حدثنا يحيى بن سعيد ، عن إسماعيل بن ابي خالد ، حدثني عبد الله بن عيسى ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن ابي بن كعب ، قال: كنت في المسجد، فدخل رجل، فقرا قراءة انكرتها عليه، ثم دخل آخر، فقرا قراءة سوى قراءة صاحبه، فقمنا جميعا، فدخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن هذا قرا قراءة انكرتها عليه، ثم دخل هذا، فقرا قراءة غير قراءة صاحبه، فقال لهما النبي صلى الله عليه وسلم: " اقرآ" فقرآ، قال:" اصبتما" فلما، قال لهما النبي صلى الله عليه وسلم الذي، قال: كبر علي، ولا إذ كنت في الجاهلية، فلما راى الذي غشيني، ضرب في صدري، ففضت عرقا، وكانما انظر إلى الله فرقا، فقال:" يا ابي إن ربي ارسل إلي ان اقرا القرآن على حرف، فرددت إليه ان هون على امتي، فارسل إلي ان اقراه على حرفين، فرددت إليه ان هون على امتي، فارسل إلي ان اقراه على سبعة احرف، ولك بكل ردة مسالة تسالنيها، قال: قلت: اللهم اغفر لامتي، اللهم اغفر لامتي، واخرت الثالثة ليوم يرغب إلي فيه الخلق، حتى إبراهيم" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِيسَى ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: كُنْتُ فِي الْمَسْجِدَ، فَدَخَلَ رَجُلٌ، فَقَرَأَ قِرَاءَةً أَنْكَرْتُهَا عَلَيْهِ، ثُمَّ دَخَلَ آخَرُ، فَقَرَأَ قِرَاءَةً سِوَى قِرَاءَةِ صَاحِبِهِ، فَقُمْنَا جَمِيعًا، فَدَخَلْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هَذَا قَرَأَ قِرَاءَةً أَنْكَرْتُهَا عَلَيْهِ، ثُمَّ دَخَلَ هَذَا، فَقَرَأَ قِرَاءَةً غَيْرَ قِرَاءَةِ صَاحِبِهِ، فَقَالَ لَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَآ" فَقَرَآ، قَالَ:" أَصَبْتُمَا" فَلَمَّا، قَالَ لَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي، قَالَ: كَبُرَ عَلَيَّ، وَلَا إِذْ كُنْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا رَأَى الَّذِي غَشِيَنِي، ضَرَبَ فِي صَدْرِي، فَفِضْتُ عَرَقًا، وَكَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى اللَّهِ فَرَقًا، فَقَالَ:" يَا أُبَيُّ إِنَّ رَبِّي أَرْسَلَ إِلَيَّ أَنْ اقْرَأْ الْقُرْآنَ عَلَى حَرْفٍ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَى أُمَّتِي، فَأَرْسَلَ إِلَيَّ أَنْ اقْرَأْهُ عَلَى حَرْفَيْنِ، فَرَدَدْتُ إِلَيْهِ أَنْ هَوِّنْ عَلَى أُمَّتِي، فَأَرْسَلَ إِلَيَّ أَنْ اقْرَأْهُ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، وَلَكَ بِكُلِّ رَدَّةٍ مَسْأَلَةٌ تَسْأَلُنِيهَا، قَالَ: قُلْتُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأُمَّتِي، وَأَخَّرْتُ الثَّالِثَةَ لِيَوْمٍ يَرْغَبُ إِلَيَّ فِيهِ الْخَلْقُ، حَتَّى إِبْرَاهِيمَ" .
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلی رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں مسجد میں تھا ایک آدمی آیا اور اس طرح قرآن پڑھنے لگا جسے میں نہیں جانتا تھا پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے بھی مختلف انداز میں پڑھا ہم اکٹھے ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ آدمی مسجد میں آیا اور اس طرح قرآن پڑھا جس پر مجھے تعجب ہوا پھر یہ دوسرا آیا اور اس نے بھی مختلف انداز میں اسے پڑھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پڑھنے کے لئے فرمایا چنانچہ ان دونوں نے تلاوت کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تصویب فرمائی اس دن اسلام کے حوالے سے جو وسوسے میرے ذہن میں آئے کبھی ایسے وسوسے نہیں آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر میرے سینے پر اپنا ہاتھ مارا جس سے وہ تمام وساوس دور ہوگئے اور میں پانی پانی ہوگیا اور یوں محسوس ہوا کہ میں اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جبرائیل اور میکائیل (علیہم السلام) آئے تھے حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ قرآن کریم کو ایک حرف پر پڑھئے میں نے اپنے رب کے پاس پیغام بھیجا کہ میری امت پر آسانی فرما اس طرح ہوتے ہوتے سات حروف تک بات آگئی اور اللہ نے میرے پاس پیغام بھیجا کہ اسے سات حروف پر پڑھئے اور ہر مرتبہ کے عوض آپ مجھ سے ایک درخواست کریں میں اسے قبول کرلوں گا چنانچہ میں نے دو مرتبہ تو اپنی امت کی بخشش کی دعاء کرلی اور تیسری چیز کو اس دن کے لئے رکھ دیا جب ساری مخلوق حتٰی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی میرے پاس آئیں گے۔