موسیٰ بن طلحہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا ایک خط ہے جس میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گندم، جو کشمش اور کھجور میں سے بھی زکوٰۃ وصول فرماتے تھے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عرب کی کسی بستی میں بھیجا اور حکم دیا کہ زمین کا حصہ وصول کرکے لاؤں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، جابر الجعفي ضعيف، ورواية محمد بن زيد عن معاذ منقطعة
حدثنا وكيع , عن إسرائيل , عن ابي إسحاق , عن عمرو بن ميمون , عن معاذ , قال: كنت ردف رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" يا معاذ , اتدري ما حق الله على العباد؟" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" ان تعبدوه ولا تشركوا به شيئا" , قال:" فهل تدري ما حق العباد على الله إذا هم فعلوا ذلك؟" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" لا يعذبهم" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ إِسْرَائِيلَ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ , أَتَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا" , قَالَ:" فَهَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا هُمْ فَعَلُوا ذَلِكَ؟" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" لَا يُعَذِّبُهُمْ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ (گدھے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔
حدثنا وكيع , عن النهاس بن قهم , حدثني شداد ابو عمار , عن معاذ بن جبل , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ست من اشراط الساعة: موتي , وفتح بيت المقدس , وموت ياخذ في الناس كقعاص الغنم , وفتنة يدخل حربها بيت كل مسلم , وان يعطى الرجل الف دينار فيتسخطها , وان تغدر الروم , فيسيرون في ثمانين بندا تحت كل بند اثنا عشر الفا" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنِ النَّهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ , حَدَّثَنِي شَدَّادٌ أَبُو عَمَّارٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سِتٌّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ: مَوْتِي , وَفَتْحُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ , وَمَوْتٌ يَأْخُذُ فِي النَّاسِ كَقُعَاصِ الْغَنَمِ , وَفِتْنَةٌ يَدْخُلُ حَرْبُهَا بَيْتَ كُلِّ مُسْلِمٍ , وَأَنْ يُعْطَى الرَّجُلُ أَلْفَ دِينَارٍ فَيَتَسَخَّطَهَا , وَأَنْ تَغْدِرَ الرُّومُ , فَيَسِيرُونَ فِي ثَمَانِينَ بَنْدًا تَحْتَ كُلِّ بَنْدٍ اثْنَا عَشَرَ أَلْفًا" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چھ چیزیں علامات قیامت میں سے ہیں میری وفات بیت المقذس کی فتح، موت کی وباء پھیل جانا جیسے بکریوں میں پھیل جاتی ہے ایک ایسی آزمائش جس کی جنگ ہر مسلمان کے گھر میں داخل ہوجائے گی نیزیہ کہ کسی شخص کو ایک ہزار بھی دے دیئے جائیں تو وہ ناراض ہی رہے اور رومی لوگ مسلمانوں کے ساتھ دھوکے بازی کریں اور اسی جھنڈوں کے تحت مسلمانوں کی طرف پیش قدمی کریں جن میں سے ہر ایک جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار سپاہی ہوں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، النهاس بن قهم ضعيف، وشداد لم يدرك معاذا
حدثنا وكيع , عن الاعمش , عن ابي سفيان , عن انس بن مالك , قال: اتينا معاذ بن جبل , فقلنا: حدثنا من غرائب حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: نعم , كنت ردفه على حمار , قال: فقال:" يا معاذ بن جبل" , قلت: لبيك يا رسول الله , قال: " هل تدري ما حق الله على العباد؟" , قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" إن حق الله على العباد ان يعبدوه ولا يشركوا به شيئا" , قال: ثم قال:" يا معاذ" , قلت: لبيك يا رسول الله , قال:" هل تدري ما حق العباد على الله إذا هم فعلوا ذلك؟" , قال: قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" ان لا يعذبهم" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: أَتَيْنَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ , فَقُلْنَا: حَدِّثْنَا مِنْ غَرَائِبِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: نَعَمْ , كُنْتُ رِدْفَهُ عَلَى حِمَارٍ , قَالَ: فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ" , قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: " هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" , قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" إِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا" , قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" يَا مُعَاذُ" , قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا هُمْ فَعَلُوا ذَلِكَ؟" , قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ" .
