حدثنا يحيى , عن عبد الملك , حدثنا عطاء , عن اسامة بن زيد , انه دخل هو ورسول الله صلى الله عليه وسلم البيت , فامر بلالا فاجاف الباب والبيت إذ ذاك على ستة اعمدة , فمضى حتى اتى اللتين تليان الباب , باب الكعبة , فجلس , فحمد الله , واثنى عليه , وساله , واستغفره , ثم قام حتى اتى ما استقبل من دبر الكعبة , فوضع وجهه وجسده على الكعبة , فحمد الله , واثنى عليه , وساله , واستغفره , ثم انصرف , حتى اتى كل ركن من اركان البيت فاستقبله بالتكبير , والتهليل , والتسبيح , والثناء على الله عز وجل , والاستغفار , والمسالة , ثم خرج فصلى ركعتين خارجا من البيت مستقبل وجه الكعبة , ثم انصرف , فقال: " هذه القبلة , هذه القبلة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ , حَدَّثَنَا عَطَاءٌ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , أَنَّهُ دَخَلَ هُوَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ , فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَجَافَ الْبَابَ وَالْبَيْتَ إِذْ ذَاكَ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ , فَمَضَى حَتَّى أَتَى اللَّتَيْنِ تَلِيَانِ الْبَابَ , بَابَ الْكَعْبَةِ , فَجَلَسَ , فَحَمِدَ اللَّهَ , وَأَثْنَى عَلَيْهِ , وَسَأَلَهُ , وَاسْتَغْفَرَهُ , ثُمَّ قَامَ حَتَّى أَتَى مَا اسْتَقْبَلَ مِنْ دُبُرِ الْكَعْبَةِ , فَوَضَعَ وَجْهَهُ وَجَسَدَهُ عَلَى الْكَعْبَةِ , فَحَمِدَ اللَّهَ , وَأَثْنَى عَلَيْهِ , وَسَأَلَهُ , وَاسْتَغْفَرَهُ , ثُمَّ انْصَرَفَ , حَتَّى أَتَى كُلَّ رُكْنٍ مِنْ أَرْكَانِ الْبَيْتِ فَاسْتَقْبَلَهُ بِالتَّكْبِيرِ , وَالتَّهْلِيلِ , وَالتَّسْبِيحِ , وَالثَّنَاءِ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَالِاسْتِغْفَارِ , وَالْمَسْأَلَةِ , ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَارِجًا مِنَ الْبَيْتِ مُسْتَقْبِلَ وَجْهِ الْكَعْبَةِ , ثُمَّ انْصَرَفَ , فَقَالَ: " هَذِهِ الْقِبْلَةُ , هَذِهِ الْقِبْلَةُ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ میں داخل ہوا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے دروازہ بند کرلیا، اس وقت بیت اللہ چھ ستونوں پر مشتمل تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے ان دو ستونوں کے قریب پہنچے جو باب کعبہ کے قریب تھے) اور بیٹھ کر اللہ کی حمدوثناء کی، تکبیروتہلیل کہی (دعاء و استغفار کیا) پھر کھڑے ہو کر بیت اللہ کے سامنے والے حصے کے پاس گئے اور اس پر اپنا سینہ مبارک، رخسار اور مبارک ہاتھ رکھ دیئے، پھر تکبیروتہلیل اور دعاء کرتے رہے پھر ہر کونے پر اسی طرح کیا اور باہر نکل کر باب کعبہ پر پہنچ کر قبلہ کی طرف رخ کر کے دو تین مرتبہ فرمایا یہ ہے قبلہ۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، عطاء لم يسمع من أسامة شيئا، بينهما ابن عباس
حدثنا يحيى , عن سفيان , حدثني إبراهيم بن عقبة , عن كريب , عن اسامة بن زيد , ان النبي صلى الله عليه وسلم لما دفع او افاض من عرفة , فاتى النقب الذي ينزله الامراء والخلفاء , قال: فبال , فاتيته بماء فتوضا وضوءا حسنا بين الوضوءين , ثم ركب راحلته , قلت: الصلاة يا نبي الله , قال: " الصلاة امامك" , قال: فاتى جمعا , فاقام فصلى المغرب , ثم لم يحل بقية الناس حتى اقام فصلى العشاء ..حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ سُفْيَانَ , حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ , عَنْ كُرَيْبٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَفَعَ أَوْ أَفَاضَ مِنْ عَرَفَةَ , فَأَتَى النَّقْبَ الَّذِي يَنْزِلُهُ الْأُمَرَاءُ وَالْخُلَفَاءُ , قَالَ: فَبَالَ , فَأَتَيْتُهُ بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا حَسَنًا بَيْنَ الْوُضُوءَيْنِ , ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ , قُلْتُ: الصَّلَاةَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ , قَالَ: " الصَّلَاةُ أَمَامَكَ" , قَالَ: فَأَتَى جَمْعًا , فَأَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ , ثُمَّ لَمْ يَحُلَّ بَقِيَّةُ النَّاسِ حَتَّى أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ ..
