حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو مسلمان آدمی اللہ کے راستہ میں اونٹنی کے تھنوں میں دودھ اترنے کے وقفے برابر بھی قتال کرے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا صفوان , حدثني راشد بن سعد , عن عاصم بن حميد , عن معاذ بن جبل , قال: لما بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن , خرج معه رسول الله صلى الله عليه وسلم يوصيه , ومعاذ راكب ورسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي تحت راحلته , فلما فرغ , قال:" يا معاذ , إنك عسى ان لا تلقاني بعد عامي هذا , او لعلك ان تمر بمسجدي هذا , او قبري" , فبكى معاذ جشعا لفراق رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم التفت فاقبل بوجهه نحو المدينة , فقال: " إن اولى الناس بي المتقون , من كانوا وحيث كانوا" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا صَفْوَانُ , حَدَّثَنِي رَاشِدُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ , خَرَجَ مَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِيهِ , وَمُعَاذٌ رَاكِبٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي تَحْتَ رَاحِلَتِهِ , فَلَمَّا فَرَغَ , قَالَ:" يَا مُعَاذُ , إِنَّكَ عَسَى أَنْ لَا تَلْقَانِي بَعْدَ عَامِي هَذَا , أَوْ لَعَلَّكَ أَنْ تَمُرَّ بِمَسْجِدِي هَذَا , أَوْ قَبْرِي" , فَبَكَى مُعَاذٌ جَشَعًا لِفِرَاقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ الْتَفَتَ فَأَقْبَلَ بِوَجْهِهِ نَحْوَ الْمَدِينَةِ , فَقَالَ: " إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِي الْمُتَّقُونَ , مَنْ كَانُوا وَحَيْثُ كَانُوا" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن روانہ فرمایا تو خود انہیں چھوڑنے کے لئے نکلے راستہ بھر انہیں وصیت فرماتے رہے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سوار تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وصیتیں کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا معاذ! ہوسکتا ہے کہ آئندہ سال تم مجھ سے نہ مل سکو یا ہوسکتا ہے کہ آئندہ سال تم میری مسجد اور میری قبر پر سے گذرو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کے غم میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ رونے لگے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنارخ پھیر کر مدینہ منورہ کی جانب کرلیا اور فرمایا تمام لوگوں میں سب سے زیادہ میرے قریب متقی ہیں خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں۔
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا صفوان , حدثني ابو زياد يحيى بن عبيد الغساني , عن يزيد بن قطيب , عن معاذ , انه كان يقول: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اليمن , فقال: " لعلك ان تمر بقبري ومسجدي , وقد بعثتك إلى قوم رقيقة قلوبهم , يقاتلون على الحق مرتين , فقاتل بمن اطاعك منهم من عصاك , ثم يعودون إلى الإسلام حتى تبادر المراة زوجها , والولد والده , والاخ اخاه , فانزل بين الحيين السكون والسكاسك" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا صَفْوَانُ , حَدَّثَنِي أَبُو زِيَادٍ يَحْيَى بْنُ عُبَيْدٍ الْغَسَّانِيُّ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ قُطَيْبٍ , عَنْ مُعَاذٍ , أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ , فَقَالَ: " لَعَلَّكَ أَنْ تَمُرَّ بِقَبْرِي وَمَسْجِدِي , وَقَدْ بَعَثْتُكَ إِلَى قَوْمٍ رَقِيقَةٍ قُلُوبُهُمْ , يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ مَرَّتَيْنِ , فَقَاتِلْ بِمَنْ أَطَاعَكَ مِنْهُمْ مَنْ عَصَاكَ , ثُمَّ يَعُودُونَ إِلَى الْإِسْلَامِ حَتَّى تُبَادِرَ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا , وَالْوَلَدُ وَالِدَهُ , وَالْأَخُ أَخَاهُ , فَانْزِلْ بَيْنَ الْحَيَّيْنِ السَّكُونَ وَالسَّكَاسِكَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجتے ہوئے فرمایا آئندہ تمہارا گذر میری قبر اور مسجد پر ہی ہوگا میں تمہیں ایک ایسی قوم کے پاس بھیج رہا ہوں جو رقیق القلب ہیں اور وہ حق کی خاطر دو مرتبہ قتال کریں گے لہٰذا جو لوگ تمہاری اطاعت کرلیں، انہیں ساتھ لے کر اپنی نافرمانی کرنے والوں سے قتال کرنا، پھر وہ لوگ اسلام کی طرف لوٹ آئیں گے حتیٰ کہ عورت اپنے شوہر پر، بیٹا اپنے باپ پر اور بھائی اپنے بھائی پر سبقت لے جائے گا اور تم " سکون " اور سکاسک " نامی قبیلوں میں جاکر پڑاؤ کرنا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال يزيد، ثم هو منقطع، يزيد لم يدرك معاذا
