حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش , عن شقيق , عن اسامة بن زيد , قال: قالوا له: الا تدخل على هذا الرجل فتكلمه؟ قال: فقال: الا ترون اني لا اكلمه إلا اسمعكم؟ والله لقد كلمته فيما بيني وبينه ما دون ان افتح امرا لا احب ان اكون انا اول من فتحه , ولا اقول لرجل ان يكون علي اميرا: إنه خير الناس , بعد ما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يؤتى بالرجل يوم القيامة فيلقى في النار , فتندلق اقتاب بطنه فيدور بها في النار كما يدور الحمار بالرحى , قال: فيجتمع اهل النار إليه , فيقولون: يا فلان اما كنت تامرنا بالمعروف , وتنهانا عن المنكر , قال: فيقول: بلى قد كنت آمر بالمعروف ولا آتيه , وانهى عن المنكر وآتيه" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ شَقِيقٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: قَالُوا لَه: أَلَا تَدْخُلُ عَلَى هَذَا الرَّجُلِ فَتُكَلِّمُهُ؟ قَالَ: فَقَالَ: أَلَا تَرَوْنَ أَنِّي لَا أُكَلِّمُهُ إِلَّا أُسْمِعُكُمْ؟ وَاللَّهِ لَقَدْ كَلَّمْتُهُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ مَا دُونَ أَنْ أَفْتَحَ أَمْرًا لَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ أَنَا أَوَّلَ مَنْ فَتَحَهُ , وَلَا أَقُولُ لِرَجُلٍ أَنْ يَكُونَ عَلَيَّ أَمِيرًا: إِنَّهُ خَيْرُ النَّاسِ , بَعْدَ مَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يُؤْتَى بِالرَّجُلِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُلْقَى فِي النَّارِ , فَتَنْدَلِقُ أَقْتَابُ بَطْنِهِ فَيَدُورُ بِهَا فِي النَّارِ كَمَا يَدُورُ الْحِمَارُ بِالرَّحى , قَالَ: فَيَجْتَمِعُ أَهْلُ النَّارِ إِلَيْهِ , فَيَقُولُونَ: يَا فُلَانُ أَمَا كُنْتَ تَأْمُرُنَا بِالْمَعْرُوفِ , وَتَنْهَانَا عَنِ الْمُنْكَرِ , قَالَ: فَيَقُولُ: بَلَى قَدْ كُنْتُ آمُرُ بِالْمَعْرُوفِ وَلَا آتِيهِ , وَأَنْهَى عَنِ الْمُنْكَرِ وَآتِيهِ" .
ابو وائل کہتے ہیں کہ کسی نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بات کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے فرمایا تم سمجھتے ہو کہ میں ان سے جو بھی بات کروں گا وہ تمہیں بھی بتاؤں گا میں ان سے جو بات بھی کرتا ہوں وہ میرے اور ان کے درمیان ہوتی ہے میں اس بات کو کھولنے میں خود پہل کرنے کو پسند نہیں کرتا اور بخدا! کسی آدمی کے متعلق میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم سب سے بہترین آدمی ہو خواہ وہ مجھ پر حکمران ہی ہو، جبکہ میں نے اس حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے یہ دیکھ کر تمام جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں! تجھ پر کیا مصیبت آئی؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم اور برائی سے رکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہیں تو نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور تمہیں گناہوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا۔
حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش , عن عمارة , عن ابي الشعثاء قال:" خرجت حاجا , فجئت حتى دخلت البيت , فلما كنت بين الساريتين مضيت , حتى لزقت بالحائط , فجاء ابن عمر فصلى إلى جنبي , فصلى اربعا , فلما صلى قلت له: اين صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من البيت؟ قال: اخبرني اسامة بن زيد انه صلى هاهنا , فقلت: كم صلى؟ قال: هذا اجدني الوم نفسي اني مكثت معه عمرا لم اساله كم صلى , ثم حججت من العام المقبل , فجئت حتى قمت في مقامه , فجاء ابن الزبير حتى قام إلى جنبي , ولم يزل يزاحمني حتى اخرجني منه , ثم صلى فيه اربعا" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ عُمَارَةَ , عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ قَال:" خَرَجْتُ حَاجًّا , فَجِئْتُ حَتَّى دَخَلْتُ الْبَيْتَ , فَلَمَّا كُنْتُ بَيْنَ السَّارِيَتَيْنِ مَضَيْتُ , حَتَّى لَزِقْتُ بِالْحَائِطِ , فَجَاءَ ابْنُ عُمَرَ فَصَلَّى إِلَى جَنْبِي , فَصَلَّى أَرْبَعًا , فَلَمَّا صَلَّى قُلْتُ لَهُ: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَيْتِ؟ قَالَ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَنَّهُ صَلَّى هَاهُنَا , فَقُلْتُ: كَمْ صَلَّى؟ قَالَ: هَذَا أَجِدُنِي أَلُومُ نَفْسِي أَنِّي مَكَثْتُ مَعَهُ عُمْرًا لَمْ أَسْأَلْهُ كَمْ صَلَّى , ثُمَّ حَجَجْتُ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ , فَجِئْتُ حَتَّى قُمْتُ فِي مَقَامِهِ , فَجَاءَ ابْنُ الزُّبَيْرِ حَتَّى قَامَ إِلَى جَنْبِي , وَلَمْ يَزَلْ يُزَاحِمُنِي حَتَّى أَخْرَجَنِي مِنْهُ , ثُمَّ صَلَّى فِيهِ أَرْبَعًا" .
ابوالشعثاء کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حج کے ارادے سے نکلا، بیت اللہ شریف میں داخل ہوا جب دو ستونوں کے درمیان پہنچا تو جا کر ایک دیوار سے چمٹ گیا اتنی دیر میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما آگئے اور میرے پہلو میں کھڑے ہو کر چار رکعتیں پڑھیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ میں کہاں نماز پڑھی تھی انہوں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہاں مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بتایا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی ہے میں نے ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا اسی پر تو آج تک میں اپنے آپ کو ملامت کرتا ہوں کہ میں نے ان کے ساتھ ایک طویل عرصہ گذارا لیکن یہ نہ پوچھ سکا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔
اگلے سال میں پھر حج کے ارادے سے نکلا اور اسی جگہ پر جا کر کھڑا ہوگیا جہاں پچھلے سال کھڑا ہوا تھا اتنی دیر میں حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آگئے اور میرے پہلو میں کھڑے ہوگئے پھر وہ مجھ سے مزاحمت کرتے رہے حتیٰ کہ مجھے وہاں سے باہر کردیا اور پھر اس میں چار رکعتیں پڑھیں۔
حدثنا يعلى , حدثنا الاعمش , عن ابي ظبيان , حدثنا اسامة بن زيد , قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية إلى الحرقات , فنذروا بنا فهربوا , فادركنا رجلا , فلما غشيناه قال: لا إله إلا الله , فضربناه حتى قتلناه , فعرض في نفسي من ذلك شيء , فذكرته لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: " من لك بلا إله إلا الله يوم القيامة؟" , قال: قلت: يا رسول الله , إنما قالها مخافة السلاح والقتل , فقال:" الا شققت عن قلبه حتى تعلم من اجل ذلك ام لا! من لك بلا إله إلا الله يوم القيامة؟" , قال: فما زال يقول ذلك حتى وددت اني لم اسلم إلا يومئذ .حَدَّثَنَا يَعْلَى , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ , حَدَّثَنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , قَالَ: بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً إِلَى الْحُرَقَاتِ , فَنَذِرُوا بِنَا فَهَرَبُوا , فَأَدْرَكْنَا رَجُلًا , فَلَمَّا غَشِينَاهُ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , فَضَرَبْنَاهُ حَتَّى قَتَلْنَاهُ , فَعَرَضَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ , فَذَكَرْتُهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَنْ لَكَ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟" , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّمَا قَالَهَا مَخَافَةَ السِّلَاحِ وَالْقَتْلِ , فَقَالَ:" أَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ أَمْ لَا! مَنْ لَكَ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟" , قَالَ: فَمَا زَالَ يَقُولُ ذَلِكَ حَتَّى وَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أُسْلِمْ إِلَّا يَوْمَئِذٍ .
