حدثنا حدثنا ابن نمير ، ومحمد بن عبيد ، قالا: حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، قال: قال ابو ذر بينما انا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد حين وجبت الشمس، قال:" يا ابا ذر، اين تذهب الشمس؟" قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" فإنها تذهب حتى تسجد بين يدي ربها عز وجل ثم تستاذن فيؤذن لها وكانها قد قيل لها: ارجعي من حيث جئت، فتطلع من مكانها، وذلك مستقر لها"، قال محمد، ثم قرا والشمس تجري لمستقر لها سورة يس آية 38 .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ بَيْنَمَا أَنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ حِينَ وَجَبَتْ الشَّمْسُ، قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، أَيْنَ تَذْهَبُ الشَّمْسُ؟" قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" فَإِنَّهَا تَذْهَبُ حَتَّى تَسْجُدَ بَيْنَ يَدَيْ رَبِّهَا عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ تَسْتَأْذِنُ فَيُؤْذَنُ لَهَا وَكَأَنَّهَا قَدْ قِيلَ لَهَا: ارْجِعِي مِنْ حَيْثُ جِئْتِ، فَتَطْلُعُ مِنْ مَكَانِهَا، وَذَلِكَ مُسْتَقَرٌّ لَهَا"، قَالَ مُحَمَّدٌ، ثُمَّ قَرَأَ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا سورة يس آية 38 .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ غروب آفتاب کے وقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مسجد میں تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! تم جانتے ہو کہ یہ سورج کہاں جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جا کر بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوجاتا ہے پھر وہ واپس جانے کی اجازت مانگتا ہے جو اسے مل جاتی ہے جب اس سے کہا جائے کہ تو جہاں سے آیا ہے وہیں واپس چلا جا اور وہ اپنے مطلع کی طرف لوٹ جائے تو یہی اس کا مستقر ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " سورج اپنے مستقر کی طرف چلتا ہے۔ "
حدثنا يعلى بن عبيد ، حدثنا محمد يعني ابن إسحاق ، عن مكحول ، عن غضيف بن الحارث ، قال: مررت بعمر ومعه نفر من اصحابه، فادركني رجل منهم، فقال: يا فتى، ادع الله لي بخير بارك الله فيك، قال: قلت: ومن انت رحمك الله؟ قال: انا ابو ذر ، قال: قلت: يغفر الله لك، انت احق، قال: إني سمعت عمر، يقول: نعم الغلام، وسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الله وضع الحق على لسان عمر يقول به" .حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ ، قَالَ: مَرَرْتُ بِعُمَرَ وَمَعَهُ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَأَدْرَكَنِي رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا فَتَى، ادْعُ اللَّهَ لِي بِخَيْرٍ بَارَكَ اللَّهُ فِيكَ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَنْ أَنْتَ رَحِمَكَ اللَّهُ؟ قَالَ: أَنَا أَبُو ذَرٍّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ، أَنْتَ أَحَقُّ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ، يَقُولُ: نِعْمَ الْغُلَامُ، وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ يَقُولُ بِهِ" .
