حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں اپنی بیوی سے عزل کرنا چاہتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وجہ سے پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کے بچوں کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر صرف اس وجہ سے کرنا چاہتے ہو تو ایسا مت کرو کیونکہ اس چیز سے تو اہل فارس وروم کو بھی نقصان نہیں ہوا۔
حدثنا هيثم , قال عبد الله: وسمعته انا من الهيثم بن خارجة , حدثنا رشدين بن سعد , عن عقيل , عن ابن شهاب , عن عروة بن الزبير , عن اسامة بن زيد , عن النبي صلى الله عليه وسلم:" ان جبريل عليه السلام لما نزل على النبي صلى الله عليه وسلم , فعلمه الوضوء , فلما فرغ من وضوئه , اخذ حفنة من ماء فرش بها نحو الفرج , قال: فكان النبي صلى الله عليه وسلم يرش بعد وضوئه" .حَدَّثَنَا هَيْثَمٌ , قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ الْهَيْثَمِ بْنِ خَارِجَةَ , حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ عُقَيْلٍ , عَنِ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:" أَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام لَمَّا نَزَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَعَلَّمَهُ الْوُضُوءَ , فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ وُضُوئِهِ , أَخَذَ حَفْنَةً مِنْ مَاءٍ فَرَشَّ بِهَا نَحْوَ الْفَرْجِ , قَالَ: فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُشُّ بَعْدَ وُضُوئِهِ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے کر نازل ہوئے تھے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرنا بھی سکھایا تھا اور جب وضو سے فارغ ہوئے تو ایک چلو میں پانی لے کر شرمگاہ کے قریب اسے چھڑک لیا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وضو کے بعد اسی طرح کرتے تھے۔
حدثنا عثمان بن عمر , حدثنا ابن ابي ذئب , عن الحارث , عن كريب مولى ابن عباس , عن اسامة بن زيد , قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه الكآبة , فسالته ما له؟ فقال: " لم ياتني جبريل منذ ثلاث" , قال: فإذا جرو كلب بين بيوته , فامر به فقتل , فبدا له جبريل عليه السلام , فبهش إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم حين رآه , فقال:" لم تاتني!" , فقال: إنا لا ندخل بيتا فيه كلب , ولا تصاوير ..حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ , عَنِ الْحَارِثِ , عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ الْكَآبَةُ , فَسَأَلْتُهُ مَا لَهُ؟ فَقَالَ: " لَمْ يَأْتِنِي جِبْرِيلُ مُنْذُ ثَلَاثٍ" , قَالَ: فَإِذَا جِرْوُ كَلْبٍ بَيْنَ بُيُوتِهِ , فَأَمَرَ بِهِ فَقُتِلَ , فَبَدَا لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام , فَبَهَشَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَآهُ , فَقَالَ:" لَمْ تَأْتِنِي!" , فَقَالَ: إِنَّا لَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ , وَلَا تَصَاوِيرُ ..