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک مرتبہ ہم لوگ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی عجیب واقعہ ہمیں سنائیے انہوں نے فرمایا اچھا ایک مرتبہ میں (گدھے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! میں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2856، م: 30، وهذا إسناد قوي
حدثناه عبد الرحمن , حدثنا سفيان . وعبد الرزاق , قال: حدثنا معمر , عن ابي إسحاق , عن عمرو بن ميمون , عن معاذ بن جبل , قال: كنت ردف النبي صلى الله عليه وسلم فقال: " هل تدري ما حق الله عز وجل على عباده؟" , قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" ان يعبدوه , ولا يشركوا به شيئا" , قال:" هل تدري ما حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك؟ ان يغفر لهم ولا يعذبهم" , قال معمر في حديثه: قال: قلت: يا رسول الله , الا ابشر الناس؟ قال:" دعهم يعملوا"..حدثناه عبدُ الرحمن , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: حدثَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , قَالَ: كُنْتُ رِدْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى عِبَادِهِ؟" , قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" أَنْ يَعْبُدُوهُ , وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا" , قَالَ:" هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ؟ أَنْ يَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا يُعَذِّبَهُمْ" , قَالَ مَعْمَرٌ فِي حَدِيثِهِ: قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَلَا أُبَشِّرُ النَّاسَ؟ قَالَ:" دَعْهُمْ يَعْمَلُوا"..
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ (گدھے پر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ) تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے؟ اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں عذاب میں مبتلا نہ کرے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کیا میں جنت کے ایک دروازے کی طرف تمہاری رہنمائی نہ کروں؟ انہوں نے عرض کیا وہ کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " لاحول ولاقوۃ الا باللہ "
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو رزين لم يدرك معاذا
حدثنا عبد الرحمن , حدثنا قرة بن خالد , عن ابي الزبير , حدثنا ابو الطفيل , حدثنا معاذ بن جبل , قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفرة سافرها , وذلك في غزوة تبوك , " فجمع بين الظهر والعصر , والمغرب والعشاء , قلت: ما حمله على ذلك؟ قال: اراد ان لا تحرج امته" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ , حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ , حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ , قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرَهَا , وَذَلِكَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ , " فَجَمَعَ بَيْنَ الظُّهْر وَالْعَصْرِ , وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ , قُلْتُ: مَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: أَرَادَ أَنْ لَا تحْرِجَ أُمَّتَهُ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر پر روانہ ہوئے یہ غزوہ تبوک کا واقعہ ہے اور اس سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء کو اکٹھا کر کے پڑھا، راوی نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ان کی امت کو تکلیف نہ ہو۔
حدثنا إسماعيل , حدثنا يونس , عن حميد بن هلال , عن هصان بن الكاهن , قال: دخلت المسجد الجامع بالبصرة , فجلست إلى شيخ ابيض الراس واللحية , فقال: حدثني معاذ بن جبل , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: " ما من نفس تموت وهي تشهد ان لا إله إلا الله , واني رسول الله يرجع ذاك إلى قلب موقن , إلا غفر الله لها" , قلت له: انت سمعته من معاذ؟ فكان القوم عنفوني , قال: لا تعنفوه , ولا تؤنبوه دعوه , نعم انا سمعت ذاك من معاذ , يدبره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , وقال إسماعيل مرة: ياثره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: قلت لبعضهم: من هذا؟ قال: هذا عبد الرحمن بن سمرة..حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , حَدَّثَنَا يُونُسُ , عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ , عَنْ هِصَّانَ بْنِ الْكَاهِنِ , قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ الْجَامِعَ بِالْبَصْرَةِ , فَجَلَسْتُ إِلَى شَيْخٍ أَبْيَضِ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ , فَقَالَ: حَدَّثَنِي مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَا مِنْ نَفْسٍ تَمُوتُ وَهِيَ تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ يَرْجِعُ ذَاكْ إِلَى قَلْبٍ مُوقِنٍ , إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهَا" , قُلْتُ لَهُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ مُعَاذٍ؟ فَكَأَنَّ الْقَوْمَ عَنَّفُونِي , قَالَ: لَا تُعَنِّفُوهُ , وَلَا تُؤَنِّبُوهُ دَعُوهُ , نَعَمْ أَنَا سَمِعْتُ ذَاكَ مِنْ مُعَاذٍ , يُدَبِّرُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ مَرَّةً: يَأْثُرُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: قُلْتُ لِبَعْضِهِمْ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ..
ھصان بن کاہل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں جامع بصرہ میں داخل ہوا اور ایک بزرگ کی مجلس میں شامل ہوگیا جن کے سر اور ڈاڑھی کے بال سفید ہوچکے تھے وہ کہنے لگے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ وہ لا الہ الا اللہ کی اور میرے رسول ہونے کی گواہی دیتا ہو اور یہ گواہی دل کے یقین سے ہو تو اس کے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گے میں نے ان سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی ہے؟ لوگ اس پر مجھے ملامت کرنے لگے لیکن انہوں نے کہا کہ اسے ملامت اور ڈانٹ ڈپٹ نہ کرو، اسے چھوڑ دو، میں نے یہ حدیث حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے ہی سنی ہے جسے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں، بعد میں میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ عبدالرحمن بن سمرہ ہیں۔