غضیف بن حارث کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس سے گذرے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا غضیف بہترین نوجوان ہے پھر حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ بھائی! میرے لئے بخشش کی دعاء کرو غضیف نے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور آپ اس بات کے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ میرے لئے بخشش کی دعاء کریں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ غضیف بہترین نوجوان ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق کو جاری کردیا ہے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم التيمي ، عن ابيه ، عن ابي ذر ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن قول الله عز وجل والشمس تجري لمستقر لها سورة يس آية 38، قال: " مستقرها تحت العرش" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَوْلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَهَا سورة يس آية 38، قَالَ: " مُسْتَقَرُّهَا تَحْتَ الْعَرْشِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت " سورج اپنے مستقر کی طرف چلتا ہے " کا مطلب پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج کا مستقر عرش کے نیچے ہے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین قسم کے آدمی ایسے ہوں گے جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات کرے گا نہ انہیں دیکھے اور ان کا تزکیہ کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا جھوٹی قسم کھا کر اپنا سامان فروخت کرنے والا اور احسان جتانے والا۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت پر رجم کی سزا جاری فرمائی تو مجھے اس کے لئے گڑھا کھودنے کا حکم دیا چنانچہ میں نے اس کے لئے ناف تک گڑھا کھودا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف جابر الجعفي، و ثابت بن سعد لم يتبين لنا
حدثنا وكيع ، حدثنا المسعودي ، انباني ابو عمر الدمشقي ، عن عبيد بن الخشخاش ، عن ابي ذر ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد فجلست، فقال:" يا ابا ذر، هل صليت؟" قلت: لا، قال:" قم فصل"، قال: فقمت فصليت ثم جلست، فقال:" يا ابا ذر، تعوذ بالله من شر شياطين الإنس والجن"، قال: قلت: يا رسول الله، وللإنس شياطين؟! قال:" نعم"، قلت: يا رسول الله، الصلاة؟ قال:" خير موضوع، من شاء اقل، ومن شاء اكثر" قال: قلت: يا رسول الله، فما الصوم؟ قال:" فرض مجزئ، وعند الله مزيد"، قلت: يا رسول الله، فالصدقة؟ قال:" اضعاف مضاعفة"، قلت: يا رسول الله، فايها افضل؟ قال:" جهد من مقل، او سر إلى فقير"، قلت: يا رسول الله، اي الانبياء كان اول؟ قال:" آدم"، قلت: يا رسول الله، ونبي كان؟ قال:" نعم، نبي مكلم"، قال: قلت: يا رسول الله، كم المرسلون؟ قال:" ثلاث مئة وبضعة عشر، جما غفيرا"، وقال: مرة" خمسة عشر"، قال: قلت: يا رسول الله، آدم انبي كان؟ قال:" نعم، نبي مكلم"، قال: قلت: يا رسول الله، ايما انزل عليك اعظم؟ قال:" آية الكرسي الله لا إله إلا هو الحي القيوم سورة البقرة آية 255 .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، أَنْبَأَنِي أَبُو عُمَرَ الدِّمَشْقِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ الْخَشْخَاشِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ فَجَلَسْتُ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، هَلْ صَلَّيْتَ؟" قُلْتُ: لَا، قَالَ:" قُمْ فَصَلِّ"، قَالَ: فَقُمْتُ فَصَلَّيْتُ ثُمَّ جَلَسْتُ، فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ، تَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّ شَيَاطِينِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلِلْإِنْسِ شَيَاطِينُ؟! قَالَ:" نَعَمْ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الصَّلَاةُ؟ قَالَ:" خَيْرٌ مَوْضُوعٌ، مَنْ شَاءَ أَقَلَّ، وَمَنْ شَاءَ أَكْثَرَ" قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا الصَّوْمُ؟ قَالَ:" فَرْضٌ مُجْزِئٌ، وَعِنْدَ اللَّهِ مَزِيدٌ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَالصَّدَقَةُ؟ قَالَ:" أَضْعَافٌ مُضَاعَفَةٌ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيُّهَا أَفْضَلُ؟ قَالَ:" جَهْدٌ مِنْ مُقِلٍّ، أَوْ سِرٌّ إِلَى فَقِيرٍ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْأَنْبِيَاءِ كَانَ أَوَّلُ؟ قَالَ:" آدَمُ"، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَنَبِيٌّ كَانَ؟ قَالَ:" نَعَمْ، نَبِيٌّ مُكَلَّمٌ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَمْ الْمُرْسَلُونَ؟ قَالَ:" ثَلَاثُ مِئَةٍ وَبِضْعَةَ عَشَرَ، جَمًّا غَفِيرًا"، وَقَالَ: مَرَّةً" خَمْسَةَ عَشَرَ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، آدَمُ أَنَبِيٌّ كَانَ؟ قَالَ:" نَعَمْ، نَبِيٌّ مُكَلَّمٌ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّمَا أُنْزِلَ عَلَيْكَ أَعْظَمُ؟ قَالَ:" آيَةُ الْكُرْسِيِّ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255 .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے میں بھی مجلس میں شریک ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا اے ابوذر رضی اللہ عنہ کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ میں نے عرض کیا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھو، چنانچہ میں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور آکر مجلس میں دوبارہ شریک ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! انسانوں اور جنات میں سے شیاطین کے شر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے پوچھا یارسول اللہ! نماز کا کیا حکم ہے؟ فرمایا بہترین موضوع ہے جو چا ہے کم حاصل کرے اور جو چاہے زیادہ حاصل کرلے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا ایک فرض ہے جسے ادا کیا جائے گا تو کافی ہوجاتا ہے اور اللہ کے یہاں اس کا اضافی ثواب ہے میں نے پوچھا یا رسول اللہ! صدقہ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا اس کا بدلہ دوگنا چوگنا ملتا ہے میں نے پوچھا یا رسول اللہ! سب سے افضل صدقہ کون سا ہے؟ فرمایا کم مال والے کی محنت کا صدقہ یا کسی ضرورت مند کا راز، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! سب سے پہلے نبی کون تھے؟ فرمایا حضرت آدم علیہ السلام میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا وہ نبی تھے؟ فرمایا ہاں، بلکہ ایسے نبی جن سے باری تعالیٰ نے کلام فرمایا: میں نے پوچھا یا رسول اللہ! رسول کتنے آئے؟ فرمایا تین سو دس سے کچھ اوپر ایک عظیم گروہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ پر سب سے عظیم آیت کون سی نازل ہوئی؟ فرمایا آیت الکرسی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا الجهالة عبيد بن الخشخاش ولضعف أبى عمر
حدثنا وكيع ، عن سفيان ، حدثنا يزيد يعني ابن ابي زياد ، عن زيد بن وهب ، عن ابي ذر ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اكلتنا الضبع! قال: " غير ذلك اخوف عندي عليكم من ذلك، ان تصب عليكم الدنيا صبا، فليت امتي لا يلبسون الذهب" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي زِيَادٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلَتْنَا الضَّبُعُ! قَالَ: " غَيْرُ ذَلِكَ أَخْوَفُ عِنْدِي عَلَيْكُمْ مِنْ ذَلِكَ، أَنْ تُصَبَّ عَلَيْكُمْ الدُّنْيَا صَبًّا، فَلَيْتَ أُمَّتِي لَا يَلْبَسُونَ الذَّهَبَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک سخت طبیعت دیہاتی آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! ہمیں تو قحط سالی کھاجائے گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تمہارے متعلق ایک دوسری چیز کا اندیشہ ہے جب تم پر دنیا کو انڈیل دیا جائے گا کاش! اس وقت میری امت سونے کا زیور نہ پہنے۔
