حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، وحدثنا عبد الله بن نمير ، اخبرنا سفيان ، عن سلمة بن كهيل ، حدثني سويد بن غفلة ، قال: خرجت مع زيد بن صوحان وسلمان بن ربيعة، حتى إذا كنا بالعذيب، التقطت سوطا، فقالا لي: القه، فابيت، فلما قدمت المدينة لقيت ابي بن كعب ، فذكرت ذلك له، فقال: التقطت مائة دينار على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالته، فقال:" عرفها سنة" فعرفتها سنة، فلم اجد احدا يعرفها، قال: فقال: " اعرف عددها ووعاءها ووكاءها، ثم عرفها سنة، فإذا جاء صاحبها، وإلا فهي كسبيل مالك" وهذا لفظ وكيع، وقال ابن نمير في حديثه، فقال:" عرفها" فعرفتها حولا، ثم اتيته، فقال:" عرفها" فعرفتها حولا، ثم اتيته، فقال:" عرفها" فعرفتها حولا، ثم اتيته، فقال:" اعلم عدتها ووعاءها ووكاءها، فإن جاء احد يخبرك بعدتها ووعائها ووكائها، فاعطها إياه، وإلا فاستمتع بها" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ غَفَلَةَ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْعُذَيْبِ، الْتَقَطْتُ سَوْطًا، فَقَالَا لِي: أَلْقِهِ، فَأَبَيْتُ، فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ لَقِيتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: الْتَقَطْتُ مِائَةَ دِينَارٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً" فَعَرَّفْتُهَا سَنَةً، فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يَعْرِفُهَا، قَالَ: فَقَالَ: " اعْرِفْ عَدَدَهَا وَوِعَاءَهَا وَوِكَاءَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِذَا جَاءَ صَاحِبُهَا، وَإِلَّا فَهِيَ كَسَبِيلِ مَالِكَ" وَهَذَا لَفْظُ وَكِيعٍ، وَقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا" فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا" فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا" فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ:" اعْلَمْ عِدَّتَهَا وَوِعَاءَهَا وَوِكَاءَهَا، فَإِنْ جَاءَ أَحَدٌ يُخْبِرُكَ بِعِدَّتِهَا وَوِعَائِهَا وَوِكَائِهَا، فَأَعْطِهَا إِيَّاهُ، وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا" .
حضرت سوید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلاجب ہم مقام عذیب میں پہنچے تو مجھے راستے میں ایک درہ گرا پڑا ملا ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ اسے پھینک دیجئے لیکن میں نے انکار کردیا، مدینہ منورہ پہنچ کر میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اس واقعے کا تذکرہ کیا انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ایک مرتبہ مجھے راستے میں سو دینار پڑے ہوئے ملے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، میں ایک سال تک اعلان کرتا رہا لیکن مجھے کوئی آدمی ایسا نہ ملا جو اس کی شناخت کرسکتا ہو (میں پھر حاضر خدمت ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ایک سال تک اس کی تشہیر کرنے کا حکم دیا (بالآخر) فرمایا اس کی تعداد اس کا لفافہ اور بندھن اچھی طرح ذہن میں رکھ کر ایک سال تک مزید تشہیر کرو اگر اس کا مالک آجائے تو بہت اچھا ورنہ تم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سلمة بن كهيل ، قال: سمعت سويد بن غفلة ، وحدثنا عبد الله، حدثني عبيد الله بن عمر القواريري ، حدثنا يحيى بن سعيد ، عن شعبة ، حدثني سلمة بن كهيل ، قال: سمعت سويد بن غفلة ، قال: غزوت مع زيد بن صوحان وسلمان بن ربيعة، فوجدت سوطا، فاخذته، فقالا لي: اطرحه، فقلت: لا، ولكن اعرفه، فإن وجدت من يعرفه، وإلا استمتعت به، فابيا علي، وابيت عليهما، فلما رجعنا من غزاتنا، حججت، فاتيت المدينة، فلقيت ابي بن كعب ، فذكرت له قولهما وقولي لهما، فقال: وجدت صرة فيها مائة دينار، على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكرت له ذلك، فقال:" عرفها حولا" فعرفتها حولا، فلم اجد من يعرفها، فاتيته، فقلت له: لم اجد من يعرفها، فقال:" عرفها حولا" ثلاث مرات ولا ادري قال له: ذلك في سنة، او في ثلاث سنين، فقال لي في الرابعة: " اعرف عددها ووكاءها، فإن وجدت من يعرفها، وإلا فاستمتع بها" وهذا لفظ حديث يحيى بن سعيد، وزاد محمد بن جعفر في حديثه قال: فلقيته بعد ذلك بمكة، فقال: لا ادري ثلاثة احوال، او حولا واحدا .