حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عرفہ سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے پیچھے بٹھا لیا گھاٹی میں پہنچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اترے اور پیشاب کیا پھر میں نے ان پر پانی ڈالا اور ہلکا سا وضو کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر سوار ہو کر مزدلفہ پہنچے اور راستے میں نماز نہیں پڑھی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 139، م: 1280، وهذا إسناد ضعيف لضعف شبعة بن دينار
حدثنا يزيد , حدثنا ابن ابي ذئب , عن الزبرقان , ان رهطا من قريش مر بهم زيد بن ثابت وهم مجتمعون , فارسلوا إليه غلامين لهم يسالانه عن الصلاة الوسطى , فقال: هي العصر , فقام إليه رجلان منهم فسالاه , فقال: هي الظهر , ثم انصرفا إلى اسامة بن زيد فسالاه , فقال: هي الظهر , إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي الظهر بالهجير , ولا يكون وراءه إلا الصف , والصفان من الناس في قائلتهم , وفي تجارتهم , فانزل الله تعالى: حافظوا على الصلوات والصلاة الوسطى وقوموا لله قانتين سورة البقرة آية 238 قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لينتهين رجال او لاحرقن بيوتهم" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , حدَّثَنَا ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ , عَنِ الزِّبْرِقَانِ , أَنَّ رَهْطًا مِنْ قُرَيْشٍ مَرَّ بِهِمْ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ وَهُمْ مُجْتَمِعُونَ , فَأَرْسَلُوا إِلَيْهِ غُلَامَيْنِ لَهُمْ يَسْأَلَانِهِ عَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى , فَقَالَ: هِيَ الْعَصْرُ , فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلَانِ مِنْهُمْ فَسَأَلَاهُ , فَقَالَ: هِيَ الظُّهْرُ , ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ فَسَأَلَاهُ , فَقَالَ: هِيَ الظُّهْرُ , إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَجِيرِ , وَلَا يَكُونُ وَرَاءَهُ إِلَّا الصَّفُّ , وَالصَّفَّانِ مِنَ النَّاسِ فِي قَائِلَتِهِمْ , وَفِي تِجَارَتِهِمْ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ سورة البقرة آية 238 قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيَنْتَهِيَنَّ رِجَالٌ أَوْ لَأُحَرِّقَنَّ بُيُوتَهُمْ" .
زبرقان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ قریش کا ایک گروہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرا وہ سب لوگ اکٹھے تھے انہوں نے اپنے دو غلاموں کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے بھیجا کہ " صلوٰۃ وسطی " سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا عصر کی نماز مراد ہے پھر دو آدمی کھڑے ہوئے اور انہوں نے یہی سوال پوچھا تو فرمایا کہ اس سے مراد ظہر کی نماز ہے، پھر وہ دونوں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے یہی سوال پوچھا تو انہوں نے بھی ظہر کی نماز بتایا اور فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز دوپہر کی گرمی میں پڑھا کرتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صرف ایک یا دو صفیں ہوتی تھیں اور لوگ قیلولہ یا تجارت میں مصروف ہوتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی " تمام نمازوں کی عموماً اور درمیانی نماز کی خصوصاً پابندی کیا کرو اور اللہ کے سامنے عاجزی سے کھڑے رہا کرو " پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ میں ان کے گھروں کو آگ لگا دوں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه ، فإن الزبرقان لم يدرك القصة التى رواها
حدثنا عبد الصمد , حدثنا همام , عن قتادة , عن عزرة , عن الشعبي , عن اسامة انه حدثه , قال:" كنت ردف رسول الله صلى الله عليه وسلم حين افاض من عرفات , فلم ترفع راحلته رجلها عادية حتى بلغ جمعا" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا هَمَّامٌ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ عَزْرَةَ , عَنِ الشَّعْبِيِّ , عَنْ أُسَامَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ , قَالَ:" كُنْتُ رِدْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَفَاضَ مِنْ عَرَفَاتٍ , فَلَمْ تَرْفَعْ رَاحِلَتُهُ رِجْلَهَا عَادِيَةً حَتَّى بَلَغَ جَمْعًا" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے واپس ہوئے ہیں تو میں ان کا ردیف تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری نے دوڑتے ہوئے اپنا پاؤں بلند نہیں کیا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ پہنچ گئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، الشعبي لم يسمع من اسامة شياء
حدثنا عبد الصمد , حدثنا حماد , عن عاصم , عن ابي وائل , قال: قيل لاسامة بن زيد , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يؤتى بالرجل الذي كان يطاع في معاصي الله تعالى , فيقذف في النار , فتندلق به اقتابه , فيستدير فيها كما يستدير الحمار في الرحا , فياتي عليه اهل طاعته من الناس , فيقولون: اي فل , اين ما كنت تامرنا به؟ فيقول: إني كنت آمركم بامر , واخالفكم إلى غيره" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ عَاصِمٍ , عَنْ أَبِي وَائِلٍ , قَالَ: قِيلَ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يُؤْتَى بِالرَّجُلِ الَّذِي كَانَ يُطَاعُ فِي مَعَاصِي اللَّهِ تَعَالَى , فَيُقْذَفُ فِي النَّارِ , فَتَنْدَلِقُ بِهِ أَقْتَابُهُ , فَيَسْتَدِيرُ فِيهَا كَمَا يَسْتَدِيرُ الْحِمَارُ فِي الرَّحَا , فَيَأْتِي عَلَيْهِ أَهْلُ طَاعَتِهِ مِنَ النَّاسِ , فَيَقُولُونَ: أَيْ فُلَ , أَيْنَ مَا كُنْتَ تَأْمُرُنَا بِهِ؟ فَيَقُولُ: إِنِّي كُنْتُ آمُرُكُمْ بِأَمْرٍ , وَأُخَالِفُكُمْ إِلَى غَيْرِهِ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے بھی سنا ہے کہ قیامت کے دن ایک آدمی کو لایا جائے گا اور جہنم میں پھینک دیا جائے گا جس سے اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ انہیں لے کر اس طرح گھومے گا جیسے گدھا چکی کے گرد گھومتا ہے یہ دیکھ کر تمام جہنمی اس کے پاس جمع ہوں گے اور اس سے کہیں گے کہ اے فلاں! تجھ پر کیا مصیبت آئی؟ کیا تو ہمیں نیکی کا حکم اور برائی سے رکنے کی تلقین نہیں کرتا تھا؟ وہ جواب دے گا کہ میں تمہیں تو نیکی کرنے کا حکم دیتا تھا لیکن خود نہیں کرتا تھا اور تمہیں گناہوں سے روکتا تھا اور خود کرتا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 3267، م: 2989، وهذا إسناد حسن