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر غم اور کسی کمرے میں آثار دیکھے میں نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ تین دن سے میرے پاس جبرائیل نہیں آئے دیکھا تو کتے کا ایک پلاّ کسی کمرے میں چھپا ہوا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اسے قتل کردیا گیا تھوڑی ہی دیر میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نمودار ہوگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور فرمایا آپ میرے پاس کیوں نہیں آ رہے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتے یا تصویریں ہوں۔
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مرض الوفات میں ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو میرے پاس بلا کر لاؤ جب وہ آگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ (چادر کو) ہٹایا اور فرمایا یہودونصاری پر اللہ کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات وشواهد لأجل قيس
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن عاصم الاحول , قال: سمعت ابا عثمان يحدث , عن اسامة بن زيد , قال: ارسلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعض بناته , ان صبيا لها ابنا , او ابنة قد احتضرت , فاشهدنا قال: فارسل إليها يقرا السلام , ويقول: " إن لله ما اخذ وما اعطى , وكل شيء عنده إلى اجل مسمى , فلتصبر ولتحتسب" , فارسلت تقسم عليه , فقام وقمنا , فرفع الصبي إلى حجر , او في حجر رسول الله صلى الله عليه وسلم ونفسه تقعقع , وفي القوم سعد بن عبادة , وابي احسب , ففاضت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال له سعد: ما هذا يا رسول الله؟ قال:" هذه رحمة يضعها الله في قلوب من يشاء من عباده , وإنما يرحم الله من عباده الرحماء" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ يُحَدِّثُ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: أَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضُ بَنَاتِهِ , أَنَّ صَبِيًّا لَهَا ابْنًا , أَوْ ابْنَةً قَدْ احْتُضِرَتْ , فَاشْهَدْنَا قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا يَقْرَأُ السَّلَامَ , وَيَقُولُ: " إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطَى , وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى , فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ" , فَأَرْسَلَتْ تُقْسِمُ عَلَيْهِ , فَقَامَ وَقُمْنَا , فَرُفِعَ الصَّبِيُّ إِلَى حِجْرِ , أَوْ فِي حِجْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ , وَفِي الْقَوْمِ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ , وَأُبَيٌّ أَحْسِبُ , فَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: مَا هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" هَذِهِ رَحْمَةٌ يَضَعُهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ , وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی صاحبزادی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ ان کے بچہ پر نزع کا عالم طاری ہے آپ ہمارے یہاں تشریف لائیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کہلوایا اور فرمایا جو لیا وہ بھی اللہ کا ہے اور جو دیا وہ بھی اللہ کا ہے اور ہر چیز کا اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے لہٰذا تمہیں صبر کرنا چاہئے اور اس پر ثواب کی امید رکھنی چاہئے، انہوں نے دوبارہ قاصد کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قسم دے کر بھیجا، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے اور ہم بھی ساتھ ہی کھڑے ہوگئے۔
اس بچے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں لا کر رکھا گیا، اس کی جان نکل رہی تھی لوگوں میں اس وقت حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اور غالباً حضرت ابی رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جسے دیکھ کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ کیا ہے؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے رحم دل بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔
حدثنا احمد بن عبد الملك , حدثنا محمد بن سلمة , عن محمد بن إسحاق , عن يزيد بن عبد الله بن قسيط , عن محمد بن اسامة , عن ابيه , قال: اجتمع جعفر , وعلي , وزيد بن حارثة , فقال جعفر: انا احبكم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال علي: انا احبكم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , وقال زيد: انا احبكم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقالوا: انطلقوا بنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى نساله , فقال اسامة بن زيد: فجاءوا يستاذنونه , فقال:" اخرج فانظر من هؤلاء" فقلت: هذا جعفر , وعلي , وزيد , ما اقول: ابي , قال:" ائذن لهم" ودخلوا فقالوا: من احب إليك؟ قال:" فاطمة" , قالوا: نسالك عن الرجال , قال: " اما انت يا جعفر , فاشبه خل?قك خلقي , واشبه خلقي خلقك , وانت مني وشجرتي , واما انت يا علي , فختني وابو ولدي , وانا منك وانت مني , واما انت يا زيد , فمولاي ومني وإلي , واحب القوم إلي" .حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أُسَامَةَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: اجْتَمَعَ جَعْفَرٌ , وَعَلِيٌّ , وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ , فَقَالَ جَعْفَرٌ: أنَا أَحَبُّكُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ عَلِيٌّ: أَنَا أَحَبُّكُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَالَ زَيْدٌ: أَنَا أَحَبُّكُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالُوا: انْطَلِقُوا بِنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَسْأَلَهُ , فَقَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ: فَجَاءُوا يَسْتَأْذِنُونَهُ , فَقَالَ:" اخْرُجْ فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلَاءِ" فَقُلْتُ: هَذَا جَعْفَرٌ , وَعَلِيٌّ , وَزَيْدٌ , مَا أَقُولُ: أَبِي , قَالَ:" ائْذَنْ لَهُمْ" وَدَخَلُوا فَقَالُوا: مَنْ أَحَبُّ إِلَيْكَ؟ قَالَ:" فَاطِمَةُ" , قَالُوا: نَسْأَلُكَ عَنِ الرِّجَالِ , قَالَ: " أَمَّا أَنْتَ يَا جَعْفَرُ , فَأَشْبَهَ خَل?قُكَ خَلْقِي , وَأَشْبَهَ خُلُقِي خُلُقُكَ , وَأَنْتَ مِنِّي وَشَجَرَتِي , وَأَمَّا أَنْتَ يَا عَلِيُّ , فَخَتَنِي وَأَبُو وَلَدِي , وَأَنَا مِنْكَ وَأَنْتَ مِنِّي , وَأَمَّا أَنْتَ يَا زَيْدُ , فَمَوْلَايَ وَمِنِّي وَإِلَيَّ , وَأَحَبُّ الْقَوْمِ إِلَيَّ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ایک جگہ اکٹھے تھے دوران گفتگو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں تم سب سے زیادہ محبوب ہوں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہی بات اپنے متعلق کہی اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے اپنے متعلق کہی، فیصلہ کرنے کے لئے وہ کہنے لگے کہ آؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چل کر ان سے پوچھ لیتے ہیں چنانچہ وہ آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت چاہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ دیکھو، یہ کون لوگ آئے ہیں؟ میں نے دیکھ کر عرض کیا کہ جعفر علی اور زید آئے ہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ میرے والد آئے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو۔
وہ اندر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! آپ کو سب سے زیادہ کس سے محبت ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا فاطمہ سے، انہوں نے کہا ہم آپ سے مردوں کے حوالے سے پوچھ رہے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جعفر! تمہاری صورت میری صورت سے اور تمہاری سیرت میری سیرت سے سب سے زیادہ مشابہہ ہے تم مجھ سے ہو اور میرا شجرہ ہو اور علی! تم میرے داماد اور میرے بچوں (نواسوں) کے باپ ہو، میں تم سے ہوں اور تم مجھ سے ہو اور اے زید! تم ہمارے مولیٰ ہو اور مجھ سے ہو اور میری طرف ہو اور تمام لوگوں میں مجھے سب سے زیادہ محبوب ہو۔
حدثنا ابو معاوية , حدثنا عاصم , عن ابي عثمان النهدي , عن اسامة بن زيد , قال: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم باميمة ابنة زينب , ونفسها تقعقع كانها في شن , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لله ما اخذ , ولله ما اعطى , وكل إلى اجل مسمى" , فدمعت عيناه , فقال له سعد بن عبادة: يا رسول الله , اتبكي اولم تنه عن البكاء؟! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما هي رحمة جعلها الله في قلوب عباده , وإنما يرحم الله من عباده الرحماء" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا عَاصِمٌ , عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ , عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ , قَالَ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأُمَيْمَةَ ابْنَةِ زَيْنَبَ , وَنَفْسُهَا تَقَعْقَعُ كَأَنَّهَا فِي شَنٍّ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِلَّهِ مَا أَخَذَ , وَلِلَّهِ مَا أَعْطَى , وَكُلٌّ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى" , فَدَمَعَتْ عَيْنَاهُ , فَقَالَ لَهُ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَتَبْكِي أَوَلَمْ تَنْهَ عَنِ الْبُكَاءِ؟! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ جَعَلَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ عِبَادِهِ , وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ" .
حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (ان کی نواسی) امیمہ بنت زینب کو لایا گیا اس کی روح اس طرح نکل رہی تھی جیسے کسی مشکیزے میں ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو لیا وہ بھی اللہ کا ہے اور جو دیا وہ اللہ کا ہے اور ہر چیز کا اس کے یہاں ایک وقت مقرر ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جسے دیکھ کر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ بھی رو رہے ہیں؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں میں سے جس کے دل میں چاہتا ہے ڈال دیتا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے رحم دل بندوں پر ہی رحم کرتا ہے۔