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ ، وحَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ وَسَلْمَانَ بْنِ رَبِيعَةَ، فَوَجَدْتُ سَوْطًا، فَأَخَذْتُهُ، فَقَالَا لِي: اطْرَحْهُ، فَقُلْتُ: لَا، وَلَكِنْ أُعَرِّفُهُ، فَإِنْ وَجَدْتُ مَنْ يَعْرِفُهُ، وَإِلَّا اسْتَمْتَعْتُ بِهِ، فَأَبَيَا عَلَيَّ، وَأَبَيْتُ عَلَيْهِمَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ غَزَاتِنَا، حَجَجْتُ، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ، فَلَقِيتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ ، فَذَكَرْتُ لَهُ قَوْلَهُمَا وَقَوْلِي لَهُمَا، فَقَالَ: وَجَدْتُ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا" فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا، فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ لَهُ: لَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا" ثَلَاثَ مَرَّاتٍ وَلَا أَدْرِي قَالَ لَهُ: ذَلِكَ فِي سَنَةٍ، أَوْ فِي ثَلَاثِ سِنِينَ، فَقَالَ لِي فِي الرَّابِعَةِ: " اعْرِفْ عَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا، فَإِنْ وَجَدْتَ مَنْ يَعْرِفُهَا، وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا" وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَزَادَ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ فِي حَدِيثِهِ قَالَ: فَلَقِيتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ بِمَكَّةَ، فَقَالَ: لَا أَدْرِي ثَلَاثَةَ أَحْوَالٍ، أَوْ حَوْلًا وَاحِدًا .
حضرت سوید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا جب ہم مقام عذیب میں پہنچے تو مجھے راستے میں ایک درہ گرا پڑا ملا ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ اسے پھینک دیجئے لیکن میں نے انکار کردیا اور کہا کہ میں اس کی تشہیر کروں گا اگر اس کا مالک آگیا تو اسے دے دوں گا ورنہ خود اس سے فائدہ اٹھا لوں گا مدینہ منورہ پہنچ کر میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اس واقعے کا تذکرہ کیا انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ایک مرتبہ مجھے راستے میں سو دینار پڑے ہوئے ملے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، میں ایک سال تک اعلان کرتا رہا لیکن مجھے کوئی آدمی ایسا نہ ملا جو اس کی شناخت کرسکتا ہو (میں پھر حاضر خدمت ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ایک سال تک اس کی تشہیر کرنے کا حکم دیا (بالآخر) فرمایا اس کی تعداد اس کا لفافہ اور بندھن اچھی طرح ذہن میں رکھ کر ایک سال تک مزید تشہیر کرو اگر اس کا مالک آجائے تو بہت اچھا ورنہ تم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔
حدثنا عبد الله، حدثنا ابو خيثمة ، حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن سلمة بن كهيل ، عن سويد بن غفلة ، قال: كنا حجاجا، فوجدت سوطا، فاخذته، فقال: القوم تاخذه؟ فلعله لرجل مسلم! قال: فقلت: اوليس لي اخذه، فانتفع به، خير من ان ياكله الذئب؟ فلقيت ابي بن كعب ، فذكرت ذلك له، فقال: احسنت، ثم قال: التقطت صرة فيها مئة دينار، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، فقال:" عرفها حولا" فعرفتها حولا، ثم اتيته، فقلت قد عرفتها حولا، فقال:" عرفها سنة اخرى"، ثم قال: " انتفع بها، واحفظ وكاءها وخرقتها، واحص عددها، فإن جاء صاحبها"، قال جرير: فلم احفظ ما بعد هذا، يعني تمام الحديث .حَدَّثَنَا عَبْدُ الله، حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، قَالَ: كُنَّا حُجَّاجًا، فَوَجَدْتُ سَوْطًا، فَأَخَذْتُهُ، فَقَالَ: الْقَوْمُ تَأْخُذُهُ؟ فَلَعَلَّهُ لِرَجُلٍ مُسْلِمٍ! قَالَ: فَقُلْتُ: أَوَلَيْسَ لِي أَخْذُهُ، فَأَنْتَفِعَ بِهِ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ؟ فَلَقِيتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: أَحسَنْتَ، ثَم قَالَ: الْتَقَطْتُ صُرَّةً فِيهَا مِئَةُ دِينَارٍ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا" فَعَرَّفْتُهَا حَوْلًا، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ قَدْ عَرَّفْتُهَا حَوْلًا، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً أُخْرَى"، ثُمَّ قَالَ: " انْتَفِعْ بِهَا، وَاحْفَظْ وِكَاءَهَا وَخِرْقَتَهَا، وَأَحْصِ عَدَدَهَا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا"، قَالَ جَرِيرٌ: فَلَمْ أَحْفَظْ مَا بَعْدَ هَذَا، يَعْنِي تَمَامَ الْحَدِيثِ .
حضرت سوید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ نکلا جب ہم مقام عذیب میں پہنچے تو مجھے راستے میں ایک درہ گرا پڑا ملا ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ اسے پھینک دیجئے لیکن میں نے انکار کردیا اور کہا کہ میں اس کی تشہیر کروں گا اگر اس کا مالک آگیا تو اسے دے دوں گا ورنہ خود اس سے فائدہ اٹھا لوں گا مدینہ منورہ پہنچ کر میں حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے اس واقعے کا تذکرہ کیا انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ایک مرتبہ مجھے راستے میں سو دینار پڑے ہوئے ملے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، میں ایک سال تک اعلان کرتا رہا لیکن مجھے کوئی آدمی ایسا نہ ملا جو اس کی شناخت کرسکتا ہو (میں پھر حاضر خدمت ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ایک سال تک اس کی تشہیر کرنے کا حکم دیا (بالآخر) فرمایا اس کی تعداد اس کا لفافہ اور بندھن اچھی طرح ذہن میں رکھ کر ایک سال تک مزید تشہیر کرو اگر اس کا مالک آجائے تو بہت اچھا ورنہ تم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔
حدثنا عبد الله، حدثني احمد بن ايوب بن راشد البصري ، حدثنا عبد الوارث ، حدثنا محمد بن جحادة ، عن سلمة بن كهيل ، عن سويد بن غفلة ، عن ابي بن كعب ، قال: التقطت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مئة دينار، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" عرفها سنة" فعرفتها سنة، ثم اتيته، فقلت: قد عرفتها سنة، قال:" عرفها سنة اخرى" فعرفتها سنة اخرى، ثم اتيته في الثالثة، فقال: " احص عددها ووكاءها، واستمتع بها" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الله، حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ أَيُّوبَ بْنِ رَاشِدٍ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: الْتَقَطْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِئَةَ دِينَارٍ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً" فَعَرَّفْتُهَا سَنَةً، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: قَدْ عَرَّفْتُهَا سَنَةً، قَالَ:" عَرِّفْهَا سَنَةً أُخْرَى" فَعَرَّفْتُهَا سَنَةً أُخْرَى، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فِي الثَّالِثَةِ، فَقَالَ: " أَحْصِ عَدَدَهَا وَوِكَاءَهَا، وَاسْتَمْتِعْ بِهَا" ..