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جہینہ کے ریتلے علاقوں میں سے ایک قبیلے کی طرف بھیجا، ہم نے صبح کے وقت ان پر حملہ کیا اور قتال شروع کردیا ان میں سے ایک آدمی جب بھی ہمارے سامنے آتا تو وہ ہمارے سامنے سب سے زیادہ بہادری کے ساتھ لڑتا تھا اور جب وہ لوگ پیٹھ پھیر کر بھاگتے تو وہ پیچھے سے ان کی حفاظت کرتا تھا میں نے ایک انصاری کے ساتھ مل کر اسے گھیر لیا جوں ہی ہم نے اس کے گرد گھیرا تنگ کیا تو اس نے فوراً " لا الہ الا اللہ " کہہ لیا اس پر انصاری نے اپنے ہاتھ کو کھینچ لیا لیکن میں نے اسے قتل کردیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو فرمایا اسامہ! جب اس نے لا الہ الا اللہ کہہ لیا تھا تو تم نے پھر بھی اسے قتل کردیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے جان بچانے کے لئے یہ کلمہ پڑھا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو اتنی مرتبہ دہرایا کہ میں یہ خواہش کرنے لگا کہ کاش! میں نے اسلام ہی اس دن قبول کیا ہوتا۔
حدثنا ابو كامل , حدثنا حماد , عن قيس بن سعد , عن عطاء , عن ابن عباس , عن اسامة بن زيد , قال: افاض رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة , وانا رديفه , فجعل يكبح راحلته حتى ان ذفرها لتكاد تصيب قادمة الرحل , وهو يقول:" يا ايها الناس عليكم السكينة والوقار , فإن البر ليس في إيضاع الإبل" .حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ , وَأَنَا رَدِيفُه , فَجَعَلَ يَكْبَحُ رَاحِلَتَهُ حَتَّى أَنَّ ذِفْرَهَا لَتَكَادُ تُصِيبُ قَادِمَةَ الرَّحْلِ , وَهُوَ يَقُولُ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمْ السَّكِينَةَ وَالْوَقَارَ , فَإِنَّ الْبِرَّ لَيْسَ فِي إِيضَاعِ الْإِبِلِ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے روانہ ہوئے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری کو لگام سے پکڑ کر کھینچنے لگے حتٰی کہ اس کے کان کجاوے کے اگلے حصے کے قریب آگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جارہے تھے لوگو! اپنے اوپر سکون اور وقار کو لازم پکڑو، اونٹوں کو تیز دوڑانے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔
حدثنا ابو كامل , حدثنا إبراهيم بن سعد , حدثنا ابن شهاب , عن ابن عم لاسامة بن زيد يقال له: عياض وكانت بنت اسامة تحته , قال: ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم رجل خرج من بعض الارياف , حتى إذا كان قريبا من المدينة ببعض الطريق , اصابه الوباء , قال: فافزع ذلك الناس , قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إني لارجو ان لا يطلع علينا نقابها" يعني المدينة. وحدثناه الهاشمي , ويعقوب , وقالا جميعا: إنه سمع اسامة ..حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ , عَنِ ابْنِ عَمٍّ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ يُقَالُ لَهُ: عِيَاضٌ وَكَانَتْ بِنْتُ أُسَامَةَ تَحْتَهُ , قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ خَرَجَ مِنْ بَعْضِ الْأَرْيَافِ , حَتَّى إِذَا كَانَ قَرِيبًا مِنَ الْمَدِينَةِ بِبَعْضِ الطَّرِيقِ , أَصَابَهُ الْوَبَاءُ , قَالَ: فَأَفْزَعَ ذَلِكَ النَّاسَ , قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا يَطْلُعَ عَلَيْنَا نِقَابُهَا" يَعْنِي الْمَدِينَة. وحَدَّثَنَاه الْهَاشِمِيُّ , وَيَعْقُوبُ , وَقَالَا جَمِيعًا: إِنَّهُ سَمِعَ أُسَامَةَ ..