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے روانہ ہوئے اور اس گھاٹی میں پہنچے جہاں لوگ اپنی سواریوں کو بٹھایا کرتے تھے، نبی کریم نے بھی وہاں اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر پیشاب کیا اور پانی سے استنجاء کیا پھر وضو کا پانی منگوا کر وضو کیا جو بہت زیادہ مبالغہ آمیز نہ تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! نماز کا وقت ہوگیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز تمہارے آگے ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے وہاں مغرب کی نماز پڑھی پھر لوگوں نے اپنے اپنے مقام پر سواریوں کو بٹھایا اور ابھی سامان کھولنے نہیں پائے تھے کہ نماز عشاء کھڑی ہوگئی، نماز پڑھی اور ان دونوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔
حدثنا وكيع , حدثنا هشام بن عروة , عن ابيه , قال: كنت جالسا عند اسامة , فسئل عن مسير النبي صلى الله عليه وسلم حين دفع من عرفة , فقال: " كان يسير العنق فإذا وجد فجوة نص" , يعني: فوق العنق.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ أُسَامَةَ , فَسُئِلَ عَنْ مَسِيرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ دَفَعَ مِنْ عَرَفَةَ , فَقَالَ: " كَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ" , يَعْنِي: فَوْقَ الْعَنَقِ.
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شب عرفہ کو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفتار درمیانی تھی جہاں لوگوں کا رش ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کی رفتار ہلکی کرلیتے اور جہاں راستہ کھلا ہوا ملتا تو رفتار تیز کردیتے۔
حدثنا يحيى بن سعيد , عن زكريا . ووكيع , حدثنا زكريا , قال يحيى في حديثه: حدثني عامر , عن خارجة بن الصلت , قال يحيى: التميمي , عن عمه , انه اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم , ثم اقبل راجعا من عنده , فمر على قوم عندهم رجل مجنون موثق بالحديد , فقال اهله: إنا قد حدثنا ان صاحبكم هذا قد جاء بخير , فهل عنده شيء يداويه؟ قال: فرقيته بفاتحة الكتاب , قال وكيع: ثلاثة ايام كل يوم مرتين , فبرا فاعطوني مائة شاة , فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته , فقال: " خذها فلعمري من اكل برقية باطل , لقد اكلت برقية حق" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ زَكَرِيَّا . وَوَكِيعٌ , حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا , قالْ يَحْيَى فِي حَدِيثِهِ: حَدَّثَنِي عَامِرٌ , عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ , قَالَ يَحْيَى: التَّمِيمِيُّ , عَنْ عَمِّهِ , أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ أَقْبَلَ رَاجِعًا مِنْ عِنْدِهِ , فَمَرَّ عَلَى قَوْمٍ عِنْدَهُمْ رَجُلٌ مَجْنُونٌ مُوثَقٌ بِالْحَدِيدِ , فَقَالَ أَهْلُهُ: إِنَّا قَدْ حُدِّثْنَا أَنَّ صَاحِبَكُمْ هَذَا قَدْ جَاءَ بِخَيْرٍ , فَهَلْ عِنْدَهُ شَيْءٌ يُدَاوِيهِ؟ قَالَ: فَرَقَيْتُهُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ , قَالَ وَكِيعٌ: ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ كُلَّ يَوْمٍ مَرَّتَيْنِ , فَبَرَأَ فَأَعْطَوْنِي مِائَةَ شَاةٍ , فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ , فَقَالَ: " خُذْهَا فَلَعَمْرِي مَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ , لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ" .