حضرت سوید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں مجھے راستہ میں سو دینار پڑے ہوئے ملے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک سال تک اس کی تشہیر کرو، میں ایک سال تک اعلان کرتا رہا لیکن مجھے کوئی آدمی ایسا نہ ملا جو اس کی شناخت کرسکتا ہو میں پھر حاضر خدمت ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ایک سال تک اس کی تشہیر کرنے کا حکم دیا (بالآخر) فرمایا اس کی تعداد اس کا لفافہ اور بندھن اچھی طرح ذہن میں رکھ کر ایک سال تک مزید تشہیر کرو اگر اس کا مالک آجائے تو بہت اچھا ورنہ تم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔
حضرت سوید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ کے ساتھ حج پر نکلا۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی اور آخر میں کہا فرمایا اس کی تعداد، اس کا لفافہ اور بندھن اچھی طرح ذہن میں رکھ کر ایک سال تک مزید تشہیر کرو اگر اس کا مالک آجائے تو بہت اچھا ورنہ تم اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2426، م: 1723، وهذا إسناد حسن
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن إسماعيل بن ابي خالد ، حدثني عبد الله بن عيسى ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن ابي بن كعب ، قال: كنت في المسجد، فدخل رجل، فقرا قراءة انكرتها عليه، ثم دخل آخر، فقرا قراءة سوى قراءة صاحبه، فقمنا جميعا، فدخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن هذا قرا قراءة انكرتها عليه، ثم دخل هذا، فقرا قراءة غير قراءة صاحبه، فقال لهما النبي صلى الله عليه وسلم: " اقرآ" فقرآ، قال:" اصبتما" فلما، قال لهما النبي صلى الله عليه وسلم الذي، قال: كبر علي، ولا إذ كنت في الجاهلية، فلما راى الذي غشيني، ضرب في صدري، ففضت عرقا، وكانما انظر إلى الله فرقا، فقال:" يا ابي إن ربي ارسل إلي ان اقرا القرآن على حرف، فرددت إليه ان هون على امتي، فارسل إلي ان اقراه على حرفين، فرددت إليه ان هون على امتي، فارسل إلي ان اقراه على سبعة احرف، ولك بكل ردة مسالة تسالنيها، قال: قلت: اللهم اغفر لامتي، اللهم اغفر لامتي، واخرت الثالثة ليوم يرغب إلي فيه الخلق، حتى إبراهيم" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِيسَى ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: كُنْتُ فِي الْمَسْجِدَ، فَدَخَلَ رَجُلٌ، فَقَرَأَ قِرَاءَةً أَنْكَرْتُهَا عَلَيْهِ، ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ، فَقَرَأَ قِرَاءَةً سِوَى قِرَاءَةِ صَاحِبِهِ، فَقُمْنَا جَمِيعًا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا قَرَأَ قِرَاءَةً أَنْكَرْتُهَا عَلَيْهِ، ثُمَّ دَخَلَ هَذَا، فَقَرَأَ قِرَاءَةً غَيْرَ قِرَاءَةِ صَاحِبِهِ، فَقَالَ لَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَآ" فَقَرَآ، قَالَ:" أَصَبْتُمَا" فَلَمَّا، قَالَ لَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي، قَالَ: كَبُرَ عَلَيَّ، وَلَا إِذْ كُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا رَأَى الَّذِي غَشِيَنِي، ضَرَبَ فِي صَدْرِي، فَفِضْتُ عَرَقًا، وَكَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى اللَّهِ فَرَقًا، فَقَالَ:" يَا أُبَيُّ إِنَّ رَبِّي أَرْسَلَ إِلَيَّ أَنْ اقْرَأْ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفٍ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَى أُمَّتِي، فَأَرْسَلَ إِلَيَّ أَنْ اقْرَأْهُ عَلَى حَرْفَيْنِ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَى أُمَّتِي، فَأَرْسَلَ إِلَيَّ أَنْ اقْرَأْهُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، وَلَكَ بِكُلِّ رَدَّةٍ مَسْأَلَةٌ تَسْأَلُنِيهَا، قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي، وَأَخَّرْتُ الثَّالِثَةَ لِيَوْمٍ يَرْغَبُ إِلَيَّ فِيهِ الْخَلْقُ، حَتَّى إِبْرَاهِيمَ" .