حدثنا يزيد ، اخبرنا هشام ، عن واصل ، عن يحيى بن عقيل ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " يصبح كل يوم على كل سلامى من ابن آدم صدقة"، ثم قال:" إماطتك الاذى عن الطريق صدقة، وتسليمك على الناس صدقة، وامرك بالمعروف صدقة، ونهيك عن المنكر صدقة، ومباضعتك اهلك صدقة"، قال: قلنا: يا رسول الله، ايقضي الرجل شهوته، وتكون له صدقة؟! قال:" نعم، ارايت لو جعل تلك الشهوة فيما حرم الله عليه، الم يكن عليه وزر؟" قلنا: بلى، قال:" فإنه إذا جعلها فيما احل الله فهي صدقة"، قال: وذكر اشياء صدقة صدقة، قال: ثم قال:" ويجزئ من هذا كله ركعتا الضحى" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يُصْبِحُ كُلَّ يَوْمٍ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنَ ابْنِ آدَمَ صَدَقَةٌ"، ثُمَّ قَالَ:" إِمَاطَتُكَ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ، وَتَسْلِيمُكَ عَلَى النَّاسِ صَدَقَةٌ، وَأَمْرُكَ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ، وَنَهْيُكَ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَمُبَاضَعَتُكَ أَهْلَكَ صَدَقَةٌ"، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيَقْضِي الرَّجُلُ شَهْوَتَهُ، وَتَكُونُ لَهُ صَدَقَةٌ؟! قَالَ:" نَعَمْ، أَرَأَيْتَ لَوْ جَعَلَ تِلْكَ الشَّهْوَةَ فِيمَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ، أَلَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ وِزْرٌ؟" قُلْنَا: بَلَى، قَالَ:" فَإِنَّهُ إِذَا جَعَلَهَا فِيمَا أَحَلَّ اللَّهُ فَهِيَ صَدَقَةٌ"، قَالَ: وَذَكَرَ أَشْيَاءَ صَدَقَةً صَدَقَةً، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" وَيُجْزِئُ مِنْ هَذَا كُلِّهِ رَكْعَتَا الضُّحَى" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے ہر ایک کے ہر عضو پر صبح کے وقت صدقہ لازم ہوتا ہے اور ہر تسبیح کا کلمہ بھی صدقہ ہے تہلیل بھی صدقہ ہے تکبیر بھی صدقہ ہے تحمید بھی صدقہ ہے امر بالمعروف بھی صدقہ ہے اور نہی عن المنکر بھی صدقہ ہے اور اپنی بیوی سے مباشرت کرنا بھی صدقہ ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمیں " خواہش " پوری کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ کہ اگر یہ کام تم حرام طریقے سے کرتے تو تمہیں گناہ ہوتا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم گناہ کو شمار کرتے ہو نیکی کو شمار نہیں کرتے اور ان سب کی کفایت وہ دو رکعتیں کردیتی ہیں جو تم میں سے کوئی شخص چاشت کے وقت پڑھتا ہے۔
حدثنا عفان ، حدثنا مهدي ، حدثنا واصل ، عن يحيى بن عقيل ، عن يحيى بن يعمر ، وكان واصل ربما ذكر ابا الاسود الديلي، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " عرضت علي اعمال امتي حسنها وسيئها، فوجدت في محاسن اعمالها الاذى يماط عن الطريق، ووجدت في مساوئ اعمالها النخاعة تكون في المسجد لا تدفن" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، وَكَانَ وَاصِلٌ رُبَّمَا ذَكَرَ أَبَا الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيَّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِئِ أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے سامنے میری امت کے اچھے برے اعمال پیش کئے گئے تو اچھے اعمال کی فہرست میں مجھے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی نظر آیا اور برے اعمال کی فہرست میں مسجد کے اندر تھوک پھینکنا نظر آیا جسے مٹی میں نہ ملایا جائے۔
حكم دارالسلام: إسناده قوي متصل بذكر أبى الأسود فيه، م: 553
حدثنا يزيد ، اخبرنا هشام ، عن واصل ، عن يحيى بن عقيل ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " عرضت علي امتي باعمالها حسنة وسيئة، فرايت في محاسن اعمالها إماطة الاذى عن الطريق، ورايت في سيئ اعمالها النخاعة في المسجد لا تدفن" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ وَاصِلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُقَيْلٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عُرِضَتْ عَلَيَّ أُمَّتِي بِأَعْمَالِهَا حَسَنَةٍ وَسَيِّئَةٍ، فَرَأَيْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا إِمَاطَةَ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَرَأَيْتُ فِي سَيِّئِ أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ فِي الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے سامنے میری امت کے اچھے برے اعمال پیش کئے گئے تو اچھے اعمال کی فہرست میں مجھے راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی نظر آیا اور برے اعمال کی فہرست میں مسجد کے اندر تھوک پھینکنا نظر آیا جسے مٹی میں نہ ملایا جائے۔
حكم دارالسلام: حديث قوي، م: 553، وهذا إسناد منقطع، يحيى بن يعمر لم يسمعه من ابي ذر