معدان بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے مجھ سے پوچھا کہ تمہاری رہائش کہاں ہے؟ میں نے بتایا کہ حمص سے پیچھے ایک بستی میں انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس بستی میں تین آدمی ہوں اور وہاں اذان اور اقامت نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان غالب آجاتا ہے، لہٰذا تم جماعت مسلمین کو اپنے اوپر لازم پکڑو کیونکہ اکیلی بکری کو بھیڑیا کھا جاتا ہے۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سورت کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرلے وہ دجال کے فتنے سے محفوظ رہے گا۔
حدثنا محمد بن يزيد , اخبرنا عاصم بن رجاء بن حيوة , عن قيس بن كثير , قال: قدم رجل من المدينة إلى ابي الدرداء وهو بدمشق , فقال: ما اقدمك اي اخي؟ قال: حديث بلغني انك تحدث به عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: اما قدمت لتجارة؟ قال: لا , قال: اما قدمت لحاجة؟ قال: لا , قال: ما قدمت إلا في طلب هذا الحديث؟ قال: نعم , قال: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة , وإن الملائكة لتضع اجنحتها رضا لطالب العلم , وإنه ليستغفر للعالم من في السموات والارض , حتى الحيتان في الماء , وفضل العالم على العابد , كفضل القمر على سائر الكواكب , إن العلماء هم ورثة الانبياء , لم يرثوا دينارا ولا درهما , وإنما ورثوا العلم , فمن اخذ به , اخذ بحظ وافر" ..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ , أخبرنا عَاصِمُ بْنُ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ , عَنْ قَيْسِ بْنِ كَثِيرٍ , قَالَ: قَدِمَ رَجُلٌ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ وَهُوَ بِدِمَشْقَ , فَقَالَ: مَا أَقْدَمَكَ أَيْ أَخِي؟ قَالَ: حَدِيثٌ بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَدِّثُ بِهِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: أَمَا قَدِمْتَ لِتِجَارَةٍ؟ قَالَ: لَا , قَالَ: أَمَا قَدِمْتَ لِحَاجَةٍ؟ قَالَ: لَا , قَالَ: مَا قَدِمْتَ إِلَّا فِي طَلَبِ هَذَا الْحَدِيثِ؟ قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَطْلُبُ فِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ , وَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا رِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ , وَإِنَّهُ لَيَسْتَغْفِرُ لِلْعَالِمِ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ , حَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِ , وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ , كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ , إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ , لَمْ يَرِثُوا دِينَارًا وَلَا دِرْهَمًا , وَإِنَّمَا وَرِثُوا الْعِلْمَ , فَمَنْ أَخَذ به , أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ" ..
قیس بن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ سے ایک آدمی حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق میں آیا انہوں نے آنے والے سے پوچھا کہ بھائی! کیسے آنا ہوا؟ اس نے کہا کہ ایک حدیث معلوم کرنے کے لئے جس کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ وہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے ہیں، انہوں نے پوچھا کیا آپ کسی تجارت کے سلسلے میں نہیں آئے؟ اس نے کہا نہیں انہوں نے پوچھا کسی اور کام کے لئے؟ اس نے کہا نہیں، انہوں نے پوچھا کیا آپ صرف اسی حدیث کے طلب میں آئے ہیں؟ اس نے کہا جی ہاں، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص طلب علم کے لئے کسی راستے میں چلتا ہے اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے اور فرشتے اس طالب علم کی خوشنودی کے لئے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور عالم کے لئے زمین و آسمان کی ساری مخلوقات بخشش کی دعائیں کرتی ہیں اور عالم کی عابد پر فضیلت ایسے ہی ہے جیسے چاند کی دوسرے ستاروں پر، بیشک علماء انبیاء کرام کے وارث ہوتے ہیں جو وراثت میں دینار و درہم نہیں چھوڑتے، بلکہ وہ تو وراثت میں علم چھوڑ کر جاتے ہیں، سو جو اسے حاصل کرلیتا ہے وہ اس کا بہت سا حصہ حاصل کرلیتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف قيس بن كثير ، وعاصم بن رجاء لم سمعه من قيس
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن عطاء بن السائب , قال: سمعت ابا عبد الرحمن السلمي يحدث ان رجلا امرته امه , او ابوه , او كلاهما , قال: شعبة يقول ذلك ان يطلق امراته , فجعل عليه مائة محرر , فاتى ابا الدرداء , فإذا هو يصلي الضحى يطيلها , وصلى ما بين الظهر والعصر , فساله , فقال له ابو الدرداء : اوف نذرك , وبر والديك , إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الوالد اوسط باب الجنة" فحافظ على الوالد , او اترك.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيَّ يُحَدِّثُ أَنَّ رَجُلًا أَمَرَتْهُ أُمُّهُ , أَوْ أَبُوهُ , أَوْ كِلَاهُمَا , قَالَ: شُعْبَةُ يَقُولُ ذَلِكَ أَنْ يُطَلِّقَ امْرَأَتَهُ , فَجَعَلَ عَلَيْهِ مِائَةَ مُحَرَّر , فَأَتَى أَبَا الدَّرْدَاءِ , فَإِذَا هُوَ يُصَلِّي الضُّحَى يطيلها , وَصَلَّى مَا بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ , فَسَأَلَهُ , فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ : أَوْفِ نَذْرَكَ , وَبَرَّ وَالِدَيْكَ , إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْوَالِدُ أَوْسَطُ بَابِ الْجَنَّةِ" فَحَافِظْ عَلَى الْوَالِدِ , أَوْ اتْرُكْ.
