حدثنا حدثنا ابو معاوية , حدثنا الاعمش , عن سالم , عن ام الدرداء , قالت: دخل عليها يوما ابو الدرداء مغضبا , فقالت: ما لك؟ فقال: " والله ما اعرف فيهم شيئا من امر محمد صلى الله عليه وسلم إلا انهم يصلون جميعا" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ سَالِمٍ , عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ , قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْهَا يَوْمًا أَبُو الدَّرْدَاءِ مُغْضَبًا , فَقَالَتْ: مَا لَكَ؟ فقَال: " وَاللَّهِ مَا أَعْرِفُ فِيهِمْ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا أَنَّهُمْ يُصَلُّونَ جَمِيعًا" .
حضرت ام درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے تو نہایت غصے کی حالت میں تھے انہوں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے کہ بخدا! میں لوگوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی تعلیم نہیں دیکھ رہا، اب تو صرف اتنی بات رہ گئی ہے کہ وہ اکٹھے ہو کر نماز پڑھ لیتے ہیں۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قے آگئی جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا روزہ ختم کردیا راوی کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مسجد نبوی میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوگئی تو میں نے ان سے بھی اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وضو کا پانی ڈال رہا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقد اختلف فى إسناده، والخلاف كله يدور على الثقات
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں تمہارے مالک کی نگاہوں میں سب سے بہتر عمل " جو درجات میں سب سے زیادہ بلندی کا سبب ہو تمہارے لئے سونے چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہو اور اس سے بہتر ہو کہ میدان جنگ میں دشمن سے تمہارا آمنا سامنا ہو اور تم ان کی گردنیں اڑاؤ اور وہ تمہاری گردنیں اڑائیں " نہ بتادو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سا عمل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ذکر۔
حكم دارالسلام: رفعه لا يصح، والصحيح وقفه على ابي الدرداء، فقد اختلف فى رفعه ووقفه، وفي ارساله ووصله
حدثنا يحيى , عن شعبة , عن يزيد بن خمير , عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير , عن ابيه , عن ابي الدرداء , ان النبي صلى الله عليه وسلم راى امراة مجحا على باب فسطاط , او طرف فسطاط , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لعل صاحبها يلم بها" , قالوا: نعم , قال:" لقد هممت ان العنه لعنة تدخل معه في قبره , كيف يورثه وهو لا يحل له؟! وكيف يستخدمها وهو لا يحل له؟! .حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ شُعْبَةَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُمَيْرٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى امْرَأَةً مُجِحًّا عَلَى بَابِ فُسْطَاطٍ , أَوْ طَرَفِ فُسْطَاطٍ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَعَلَّ صَاحِبَهَا يُلِمُّ بِهَا" , قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ:" لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ أَلْعَنَهُ لَعْنَةً تَدْخُلُ مَعَهُ فِي قَبْرِهِ , كَيْفَ يُوَرِّثُهُ وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟! وَكَيْفَ يَسْتَخْدِمُهَا وَهُوَ لَا يَحِلُّ لَهُ؟! .
