنے لگی چنانچہ ان دونون نے انہیں ایک چادر میں لپیٹ دیا جس میں دم گھٹ جانے سے وہ فوت ہو گئیں اور وہ دونوں فرار ہو گئے، کسی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آ کر بتایا کہ ام ورقہ کو ان کے غلام اور باندی قتل کر کے بھاگ گئے ہیں، یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کے لئے جایا کرتے تھے اور فرماتے تھے آؤ، شہیدہ کی زیارت کر کے آئیں، اب انہیں ان کی فلاں باندی اور فلاں غلام نے چادر میں لپیٹ کر مار دیا ہے اور خود فرار ہو گے ہیں، کوئی شخص بھی انہیں پناہ نہ دے، بلکہ جسے وہ دونوں ملیں، انہیں پکڑ کر لے آئے، چنانچہ ایک آدمی نے ان دونوں کو پکڑ لیا اور انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا، یہ دونوں سولی کی سزا پانے والے پہلے لوگ تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عبدالرحمن بن خلاد وجدة الوليد ابن عبدالله، وقد اضطرب فيه الوليد بن عبدالله