ایک آدمی کو اس کی ماں یا باپ یا دونوں نے حکم دیا کہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے (اس نے انکار کردیا اور) کہا کہ اگر اس نے اپنی بیوی کو طلاق دی تو اس پر سو غلام آزاد کرنا واجب ہوں گے، پھر وہ آدمی حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو وہ چاشت کی لمبی نماز پڑھ رہے تھے پھر انہوں نے ظہر اور عصر کے درمیان نماز پڑھی پھر اس شخص نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا اپنی منت پوری کرلو (سو غلام آزاد کردو) اور اپنے والدین کی بات مانو کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ باپ جنت کا درمیانہ دروازہ ہے اب تمہاری مرضی ہے کہ اس کی حفاظت کرو یا اسے چھوڑ دو۔
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة , عن عطاء بن السائب , قال: سمعت ابا إسحاق يحدث , انه سمع ابا حبيبة , قال: اوصى رجل بدنانير في سبيل الله , فسئل ابو الدرداء , فحدث عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " مثل الذي يعتق او يتصدق عند موته , مثل الذي يهدي بعدما يشبع" , قال ابو حبيبة: فاصابني من ذلك شيء.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عن عطاء بن السائب , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ يُحَدِّثُ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا حَبِيبَةَ , قَالَ: أَوْصَى رَجُلٌ بِدَنَانِيرَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , فَسُئِلَ أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَحَدَّثَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَثَلُ الَّذِي يُعْتِقُ أَوْ يَتَصَدَّقُ عِنْدَ مَوْتِهِ , مَثَلُ الَّذِي يُهْدِي بَعْدَمَا يَشْبَعُ" , قَالَ أَبُو حَبِيبَةَ: فَأَصَابَنِي مِنْ ذَلِكَ شَيْءٌ.
ابو حبیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے مرتے وقت اپنے مال میں سے کچھ دینا اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی وصیت کی حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ جو شخص مرتے وقت کسی غلام کو آزاد کرتا یا صدقہ خیرات کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو خوب سیراب ہونے کے بعد بچ جانے والی چیز کو ہدیہ کر دے۔
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي , عن سفيان , عن ابي إسحاق , عن ابي حبيبة الطائي , قال: اوصى إلي اخي بطائفة من ماله , قال: فلقيت ابا الدرداء , فقلت: إن اخي اوصاني بطائفة من ماله , فاين اضعه , في الفقراء , او في المجاهدين , او في المساكين؟ قال: اما انا فلو كنت لم اعدل بالمجاهدين , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " مثل الذي يعتق عند الموت مثل الذي يهدي إذا شبع" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ , عَنْ أَبِي حَبِيبَةَ الطَّائِيِّ , قَالَ: أَوْصَى إِلَيَّ أَخِي بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِهِ , قَالَ: فَلَقِيتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ , فَقُلْتُ: إِنَّ أَخِي أَوْصَانِي بِطَائِفَةٍ مِنْ مَالِهِ , فَأَيْنَ أَضَعُهُ , فِي الْفُقَرَاءِ , أَوْ فِي الْمُجَاهِدِينَ , أَوْ فِي الْمَسَاكِينَ؟ قَالَ: أَمَّا أَنَا فَلَوْ كُنْتُ لَمْ أَعْدِلْ بِالْمُجَاهِدِينَ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَثَلُ الَّذِي يُعْتِقُ عِنْدَ الْمَوْتِ مَثَلُ الَّذِي يُهْدِي إِذَا شَبِعَ" .
ابو حبیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے مرتے وقت اپنے مال میں سے کچھ دینار اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی وصیت کی حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث سنائی کہ جو شخص مرتے وقت کسی غلام کو آزاد کرتا یا صدقہ خیرات کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو خوب سیراب ہونے کے بعد بچ جانے والی چیز کو ہدیہ کر دے۔