حدثنا محمد بن بكر , اخبرنا يحيى بن قيس الماربي , قال: سالت عطاء عن الدينار بالدينار وبينهما فضل , والدرهم بالدرهم , قال: كان ابن عباس يحله , فقال ابن الزبير: إن ابن عباس يحدث بما لم يسمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم , فبلغ ابن عباس , فقال: إني لم اسمعه من رسول الله صلى الله عليه وسلم , ولكن اسامة بن زيد حدثني , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ليس الربا إلا في النسيئة" او" النظرة".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ , أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ قَيْسٍ الْمَأْرِبِي , قَالَ: سَأَلْتُ عَطَاءً عَنِ الدِّينَارِ بِالدِّينَارِ وَبَيْنَهُمَا فَضْلٌ , وَالدِّرْهَمِ بِالدِّرْهَمِ , قَالَ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يُحِلُّهُ , فَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ يُحَدِّثُ بِمَا لَمْ يَسْمَعْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَبَلَغَ ابْنَ عَبَّاسٍ , فَقَالَ: إِنِّي لَمْ أَسْمَعْهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَلَكِنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ حَدَّثَنِي , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيْسَ الرِّبَا إِلَّا فِي النَّسِيئَةِ" أَوْ" النظرَةِ".
یحییٰ بن قیس کہتے کہ میں نے عطاء سے دینار کے بدلے دینار اور درہم کے بدلے درہم کے تبالے کے متعلق پوچھا جبکہ ان کے درمیان کچھ اضافی چیز بھی ہو تو انہوں نے کہا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اسے حلال قرار دیتے ہیں اس پر حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابن عباس وہ بات بیان کر رہے ہیں جو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خود نہیں سنی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا یہ چیز میں نے براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی ہے، البتہ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے مجھے بتایا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سود کا تعلق تو ادھار یا تاخیر سے ہوتا ہے۔
حدثنا يحيى بن ابي بكير , حدثنا شعبة , قال: حبيب بن ابي ثابت اخبرنا , قال: سمعت إبراهيم بن سعد يحدث , انه سمع اسامة بن زيد يحدث سعدا , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إذا سمعتم بالطاعون بارض فلا تدخلوها , وإذا وقع بارض وانتم بها فلا تخرجوا منها" قال: قلت: انت سمعته يحدث سعدا , وهو لا ينكر؟ قال: نعم.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , قَالَ: حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ أَخْبَرَنَا , قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ بْنَ سَعْدٍ يُحَدِّثُ , أَنَّهُ سَمِعَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ يُحَدِّثُ سَعْدًا , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا سَمِعْتُمْ بِالطَّاعُونِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوهَا , وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا مِنْهَا" قَالَ: قُلْتُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ يُحَدِّثُ سَعْدًا , وَهُوَ لَا يُنْكِرُ؟ قَالَ: نَعَمْ.
عامربن سعد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے پاس طاعون کے حوالے سے سوال پوچھنے کے لئے آیا تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کے متعلق میں تمہیں بتاتا ہوں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ طاعون ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلے لوگوں (بنی اسرائیل) پر مسلط کیا تھا، کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے لہٰذا جس علاقے میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہو تو تم اس علاقے میں مت جاؤ اور جب کسی علاقے میں یہ وباء پھیلے اور تم پہلے سے وہاں موجود ہو تو اس سے بھاگ کر وہاں سے نکلو مت۔
حدثنا ابو معاوية , حدثنا عاصم , حدثني ابو عثمان النهدي , عن اسامة بن زيد , قال: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم باميمة بنت زينب , ونفسها تقعقع كانها في شن , فقال: " لله ما اخذ , ولله ما اعطى , وكل إلى اجل مسمى" قال: فدمعت عيناه , فقال له سعد بن عبادة: يا رسول الله , اتبكي اولم تنه عن البكاء؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما هي رحمة جعلها الله في قلوب عباده , وإنما يرحم الله من عباده الرحماء" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا عَاصِمٌ , حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُمَيْمَةَ بِنْتِ زَيْنَبَ , وَنَفْسُهَا تَقَعْقَعُ كَأَنَّهَا فِي شَنٍّ , فَقَال: " لِلَّهِ مَا أَخَذَ , وَلِلَّهِ مَا أَعْطَى , وَكُلٌّ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى" قَالَ: فَدَمَعَتْ عَيْنَاهُ , فَقَالَ لَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَتَبْكِي أَوَلَمْ تَنْهَ عَنِ الْبُكَاءِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ , وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (ان کی نواسی) امیمہ بنت زینب کو لایا گیا اس کی روح اس طرح نکل رہی تھی جیسے کسی مشکیزے میں ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لیا وہ بھی اللہ کا ہے اور جو دیا وہ اللہ کا ہے اور ہر چیز کا اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جسے دیکھ کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ بھی رو رہے ہیں؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے رحم دل بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