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خیمے کے باہر ایک عورت کو دیکھا جس کے یہاں بچے کی پیدائش کا زمانہ قریب آچکا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لگتا ہے کہ اس کا مالک اس کے "" قریب "" جانا چاہتا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرا دل چاہتا ہے کہ اس پر ایسی لعنت کروں جو اس کے ساتھ اس کی قبر تک جائے یہ اسے کیسے اپنا وارث بنا سکتا ہے جب کہ یہ اس کے لئے حلال ہی نہیں اور کیسے اس سے خدمت لے سکتا ہے جبکہ یہ اس کے لئے حلال ہی نہیں۔
حدثنا عفان , حدثنا وهيب , حدثنا موسى بن عقبة , حدثني زياد بن ابي زياد , حديثا يرفعه إلى ابي الدرداء , يرفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الا انبئكم بخير اعمالكم" فذكر الحديث يعني حديث يحيى بن سعيد , ومكي , عن عبد الله بن سعيد , عن زياد بن ابي زياد.حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ , حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ , حَدَّثَنِي زِيَادُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ , حَدِيثًا يَرْفَعُهُ إِلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ , يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ" فَذَكَرَ الْحَدِيث يَعْنِي حَدِيثَ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ , وَمَكِّيٍّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ , عَنْ زِيَادِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، زياد بن أبى زياد لم يسمع من أبى الدرداء
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا تم ایک رات میں تہائی قرآن پڑہنے سے عاجز ہو؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ بات بہت مشکل معلوم ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ اس کی طاقت کس کے پاس ہوگی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورت اخلاص پڑھ لیا کرو (کہ وہ ایک تہائی قرآن کے برابر ہے)
عبداللہ بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے گوہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے اسے مکروہ قرار دیا، میں نے ان سے کہا کہ آپ کی قوم تو اسے کھاتی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ انہیں معلوم نہیں ہوگا اس پر وہاں موجود ایک آدمی نے کہا کہ میں نے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس جانور سے منع فرمایا ہے جو لوٹ مار سے حاصل ہو جسے اچک لیا گیا ہو یا ہر وہ درندہ جو اپنے کچلی والے دانتوں سے شکار کرتا ہو حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے اس کی تصدیق فرمائی۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن يزيد وإبهام الرجل الذى روى الحديث عن أبى الدرداء
حدثنا ابن نمير , حدثنا عبد الملك , عن عطاء , عن صفوان بن عبد الله بن صفوان , قال: وكانت تحته الدرداء , قال: اتيت الشام , فدخلت على ابي الدرداء فلم اجده , ووجدت ام الدرداء , فقالت: تريد الحج العام؟ قال: قلت: نعم , فقالت: فادع لنا بخير , فإن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقول: " إن دعوة المسلم مستجابة لاخيه بظهر الغيب , عند راسه ملك موكل , كلما دعا لاخيه بخير قال: آمين , ولك بمثل" , فخرجت إلى السوق , فالقى ابا الدرداء , فقال لي مثل ذلك ياثره عن النبي صلى الله عليه وسلم. حدثنا يزيد بن هارون , ويعلى , قالا: حدثنا عبد الملك , عن ابي الزبير , عن صفوان , قال يزيد بن عبد الله فذكره.حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ , عَنْ عَطَاءٍ , عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ , قَالَ: وَكَانَتْ تَحْتَهُ الدَّرْدَاءُ , قَالَ: أَتَيْتُ الشَّامَ , فَدَخَلْتُ عَلَى أَبِي الدَّرْدَاءِ فَلَمْ أَجِدْهُ , وَوَجَدْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ , فَقَالَتْ: تُرِيدُ الْحَجَّ الْعَامَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ , فَقَالَتْ: فَادْعُ لَنَا بِخَيْرٍ , فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: " إِنَّ دَعْوَةَ الْمُسْلِمِ مُسْتَجَابَةٌ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ , عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ , كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ قَالَ: آمِينَ , وَلَكَ بِمِثْل" , فَخَرَجْتُ إِلَى السُّوقِ , فَأَلْقَى أَبَا الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ لِي مِثْلَ ذَلِكَ يَأْثُرُهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , وَيَعْلَى , قَالَا: حدثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ , عَنْ صَفْوَانَ , قَالَ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَذَكَرَهُ.
