حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان قربانی کے لئے بکریاں تقسیم کیں تو میرے حصے میں چھ ماہ کا ایک بچہ آیا، میں اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! یہ تو چھ ماہ کا بچہ ہے (کیا اس کی قربانی ہوجائے گی؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی کی قربانی کرلو چنانچہ میں نے اسی کی قربانی کرلی۔
حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دو رکعتیں اس طرح پڑھے کہ ان میں غافل نہ ہو اللہ تعالیٰ اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف فرما دے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد منقطع، زيد بن أسلم لم يسمع من زيد بن خالد
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کریم میں گیارہ سجدے کئے ہیں جن میں سورت نجم کی آیت سجدہ بھی شامل ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عمر الدمشقي، وهو منقطع بينه وبين أم الدرداء
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن تم لوگ اپنے اور اپنے باپ کے نام سے پکارے جاؤ گے لہٰذا اچھے نام رکھا کرو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، فإن عبدالله بن أبى زكريا لم يسمع من أبى الدرداء
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انسان کی سمجھداری کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے معاشی معاملات میں میانہ روی سے چلے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى بكر بن أبى مريم
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کسی سفر میں تھے اور گرمی کی شدت سے اپنے سر پر اپنا ہاتھ رکھتے جاتے تھے اور اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہم میں سے کسی کا روزہ نہ تھا۔
حدثنا وكيع , حدثنا سفيان , عن الاعمش , عن ثابت , او عن ابي ثابت , ان رجلا دخل مسجد دمشق , فقال: اللهم آنس وحشتي , وارحم غربتي , وارزقني جليسا صالحا , فسمعه ابو الدرداء , فقال: لئن كنت صادقا لانا اسعد بما قلت منك , سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " فمنهم ظالم لنفسه سورة فاطر آية 32 يعني الظالم يؤخذ منه في مقامه ذلك , فذلك الهم والحزن ومنهم مقتصد سورة فاطر آية 32 قال: يحاسب حسابا يسيرا ومنهم سابق بالخيرات بإذن الله سورة فاطر آية 32 قال: الذين يدخلون الجنة بغير حساب" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنِ الْأَعْمَشِ , عَنْ ثَابِتٍ , أَوْ عَنْ أَبِي ثَابِتٍ , أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ مَسْجِدَ دِمَشْقَ , فَقَالَ: اللَّهُمَّ آنِسْ وَحْشَتِي , وَارْحَمْ غُرْبَتِي , وَارْزُقْنِي جَلِيسًا صَالِحًا , فَسَمِعَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ , فَقَالَ: لَئِنْ كُنْتَ صَادِقًا لَأَنَا أَسْعَدُ بِمَا قُلْتَ مِنْكَ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِه سورة فاطر آية 32 يَعْنِي الظَّالِمَ يُؤْخَذُ مِنْهُ فِي مَقَامِهِ ذَلِكَ , فَذَلِكَ الْهَمُّ وَالْحَزَنُ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِد سورة فاطر آية 32 قَالَ: يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ سورة فاطر آية 32 قَال: الَّذِينَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ" .
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی مسجد دمشق میں داخل ہوا اور یہ دعا کی کہ اے اللہ! مجھے تنہائی میں کوئی مونس عطاء فرما میری اجنبیت پر ترس کھا اور مجھے اچھا رفیق عطاء فرما، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے اس کی یہ دعاء سن لی اور فرمایا کہ تم یہ دعاء صدق دل سے کر رہے ہو تو اس دعاء کا میں تم سے زیادہ سعادت یافتہ ہوں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کی اس آیت " فمن ہم ظالم لنفسہ " کی تفسیر میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ظالم سے اس کے اعمال کا حساب کتاب اسی کے مقام پر لیا جائے گا اور یہی غم اندوہ ہوگا منہم مقتصد یعنی کچھ لوگ درمیانے درجے کے ہوں گے، ان کا آسان حساب لیا جائے گا " ومنہم سابق بالخیرات باذن اللہ " یہ وہ لوگ ہوں گے جو جنت میں بلا حساب کتاب داخل ہوجائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ثابت أو أبو ثابت مجهول، وقد اختلف فى إسناده على الأعمش
حدثنا ابو عامر , حدثنا هشام يعني ابن سعد , عن عثمان بن حيان الدمشقي , اخبرتني ام الدرداء , عن ابي الدرداء , قال:" لقد رايتنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض اسفاره في اليوم الحار الشديد الحر , حتى إن الرجل ليضع يده على راسه من شدة الحر , وما في القوم صائم إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم , وعبد الله بن رواحة" .حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ , حَدَّثَنَا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ سَعْدٍ , عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَيَّانَ الدِّمَشْقِيِّ , أَخْبَرَتْنِي أُمُّ الدَّرْدَاءِ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ , قَالَ:" لَقَدْ رَأَيْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ فِي الْيَوْمِ الْحَارِّ الشَّدِيدِ الْحَرِّ , حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَضَعُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ من شِدَّةِ الْحَر , وَمَا فِي الْقَوْمِ صَائِمٌ إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ" .
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شدید گرمی کے سفر میں تھے اور گرمی کی شدت سے اپنے سر پر اپنا ہاتھ رکھتے جاتے تھے اور اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ ہم میں سے کسی کا روزہ نہ تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1945، م: 1122، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من اجل هشام و عثمان
حدثنا ابو معاوية , حدثنا هشام بن حسان القردوسي , عن قيس بن سعد , عن رجل حدثه , عن ابي الدرداء قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن إعطاء السلطان , قال: " ما آتاك الله منه من غير مسالة ولا إشراف , فخذه وتموله" , قال: وقال الحسن رحمه الله: لا باس بها ما لم ترحل إليها , او تشرف لها.حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ الْقُرْدُوسِيُّ , عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ , عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَهُ , عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ إِعْطَاءِ السُّلْطَانِ , قَالَ: " مَا آتَاكَ اللَّهُ مِنْهُ مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ وَلَا إِشْرَافٍ , فَخُذْهُ وَتَمَوَّلْهُ" , قَالَ: وَقَالَ الْحَسَنُ رَحِمَهُ اللَّهُ: لَا بَأْسَ بِهَا مَا لَمْ تَرْحَلْ إِلَيْهَا , أَوْ تَشَرَّفْ لَهَا.
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بادشاہ کی عطاء و بخشش لینے کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بن مانگے اور بن خواہش اللہ تعالیٰ تمہیں جو کچھ عطاء فرما دے اسے لے لیا کرو اور اس سے تم مول حاصل کیا کرو؟
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الرجل عن أبى الدرداء