خارجہ بن صلت رحمہ اللہ اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جب واپس جانے لگے تو ایک قوم کے پاس سے گذر ہوا جن کے یہاں ایک مجنون آدمی تھا جسے انہوں نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ رکھا تھا، اس کے اہل خانہ کہنے لگے کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارا یہ ساتھی خیر لے کر آیا ہے کیا اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس سے یہ اس کا علاج کرسکے؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے (تین دن تک) روزانہ اسے دو مرتبہ سورت فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور وہ ٹھیک ہوگیا ان لوگوں نے مجھے سو بکریاں دیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ بتایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں لے لو کیونکہ میری زندگی کی قسم! بعض لوگ ناجائز منتروں سے کھاتے ہیں جبکہ تم نے جائز اور برحق منتر سے کھایا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين لأجل خارجة بن الصلت
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن عبد الله بن ابي السفر , عن الشعبي , عن خارجة بن الصلت , عن عمه , قال: اقبلنا من عند النبي صلى الله عليه وسلم , فاتينا على حي من العرب , فقالوا: انبئنا انكم جئتم من عند هذا الرجل بخير فهل عندكم دواء او رقية؟ فإن عندنا معتوها في القيود , قال: فقلنا: نعم , قال: فجاءوا بالمعتوه في القيود , قال: فقرات بفاتحة الكتاب ثلاثة ايام غدوة وعشية , اجمع بزاقي ثم اتفل , قال: فكانما نشط من عقال , قال: فاعطوني جعلا , فقلت: لا , حتى اسال النبي صلى الله عليه وسلم , فسالته , فقال: " كل لعمري من اكل برقية باطل , لقد اكلت برقية حق" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي السَّفَرِ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , عَنْ خَارِجَةَ بْنِ الصَّلْتِ , عَنْ عَمِّهِ , قَالَ: أَقْبَلْنَا مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَتَيْنَا عَلَى حَيٍّ مِنَ الْعَرَبِ , فَقَالُوا: أُنْبِئْنَا أَنَّكُمْ جِئْتُمْ مِنْ عِنْدِ هَذَا الرَّجُلِ بِخَيْرٍ فَهَلْ عِنْدَكُمْ دَوَاءٌ أَوْ رُقْيَةٌ؟ فَإِنَّ عِنْدَنَا مَعْتُوهًا فِي الْقُيُودِ , قَالَ: فَقُلْنَا: نَعَمْ , قَالَ: فَجَاءُوا بِالْمَعْتُوهِ فِي الْقُيُودِ , قَالَ: فَقَرَأْتُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً , أَجْمَعُ بُزَاقِي ثُمَّ أَتْفُلُ , قَالَ: فَكَأَنَّمَا نَشِطَ مِنْ عِقَالٍ , قَالَ: فَأَعْطَوْنِي جُعْلًا , فَقُلْتُ: لَا , حَتَّى أَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَسَأَلْتُهُ , فَقَالَ: " كُلْ لَعَمْرِي مَنْ أَكَلَ بِرُقْيَةِ بَاطِلٍ , لَقَدْ أَكَلْتَ بِرُقْيَةِ حَقٍّ" .