صفوان بن عبداللہ " جن کے نکاح میں " درداء تھیں " کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں شام آیا اور حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن وہ گھر پر نہیں ملے البتہ ان کی اہلیہ موجود تھیں، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا اس سال تمہارا حج کا ارادہ ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا، انہوں نے فرمایا کہ ہمارے لئے بھی خیر کی دعاء کرنا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کی پیٹھ پیچھے جو دعاء کرتا ہے وہ قبول ہوتی ہے اور اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ اس مقصد کے لئے مقرر ہوتا ہے کہ جب بھی وہ اپنے بھائی کے لئے خیر کی دعاء مانگے تو وہ اس پر آمین کہتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ تمہیں بھی یہی نصیب ہو۔
پھر میں بازار کی طرف نکلا تو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے بھی ملاقات ہوگئی انہوں نے بھی مجھ سے یہی کہا اور یہی حدیث انہوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے سنائی۔
حدثنا يزيد بن هارون ويعلى قالا: حدثنا عبد الملك عن ابي الزبير عن صفوان قال يزيد بن عبد الله فذكرهحَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ وَيَعْلَى قَالَا: حدثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ صَفْوَانَ قَالَ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ فَذَكَرَهُ
حدثنا ابن نمير , حدثنا مالك يعني ابن مغول , عن الحكم , عن ابي عمر , عن ابي الدرداء , قال: نزل بابي الدرداء رجل , فقال ابو الدرداء: مقيم فنسرح , ام ظاعن فنعلف؟ قال: بل ظاعن , قال: فإني سازودك زادا لو اجد ما هو افضل منه لزودتك , اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت: يا رسول الله , ذهب الاغنياء بالدنيا والآخرة , نصلي ويصلون , ونصوم ويصومون , ويتصدقون ولا نتصدق , قال: " الا ادلك على شيء إن انت فعلته , لم يسبقك احد كان قبلك , ولم يدركك احد بعدك , إلا من فعل الذي تفعل: دبر كل صلاة ثلاثا وثلاثين تسبيحة , وثلاثا وثلاثين تحميدة , واربعا وثلاثين تكبيرة" .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا مَالِك يَعْنِي ابْنَ مِغْوَلٍ , عَنِ الْحَكَمِ , عَنْ أَبِي عُمَرَ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ: نَزَلَ بِأَبِي الدَّرْدَاءِ رَجُلٌ , فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: مُقِيمٌ فَنَسْرَحَ , أَمْ ظَاعِنٌ فَنَعْلِفَ؟ قَالَ: بَلْ ظَاعِنٌ , قَالَ: فَإِنِّي سَأُزَوِّدُكَ زَادًا لَوْ أَجِدُ مَا هُوَ أَفْضَلُ مِنْهُ لَزَوَّدْتُكَ , أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ذَهَبَ الْأَغْنِيَاءُ بِالدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ , نُصَلِّي وَيُصَلُّونَ , وَنَصُومُ وَيَصُومُونَ , وَيَتَصَدَّقُونَ وَلَا نَتَصَدَّقُ , قَالَ: " أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى شَيْءٍ إِنْ أَنْتَ فَعَلْتَهُ , لَمْ يَسْبِقْكَ أَحَدٌ كَانَ قَبْلَكَ , وَلَمْ يُدْرِكْكَ أَحَدٌ بَعْدَكَ , إِلَّا مَنْ فَعَلَ الَّذِي تَفْعَلُ: دُبُرَ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً , وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً , وَأَرْبَعًا وَثَلَاثِينَ تَكْبِيرَةً" .
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی ان کے یہاں آیا انہوں نے پوچھا کہ تم مقیم ہو کہ ہم تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں یا مسافر ہو کہ تمہیں زاد راہ دیں؟ اس نے کہا کہ میں مسافر ہوں، انہوں نے فرمایا میں تمہیں ایک ایسی چیز زاد راہ کے طور پر دیتا ہوں جس سے افضل اگر کوئی چیز مجھے ملتی تو میں تمہیں وہی دیتا، ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مالدار تو دنیا و آخرت دونوں لے گئے ہم بھی نماز پڑھتے ہیں اور وہ بھی پڑھتے ہیں، ہم بھی روزے رکھتے ہیں اور وہ بھی رکھتے ہیں، البتہ وہ صدقہ کرتے ہیں اور ہم صدقہ نہیں کرسکتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسی چیز نہ بتادوں کہ اگر تم اس پر عمل کرلو تو تم سے پہلے والا کوئی تم سے آگے نہ بڑھ سکے اور پیچھے والا تمہیں پا نہ سکے الاّ یہ کہ کوئی آدمی تمہاری ہی طرح عمل کرنے لگے ہر نماز کے بعد ٣٣ مرتبہ سبحان اللہ، ٣٣ مرتبہ الحمد اور ٣٤ مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف، أبو عمر مستور، وروايته