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے ایک چچا زاد بھائی " جن کا نام عیاض تھا " سے مروی ہے " جن کے نکاح میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی بھی تھیں " کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کا تذکرہ ہوا جو کسی شاداب علاقے سے نکلا، جب وہ مدینہ منورہ کے قریب پہنچا تو اسے وباء نے آگھیرا یہ سن کر لوگ خوفزادہ ہوگئے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے امید ہے کہ یہ وباء مدینہ منورہ کے سوراخوں سے نکل کر ہم تک نہیں پہنچے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عياض ابن عم أسامة
حدثنا عبد الله حدثنا ابو معمر , حدثنا إبراهيم بن سعد , حدثنا ابن شهاب , عن ابن عم لاسامة بن زيد , يقال له: عياض , وكانت ابنة اسامة عنده , وذكر الحديث مثله , قال ابو عبد الرحمن: وقال بعضهم: عياض بن ضمرى.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ , عَنِ ابْنِ عَمٍّ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , يُقَالُ لَهُ: عِيَاضٌ , وَكَانَتْ ابْنَةُ أُسَامَةَ عِنْدَهُ , وَذَكَرَ الْحَدِيثَ مِثْلَهُ , قَال أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عِيَاضُ بْنُ ضَمْرَى.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبن عم لأسامة ابن زيد
حدثنا عبد الرزاق , حدثنا معمر , عن الزهري , عن عامر بن سعد بن ابي وقاص , عن اسامة بن زيد , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن هذا الوباء رجز , اهلك الله به الامم قبلكم , وقد بقي منه في الارض شيء يجيء احيانا , ويذهب احيانا , فإذا وقع بارض فلا تخرجوا منها , وإذا سمعتم به في ارض فلا تاتوها" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ هَذَا الْوَبَاءَ رِجْزٌ , أَهْلَكَ اللَّهُ بِهِ الْأُمَمَ قَبْلَكُمْ , وَقَدْ بَقِيَ مِنْهُ فِي الْأَرْضِ شَيْءٌ يَجِيءُ أَحْيَانًا , وَيَذْهَبُ أَحْيَانًا , فَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا , وَإِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ فِي أَرْضٍ فَلَا تَأْتُوهَا" ..
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی مسلمان کسی کافر کا اور کوئی کافر کسی مسلمان کا وارث نہیں ہوسکتا۔
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا ابن جريج . وروح , قالا: حدثنا ابن جريج , قال: قلت لعطاء : سمعت ابن عباس , يقول: إنما امرتم بالطواف ولم تؤمروا بالدخول , قال: لم يكن ينهى عن دخوله , ولكني سمعته يقول: اخبرني اسامة بن زيد ان النبي صلى الله عليه وسلم لما دخل البيت دعا في نواحيه كلها , ولم يصل فيه حتى خرج , فلما خرج ركع ركعتين في قبل الكعبة , قال عبد الرزاق: وقال:" هذه القبلة".حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أخبرنا ابْنُ جُرَيْجٍ . وَرَوْحٌ , قَالَا: حدثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ , قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ , يَقُولُ: إِنَّمَا أُمِرْتُمْ بِالطَّوَافِ وَلَمْ تُؤْمَرُوا بِالدُّخُولِ , قَالَ: لَمْ يَكُنْ يَنْهَى عَنْ دُخُولِهِ , وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ الْبَيْتَ دَعَا فِي نَوَاحِيهِ كُلِّهَا , وَلَمْ يُصَلِّ فِيهِ حَتَّى خَرَجَ , فَلَمَّا خَرَجَ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ فِي قِبَلِ الْكَعْبَةِ , قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: وَقَالَ:" هَذِهِ الْقِبْلَةُ".
ابن جریج کہتے ہیں کہ میں عطاء سے پوچھا کیا آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تمہیں طواف کا حکم دیا گیا ہے بیت اللہ میں داخل ہونے کا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ وہ اس میں داخل ہونے سے نہیں روکتے تھے البتہ میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ شریف میں داخل ہوئے تو اس کے سارے کونوں میں دعاء فرمائی لیکن وہاں نماز نہیں پڑھی بلکہ باہر آکر خانہ کعبہ کی جانب رخ کر کے دو رکعتیں پڑھیں اور فرمایا یہ ہے قبلہ۔