حدثنا الحكم بن نافع ابو اليمان , حدثنا صفوان بن عمرو , عن راشد بن سعد , عن عاصم بن حميد السكوني , ان معاذا لما بعثه النبي صلى الله عليه وسلم , خرج إلى اليمن معه النبي صلى الله عليه وسلم يوصيه , ومعاذ راكب ورسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي تحت راحلته , فلما فرغ , قال:" يا معاذ , إنك عسى ان لا تلقاني بعد عامي هذا , ولعلك ان تمر بمسجدي وقبري" , فبكى معاذ بن جبل جشعا لفراق رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا تبك يا معاذ للبكاء , او إن البكاء من الشيطان" .حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ أَبُو الْيَمَانِ , حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدٍ السَّكُونِيِّ , أَنَّ مُعَاذًا لَمَّا بَعَثَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , خَرَجَ إِلَى الْيَمَنِ مَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِيهِ , وَمُعَاذٌ رَاكِبٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي تَحْتَ رَاحِلَتِهِ , فَلَمَّا فَرَغَ , قَالَ:" يَا مُعَاذُ , إِنَّكَ عَسَى أَنْ لَا تَلْقَانِي بَعْدَ عَامِي هَذَا , وَلَعَلَّكَ أَنْ تَمُرَّ بِمَسْجِدِي وَقَبْرِي" , فَبَكَى مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ جَشَعًا لِفِرَاقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَبْكِ يَا مُعَاذُ لَلْبُكَاءُ , أَوْ إِنَّ الْبُكَاءَ مِنَ الشَّيْطَانِ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن روانہ فرمایا تو خود انہیں چھوڑنے کے لئے نکلے راستہ بھر انہیں وصیت فرماتے رہے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سوار تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ پیدل چل رہے تھے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں وصیتیں کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا معاذ! ہوسکتا ہے کہ آئندہ سال تم مجھ سے نہ مل سکو یا ہوسکتا ہے کہ آئندہ سال تم میری مسجد اور میری قبر پر سے گذرو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق کے غم میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ رونے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاذ! مت روؤ، کیونکہ رونا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا آخر زمانے میں کچھ قومیں ایسی آئیں گی جو سامنے بھائیوں کی طرح ہوں گی اور پیٹھ پیچھے دشمنوں کی طرح کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! یہ کیسے ہوگا؟ فرمایا کسی سے لالچ کی وجہ سے اور کسی کے خوف کی وجہ سے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى بكر، وحبيب بن عبيد لم يدرك معاذا
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم , حدثنا الجريري , عن ابي الورد , عن اللجلاج , حدثني معاذ , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتى على رجل وهو يصلي , وهو يقول في دعائه: اللهم إني اسالك الصبر , قال: " سالت البلاء فسل الله العافية" , قال: واتى على رجل وهو يقول: اللهم إني اسالك تمام نعمتك , فقال:" ابن آدم هل تدري ما تمام النعمة؟" , قال: يا رسول الله , دعوة دعوت بها ارجو بها الخير , قال:" فإن تمام النعمة فوز من النار , ودخول الجنة" , واتى على رجل وهو يقول: يا ذا الجلال والإكرام , فقال:" قد استجيب لك فسل" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ , عَنْ أَبِي الْوَرْدِ , عَنِ اللَّجْلَاجِ , حَدَّثَنِي مُعَاذٌ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى عَلَى رَجُلٍ وَهُوَ يُصَلِّي , وَهُوَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الصَّبْرَ , قَالَ: " سَأَلْتَ الْبَلَاءَ فَسَلْ اللَّهَ الْعَافِيَةَ" , قَالَ: وَأَتَى عَلَى رَجُلٍ وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ تَمَامَ نِعْمَتِكَ , فَقَالَ:" ابْنَ آدَمَ هَلْ تَدْرِي مَا تَمَامُ النِّعْمَةِ؟" , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , دَعْوَةٌ دَعَوْتُ بِهَا أَرْجُو بِهَا الْخَيْرَ , قَالَ:" فَإِنَّ تَمَامَ النِّعْمَةِ فَوْزٌ مِنَ النَّارِ , وَدُخُولُ الْجَنَّةِ" , وَأَتَى عَلَى رَجُلٍ وَهُوَ يَقُولُ: يَا ذَا الْجِلَالِ وَالْإِكْرَامِ , فَقَالَ:" قَدْ اسْتُجِيبَ لَكَ فَسَلْ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گذرے جو یہ دعاء کر رہا تھا کہ اے اللہ! میں تجھ سے صبر مانگتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم تو اللہ سے مصیبت کی دعاء مانگ رہے ہو اللہ سے عافیت مانگا کرو ایک اور آدمی کے پاس سے گذر ہوا تو وہ یہ دعاء کر رہا تھا کہ اے اللہ! میں تجھ سے تمام نعمت کی درخواست کرتا ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن آدم! کیا تمہیں معلوم ہے کہ " تمام نعمت " سے کیا مراد ہے؟ اس نے عرض کیا کہ وہ دعاء جو میں نے مانگی تھی اس کی خیر کا امیدوار ہوں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام نعمت یہ ہے کہ انسان جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہوجائے۔ پھر ایک آدمی کے پاس سے گذر ہوا تو وہ " یاذا الجلال والا کرام " کہہ کر دعاء کر رہا تھا، اس سے فرمایا کہ تمہاری دعاء قبول ہوگی اس لئے مانگو۔
ابو الاسود دیلی کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جس وقت یمن میں تھے تو ان کے سامنے ایک یہودی کی وراثت کا مقدمہ پیش ہوا جو فوت ہوگیا تھا اور اپنے پیچھے ایک مسلمان بھائی چھوڑ گیا تھا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اسلام اضافہ کرتا ہے کمی نہیں کرتا اور اس حدیث سے استدلال کر کے انہوں نے اسے وارث قرار دے دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو الأسود لا يعرف له سماع من معاذ، وقد اختلف فيه على عمرو بن أبى حكيم
حدثنا ابو معاوية وهو الضرير , حدثنا الاعمش , عن ابي سفيان , عن انس , قال: اتينا معاذا , فقلنا: حدثنا من غرائب حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: فقال: كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم على حمار , فقال:" يا معاذ" , فقلت: لبيك يا رسول الله , قال: " اتدري ما حق الله على العباد؟" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" فإن حق الله على العباد ان يعبدوه , ولا يشركوا به شيئا , فهل تدري ما حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك؟" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" فإن حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك , ان لا يعذبهم" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ وَهُوَ الضَّرِيرُ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ: أَتَيْنَا مُعَاذًا , فَقُلْنَا: حَدِّثْنَا مِنْ غَرَائِبِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَقَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى حِمَارٍ , فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ" , فَقُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: " أَتَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ , وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا , فَهَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَإِنَّ حَقَّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ , أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ" .
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عجیب واقعہ ہمیں سنائیے انہوں نے فرمایا اچھا ایک مرتبہ میں (گدھے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2856، م: 30، وهذا إسناد قوي