خارجہ بن صلت رحمہ اللہ اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جب واپس جانے لگے تو ایک قوم کے پاس سے گذر ہوا جن کے یہاں ایک مجنون آدمی تھا جسے انہوں نے لوہے کی زنجیروں سے باندھ رکھا تھا، اس کے اہل خانہ کہنے لگے کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارا یہ ساتھی خیر لے کر آیا ہے کیا اس کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جس سے یہ اس کا علاج کرسکے؟ وہ کہتے ہیں کہ میں نے (تین دن تک) روزانہ اسے دو مرتبہ سورت فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور وہ ٹھیک ہوگیا ان لوگوں نے مجھے سو بکریاں دیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ بتایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں لے لو کیونکہ میری زندگی کی قسم! بعض لوگ ناجائز منتروں سے کھاتے ہیں جبکہ تم نے جائز اور برحق منتر سے کھایا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين لأجل خارجة بن الصلت
حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش , عن شقيق , عن عبد الله , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من حلف على يمين هو فيها فاجر ليقتطع بها مال امرئ مسلم لقي الله عز وجل وهو عليه غضبان" , فقال الاشعث: في والله كان ذلك , كان بيني وبين رجل من اليهود ارض فجحدني , فقدمته إلى النبي صلى الله عليه وسلم , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الك بينة؟" , قلت: لا , فقال لليهودي:" احلف" , فقلت: يا رسول الله , إذا يحلف فذهب , بمالي , فانزل الله تعالى: إن الذين يشترون بعهد الله وايمانهم ثمنا قليلا سورة آل عمران آية 77 إلى آخر الآية .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ شَقِيقٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ هُوَ فِيهَا فَاجِرٌ لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ" , فَقَالَ الْأَشْعَثُ: فِيَّ وَاللَّهِ كَانَ ذَلِكَ , كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنَ الْيَهُودِ أَرْضٌ فَجَحَدَنِي , فَقَدَّمْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟" , قُلْتُ: لَا , فَقَالَ لِلْيَهُودِيِّ:" احْلِفْ" , فَقُلْت: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِذْاَََ يَحْلِفَ فَذَهَبَ , بِمَالِي , فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا سورة آل عمران آية 77 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ .
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال ہتھیا لے وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا اللہ اس سے ناراض ہوگا یہ سن کر حضرت اشعث رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ یہ ارشاد میرے واقعے میں نازل ہوا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان کچھ زمین مشترک تھی یہودی میرے حصے کا منکر ہوگا میں اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کیا تمہارے پاس گواہ ہیں؟ میں نے عرض کیا نہیں بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے فرمایا کہ تم قسم کھاؤ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ تو قسم کھا کر میرا مال لے جائے گا، اس پر اللہ نے یہ آیت آخرتک نازل فرمائی کہ " جو لوگ اللہ کے وعدے اور اپنی قسم کو معمولی سی قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں۔۔۔۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي , حدثنا حماد بن سلمة , عن عقيل بن طلحة , عن مسلم بن هيضم , عن الاشعث بن قيس , قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في وفد لا يرون إلا اني افضلهم , فقلت: يا رسول الله إنا نزعم انك منا , قال: " نحن بنو النضر بن كنانة لا نقفو امنا , ولا ننتفي من ابينا" قال: فكان الاشعث , يقول: لا اوتى برجل نفى قريشا من النضر بن كنانة إلا جلدته الحد.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ عَقِيلِ بْنِ طَلْحَةَ , عَنْ مُسْلِمِ بْنِ هَيْضَمٍ , عَنِ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ , قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَفْدٍ لَا يَرَوْنَ إِلَّا أَنِّي أَفْضَلُهُمْ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَزْعُمُ أَنَّكْ مِنَّا , قَالَ: " نَحْنُ بَنُو النَّضْرِ بْنُ كِنَانَةَ لَا نَقْفُو أُمَّنَا , وَلَا نَنْتَفِي مِنْ أَبِينَا" قَالَ: فَكَانَ الْأَشْعَثُ , يَقُولُ: لَا أُوتَى بِرَجُلٍ نَفَى قُرَيْشًا مِنَ النَّضْرِ بْنِ كِنَانَةَ إِلَّا جَلَدْتُهُ الْحَدَّ.
حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں ایک وفد کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جو مجھے اپنے میں سے افضل نہیں سمجھتے تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمارا خیال ہے کہ آپ کا نسب نامہ ہم لوگوں سے ملتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم لوگ نضر بن کنانہ کی اولاد ہیں ہم اپنی ماں پر تہمت لگاتے ہیں اور نہ ہی اپنے باپ سے اپنے نسب کی نفی کرتے ہیں اس کے بعد حضرت اشعث رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اگر میرے پاس کوئی ایسا آدمی لایا گیا جو قریش کے نسب کی نضر بن کنانہ سے نفی کرتا ہو تو میں اسے کوڑوں کی سزا دوں گا۔