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مسجد میں تھا ایک آدمی آیا اور اس طرح قرآن پڑھنے لگا جسے میں نہیں جانتا تھا پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے بھی مختلف انداز میں پڑھا ہم اکٹھے ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ آدمی مسجد میں آیا اور اس طرح قرآن پڑھا جس پر مجھے تعجب ہوا پھر یہ دوسرا آیا اور اس نے بھی مختلف انداز میں اسے پڑھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پڑھنے کے لئے فرمایا چنانچہ ان دونوں نے تلاوت کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصویب فرمائی اس دن اسلام کے حوالے سے جو وسوسے میرے ذہن میں آئے کبھی ایسے وسوسے نہیں آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر میرے سینے پر اپنا ہاتھ مارا جس سے وہ تمام وساوس دور ہوگئے اور میں پانی پانی ہوگیا اور یوں محسوس ہوا کہ میں اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جبرائیل اور میکائیل (علیہم السلام) آئے تھے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ قرآن کریم کو ایک حرف پر پڑھئے میں نے اپنے رب کے پاس پیغام بھیجا کہ میری امت پر آسانی فرما اس طرح ہوتے ہوتے سات حروف تک بات آگئی اور اللہ نے میرے پاس پیغام بھیجا کہ اسے سات حروف پر پڑھئے اور ہر مرتبہ کے عوض آپ مجھ سے ایک درخواست کریں میں اسے قبول کرلوں گا چنانچہ میں نے دو مرتبہ تو اپنی امت کی بخشش کی دعاء کرلی اور تیسری چیز کو اس دن کے لئے رکھ دیا جب ساری مخلوق حتٰی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی میرے پاس آئیں گے۔
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، عن مجاهد ، عن ابن ابي ليلى ، عن ابي بن كعب ، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان عند اضاة بني غفار، قال: " فاتاه جبريل، فقال: إن الله يامرك ان تقرئ امتك القرآن على حرف، قال: اسال الله معافاته ومغفرته، وإن امتي لا تطيق ذلك، ثم جاء الثانية، فقال: إن الله يامرك ان تقرئ امتك القرآن على حرفين، فقال: اسال الله معافاته ومغفرته، إن امتي لا تطيق ذلك"، ثم جاءه الثالثة، فقال: إن الله يامرك ان تقرئ امتك القرآن على ثلاثة احرف، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اسال الله معافاته ومغفرته، فإن امتي لا تطيق ذلك، ثم جاء الرابعة، فقال: إن الله يامرك ان تقرئ القرآن على سبعة احرف، فايما حرف قرءوا عليه، فقد اصابوا" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْحَكَمِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عِنْدَ أَضَاةَ بَنِي غِفَارٍ، قَالَ: " فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتَكَ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفٍ، قَالَ: أَسْأَلُ اللَّهَ مُعَافَاتَهُ وَمَغْفِرَتَهُ، وَإِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، ثُمَّ جَاءَ الثَّانِيَةَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتَكَ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفَيْنِ، فَقَالَ: أَسْأَلُ اللَّهَ مُعَافَاتَهُ وَمَغْفِرَتَهُ، إِنَّ أُمَّتِي لَا تُطِيقُ ذَلِكَ"، ثُمَّ جَاءَه الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِئَ أُمَّتَكَ الْقُرْآنَ عَلَى ثَلاَثَةُ أَحْرُفٍ، فَقَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليه وسلم: أَسْأَلُ الله مُعَافَاتَهُ وَمَغْفِرَتَهُ، فَإِنَّ أُمَّتِي لا تُطِيقُ ذَلِكَ، ثُمَّ جَاءَ الرَابعة، فَقَالَ: إِنَّ الله يَأْمُرُكَ أَنْ تُقْرِئَ الْقُرْآنَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَأَيُّمَا حَرْفٍ قَرَءُوا عَلَيْهِ، فَقَدْ أَصَابُوا" .
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو غفار کے ایک کنوئیں کے پاس تھے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ کا پروردگار آپ کو حکم دیتا ہے کہ اپنی امت کو قرآن کریم ایک حرف پر پڑھائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ سے درگذر اور بخشش کا سوال کرتا ہوں کیونکہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام دوبارہ پیغام لے کر آئے اور دو حرفوں پر پڑھنے کی اجازت دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا، تیسری مرتبہ بھی اسی طرح ہوا، چوتھی مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام سات حروف پر پڑھنے کا پیغام لے کر آئے اور کہنے لگے کہ وہ ان میں سے جس حرف کے مطابق بھی قرآءت کریں گے صحیح کریں گے۔